ہیر پھیر : ماریہ غزال
’’مامی آپ کی کاشی کے لیے ایک رشتہ ہے ۔ حارث کے خالہ زادہ ہیں ‘ حارث کی طرح شہر میں اکیلا ہے ۔ ‘‘
ثمرہ نے دانے پڑھتی اپنی بتول ممانی کے ساتھ بیٹھ کر بمشکل پانچ منٹ بعد ہی بات کا سلسلہ قائم کیا ۔ ثمرہ کی دو ممانیاں بتول اور ثمینہ زمین پربچھی ہوئی چادر کے آخری کونے پر ساتھ ساتھ بیٹھی تھیں ‘جس کی وجہ سے جب وہ آ کر بیٹھی اور بات شروع کی تو بتول مامی کے ساتھ ساتھ ثمینہ مامی تک بھی اس کی آواز پورے طور پہنچ گئی تھی ۔ جب ہی انہوں نے فوراََ دانے رکھ کر دونوں کے پاس سے اٹھ کر آگے بیٹھی خاتون کے پاس جا بیٹھیں ۔ ان کے جاتے ہی ثمرہ نے دوبارہ سے اپنی بات کو جہاں سے چھوڑا تھا وہیں سے جوڑا ۔ ہلکے ہلکے مگر پرجوش ہو کے بتول کو سارے کوائف بتانے لگی ۔ بتول نے آخری دانے کو چوم کر غالباََ درود پڑھا اور پھر ثمرہ کی طرف متوجہ ہوئیں ۔
’’ ثمرہ بچے صبر سے یہ جگہ ان باتوں کی نہیں۔‘‘ بتول نے کہا ۔
’’ مامی دراصل کل میں اپنے سسرال جا رہی ہوں ۔ ابھی بھی یہاں زیادہ دیر نہیں بیٹھ سکوں گی ‘ آپ کو پتہ تو ہے کہ گاؤں میں سگنل کا مسئلہ ہوتا ہے ۔ اس لیے سوچا کہ آپ سے بیٹھ کر بات کر لوں ‘ نمبروں کا تبادلہ کر لوں کیونکہ حارث کی خالہ زیادہ جلدی مچارہی ہیں ۔ وہ اپنی پسند کی بہو لانا چاہ رہی ہیں ۔ کئی بار ذکر کیا اور آج صبح خصوصاََ میرے گھر آگئیں تھیں ۔ حارث نے مجھ سے بات کی ہے ، لڑکا ایم بی اے ہے ، بہت اچھا ہے ، نوکری بھی ملٹی نیشنل کمپنی میں کر رہا ہے ‘ پھر آپ کو اندازہ ہو ہی گا کہ سیلری کیا ہوگی ۔ ‘‘
ثمرہ نے منہ پر آگے تک دوپٹہ کرکے ہلکے بولتے ہوئے بات آگے بڑھائی ۔ دراصل ثمرہ اس خاندان کی ول سیٹلڈ اور امیر لڑکیوں میں شمار ہوتی تھی ۔ اس لیے اس کے پاس سے آنے والے رشتے کافی قابل اعتبار ہوتے تھے ۔ اس نے کچھ عرصہ قبل اپنی خالہ زاد کا رشتہ اپنے شوہر کے دوست کی فیملی سے کرایا تھا جو کہ اپنے گھر میں دوش خال و خوش باش تھی۔ اس لیے اس کے بتائے رشتے پر دھیان دینا تو بنتا تھا مگر بتول مامی کی بات نے اسے حیران ہی کر دیا کیونکہ انہوں نے کہا ۔
’’ میری دونوں بیٹیاں پڑھ رہی ہیں ۔ مجھے انہیں اچھا مستقبل دینا ہے کچھ بن جائیں تو سوچیں گے ۔‘‘بتول نے یہ کہہ کر بات ختم کی ۔
’’ارے مامی بغیر کچھ بنے مزے ہوں گے تو کیا برا ہے۔‘‘ اس نے گاڑی کی چابی کو دوسرے ہاتھ میں تھام کر موبائل سے لڑکے کی تصویر دکھائی ۔
ثمرہ کے پاس زندگی میں کافی وقت تھا ۔سسرال سارا گاؤں میں تھا ۔ جاگیرداران نظام کے تحت سسرال سے ایسے کافی سپورٹ تھی ۔ یہاں صرف ایک جیٹھ کی فیملی مقیم تھے اور جیٹھانی ڈاکٹرتھیں اس لیے انہیں ثمرہ کی بیرونی مصروفیات میں مداخلت کا قطعی شوق نہیں تھا ۔ ثمرہ کے شوہر لکڑی کا جدی پشتی کاروبار سنبھال رہے تھے ۔ جیٹھ جی کا گاڑیوں کا بزنس تھا اس لیے اس کے پاس کرنے کے لیے کام ہی نہ تھا ۔ بہت سا فارغ وقت تھا جس کو بتانے خاندان بھر میں گاڑی دوڑانے اور رشتہ داروں سے مل جل کرتے ہوئے بتا رہی تھی ۔
اب بتول نے تصویر دیکھ کر ماشا ء اللہ کہہ کے واپس کر دی ۔
’’ تو بات کروں ۔‘‘ ثمرہ نے سوال کیا ۔
’’ نہیں ثمرہ میرا فیصلہ اب بھی وہی ہے۔ ‘‘ بتول نے کہا ۔
’’ مگر کیوں؟ ‘‘ ثمر ہ نے سوال اٹھایا ۔
’’ تم نے دیکھا ہے ثمینہ کو ‘ ابھی جب تم نے بات شروع کی تو وہ کس قدر تہذیب کے ساتھ اٹھ کر چلی گئی ۔ اس نے نہ بات سنی نہ دلچسپی لی ، نہ کوئی کھد بدکی نہ ہی میرے فیصلہ سنانے کے بعد جھٹ سے اپنی بھانجی بھتیجی کا رشتہ دیا ۔ کس قدر مہذب کیسی شائستہ ہے ثمینہ ۔ بہترین نوکری ، بہترین پوسٹ اس سب کے باوجود ہم سبھوں کے ساتھ بیٹھ کر دانے پڑھنا۔
اماں جی کے آخری ایام میں جس طرح اس نے خدمت کی دفتر اور گھر سنبھالا وہ قابل ِتعریف ہے ۔ میں اپنی بچیوں کو ثمینہ جیسا دیکھنا چاہتی ہوں اسے اپنی کسی ضرورت کے لیے اپنے شوہر کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا پڑتا ، اس کے منہ میں اس کی میاں کی زبان نہیں ہے اپنی سوچ رکھتی ہے ‘مدلل بولتی ہے ۔ میں چاہتی ہوں میری بچیاں بھی ایسی ہی بنیں ۔‘‘ بتول مامی نے بات ختم کر دی اور ثمرہ قدر ے بد مزہ ہوئی۔
ثمینہ اور بتول آگے پیچھے کے دیورانی جیٹھانی تھیں ۔ دونوں کا پورشن بھی ایک ہی فلور پر تھا اور دونوں کو شادی بھی ساتھ ہوئی تھی شادی کے بعد دونوں کوعموماََ ایک دوسرے کا طعنہ سننے کو بہت ملا تھا ۔ بتول چونکہ عموماََگھر میں ہوتی اس لیے اسے محسوس ہوتا کہ طعنہ صرف اسی کو ملتا ہے ۔ دونوں میں اس قدر تقابلی جائزہ سارہ خاندان اور خاص کر ساس سسرروا رکھتے کہ باوجود مزاج کی مماثلت کے ان کی کبھی آپس میں اس طرح بن نہ سکی جیسی بن سکتی تھی اور یہ تو آج ثمرہ کو پتہ چلا کہ بتول ثمینہ کو اس قدر ایڈ مائر کرتی ہیں۔
جانے سے پہلے ثمرہ جب ثمینہ سے الودا ع کہنے پہنچی تو ثمینہ نے اسے روک لیا ۔ دو خواتین ابھی آئی تھیں ان سے ساس کا پرساوصول کیا اور اس کا ہاتھ تھامے رکھا کہ کہیں ثمرہ چلی نہ جائے ۔ ثمرہ تھوڑا حیران ہوئی کہ مجھ سے ایسی یگانگت ۔ ان دونوں خواتین کو رخصت کر کے وہ ثمرہ کی طرف متوجہ ہوئیں ۔ آج ان کی پنچانوے برس کی ساس کا چالیسواں تھا ۔ عمر کے اتنے لمبے عرصے گزارنے اور کئی برس بیماری اور لاچاری اور معذور رہنے کے بعد ہونے والی موت صدمہ کم اور ایونٹ زیادہ بن جاتی ہے سو اس وقت سب ہی روٹین میں تھے۔
’’ اندر چلو گی ۔‘‘وہ ثمرہ کا ہاتھ تھام کا اپنے پورشن میں لے آئیں ۔
’’ پوچھنا تو نہیں چاہیے مگر کیا بتول نے رشتے کے لیے حامی بھر لی ہے ؟‘‘ ثمینہ کے انداز میں ہمیشہ اس قدر رکھ رکھائو ہوتا کہ سامنے والا فرد خود ہی رعب میں آ جاتا تھا اور قدرے سنبھل کر بولتا تھا ۔
’’نہیں انہوں نے صاف منع کر دیا۔‘‘
’’کیا لوگ پسند نہیں آئے یا رشتہ مناسب نہیں لگا۔‘‘
’’ ارے مناسب کیسے نہیں تھے ۔‘‘
ثمرہ نے جھٹ موبائل کھول کر ڈیٹا اور تصویر ان کے سامنے کر دی ۔ جتنی دیر میں ثمینہ نے بائیو ڈیٹا پڑھا اتنی دیر میں وہ بتول سے کی جانے والی ساری باتیں دہرا گئی ۔ وہ ہمارے خاندان سے رشتہ کرنا چاہ رہی ہیں ۔ نانو کے انتقال میں آئی تھیں شاید آپ کو یاد ہو میری ساس کے ساتھ جو خاتون تھیں۔
’’ہوں تو بتول نے صاف انکار کر دیا ہے۔‘‘
’’جی جی بالکل صفا چٹ ۔‘‘شاید ثمرہ کافی بدمزہ ہوئی بیٹھی تھی جب ہی قدرے بے زاری سے بولی ۔
’’تم نے ایرج کے لیے مناسب نہیں سمجھا۔‘‘
’’ارے مما نی وہ تو ا بھی پڑھ رہی ہے مطلب آ پ اتنی جلدی کر دیں گی اس نے تو ابھی او لیولز کیا ہے ۔‘‘
’’کر دوں گی تبھی تو پوچھ رہی ہوں۔‘‘ ثمینہ نے متانعت سے کہا ۔
’’بہت بڑا نہیں ہے لڑکا یہی کوئی پانچ سے چھ سال بڑا ہوگا اتنا بڑا تو ہونا ہی چاہیے ۔ دراصل مجھے لگا کہ آپ خود اتنی پروفیشنل خاتون ہیں تو آپ اپنی بیٹی کو بھی آگے پروفیشنل تعلیم دلائیں گی ۔ ویسے اپنی ایرج تو بہت سوٹ کرے گی عمیر کے ساتھ ۔‘‘ ثمرہ کی تو مانو عید ہو گئی سسرال میں منع کرنا اسے کافی مشکل لگ رہا تھا اور خالہ ساس بڑی بہو سے نالاں تھیں ۔ اس لیے قبل از وقت پیش بندی کرنے کی سوچی تا کہ یہ بیٹا بھی کسی اور کو پسند نہ کر بیٹھے ۔
’’ویسے مامی میں آپ جیسی پروفیشنل خاتون سے بیٹی کی اتنی جلدی شادی کے لیے تیار ہونے پر سخت حیران ہوں ۔‘‘ ثمرہ نے حیرت کا اظہار کیا ۔
’’ دراصل ثمرہ میں سردی گرمی کی پرواہ کئے بغیر پانچ بجے صبح اٹھتی رہی ہوں ‘ ناشتہ دوپہر کھانے کا انتظام کرتی ہوں ۔ نوکری کے دوران اپنی اولاد کی طرف دھیان لگا رہتا ہے ، گھر میں نوکری کی طرف … ہر کام وقت پر کرنے کے چکر میں خود کو کبھی کبھی احساسات سے عاری مشین محسوس کرنے لگتی ہوں۔ میں بھی بے وقت سونا اور اٹھنا چاہتی ہوں ۔ میں بھی اپنے حق کے لیے بتول کی طرح بولنا چاہتی ہوں بتول کی طرح اپنے گھر کی رانی بننا چاہتی ہوں جو حق سے اپنے شوہر کے پیسوں کو خرچ کرتی ہے ، مرضی کا کھاتی پیتی ‘ پکاتی کھلاتی ہے۔ جب جب بچے فرمائش کریں تو فوراََ اٹھ کر بنا دیتی ہے ۔ بغیر ٹائم ٹیبل کے بغیر شیڈیول کے میں صرف ایک عورت کی طرح رہنا چاہتی ہوں اور بیشک میں یہ سب نہیں کر سکتی مگر میں اپنی بیٹی کو اپنی جیسی کٹھن زندگی دینے سے تو بچا سکتی ہوں۔ ‘‘
ثمرہ حیرت سے منہ کھولے ثمینہ کی باتیں سنتی رہی ۔ اسے سمجھ آرہا تھا کہ انسان کسی حال میں خوش نہیں جس کو جو چیز مل جاتی ہے اس کی قدر نہیں ہو پاتی ۔ دراصل زندگی حقیقتََا ایک امتحان ہے ہر ایک کا پرچہ فرق ہے مگر ہر فرد کو دوسرے کے پرچے سے موازنہ کرنا ہوتا ہے ، دوسروں کا پرچہ آسان لگتا ہے جب کہ تنگی و امتحان تو ہر فرد کے لیے اپنی جگہ برقرار ہوتی ہے۔ ثمینہ کے خود کفالت بتول کے لیے خواب ہے اور بتول کی نیندیں ، چین ، آرام جو بتول کے خیال میں اس کو میسر نہیںاور ثمینہ کے لیے اس کی ساری زندگی کی اچیومنٹ دھول ہے ۔
آہ زندگی واہ دنیا تیرے رنگ نرالے ۔ اس نے رشتے کی حامی بھر کے گاڑی کا رخ کیا اور سوچ کا دھارا زندگی کی الٹ پھیر میں اور الجھ گیا کی کون درست اور کون غلط۔
ختم شد