آن لائن بکرا : نظیر فاطمہ

’’ وے پتر ندیم ! بندے کا پتر بن اور میری گل سن لے۔ وڈی عید میں بس آٹھ دن باقی رہ گئے ہیں اور تو ابھی تک بکرا لے کر نہیں آیا۔کتنے دنوں سے کہہ رہی ہوں مگر مجال ہے جو تم لوگ میری گل سن لو۔‘‘
’’امّاں! آجائے گا بکرا بھی‘آپ فکر نہ کریں ۔‘‘ ندیم اپنے سمارٹ فون پر مصروف تھا سو اسی مصروف انداز میں تسلی دی۔
’’ چل پہلے اس شیطانی اینٹ کو پرے رکھ ‘ نئی تو میں اسے کند (دیوار)کے ساتھ مار کے توڑ دوں گی ۔ ‘‘ امّاں نے اس کی بے توجہی محسوس کر کے غصے سے کہا تو ندیم نے خاموشی سے موبائل سائیڈ پر رکھ دیا ۔ امّاں سے کوئی بعید نہیں تھی کہ واقعی موبائل توڑ دیتی کہ امّا ں کو قول و فعل میں تضاد پسند نہیں تھا۔
’’جی امّاں۔ ‘‘ ندیم پوری طرح امّاں کی طرف متوجہ ہوا تو ان کے ماتھے کی تیوریاں کچھ کم ہوئیں۔
’’ کب آئے گا ہمارا بکرا، سارے محلّے کے بکرے اور گائیاں(گائے)آگئے ہیں ۔ اک ہمارا نہ آیا بس۔بتا رہی ہو ں تجھے بس دو دن میں بکرا نہ آیا تو تیرے پیو(باپ) کو شکیت لگا دینی ہے میں نے۔‘‘
’’ کیا امّاں ابّا کی دھمکیاں دینا شروع کر دیتی ہے۔‘‘ابّا کو شکایت کا مطلب تھا سچی ستھری بے عزتی۔
’’ ہاں تو اور کیا کروں؟ پنڈ میں تھے تو کبھی قربانی کا جانور خریدنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوا ۔ میں آپ جا کر خرید لیتی تھی ۔ مگرہون شہر میں تو منڈی تک پہنچنا ہی اک مشکل کم ہے۔ میں عورت ذات تے جانے سے رہی وہاں۔ تو ہی جائے گا نا اب تو نخرے کیوں کر رہا ہے۔‘‘ ندیم بکرا منڈی جاکر جانور خریدنے کے تصور سے ہی بُرے بُرے منہ بنانے لگا۔
’’ بند کر یہ کارٹونوںوالے منہ بنانا ۔ اب میں تیرے پیو کو کیا کہوں جو تم جیسی ڈھیٹ ہڈی اولادوں کے ساتھ مینوں شہر وچ پھینک کے آپ دوبارہ دوبئی ٹر گیا ہے۔چنگے بھلے پنڈ میں رہتے تھے ۔ ایک تو میرا ہون تک شہر وچ جی نہیں لگیا ‘دو سال ہو گئے ہیں۔شہر آکے ہر چیز کے لیے مینوں تم لوگوں کی محتاجی ہے ۔ ہر کم کے لیے تمھارے منہ دیکھنے پڑتے ہیں۔‘‘
’’ امّاں ! منیر بھائی سے کہہ وہ خرید لائے بکرا۔‘‘
’’ کہا تھا اُس کو بھی۔ پر وہ بھی تیرا بھرا ہے صاف کہہ دیا کہ مجھ سے منڈیوں میں جا کر بھائو تائو نہیں ہوتا۔ اب بتائو بھلا میں کیا کروں؟‘‘امّاں باقاعدہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی تھیں۔
٭…٭
دو سال پہلے یہ لوگ گائوں سے شہر شفٹ ہوئے تھے ۔ بچّے تو جلد ہی شہری ماحول میں رچ بس گئے تھے مگر امّاں ابھی تک گائوں کے ماحول میں بس رہی تھیں ۔ ابّا دبئی کی ایک کمپنی میں میکنک تھے اچھا کما رہے تھے ۔ کھلا پیسہ تھا مگر امّاں ایک کفایت شعار سگھڑ خاتون تھیں سو روپیہ پیسہ سب کچھ تھامگر حد سے بڑھی ہوئی کوئی چیز نہیں تھی۔دونوں بیٹے بھی امّاں کے کہنے میں تھے۔ بس یہ دوسرا سال تھا قربانی کا جانور خریدنے کو کوئی تیار نہ تھا۔ وجہ پچھلے سال ہونے والی خواری تھی۔ندیم اور منیر دونوں منڈی گئے تھے ۔ سارے دن کی خواری کے بعد شام تک بکرے کے ساتھ واپسی ہوئی تو دونوں مٹی کیچڑ میں یوں لت پت تھے کہ گویا بھوت ہوں کہیں کے۔بکرا بھی اچھا خاصا مہنگا پڑا تھا انہیں کہ اناڑیوں کو بیوپاریوں نے خوب لوٹا تھا ۔ دونوں یونیورسٹی کے طالب علم تھے مگر تھے تو اناڑی ہی نا وہ کون سا روز بکرا خریدنے جاتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ اس سال دونوں میں سے کوئی بھی منڈی جا کر بکرا خریدنے کے حق میں نہیں تھا۔
’’ امّاں ! اس سال آپ گائے کی قربانی میں حصّہ ڈال لیں۔کونے والے حاجی صاحب گائے کی قربانی کرواتے ہیں اُنھوں نے گائے کی قربانی میں حصّہ ڈالیں کا پینر بھی لگا رکھا ہے۔‘‘ دو دن بعد ندیم نئے مشورے کے ساتھ امّاں کے حضور پیش ہوا۔
’’ کیسے پا لوں حصّہ میں ۔ پوچھا تھا تیرے پیو سے ، کہہ رہا تھا کوئی حصّہ وصہ نہیں ڈالنا۔ ہر سال کی طرح بکرے کی قربانی ہو گی اس سال وی۔‘‘امّاں ندیم کا یہ مشورہ سن کر جل ہی تو گئی تھیں۔
’’اچھا امّاں پریشان نہ ہو ں کرتے ہیں کچھ ۔‘‘ ندیم نے امّاں کا چڑھتا پارا محبت کا ٹھنڈا پانی پھینک کر نیچے کرنے کی کوشش کی اور ان کے دونوں ہاتھ تھام لیے تو امّاں واقعی پر سکون ہو گئیں۔
’’اچھا ! وعدہ عید سے پہلے بکرا آجائے گا۔‘‘ندیم نے مزید تسلی دی۔
’’ چل ٹھیک ہے فیر۔ ہون مینوں پریشان نہ کرنا بار بار ۔دونوں مل کے کوئی حل کر لو۔‘‘ امّاں بات مکمل کر کے اُٹھ گئیں۔
٭…٭
’’ منیر بھائی ! بکرے کا کیا کرنا ہے ۔ امّاں بہت ناراض ہو رہی تھیں۔‘‘ رات کے کھانے کے بعد ندیم منیر کے کمرے میں چائے لے کر گیا تو خود بھی وہیں بیٹھ کر چائے پینے لگا۔
امّاں کے بس یہی دو بیٹے ہی تھے بیٹی کوئی تھی نہیں۔ یہ دونوں بھائی امّاں کو زحمت سے بچانے کے لیے اپنے بہت سے کام خود ہی کر لتے تھے ۔ اب بھی ندیم نے چائے بنا کر پہلے امّاں کو دی پھر دو کپ ٹرے میں رکھ کر منیر کے کمرے میں آگیا۔
’’ہاں یار! مجھے بھی کہا تھا امّاں نے مگر اس بار منڈی جانے کی ہمت ہی نہیں ہے مجھ میں ۔‘‘منیر نے بے بسی سے یوں ٹھنڈی آہ بھری کہ اے سی کی کولنگ میں مزید اضافہ ہو گیا۔
’’ ابّا نے گائے کی قربانی میں حصّہ ڈالنے سے بھی منع کر دیا ہے۔ اب کچھ تو کرنا پڑے گا۔‘‘ ندیم نے منیر کو دیکھ کر کہا۔
’’ ہاں! اچھا کچھ کرتے ہیں ۔‘‘ منیر نے ڈھیلے سے انداز میں کہا تو ندیم چائے کے خالی برتن اُٹھا کر کمرے سے نکل گیا۔
منیر اپنے موبائل پر سوشل میڈیا سائٹس پر مصروف ہو گیا۔معاً اس کی نظر ایک اشتہار پر پڑی اور وہ جیسے اچھل پڑا۔
’’ یہ خیال مجھے پہلے کیوں نہیں آیا؟‘‘ منیر موبائل ہاتھ میں لیے چھلانگ مار کر بستر سے اُٹھا اور ندیم کے کمرے میں جا کر بریک لگائے۔
’’ ندیم ! یہ دیکھ یار، اللہ نے ہماری مشکل آسان کر دی۔‘‘ ندیم نے منیر کو ناسمجھی سے دیکھاتو اس نے اپنا موبائل ندیم کے سامنے کر دیا جس کی اسکرین پر ایک اشتہار کھلا ہوا تھا۔
’’ اب بکرا آن لائن حاصل کریں ۔ پسند آ پ کی، قیمت مارکیٹ ریٹ سے انتہائی کم ۔ منڈی جانے کا جھنجھٹ نہ بیوپاریوں سے بحث کی مصیبت ۔ آج ہی پورٹ فولیو دیکھ کر بکراسلیکٹ کریں ۔ بکرا گھر تک پہنچانا کمپنی کی ذمہ داری ہے۔‘‘
نیچے ایک ویب سائٹ کا ایڈریس اور ایک دو فون نمبرز درج تھے۔ندیم بھی اشتہار پڑھ کر جھول اُٹھا۔
’’ یہ ہوئی نا بات‘اب کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ صبح امُاں کو ساتھ بٹھا کرپورٹ فولیو چیک کریں گے ۔ بس بکرا فائنل… آڈر پلیس اور بکرا ڈیلیور‘بات ختم۔‘‘ دونوں بھائی پر سکون ہو کر سو گئے۔
٭…٭
’’امّاں ! بکرا خریدنے کا مسئلہ حل ہو گیا ہے ۔ ‘‘ چھٹی کا دن تھا ۔ دونوں اپنی نیند پوری کرنے کے بعد اُٹھے تھے اور اب ناشتہ کر رہے تھے کہ منیر نے امّاں کو مخاطب کیا جو پاس بیٹھ کر چائے پی رہی تھیں۔
’’تو دونوں منڈی کب جا رہے ہو؟‘‘
’’منڈی تو نہیں جا رہے۔‘‘
’’ تو فیر مسئلہ کیسے حل ہوا؟‘‘
’’اس سال بکرا ہم آن لائن منگوائیں گے۔‘‘
’’ لے بکرا نہ ہو گیا کوئی چیز ہو گئی جو آن لین آجائے گی۔بھلا بکرا بھی کوئی آن لائن منگوانے والی شے ہے۔ آئے گا کس طرح گھر تک۔‘‘ امّاں نے ناگواری سے کہا۔ آن لائن چیزوں سے ان کی واقفیت اس حد تک تھی کہ ان کے دونوں بیٹے کھانے پینے اور پہننے کی چیزیں اکثر آن لائن منگواتے تھے۔
’’ یہی تو امّاں ! اب بکرا بھی آن لائن آئے گا۔‘‘ ندیم بہت پر جوش تھا۔
’’ دیکھ لینا کہیں کوئی لولا لنگڑا ٹٹے دندوں والا بکرا نہ آ جائے۔‘‘ امّاں تذبذب کا شکار ہو گئیں۔
’’ امّاں ! آپ بے فکر رہیں ۔ ہم ناشتہ کر لیں پھر آپ کو بکروں کی تصویریں دکھاتے ہیں۔ آپ خود بکرا پسند کرنا۔جو آپ پسند کریں گی وہی بکرا گھر آئے گا۔‘‘منیر نے مسکر کر کہا تو امّاں نے کندھے اُچکا دیے۔ یہ آئیڈیا انھیں کچھ خاص پسند نہیں آیا تھا۔مگر ناشتے کے بعد جب منیر نے بکروں کا پورٹ فولیو کھولا تو کیا پاکستان کی ٹاپ ماڈلز ماڈلنگ کرتی ہوں گی جو بکروں نے کی ہوئی تھی۔سجے سجائے صاف ستھرے موٹے تازے بکرے مختلف پوز بنائے کھڑے تھے۔امّاں تو بکروں کی تصویریں دیکھ کر ان کی محبت میں گوڈے گوڈے ڈوب گئیں۔
’’ ہائے وے منیر! اینی عمر ہو گئی میری پر ایسے سوہنے بکرے نہیں دیکھے میں۔یہ تو سارے ہی بڑے سوہنے ہیں بندہ مشکل میں پڑ جائے کہ کون سا خریدے تے کون چھڈے۔‘‘ بکرے دیکھ کر امّاں کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا۔
تینوں نے باہمی مشورے سے ایک بلیک اینڈ وائٹ بکرا پسند کیا ۔ بہت ہی خوب صورت اور صحت مند بکر تھا جس کی قیمت تیس ہزار روپے تھی۔ یہی بکرا اگر کسی منڈی میں ہوتا تو بیوپاری چالیس پینتالیس ہزار سے کم کسی صورت نہ دیتے۔ منیر نے کریڈٹ کارڈز سے پے منٹ کر کے اپنے گھر کا ایڈریس نوٹ کروادیا۔اُدھر سے دو سے تین دنوں میں بکرا ڈلیور کرنے کی یقین دہانی کروا دی گئی۔
٭…٭
’’اس محلے بلکہ شہر میں ہم پہلے ہوں گے جن کا بکرا آن لائن آرہا ہے۔‘‘ ندیم خود کو ساتویں آسمان پر محسو س کر رہا تھا۔ شام کا وقت تھا ۔سب اپنے جانوروں کو لے کر باہر نکلے ہوئے تھے۔
’’ اوے ندیم! یار اس بار قربانی نہیں کرنی آپ نے۔‘‘ ندیم کے ہمسائے عثمان بھائی نے ندیم کو خالی ہاتھ کھڑ دیکھ کر پوچھا۔ خود وہ اپنی گائے کو بمشکل سنبھالے ہوئے تھے۔
’’ جی عثمان بھائی کرنی ہے قربانی۔ ‘‘
’’ تو جانور کب خریدو گے ؟‘‘
’’ خرید لیا ہے عثمان بھائی۔‘‘
’’ خرید لیا ہے تو ہے کہاں ؟ ‘‘ عثمان بھائی نے ندیم کے عقب میں یوں دیکھا جیسے ندیم نے جانور اپنے پیچھے چھپایا ہوا ہو۔
’’آرہا ہے بکرا ہمارا۔‘‘ ندیم نے لطف لیتے ہوئے کہا۔
’’کہاں سے‘‘ عثمان بھائی نے حیرت سے پوچھا۔
’’ آن لائن آڈر کیا ہے، بس آج کل میں پہنچ جائے گا۔‘‘ندیم اترایا۔
’’آن لائن؟‘‘ عثمان بھائی نے سر کھجایا۔
’’ جی آن لائن،یہ خوب صورت اور موٹا تازہ بکرا ہے‘‘ ندیم نے دونوں بازو پھیلا کر بکرے کو حجم بتایا۔
سارے محلے میں شور مچ گیا کہ ندیم کا بکرا آن لائن آرہا ہے۔ سب کو اشتیاق کہ بکر ا کیسے آسکتا ہے آن لائن بھلا۔ لو بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی۔ سب اپنی اپنی ہانک رہے تھے۔
’’ دیکھ لینا سب جب آئے گا کہ آن لائن بکرا کیسے آتا ہے۔ کم دام میں اچھا بکرا خریدا ہے ہم نے۔‘‘ندیم سب کے سوالوں کے جواب دیتا۔سب تجسس اور انتظار میں مبتلا ہو گئے۔
ندیم سب کے درمیان راجہ اندر بن بن کر پھرتا ، کسی کے جانور میں نقص نکالتا، کسی کی قیمت میں ۔
’’کتنی چلتی ہے تمھاری زبان ‘کبھی اسے منہ میں بھی رکھ لیا کرو۔‘‘ عثمان بھائی نے ندیم کی بک بک سے تنگ آکر کہا۔
’’ زبان منہ میں ہی تو ہوتی ہے عثمان بھائی کبھی کسی کی زبان ماتھے پر لگی دیکھی ہے آپ نے؟‘‘ندیم قہقہہ لگا کر آگے بڑھ گیا۔ عثمان بھائی بے چاری سی شکل بنا کر رہ گئے۔
آڈر کے تیسرے روزدوپہر کا وقت تھا۔ گرمی تھی مگر سب کے جانور گلی میں بندھے ہوئے تھے تو خوب رونق لگی ہوئی تھی۔ ندیم بھی وہیں کھڑا تھا جب اسکے موبائل پر کال آئی۔
’’ اپنے گھر کا ایڈریس کنفرم کریں ۔آپ کا بکرا تھوڑی دیر میں آپ کے پاس ہو گا۔‘‘
ندیم نے ایڈریس کنفرم کر کے آواز لگائی۔
’’ آرہا ہے ہمارا بکرا ، تیار ہو جائو سب دیکھنے کے لیے۔‘‘ سب اسے کے ارد گرد جمع ہو گئے۔ کوئی آدھے گھنٹے بعد ایک پک اپ گلی میں آکر رکی۔ ندیم سمیت سب بھاگ کر وہاں پہنچے۔ پک ۔اپ کی پچھلی طرف ایک آدمی بیٹھا تھا۔
’’ ندیم؟‘‘ اس نے اپونچی آوا ز میں کہا۔
’’ جی میں ہوں۔‘‘ ندیم ہجوم سے نکل کر آگے بڑھا۔
’’آڈر نمبر اور ویریفیکیشن کوڈ بتائو۔‘‘ندیم نے فر فر بتا دیا۔
’’ یہ لیں اپنا بکرا۔‘‘ آدمی نے پلٹ کر ایک بکرا اُٹھایا اور ندیم کی گود میں دے دیا جیسے کوئی بچّہ ہو۔
’’ یہ ، یہ کیا ہے؟‘‘ ندیم اس کمزور سے بلیک اینڈ وائٹ بکرے تو دیکھ کر صدمے میں چلا گیا جس کا سفید رنگ بھورا ہو چکا تھا۔
’’ بکر ا ہے جی۔‘‘ آدمی نے دانت نکالے جیسے ندیم کسی دوسرے سیارے سے آیا ہو اور پہلی دفعہ بکرا دیکھا ہو۔
’’یہ وہ بکرا نہیں ہے جو ہم نے آڈر کیا تھا۔‘‘
’’ وہی ہے… یہ کوڈ تھا، یہ تصویر۔ ‘‘ اُس آدمی نے اپنا موبائل ندیم کے سامنے کر دیا۔
’’دھوکا ہوا ہے ہمارے ساتھ۔‘‘ندیم نے منہ چھپا کر ہنستے ہجوم کو دیکھ کر کہا۔بکرا دیکھ کر اس کی اُمیدوں پر توپورا بحر اوقیانوس ہی پھر گیا تھا۔
’’ دیکھیے آپ کمپنی والوں سے بات کریں ۔ ہمارا کام تو بس ڈیلیور کرنا ہے۔ ابھی ہم نے اور بکرے بھی پہنچانے ہیں۔‘‘ اُس آدمی نے بات ختم کی اور پک اپ پر زور سے ہاتھ مار کر ’’چلو اُستاد ‘‘ کا نعرہ لگایا اور پک ۔اپ یہ جا وہجا۔ ندیم بکرے کو گود میں اُٹھائے رو دینے کو تھا۔ اس کی عقل اتنی سلب ہوئی کہ وہ بکرے کو گود سے نیچے بھی نہ اُتار سکا۔بکرے کی صحت کے حساب سے قیمت بہت ہی زیادہ تھی۔
’’اوئے! اس بکرے سے تو میں بھی صحت مند ہوں ۔‘‘ تیلی پہلوان نے اپنے کانے جیسے بازو کا ڈولا دکھا کر کہا تو سب ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئے۔
’’ بیٹے! کچھ چیزوں کی خریداری کے لیے بازاروں اور منڈیوں کی خاک چھاننا ہی پڑتی ہے۔ ہر چیز آن لائن خریدنا ممکن نہیں ہے جیسے کہ آن لائن بکرا‘‘عثمان بھائی نے ندیم کی طرف جملہ پھینکا۔
’’ آن لائن بکرا ، آن لائن بکرا…‘ ‘سب آوازیںکسنے لگے تو ندیم کو سمجھ نہ آئی کہ وہ کہاں جا کر منہ چھپائے۔
مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق وہ اپنے مریل سے بکرے کو اُٹھائے مرے مرے قدموں سے اپنے گھر کی طرف بڑھ گیا کہ ابھی گھر جا کر اسے امّاں کا سامنا بھی کرنا تھا۔
ختم شد