مکمل ناول

کوئی عشق وقت غروب سا : فرزانہ کھرل

پردہ برابر کرکے کھڑکی سے دور ہٹتے وقت‘ تیاری کے دوران بھی‘ سیڑھیاں اترتے ہوئے‘ ناشتے کی ٹیبل تک آتے ہوئے بھی وہ منظر ان کے ذہن سے کسی صورت مٹ نہیں رہا تھا۔ وہ دونوں کسی بات پہ قدرے اونچی آواز میں الجھ رہی تھیں ۔ ان کے گھر میں گفتگو اتنی تیکھی آواز میں نہیں کی جاتی تھی ۔ اس نے پرتجسس سا ہوکر پردہ سرکا کر نیچے جھانکا‘ وہ گاڑی کی اگلی نشست پر براجمان آئمہ کو باہر آنے کا کہہ رہی تھی۔
آئمہ منہ بسورتی ہوئی گاڑی سے باہر آئی‘ پھر خراب موڈ کے ساتھ دوسری جانب سے آکر اگلی نشست پہ منہ پھلا کر بیٹھ گئی ۔ وہ ناراضی کا بھرپور اظہار کررہی تھی ۔ اور وہ آئمہ کے خراب مزاج کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے حق ملکیت جتاتی گاڑی زن سے بھگا لے گئی۔
آئمہ کا حال اس کے آگے ہاتھی کے سامنے چیونٹی جیسا تھا ۔ اس کے برعکس میشان ہر منظر پر چھا جانے اور ہر کسی پر حاوی ہونے کی صلاحیت رکھتی تھی ۔ کھڑکی کا پٹ زور سے بند کرتے ہوئے ان کا دماغ ٹھکانے پر نہیں تھا ۔ اپنے کھولتے دماغ کو مصطفی نے ایک بھرپور شاور کے کر ٹھنڈا کیا پھربھی‘ وہ منظر بار بار ان کی آنکھوں میں چبھ رہا تھا۔
’’اتنی صبح لڑکیاں کہاں جارہی تھیں۔‘‘ نہ صرف ان کا چہرہ بلکہ لہجہ بھی سلوٹ زدہ تھا۔امینہ نے ٹھٹک کر ان کاتروتازہ اور ایک محسوس کروائے جانے والے تنائو کا شکار چہرہ دیکھا۔
’’رات ان کی کسی قریبی دوست کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا ۔ اسی سے ملنے اسپتال گئی ہیں۔‘‘ امینہ نے اپنے سامنے انتہائی بیش قیمت خوب صورت کپ رکھا اور اس کے لیے چائے بنانے لگی۔ مصطفی کی نگاہیں اس کے خوب صورت ملائم ہاتھوں پر ٹک سی گئیں۔
’’آئمہ پہ بھی کچھ توجہ دے دیا کرو۔‘‘ قہوے میں دودھ انڈیلتےان کے دودھیا ہاتھ پل بھر کو ساکن ہوئے۔
’’بیٹیوں کو پہننے اوڑھنے کے ڈھنگ مائیں ہی سکھاتی ہیں۔‘‘ ان کی ہلکی آواز میں پنہاں شکوہ خاصا بھاری تھا ۔ وہ اسے بس دیکھ کر رہ گئیں۔ مصطفی کے دھیان میں کچھ دیر قبل کا آئمہ کا پھیکا‘ روکھا سا حلیہ لہرایا جبکہ میشان کیسی کھلی ‘ کھلی سی لگ رہی تھی۔
’’ شاپنگ دونوں ہی ایک جیسی کرتی ہیں‘ آئمہ رنگ ہی اتنے پھیکے پسند کرتی ہے ۔‘‘ امینہ نے سہولت سے کپ پکڑاتے ہوئے انتہائی نرمی سے بات کی ۔ ان کے لب و لہجے کی خوبصورتی پہ سامنے بیٹھا مرد آج بھی اپنی سدھ بدھ کھو دیتا تھا ۔ وہ اپنے شوہر کے تنائو کی وجہ سمجھ نہیں پارہی تھیں۔
’’کچھ حساب کتاب ہے ‘ ایک ماہ میں اس کے کتنے پروپوزل آتے ہیں ؟‘‘ وہ اپنی دھواں دیتی آنکھیں(امینہ کو وہ آنکھیں ہمیشہ ایسی دکھتی تھیں) ان کے انتہائی خوبصورت چہرے پہ جما کر پوچھ رہے تھے۔
’’اوہ!‘‘ امینہ کی سوچ میں کوئی الجھی سی گرہ کھلی تو شوہر کی برہمی کی وجہ سمجھ آگئی۔
’’پچھلے کئی سالوں سے کوئی ایک پروپوزل بھی آئمہ کے لیے آیا؟‘‘
امینہ کے اندر اتنی زور سے کچھ ٹوٹا‘ اس نے آنکھیں پھاڑ کر مصطفی کو دیکھا‘ چہرہ اس کے شوہر کا تھا مگر آواز اس کی نہیں تھی۔ اتنے برسوں بعد ہو بہو کوئی کسی کا لہجہ چرا کر وہی الفاظ دہرا سکتا ہے۔ کردار نئے تھے ‘ کہانی اور ڈائیلاگز پر انے تھے۔
’’ آئمہ ابھی بچی ہے۔‘‘ ہاں انہوں یہی جملہ اسی طرح سامنے بیٹھے شخص سے نظریں چرا کر بولنا تھا۔
’’اچھا!‘‘ وہ تلخی سے ہنسے ۔ امینہ نے اپنی اتھل پھل ہوتی دھڑکنوں کو گہری گہری سانسیں بھر کر ہموار کیا۔
’’میشان آٹھویں کلاس میں تھی ‘ جب سے اس کے پروپوزل آرہے ہیں ‘کیا وہ بیس سال کی ہو کر ایٹ میں پہنچی تھی۔‘‘کہانی میں اس قدر مماثت، لہجے کا اتار چڑھاؤ‘ تمام لائنیں زیر ‘ زبر کے ساتھ وہی بولی جارہی تھیں۔ ایک فیصد بھی کچھ غلط نہیں تھا۔ وہ ہونقوں کی طرح اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
’’ کتنے ہی ہائی فائی بزنس فیملیز بیورو کریٹس اور پولیٹیشنز فیملیز تک کے رشتے تم نے ریجکٹ کر دیے۔‘‘ امینہ کی جان میں جان آئی ۔ یہیں سے کہانی بدلی تھی ۔ کہانی بدل گئی تھی تو ڈائیلاگز بھی نئے تھے۔
’’ تمہیں لگتا ہے وہ سب کے سب اپنا بزنس اپنی پارٹیز‘ ویلیوز اور اپنے سیاسی حلقہ احباب میں خوب صورتی کی چکا چوند دکھانے کے لیے میشان سے شادی کریں گے ۔‘‘ وہ ان کے دل میں بستے تھے، ان کے تمام خدشوں سے واقف تھے ۔ بس زبان تک آج لے آئے تھے۔ان کے چہرے کے بدلتے رنگ دیکھ رہا تھا ‘ وہ ان کے چہرے پہ چھائی تکلیف بھی برداشت نہیں کر پا رہا تھا۔
’’ میں چاہتی ہوں وہ محفلوں کی زینت بن کر نہ رہے‘ اسے عزت اور صرف وقار بھری زندگی ملے۔‘‘ وہ مصطفیٰ کے خوب صورت نقوش آج بھی نظر جما کر دیکھ نہیں پاتی تھیں۔ خصوصاََ ان کی آنکھیں ۔وہ بہت سال پہلے اس دھرتی پہ اترنے والی ایک شام سے آج بھی خوفزدہ ہو جاتے تھے۔
’’وہ میری بیٹی ہے ۔ وہ آئمہ مصطفیٰ ہے۔ اس کے ساتھ کچھ غلط نہیں ہو سکتا۔‘‘ وہ چند ثانیے ان کا پر یقین چہرہ دیکھتے رہے ‘ پھر اپنی ہی کسی سوچ کے ماتحت ہولے سے سر ہلا کر فیصلہ کن آواز میں بولے۔
’’بہر حال، جو پروپوزل میں نے فائنل کیا تھا کل انہیں ڈنر پہ انوائیٹ کرو ۔ منگنی کی تقریب میں شادی کی ڈیٹ بھی رکھ لیں گے۔ ‘‘ انہوں نے کرسی پیچھے دھکیلی اور ڈھیلے سے قدم بڑھاتے ان کے پاس ٹھہرگئے۔
’’ وہ خاندانی اور کھرے لوگ ہیں۔ اس کے لیے یہ بھی بہت ہے۔‘‘ ان کا لہجہ بہت کچھ جتاتا ہوا تھا ۔ انہوں نے دو انگلیوں سے امینہ کا گلابی رخسار نرمی سے چھوا ‘ مسکراتی نظر ڈال کر لاؤنج کی جانب مڑ گئے۔
’’حبیبہ کریم! جو مجھ سے ہو سکتا تھا‘ وہ میں نے کیا۔ مصطفیٰ کی زیادتی کا ازالہ میں نے تا عمر کیا‘ شاید میرا اللہ خوش ہو جائے ۔‘‘
امینہ کی آنکھ کے کونے پہ ایک آنسو ٹھہرا ‘محبت ‘ندامت یا تشکر کا آنسو‘ یہ امینہ ہی جانتی تھی۔
٭…٭
’’سنا ہے سائنس دان ایسی ادویات تیار کر رہے ہیں، جس سے انسان ہمیشہ زندہ رہ سکتا ہے ؟‘‘ حسن آرا نے اخبار تہہ کر کے ایک طرف رکھا ‘ اس خبر کے تاثرات دیکھنے کے لیے تائی اور ماں کے چہرے دیکھے جو اس خبر سے چمک رہے تھے۔
’’تو بہ استغفار!‘‘ سبزی کاٹتی نصیرہ نے چھری رکھ کر کانوں کو چھوا۔
’’تیرے کلیجے پہ کیوں ہاتھ پڑا ہے جو یوں دہل کر استغفار کر رہی ہے ۔‘‘ انیقہ بیگم نے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔
’’جب اس بر حق کتاب میں لکھا ہے کہ ہر ذی نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے پھر ایسی بے پر کی خبروں پر تو تو بہ کے دو نفل بھی بنتے ہیں ۔ ‘‘ نصیرہ نے ان سائنسدانوں کی وفات کی منت بھی دل میں مان لی۔
(بلھے شاہ کی درگاہ پہ دیگ چڑھاؤں گی‘ اگر یہ مریں گی نہیں تو ساری زندگی ہمیں ہی خدمت کرنی پڑے گی اور وہ جو قیامت آنے تک… چار دن قبر میں آرام کا سوچ رکھا ہے۔ وہ آسرا بھی جائے گا)
’’یہ موئے سائنس دان کمزور ایمان والوں کا ایمان کچی (دھاگے) جتنا بھی نہیں رہنے دیں گے۔‘‘ اس نے اپنی مالکنوں کے ایمان پر براہ راست حملہ کیا تھا۔
’’بس‘ بس چپ کر۔ ترکھانی ہی رہ‘ زیادہ مولویوں کی نو(بہو) بننے کی کوشش مت کرو ۔‘‘ نفیسہ بیگم انگارے چبا کر بولی تھیں۔ نصیرہ نے آگ لگا کر اپنا سر سبزی کی ٹوکری میں گھسا لیا۔
’’عقل اللہ نے ہی انسان کو دی ہے کہ میری دنیا… ‘‘ یہاں انیقہ بیگم اٹک گئیں۔
’’اے ثوبیہ! تو بتا ذرا … کیا کہتے ہیں وہ۔‘‘ انیقہ بیٹی کی طرف جھکیں۔
’’تسخیر کہتے ہیں اماں!‘‘ وہ نصیرہ کی بہو سے پاؤں کا مساج کروارہی تھیں۔
’’ہاں‘ ہاں وہی۔‘‘ انہوں نے کسی شیخ الااسلام کی طرح گردن اکڑا کر کہا ۔مگر بات ان کی دیوارنی اور نصیرہ دونوں کی سمجھ نہیں آئی تھی ۔ انہوں نے ان کی نا سمجھی بھانپ لی۔
’’مطلب دنیا کو گھٹنے کے نیچے رکھ۔‘‘ کچھ زیادہ ہی آسان لفظوں میں بتایا۔
’’لو جی دنیا نہ ہوئی شوہر ہوگیا ۔ ‘‘ نصیرہ کی بہو کے چھوڑے چٹکلے پہ حسن آرا اور ثوبیہ کی مسکراتی نظریں مائوں کی طرف اٹھیں جو آنکھوں ہی آنکھوں میں ہی نصیرہ کی بہو کو جوتے مار رہی تھیں ۔ ان سب سے کچھ فاصلے پہ بیٹھی جائی جو مددگار کے سر پہ تیل لگا رہی تھی‘ ان کے ہونٹوں پہ بھی شازیہ کی بات سن کر مسکراہٹ رینگی۔
’’کائیں‘ کائیں۔‘‘ نفیسہ نے سر اٹھا کر دیکھا۔
’’اتنا موٹا تازہ پھر بھی مانگتاہے۔‘‘ کنجوسی کی حد تھی۔
’’کائیں‘ کائیں۔‘‘ وہ پھر بھی باز نہ آیا۔
’’چل نی شازیہ! اسے اڑا‘ منحوس مارا یہاں کون سی دیگیں چڑھی ہیں۔‘‘ انیقہ بیگم نے چاولوں کی پلیٹ(جو وہ کھا رہی تھیں) کے اوپر اخبار رکھ کر ڈھانپ دی۔
’’باجی! وہ بے چارا کون سا دیگچیاں لے کر آیا ہے۔‘‘شازیہ ہنستی ہوئی اٹھی۔
’’چار دانے چاولوں کے ڈال دیں‘ اڑ جائے گا ۔ ‘‘ ثوبیہ کے پیروں پہ لگانے والے لوشن کی خوشبو اس کے ہاتھوں سے آرہی تھی ۔ اس نے ہاتھ ناک کے قریب لے جاکر زور سے سونگھا۔
’’لگتا حاشر کے آنے کی خبر دے رہا ہے ۔‘‘ نصیرہ کو بے وجہ کوے سے ہمدردی جاگی سو اندھیرے میں تیر چلایا۔ انیقہ نے بیٹے کے آنے کی اطلاع دینے والے کوے کو کچھ نرمی سے دیکھا او رپلیٹ سے اخبار کھسکایا ۔ حسن آرا کا بھی دل چاہا کوے کو دیسی گھی اورچینی کی چوری کھلائے‘ اس نے محبوب کے پیغام بر کومیٹھی نگاہوں سے دیکھا۔
’’میری فون پہ بات ہوئی تھی۔ بھائی نے ابھی نہیں آنا ۔‘‘ ثوبیہ نے تازہ تازہ لگائی جانے والی نیل پانش پہ پھونک مار کر کہا۔
’’دفع دور۔‘‘ انیقہ نے کھسکے ہوئے اخبار کو درست کیا‘ جائی نے تعجب سے نہیں تاسف سے بھرجائی کو دیکھا کیونکہ تعجب ان پر ہوتا ہے جنہیں ہم جانتے نہ ہوں۔
’’شازیہ ! چل اسے کھینچ کے چپل مار ۔‘‘ بیٹے کے نہ آنے کا ملال کہیں تو نکالنا تھا۔ حسن آرا نے بھی انتظار میں کھولے دل کے کواڑ بند کیے۔
’’ناں باجی پھر جوتی اٹھانے کے لیے مددگار صاحب کو باہر کھیت میں جانا پڑے گا۔‘‘ جوتی کے نام پہ مددگار کے کان کھڑے ہوئے۔
‘‘خوامخواہ میرا شوہر شک کرتا ہے ۔‘‘ اس نے پھٹی پرانی چیل کو دیکھا پھر مددگار کو…
’’ا بھی پھینک دوں تو اس کو بھی سینے سے لگا کر لے آئے گا۔‘‘
’’کیسا شک اور تیرا شوہر پاگل تو نہیں ہو گیا، جو اللہ لوک پہ شک کرتا ہے۔‘‘ دونوں خواتین نے تنک کر اسے بتایا۔
’’لوجی اسے اپنی خبر نہیں وہ تجھ پہ عاشق ہو گا۔‘‘ وہ دونوں ٹھٹھا لگا کر بولیں ۔ گویا ان کے ہاتھ دلچسپ موضوع لگ چکا تھا۔
’’وہ تو سارے پنڈ کی جوتیاں اٹھائے پھرتا ہے ‘بتا دینا شو ہر کو۔‘‘
’’ویسے بیگم صاحبہ !باتیں اکثر اونچی کر جاتا ہے ۔‘‘ نصیرہ نے سبزی کی ٹوکری بہو کو پکڑائی ۔ دونوں کی ہنسی تھمی اور سوالیہ نظروں سے نصیرہ کو دیکھا۔
’’کل سیما باجی نے اس کے ہاتھ سے میری جوتی چھڑ ائی تو مٹی پہ مار کے کہنے لگا ۔ یہ اپنی اوقات نہیں جانتی ‘شو مارتی ہے ۔ جبکہ اس کے تلوے مٹی چاٹتے ہیں ۔‘‘ نصیرہ کی بات دونوں بیگموں کے سرسے گزر گئی تھی۔
’’کوئی کتنا ہی مالدار کیوں نہ ہو ‘اگر پاؤں میں جوتا اچھا نہ ہو تو لباس کی قدر بھی گھٹ جاتی ہے ۔ جو تا پہن کر ہی اکڑا جا سکتا ہے۔ اس لیے تو اللہ کے گھر اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ پر جوتے اتار کے جاتے ہیں ‘یعنی میں ختم کر کے ‘ پھر جب پاؤں میں پہن لیں تو پھر غرور کا نشہ دماغ کو چڑھ جاتا ہے ۔‘‘ مددگار کو پھٹے پرانے پیوند لگے جوتے پسند تھے۔ وہ خود ننگے پاؤں چلتا تھا اس جھلے کو نیا اور خوب صورت جو تا ‘ غرور کی عظمت دکھتا۔
’’بندہ ان کی وجہ سے ایک پل کے لیے جو تا نہیں اتار سکتا ۔ ‘‘ حسن آرا نے ناک چڑھا کر اسے دیکھا۔ آج پھوپھی خوب اس کے سر کی مالش کر رہی تھی۔
’’ جبیں زہرہ نظر نہیں آرہی۔‘‘ انیقہ نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی۔
’’ پہلے تو اس نے میٹھے چاول پکائے تھے اب پتا نہیں کہاں ہے۔‘‘ نفیسہ کو دیورانی کے پوچھنے کا انداز کچھ عجیب سا لگا۔
’’سارا دن پھوپھی کے کمرے میں گھسی رہتی ہے۔ تو جانتی ہے نا‘ وہ سارا حصہ ہی آسیب زدہ ہے ‘ شازیہ بتا رہی تھی یا تو پرانا جوتا پہنتی ہے یا پھر پہنتی ہی نہیں ۔ روز حلوے مانڈے بنا کر مددگار کو کھلاتی ہے ۔‘‘ وہ موڑھا گھسیٹ کر نفیسہ کے کان میں گھسیں ۔ جو سانس روکے ان کی باتیں سن رہی تھیں۔
’’خدانخواستہ اگر کوئی آسیب وغیرہ چمٹ گیا تو۔‘‘
’’ا ے خدا نہ کرے۔ ‘‘ انہوں نے اپنی جٹھانی کو د زدیدہ نظروں سے دیکھا۔اب زیادہ غصہ بھی نہیں دکھا سکتی تھیں، ان کی دونوں بیٹیوں میں سے ایک نے تو انیقہ بیگم کی بہو کا شرف حاصل کرنا تھا۔
ماؤں کی باتیں سن کر ثوبیہ اور حسن آرا نے بے ساختہ ایک دوسرے کو دیکھا ‘ اگر ان دونوں کو علم ہو جائے کہ جبیں زہرہ کے وجود سے کون سا آسیب چمٹا ہوا ہے تو جبیں زہرہ کو بمعہ آسیب اور اس کی ماں کو بھی ایک پل کی تاخیر کے بغیر بھڑکتی آگ میں جھونک سکتی تھیں۔
جبیں زہرہ چاولوں کی پلیٹ پکڑے ‘پرانی چپل پہنے پھوپھی اور مددگار کی طرف جارہی تھی۔
’’یہ کب سے مدد گار کی سیوا کرنے لگی ہے۔‘‘ ماں کا ماتھا ٹھنکا۔مددگار نے چاولوں کی پلیٹ پکڑ کر ایک جھٹکے سے الٹ دی ۔ اب وہاں ایک کوے کی بجائے کتنے ہی کوے کائیں کائیں کر رہے تھے ۔ سووہ تمام خواتین ناک بھوں چڑھاتی وہاں سے اٹھ گئیں۔
٭…٭

1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے