طلسم : قسط نمبر 6
باب چہارم : میں ابن جنوں
مصنفہ : صبا زین
شہریار کے لیے اس کا عشق صرف عشق نہیں تھا، جنوں تھا، دیوانگی تھی۔ پھر بھی اس کا عشق اس کا عشق تھا۔ اس کا جنوں اس کی جنس کی دین تھا، اس کی فطرت کا تقاضا ۔ اس کی دیوانگی نے اس کو علم کے اعلیٰ مقام پر پہنچایا تھا تو اس کے عشق نے اس کو راکھ بنایا تھا۔ اس کو جلایا تھا۔
وہ، وہ بسمل تھا جو محو رقص تھا مگر کانٹوں کی سیج پر۔ اس کے عشق کی کہانی بہت پرانی تھی، مگر جاری تھی ۔ کہانی وہاں سے شروع ہوتی ہے، جب وہ کسی گاؤں میں اپنی مائی کے ساتھ رہتا تھا ۔ اس کو نہیں معلوم تھا کہ وہ یتیم پیدا ہوا تھا یا کسی کا گناہ تھا ۔ اس نے ہوش سنبھالتے ہی خود کو یتیم ہی پایا تھا ۔ ماں کی پھر بھی قبر معلوم تھی ۔ باپ کا تو نام بھی نہیں پتہ تھا ۔ نام تو کتنے عرصے تک اس کو خود کا بھی نہیں پتہ تھا۔
’’ یہ بچہ کتنا خوبصورت ہے! کہاں سے اٹھایا ہے مائی؟‘‘ ایک بار اس نے ایک مرد کو اس عورت کو کہتے ہوئے سنا تھا جو اس کی پرورش کر رہی تھی۔
’’ اس کی ماں میری دور پرے کی رشتے دار تھی ۔ بس مرنے سے پہلے میرے پاس چھوڑ گئی ۔ اور تو کوئی رشتے دار نہیں ہے اس کا تو میں نے اس کو اپنے پاس ہی رکھ لیا ۔ ‘‘ مائی اس مرد کو بولی جس کے پاس سے تمباکو کی خوشبو اس کے لگائے ہوئے مہنگے پرفیوم سے زیادہ حاوی تھی۔
اس نے دیکھا کہ مائی کے جواب میں ایک معنی خیز مسکراہٹ اس مرد کے چہرے کو چھو گئی تھی ۔ شاید وہ مرد بھی اس کو وہی سمجھ رہا تھا جو اس کو دیکھ کر سب سمجھتے تھے ‘مگر زبان سے بولتا کوئی نہیں تھا ۔ صد شکر کہ کوئی بولتا نہیں تھا ۔ کیونکہ زبان بڑے عذابوں کے دروازے کھول کر کھلتی ہے۔
’’ تو کہے تو اس کو کوئی کمرشل وغیرہ کروا دوں؟‘‘
مائی کے چہرے پر اس بات کے جواب میں عمر رسیدگی میں بھی پھول کھل اٹھے تھے۔
’’کتنے پیسے ملن گے ؟ ‘‘ مائی نے اشتیاق سے پوچھا۔
’’پانچ ہزار دلوا دوں گا ۔ ‘‘ اس مرد نے انگلیوں سے پانچ کا اشارہ کیا۔
اس وقت وہ قریب ہی بیٹھا اکیلا کنچے کھیل رہا تھا ۔ دھیان ان دونوں کی باتوں پر ہی تھا ۔ مائی کے چہرے پر واضح مایوسی تھی۔
’’میں تے سنیا ای کہ یہ ٹی وی والے لکھوں روپے کماندے نے ۔ ‘‘ وہ اس آدمی کے پاس ہو کر رازداری سے بولی۔
’’ کماتے ہیں مائی! مگر ٹیم (ٹائم) لگتا ہے ۔ ایسے ذرا سے کمرشل پر تجھے کون لاکھوں روپے دے گا ۔ ‘‘ آدمی نے افسوس سے مائی کو دیکھا۔
’’یہ بھی تو صحیح کہہ رہا ہے رحیم دین ۔ ‘‘ مائی نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
رحیم دین نے مائی کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔
’’کتنی بار کہا ہے تجھے رحیم دین نہ کہا کر ۔ میرا نام ریان خان ہے ، ہاں!‘‘ رحیم دین یا … ریان خان تنک کر مائی کو بولا۔
’’ اچھا جو وی اے ۔ ‘‘ مائی نے ہاتھ جھاڑے۔
’’اچھا نام کیا ہے اس کا ؟ ‘‘ اب اس آدمی کی توجہ اس کی طرف تھی۔
وہ اب کی بار کنچوں کو بھول کر سانس روکے مائی کا جواب سننے کا منتظر تھا ۔ کیونکہ اپنا اصلی نام تو اس کو بھی نہیں معلوم تھا۔
’’نام تو رکھا ہی نہیں اس کا میں نے ۔ اسی لوگ تو اینو کاکا بولدے اے ۔ ‘‘
رحیم دین نے مائی کی طرف ایسے دیکھا جیسے کسی پاگل کو دیکھ لیا ہو۔
’’کمال کرتی ہے مائی ۔ ایک سات آٹھ سال کے بچے کا تو نے ابھی تک نام نہیں رکھا۔‘‘
’’چھ سال کا ہے ‘اٹھان اچھی ہے اس کی ۔‘ ‘ مائی کے لہجے میں پہلی بار اس کے لیے فخر تھا ۔ جیسے اس کی اٹھان اسی کی محنت کا نتیجہ ہی تو ہو۔
’’اچھا، چل پھر کوئی نام بھی رکھ دے اس کا ۔ ‘‘ رحیم دین نے ہاتھ کے اشارے سے حکم جاری کیا۔
’’تو اتنے ڈرامے لکھتا ہے، تو کوئی نام بتا ۔ کوئی ٹی وی والوں جیسا نام بتانا ۔ ‘‘ مائی نے مشورہ دیا۔
‘‘اچھا، ادھر آ کاکے ۔ ‘‘ رحیم دین نے جب اس کو آواز دی تو وہ جو ان کی باتیں کب سے سن رہا تھا، فوراً اٹھ کھڑا ہوا۔
اس نے آنکھیں سکوڑ کر اس لٹھے کے شلوار قمیض میں ملبوس سامنے بیٹھے ہوئے شخص کو دیکھا۔
’’چل تجھے شہزادوں والا نام دیتا ہوں ۔ ‘‘ اس نے اس کی کمر پر ہاتھ مار کر مسکرا کر کہا۔
’’آج سے تیرا نام شہریار ہے۔‘‘
اور تب سے اس کا نام شہریار ہوا۔
٭…٭…٭
شہریار جب شوبز کی چکاچوند میں گیا تو اس کو اندازہ ہوا کہ وہاں صرف خوبصورت چہرے ہی کام نہیں آتے، صلاحیتیں بھی چاہیے ہوتی ہے۔ اس کا مسئلہ اس کا لہجہ اور الفاظ تھے ۔ کوئی اس سے بات کرنے والا تھا ہی نہیں جو وہ مہذب زبان اختیار کرتا ۔ رحیم دین مائی کے سامنے جو بھی ہوتا، بڑے بڑے ڈائریکٹرز اور پروڈیوسرز کے سامنے بڑا ہی مہذب اور شائستہ انسان تھا ۔ اس نے جو پیسے اس کے کمرشل سے ہاتھ میں آئے تھے ، اس سے اس کو قریبی شہر کے اسکول میں بھی داخل کروا دیا اور ایک ٹیچر بھی رکھ دی جو اس کی زبان صاف کرواتی ۔ مائی صرف اس کو دیکھ کر ہی رہ گئی۔
’’مائی ابھی کی انویسٹمنٹ ہے ، آگے کم آئے گی ۔ ‘‘ مائی کو انویسٹمنٹ لفظ کی سمجھ تو نہیں آئی مگر وہ اس کی بات کا مطلب سمجھ گئی اور خاموش ہو گئی۔
’’دیکھ تیری زبان ایک ایسی چیز ہے جو تجھے یہاں سے نکلوا سکتی ہے ۔ اس کو بنا، سنوار! بے لگام نہ چھوڑ ۔ ‘‘ رحیم دین نے اس کو تحمل سے سمجھایا۔
اس نے ایسا ہی کیا ۔ ذہین تو وہ شروع سے ہی تھا ۔ کچھ عرصے میں ہی زبان پر عبور آ گیا۔ اب پنجابی کی آمیزش بھی کہیں نہ تھی اور اب تو انگریزی کے بھی کئی الفاظ صحیح سے بول لیتا بلکہ اس کو پورے اعتماد سے کیمرے کے سامنے بول بھی لیتا ۔ رحیم دین اس کی ترقی سے بہت خوش ہو رہا تھا۔
’’مجھے تو پتہ ہی تھا کہ تو کوئی گوہر نایاب ہے ۔ سن، جب تو کوئی بڑا ہیرو شیرو بن جائے گا تو اپنے اس رحیم چاچا کو پلنا نئیں (بھولنا نہیں)‘‘ آخری جملہ خالص پنجابی لہجے میں ادا کیا گیا۔
اس دن شہریار نے جانا کہ لوگوں کے اس طرح کے روپ بھی ہوتے تھے جو اپنے مطلب کے لیے اپنے کسی بھی روپ کو سامنے لے آتے تھے۔ رحیم دین دنیا کے سامنے سکرپٹ رائیٹر ریان خان تھا ۔ اس کو اپنے مطلب کے لیے رحیم دین بھی بننے پر کوئی اعتراض نہیں تھا ۔ مگر رحیم دین کا اس کے بارے میں قیاس غلط ثابت ہوا تھا ۔ وہ جوانی پر قدم رکھنے سے پہلے ہی شوبز کی دنیا سے نکال دیا گیا تھا اور اس کی وجہ اس کی زبان ہر گز نہ تھی، اس کا خون تھا۔
٭…٭…٭
کچھ سال تو کمرشل کے بڑے اچھے پیسے مل رہے تھے ۔ مائی نے گھر بھی پکا کروا لیا تھا اور اس کے نام کچھ زمین بھی خرید کر رکھ لی تھی۔
’’یہ تو دو دن کی چاندنی ہے کاکے‘ سستی زمین مل رہی تھی ۔ میں نے سوچا کہ تیرے لیے لے لوں ۔ کبھی کم ہی آ جائے گی ۔ ‘‘ اس کے پوچھنے پر مائی نے وضاحت دی۔
پھر ایسا ہی ہوا ۔ اس دن بھی وہ رحیم دین کے ساتھ شوٹنگ پر گیا ہوا تھا ۔ رحیم دین نے کوئی رونے دھونے والا ڈرامہ لکھا تھا جس میں غریب ماں اور یتیم بچوں کی کہانی بتائی گئی تھی ۔ اس نے ڈائریکٹر سے کہہ کر اس کو ہیروئن کے بڑے بیٹے کا رول دلا دیا تھا ۔ اس وقت اس کی عمر بارہ سال تھی ۔ ڈائریکٹر نے بھی اس کا کام دیکھا تھا اور اس کو اوکے کے دیا تھا ۔ کردار آخر تک جانا تھا ۔ ڈرامے کی شوٹنگ کے آخری دن چل رہے تھے، جب یہ واقعہ ہوا تھا ۔
سین یہ تھا کہ اس کو اپنی ماں کو جو کہ اس وقت کچن میں کھڑی کام کر رہی تھی کو جلنے سے بچانا تھا ۔
آگ اصلی ہی تھی، کوئی زیادہ بھی نہ تھی ۔ سین بھی چھوٹا سا تھا ۔ کچھ بگڑنا تو نہیں چاہیے تھا، مگر بگڑ گیا ۔ اس نے آگ سے جلتا ہوا دوپٹہ ہٹا کر نہ جانے کہاں پھینکا کہ آگ نے پورے کچن کو اپنی لپیٹ میں لیا ۔ اچانک آگ اتنی زیادہ بھڑکی کہ اس کے آس پاس آگ ہی آگ تھی۔
یہ کیا ہو رہا تھا، اس کو نہیں معلوم تھا ؟ اس نے ادھر ادھر دیکھ کر باہر نکلنے کی کوشش کی، مگر اس کو آگ سے بچ کر باہر جانے کا راستہ نہیں مل رہا تھا ۔ آگ کا سیاہ دھواں اس کے منہ اور آنکھوں میں جا رہا تھا اور اس کے لیے سانس لینا دشوار ہو گیا تھا ۔ آخری آواز جو اس کے کانوں سے ٹکرائی تھی، وہ لوگوں کی چیخیں تھی اور آخری احساس آگ کی تپش کا تھا ۔جب وہ جاگا تو اس کو یاد نہیں تھا کہ کتنا وقت گزر گیا تھا۔
’’کاکا! تو ٹھیک ہے ؟ ‘‘ مائی اس کے پاس ہی نماز کی طرح کا دوپٹہ باندھے تسبیح لے کر بیٹھی تھی اور شاید اس کے اوپر کچھ پڑھ کر پھونک رہی تھی۔
اس نے پہلے آس پاس ہسپتال کی دیواروں کو دیکھا ۔ وہ ایک جنرل وارڈ تھا، جس کے ایک بیڈ پر وہ لیٹا ہوا تھا ۔ دائیں ہاتھ میں آئی وی کی سوئی چبھی ہوئی تھی ۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی تو اپنے جسم کو سن پایا ۔ اس نے بولنے کے لیے منہ کھولا تو خشک حلق سے صرف گر گر کی آواز ہی آئی ۔ مائی نے فوراً سمجھ کر پانی کا گلاس بھر کر اس کو سہارے سے ٹیک لگا کر بٹھایا اور پانی پلایا ۔ اس نے تھوڑا تھوڑا کر کے چند گھونٹ پانی پیا اور ہاتھ کے اشارے سے پیچھے کر دیا۔
’’تو ٹھیک ہے ؟ ‘‘ مائی نے اپنا سوال دوبارہ دہرایا تو اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’کیا ہوا تھا کاکے ؟ ‘‘ وہ آنکھوں میں دنیا بھر کا تجسس بھر کر آگے ہو کر پوچھ رہی تھی۔
ایک پل کے لیے اس کے دماغ میں شوٹنگ کا منظر چلا پھر وہ سر جھٹک کر مائی کی طرف متوجہ ہوگیا۔
’’مجھے کچھ یاد نہیں،آگ لگ گئی تھی ؟ ‘‘ اس نے تسلی کے لیے اپنے ہاتھ پاؤں دیکھیں مگر وہاں آگ یا جلنے کا کہیں نشان نہ پا کر سکون کا سانس لیا۔
’’ہاں، وہی تو پوچھ رہی آ…‘‘ وہ پہلے جھنجھلائی، پھر آگے ہو کر سرگوشی میں بولی۔
’’جس وقت تُجھے…‘‘ مگر آنے والے شخص نے ان کی بات اُچک لی۔
’’جس وقت تُجھے ہم ہسپتال لے کر آئے، تو بے ہوش ہوا پڑا تھا مگر تُجھے آگ نے چھوا تک نہیں، جبکہ پورا کمرہ جل کر کوئلہ ہو گیا تھا ۔ ‘‘ رحیم دین اس کے سامنے لگی ہوئی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
وہ ان کی بات پر ایک پل کے لیے سوچ میں پڑ گیا ۔ اس کو صرف آگ کا لگنا یاد تھا ۔ آگ کیسے لگی اور وہ کیسے محفوظ رہا، اس کو کچھ یاد نہیں تھا۔
’’کیا یہ بری بات ہے؟‘‘ اس نے رحیم دین کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
رحیم دین نے جواب میں اس کو سوالیہ نظروں سے دیکھا تو اس نے اپنا سوال دوبارہ دہرایا۔
’’کیا یہ بری بات ہے؟ میرا آگ سے بچ جانا؟‘‘
اس بات پر رحیم دین کی آنکھوں میں نمی اتر آئی۔
’’نہیں یار، کیسی باتیں کرتا ہے ؟ ہم تو پریشان ہی ہو گئے تھے کہ تُجھے کچھ ہو نہ گیا ہو۔‘‘ یہاں آ کر ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
’’ڈرا دیا ہمیں…‘‘ انہوں نے اس کے کندھے پر ہلکا سا دھموکا لگا کر نم آنکھوں سے ہنس کر کہا تو وہ بھی جواباََ مسکرا دیا۔
’’اور تو ڈرامے کی فکر نہ کرنا ڈرامے بہت … ‘‘ تھوڑی دیر بعد رحیم دین نے اس کی تسلی کے لیے کہا تو اس نے بھی سمجھ کر سر ہلا دیا۔
اس کو ہمیشہ آسانی سے کاسٹ کر لیا جاتا تھا ۔ کوئی مشکل پیش نہیں آئی تھی تو بھلا اس کو کام کی کوئی کمی ہونی تھی ؟ وہ بے فکر تھا مگر اس کی بے فکری ہوا ہو گئی جب اس کو دوسرے ڈرامے کی شوٹنگ کے پہلے دن ہی نکال دیا گیا تھا ۔ وہ شوٹنگ کے دوران بے ہوش ہو گیا تھا اور کافی حربے آزمانے کے بعد بھی ہوش میں نہیں آیا تھا ۔ مجبوراً ڈائریکٹر نے اس کو کام سے نکال دیا کیونکہ اس کو لگا کہ بچہ بیمار تھا۔
’’یار تو کام سے بچنے کے لیے تو نہیں کرتا ایسا ؟ ‘‘ رحیم دین نے پوچھا تو اس نے اس کو شکایتی نظروں سے دیکھا۔
پھر سال ڈیڑھ سال ایسے ہی گزر گئے، چھوٹے چھوٹے کردار ہاتھ تو آئے مگر جس کو شہرت کا نشہ لگ جائے وہ چھوٹے کرداروں پر سمجھوتہ نہیں کرتا ۔ جب کہیں بات نہیں بنی تو آنے والے کچھ سالوں میں اس نے خود ہی شوبز کو خیر باد کہہ دیا۔
٭…٭…٭
اپنی ذات کی تلاش میں انسان کہاں کہاں نہیں بھٹکتا ۔ کبھی کبھار انسان کو لگتا ہے کہ وہ اس دنیا سے نہیں ہے ۔ اس کو بھی وقت کے ساتھ ساتھ ایسا لگنے لگ گیا تھا ۔ شوبز کی دنیا کو خیر باد کہنے کے بعد اس نے کئی جگہ پر کام کے لیے ہاتھ پیر مارے تھے ۔ پیسہ کمانا اور خاص طور پر اپنے ہاتھ سے پیسہ کمانا بھی ایک نشہ ہوتا ہے ۔ اور جس کو لگ جائے اس کو دوسروں کا تھوڑا تھوڑا دیا گیا اچھا نہیں لگتا تھا ۔ اس کے ساتھ بھی یہی قصہ تھا۔
اس کا وقت گاؤں میں کم اور گوجرانوالہ اور آس پاس کے شہروں میں زیادہ گزرتا تھا ۔ زیادہ تر جو کام اس کو میسر تھا وہ یا تو مزدوری کا تھا یہ پھر دکانوں پر بیٹھنے کا ۔وہ بھی اکثر ہی اسکول کے بعد دکانوں پر بیٹھ جایا کرتا تھا ۔ ایکٹنگ کے کیرئیر میں اس کو اور کچھ آیا ہو یا نہ ہو، کس سے کیا بات کرنی تھی، یہ ضرور آ گیا تھا ۔ وہ ایسے گاہک کو شیشے میں اتارتا کہ وہ چیز خریدے بغیر دکان سے نہ جا پاتے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ دکاندار خوشی خوشی اس کو اپنے پاس رکھ لیتے ۔ اور تنخوہ کے علاوہ بھی جیب خرچ کے نام پر اس کو دیتے رہتے تھے۔
وہ اس وقت پندرہ سال کا تھا،مگر جس طرح کی زندگی وہ دیکھ آیا تھا، اس کام میں کامیاب ہونے کے باوجود اس کو لگتا تھا کہ یہ کام اس کی طبیعت سے میل نہیں کھاتا تھا ۔ اس لیے وہ کہیں پر بھی زیادہ عرصہ نہیں ٹک پایا تھا ۔ پھر ایک دن اس کو ایک ایسا کام مل ہی گیا جو اس کی طبیعت سے میل کھاتا تھا ۔ اس دوران گوجرانوالہ شہر میں سرکس آیا ہوا تھا ۔ نگر نگر پھرنے والے بنجاروں کے درمیان وہ بھی اپنے کالج کے دوستوں کے ساتھ تھا ۔ رنگ برنگے لباس پہنے، مختلف کرتب دکھاتے لوگ اس نے پہلی بار دیکھے تھے ۔ جس چیز نے اس کو خوب متاثر کیا تھا وہ ایک جادوگر تھا ۔ سیاہ سوٹ اور سر پر لمبی ٹوپی پہنے یہ وہی جادوگر تھا جو ٹوپی سے خرگوش نکالنا جانتا تھا۔
ایک کے بعد ایک ٹریک کے بعد وہ سمجھ گیا کہ کون سی بازی گری کیسے کی جاتی ہے؟