طلسم : قسط نمبر 7
باب پنجم : یہ طلسم ہوشربا ہے… (جس میں)
مصنفہ : صبا زین
ایک تھی ساحرہ،
ایک تھا مہرہ،
ایک تھا راجہ
اور ایک تھی رانی…
یہ طلسم ہوشربا ہے…
جس کا پہلا اصول آگ کے دریا میں
اپنے دل کی بھینٹ چڑھانا ہے،
اور آخری اصول…
خود جل کر راکھ ہونا ہے…
اس بار وہ پاگل نہیں ہوئی تھی، اس کو دورے نہیں پڑے تھے ۔ کسی ڈر نے دل میں گھر نہیں کیا تھا ۔ بس تھوڑی سی بے چینی تھی ۔ وہ بھی اتنی نہیں تھی کہ اس کے روز مرہ کے کام رک جائیں ۔ اس نے ایک بار پھر سے اپنے دسمبر کو آنکھ بھر کر د یکھا ۔ جب سے غازی اس کی زندگی میں آیا تھا یہ مہینہ اس کے لیے بد شگن ثابت ہوا تھا ۔ کراچی میں برف نہیں گرتی تھی مگر دسمبر آتا تھا تو غازی اور بشائر کے درمیان ایک برف کی دیوار کھڑی کر دیتا تھا، جس کو وہ اپنے اپنے دلوں میں جگہ لے کر اپنے اپنے گھر لوٹ جاتے تھے ۔ پھر اس دیوار کو پگھلنے میں مہینوں لگ جاتے تھے ۔ ابھی بھی دن گزرتے جا رہے تھے، مگر غازی کی طرف سے کوئی کال، کوئی میسیج نہیں آیا تھا ۔
وہ دیوانی نہیں ہورہی تھی مگر محبت تو دوبارہ کر ہی لی تھی ۔ دل میں کچھ خدشہ بھی تھا کہ جس بات کا پردہ خدا نے رکھا تھا، کیا اس کو چاک کرنے کی سزا اس کو ملنے والی تھی ۔ حالانکہ اگر وہ غازی کو شہریار کے متعلق نہیں بھی بتاتی تو بظاہر کوئی فرق نہیں پڑنا تھا کیونکہ جن چند لوگوں کو اس کے اور شہریار کے متعلق معلوم تھا اس کو پورا یقین تھا کہ وہ کبھی بھی غازی کو اس کے ماضی کے بارے میں نہیں بتائیں گے ۔ مگر شہریار بذات خود غازی کو بتا سکتا تھا ۔ وہ ایک عام انسان ہوتا تو شاید وہ اس کو بھول کر آگے بڑھ جاتی۔
وہ اس کے صرف دل کا مالک ہی نہیں تھا وہ اس کے دماغ کا قابض بھی تھا ۔ ہر رات کی طرح اس نے پہلے ساری دعائیں پڑھ کر اپنے اور اپنے کمرے پر دم کی تھیں ۔ پھر کتنی ہی دیر یوگا کے آسن میں بیٹھی رہی تھی ۔ پچھلے کئی سالوں سے یہ اس کی رات کی روٹین کا حصہ تھا ۔ سانس روکنا ٹیلی پیتھی کا دشمن تھا ۔ وہ شخص اس کو بھولا نہیں تھا ۔ وہ اس تک کبھی بھی پہنچ سکتا تھا ۔ جس شخص کے قبضے میں اس کا دل تھا، وہ زمان اور مکان کی قید سے آزاد تھا ۔ اس کو کوئی چیز بشائر کی طرف بڑھنے سے روکتی تھی تو وہ بشائر اور اس کے گھر والوں کی دعائیں اور کوششیں تھیں ۔
وہ بستر پر لیٹی تھی روز کا دہرایا ہوا عہد دوبارہ دہرایا ۔ وہ اس کو خود تک پہنچنے کبھی نہیں دے گی نہ ہی ظاہری طور پر، اور نہ ہی خیالی رو ‘ کے ذریعے کیونکہ دماغ پر قبضہ دل کے قبضے سے بدتر ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ابھی بھی شہریار کے عشق میں گرفتار تھی ۔ ساری دعائیں پڑھ کر بھی دل بے چین تھا ۔ یہ کیسی محبت تھی جو جدائی کے نام سے بے سکون کر دیتی تھی ؟ اس نے تو ایسی محبت کی تھی جس میں جدائی میں ہی سکون تھا، مگر غازی کی محبت تو کوئی اور ہی شے تھی ۔ اس نے بہت پہلے اپنے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ محبت نہیں کریں گی اور اگر ہو بھی گئی تو اس میں دیوانی نہیں ہوگی۔
دیوانگی سب کچھ تباہ کر دیتی ہے، یہ بات اس سے بہتر کون جان سکتا تھا۔
وہی دیوانگی جو اس کی زندگی کے کتنے سال کھا گئی تھی۔
٭…٭…٭
دل پر قبضہ جمانے سے پہلے، دماغ پر قبضہ جمانا زیادہ ضروری تھا ۔ وہ دماغ جو اگر ساتھ چھوڑ دے تو زندگی بیکار ہو جائے ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ کتنے دن اس گلی کی طرف مڑا بھی نہیں ۔ کبھی کبھار دور سے اس کو دیکھ لیتا اور بس…
مگر پھر اس بار بشائر نے اس کو جا لیا اور اتنے غیر متوقع طور پر کہ وہ خود بھی ششدر رہ گیا ۔ وہ چھٹی کا دن تھا اور مائی زبردستی اس کو مارکیٹ گھسیٹ لائی تھی ۔ مقصد اس کو سامان پکڑانا تھا ۔ سامان تو اس نے پکڑ لیا تھا ۔ ابھی مائی کسی دکاندار سے بحث میں مصروف تھی کہ اس کو جیولری کی دکان پر خوبصورت چاندی کی پازیبیں نظر آئی تھی ۔ مائی اس کو وہ خریدتے دیکھ لیتی تو مصیبت پڑ جاتی ۔ پھر سوالوں کی بوچھاڑ ہونی تھی ۔ وہ زبردستی ان کو گھر چھوڑ کر آیا جو قریب ہی تھا اور دوبارہ اس دکان پر پہنچا تو اس کو بشائر وہاں کھڑی ہوئی ملی تھی ۔ وہ جو اس کو دیکھنے کے بعد الٹے قدموں واپس پلٹنے لگا تھا، اس کی ساری شعبدہ بازی ہوا ہو گئی جب بشائر اس کی طرف پلٹی اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔
’’جادوگر شہریار…کہاں ؟ ‘‘ اس نے خجالت سے اپنا کان کھجایا اور اس کی طرف مڑ گیا۔
’’تمہیں کیسے پتہ چلا؟‘‘
وہ جو ریڑھی پر جیولری دیکھ رہی تھی، اس کو دوبارہ وہی رکھا اور آگے کی طرف بڑھی ۔
’’تمہیں کچھ دن پہلے میں نے ابّا کے ساتھ دیکھا تھا، پھر اپنے ملازم کو تمہاری طرف اشارہ کر کے پوچھا کہ وہ کون ہے اور پھر فر فر اس نے تمہاری ساری انفارمیشن مجھے دے دی؟‘‘
’’ کیا میں اتنا مشہور ہوں ؟ ‘‘ اس نے جزبز ہو کر پوچھا۔
’’ نہیں، تم بھول گئے ہو کہ یہ ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جہاں ہر کسی کو ہر کسی کی خبر ہوتی ہے اور مائی رحمتے کو کون نہیں جانتا ؟ میں دادی کے ساتھ رہتی ہوں اور گاؤں کی تقریباً ہر عورت کو جانتی ہوں۔‘‘
’’ اوہ… اوہ! بشائر شرلوک ہولمز ہے، مجھے نہیں معلوم تھا۔‘‘
’’ بشائر بی بی نہیں کہو گے ؟ ‘‘ وہ ایک پل کے لیے اترائی تھی۔
’’ میں تمہارا نہیں، چوہدری صاحب کا ملازم ہوں ۔ ‘‘ اس کالہجہ سپاٹ ہوا تھا۔ ایسے جیسے اس کوایک دم ان دونوں کے درمیان اوقات کا فرق یاد آ گیا تھا۔
وہ جز بز ہو کر مسکرا دی۔
’’مذاق کر رہی تھی‘ میں چاہتی بھی نہیں ہوں کہ تم یہ مجھے بولو ۔ ‘‘ وہ واپس مڑ کر جیولری کی ریڑھی سے سامان اِدھر اِدھر کرنے لگ گئی تھی ۔ چہرے پر واضع خجالت تھی جو اس کے چہرے کو اور سرخ کر رہی تھی ۔ ایک عجیب سا اطمینان شہریار کے دل میں اترا تھا ۔ وہ اس پر اثر رکھتا تھا ، اس کی باتیں اس پر اثر کرتی تھی۔
جب آپ کی باتیں کسی پر اثر رکھتی ہو ۔ تو وہ جتنا گہرا اثر رکھیں گی، اتنی آسانی سے آپ اس کواپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیں گے ۔ آپ اپنے محبوب پر اثر رکھتے ہو، اس سے بڑھ کر طاقت اور کیا ہو سکتی ہے؟ ایسا کرنے کے لیے انسان کو کسی جادو کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ وہ وہاں آیا اور ریڑھی پر سے وہ پائلیں اٹھائی جو وہ دیکھ کر گیا تھا ۔اس نے لینے سے پہلے بشائر سے نہیں پوچھا تھا کہ اس کووہ کیسی لگی تھیں ؟ اس نے وہ دکاندار کی طرف بڑھا دی اور پیسے ادا کر دیے ۔ دکاندار نے ایک نظر ان دونوں کو دیکھا، پھر ایسے ہو گیا، جیسے کچھ دیکھا ہی نہ ہو ۔ بشائر ابھی بھی منہ بنا کر جیولری کو دیکھ رہی تھی۔
شہریار نے اس کے سامنے پائیلوں کی جوڑی رکھ دی۔
’’تمہارے لیے…‘‘
بشائر نے چونک کر ایک نظر اس کودیکھا اور دوسری نظر اس چاندی جیسی چمکتی پائیلوں پر ڈالی ۔ پھر ایک مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر بکھر گئی اور اس نے پائیلوں کا پیکٹ مٹھی میں دبا لیا اور آگے بڑھ گئی ۔ اس نے ایک لمحے اس کوآگے جانے دیا پھر اس کے قدم سے قدم ملا دیے۔
’’تم میرے ساتھ میلے میں چلو گی ؟ ‘‘
اگلے ہفتے نئی فصل کی خوشی میں گاؤں میں میلا لگنے والا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ وہ اس وقت اس کے ساتھ ہو ۔ اس کے بعد وہ عزیز کے ساتھ لاہور چلا جائے گا اور کافی عرصے تک واپس آنے کا امکان نہیں تھا ۔ وہ جانے سے پہلے اس کوباندھ کر جانا چاہتا تھا ۔ بشائر نے ایک پل کے لیے گردن موڑ کر اس کودیکھا پھر آہستہ آہستہ قدم اٹھا کر آگے چلنے لگی،ایسے جیسے وہ اس کے ساتھ نہ ہو اور وہ اپنی دھن میں آگے بڑھ رہی ہو۔
’’ نہیں جا سکتی… میں کچھ دنوں میں کراچی جا رہی ہوں …خالہ کے گھر۔‘‘ اس نے توڑ توڑ کر جواب دیا۔
’’ میلے کے بعد چلی جانا۔‘‘ اس کامشورہ التجاء سے زیادہ حکم لیے ہوئے تھا۔
بشائر کے قدم ایک پل کے لیے ٹھٹکے، پھر اس نے پلٹ کر اس کودیکھا ۔ شہریار کی آنکھوں میں اس کے لیے آنچ تھی مگر اس آنچ کے ساتھ ساتھ یقین بھی تھا ۔ بشائر نے ایک پل کے لیے سوچا، پھر بولی۔
’’ کوشش کروں گی ۔ ‘‘ پھر دوبارہ چلنے لگی تو شہریار بھی اس کے پیچھے ہو لیا۔
حویلی آنے تک وہ ویسے ہی کچھ قدم کے فاصلے پر ساتھ ساتھ چلتے رہے ۔ ایک انجانے سے احساس نے بشائر کے گرد گھیرا ڈالا تھا ۔ حویلی سے ذرا دور جب بازار کا حصہ ختم ہوا اور اب سنسان حصہ شروع ہوا تو وہ اس کی طرف پلٹی، یہ کہنے کے لیے کہ تم جاؤ مگر شہریار کی بات پر ششدر رہ گئی۔
’’ میں نے تمہارے ابا کو کہا تھا کہ تمہیں فون میں نے لا کر دیا تھا۔‘‘
’’ کیا؟ میں نے انہیں کہا تھا کہ وہ میں نے عیدی کے ان پیسوں سے لیے تھے جو میں نے اپنے دوستوں کو گفٹ دینے کے لیے الگ کر کے رکھے تھے ۔ ‘‘ اس کی بات پر وہ مزید پریشان ہو گئی ۔ شہریار اس کی صورت دیکھ کر ہنس دیا۔
’’ چوہدری صاحب سب سے پوچھ رہے تھے کہ کسی نے بشائر بی بی کو کوئی پارسل لا کر دیا تھا ۔ میں نے تب یہ کہا تھا کہ فون میں نے لا کر دیا تھا مگر تم نے مجھے پیسے دے کر فون منگوایا تھا ۔ ‘‘
اس کی بات پر بشائر نے سکون کا سانس لیا۔
’’ میں تو ڈر ہی گئی تھی ۔ ویسے تمہیں ضرورت ہی کیا تھی یہ سب کرنے کی ؟ میں تھوڑا سا روتی دھوتی تو ابا نے خود ہی میری محبت میں کچھ دنوں میں لا دینا تھا ۔ ‘‘ وہ نروٹھے پن سے منہ بنا کر بولی تو شہریار کو باقاعدہ اس پر پیار آیا اور بول بیٹھا۔
’’ تو میں نے بھی تو تمہارے آنسو دیکھ کر ہی تمہاری محبت میں لے کر دیا تھا ۔ ‘‘ اس نے یہ الفاظ اتنی آسانی سے اور اتنے سادہ انداز میں ادا کیے تھے کہ ایک پل کے لیے بشائر کو سمجھ ہی نہیں آیا کہ وہ کیا کہہ رہا تھا ؟ دوسرے پل ادراک ہوا تو چہرہ حیا سے سرخ ہو گیا۔
’’ میں…‘‘ کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا مگر سمجھ نہیں آیا کہ کیا بولے تو منہ بند کر دیا۔
جتنی رومانٹک کہانیاں اور فلمیں اس نے دیکھی تھی ۔ ہمیشہ ہیرو محبت کا اظہار بہت ڈرامائی انداز سے کرتا تھا ۔ اتنے سادہ انداز سے بھی کسی سے کوئی محبت کا اظہار کر سکتا تھا، وہ یہ نہیں جانتی تھی ۔ مگر اس کوبرا نہیں لگا تھا ۔ جو لڑکا اس کے دور سے آنسو دیکھنے کے بعد اپنی حیثیت سے بڑھ کر اس کے لیے اتنا مہنگا فون لے آئے ۔ صاف بات تھی کہ وہ اس کے لیے جذبات رکھتا تھا ۔ وہ بے وقوف نہ تھی، اتنا سمجھتی تھی۔
جب پہلی بار بشائر کو اس کانوٹ ملا تھا تب ہی سمجھ گئی تھی مگر ادراک ہونا الگ بات تھی اور اس کے منہ سے ایسے اچانک سننا الگ بات ۔شہریار نے اس کی آنکھوں میں ستارے چمکتے ہوئے دیکھے تھے ۔ مگر زبان پر ابھی تالے لگے ہوئے تھے ۔ پیچھے سے کسی کی آہٹ سنائی دی تو شہریار چوکنا ہو گیا مگر اس سے پہلے ہی بشائر اگلی گلی مڑ گئی تھی ۔ وہ گلی جو اس کے گھر تک جاتی تھی ۔ مگر اس کونہیں معلوم تھا کہ وہ اپنی روح اور دل کا ایک بڑا حصہ پیچھے کھڑے انسان کے پاس گروی رکھ آئی تھی۔
خلیل جبران کہتا تھا کہ آپ اس کے غلام ہو ، جس سے آپ محبت کرتے ہو کیونکہ آپ اس سے محبت کرتے ہو اور آپ اس کے غلام ہو جو آپ سے محبت کرتا ہے ۔کیونکہ وہ آپ سے محبت کرتا ہے۔
بشائر کو نہیں معلوم تھا کہ اس کی غلامی کا دور شروع ہونے والا تھا۔
٭…٭…٭
اس غلامی کی شروعات اس نے پہلا حکم مان کر کی تھی ۔ اس نے گھر آ کر کہہ دیا کہ وہ میلے کے بعد کراچی جائے گی۔ اس کی فرمائش اتنی انوکھی بھی نہ تھی ۔ سب جانتے تھے کہ اس کومیلا کتنا پسند ہے ۔ اور اس بار تو وہ ناراض ہو کر کراچی جا رہی تھی ۔ جب اس نے یہ اعلان کر دیا تو سب کے چہروں پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔
موبائل والا واقعہ کلیئر ہونے کے بعد تو کوئی بھی اس سے ناراض نہیں تھا ۔ بلکہ وہ سب سے ناراض ہو کر پھر رہی تھی ۔ دل ہی دل میں ان سے جھوٹ بولنے کی ندامت بھی سر اٹھاتی مگر شیطان یہ تسلی کروا دیتا کہ وہ جب سچ بول رہی تھی تو تب کس نے اس کایقین کیا تھا ؟
پھر ایک ایک دن گزار کر اس نے میلا لگنے کا انتظار کیا ۔ اس دوران شہریار اس کی طرف نہیں آیا تھا ۔ ایک دو بار اس نے دور سے اس کوابا کے ساتھ دیکھا تھا اور بس…
پھر میلے کا دن بھی آ گیا ۔ وہ عام طور پر میلے میں سلمیٰ کے ساتھ جاتی تھی ۔ چونکہ گھر میں اس کے ساتھ کھیلنے کے لیے کوئی لڑکی نہ تھی تو وہ زیادہ تر ملازموں کی بیٹیوں کے ساتھ ہی کھیلتی اور دوستی بھی انہی سے ہو گئی تھی ۔ اماں، ابا کو بھی اس پر کبھی بھی اعتراض نہ ہوا ۔ بس وہ اس کوسمجھاتے کہ کسی کو ا ن کی حیثیت کی وجہ سے کمتر نہ جاننا اور اس نے خود بھی ایسا ہی ہمیشہ کیا تھا ۔ ابھی بھی وہ سلمیٰ کے ساتھ پھر رہی تھی کہ اس کودور سے ہی کسی دکان پر وہ کھڑا دکھائی دیا تھا ۔ گو کہ وہ اس کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا، مگر وہ جان گئی تھی کہ وہ اسی کا منتظر تھا۔