سلسلہ وار ناول

طلسم : قسط نمبر 5


باب سوم: میں بنتِ بشر (دوسرا حصہ)
مصنفہ : صبا زین

سفر کانٹوں کا ہو یا پھولوں کا، عاشق کو دکھائی نہیں دیتا ۔ وہ بس محو رقص رہتا ہے اور اسی وقت رکتا ہے جب اس کے پاؤں لہوں لہان ہو جاتے ہیں اور وہ رقص کے قابل نہیں رہتے۔
محبت نے انگڑائی لے کر بچپن کو الوداع کہہ دیا تھا ۔ اب ان دونوں کی آنکھ مچولی، رقص میں تبدیل ہو گئی تھی۔ وہ رقص جو ان کو اپنی دھن پر نچائے جا رہا تھا اور وہ خوشی خوشی سانپوں کی طرح محبت کی دھن میں مدہوش ہو رہے تھے۔ وہ دونوں جب واپس آئے تو نظروں کے میٹھے تسلسل سے بہانے سے ساتھ بیٹھنے تک، وہ دونوں آس پاس سے بے خبر محو رقص تھے۔
لڑکے تو جھلے ہوتے ہیں ان کو تو نہیں سمجھ آتا، مگر انعم نے پکڑ لیا تھا۔
’’ یہ تم دونوں کے درمیان کیا چل رہا ہے؟‘‘ انعم کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ اس کا کوئی بہانہ نہیں سنے گی۔
’’کیا چل رہا ہے ؟ ‘‘ بشائر انجان بنی۔
’’کم آن، ہر کوئی اتنا اندھا نہیں ہوتا ۔ تم دونوں جیسے ایک دوسرے کو میٹھی میٹھی نگاہوں سے دیکھ رہے ہوتے ہو، مجھے سب نظر آرہا ہے ۔ ‘‘ انعم نے اب کی بار اس کو آنکھیں دکھائی۔
’’ ہم دونوں اتنے ابویوس (ظاہر) ہے کیا ؟ ‘‘ بشائر فکر مند ہوئی۔
’’نہیں، خیر اتنے بھی نہیں، مگر میں نے پھر بھی پکڑ لیا ۔ سریسلی بشائر، غازی؟ مطلب جو لاسٹ بار تم دونوں کے درمیان ہوا تھا، ہم سب سمجھے تھے کہ…‘‘ وہ ایک پل کے لیے رکی۔ ’’یو نو کہ ہم کیا سمجھے تھے، اس کے بعد میرا نہیں خیال تھا کہ تم اس سے بات بھی کرنا پسند کروگی اور یہ سب؟‘‘
انعم کا انداز ہمیشہ کی طرح ڈرامائی تھا۔
’’ زندگی ان پریڈیکٹیبل ہے ۔ میں نے بھی نہیں سوچا تھا کہ میں یہ کروں گی ، مگر دیکھو ۔ ‘‘ وہ بات کے آخر میں خواب ناک انداز میں مسکرا دی ۔
اس کو یاد تھا کہ کیسے غازی سچ میں پہلے سے بہتر، پہلے سے مضبوط ہو کر اس کے سامنے آیا تھا کہ اس کو دکھا سکے کہ اس کو اینکر کی ضرورت نہیں تھی، بلکہ وہ کسی کا سہارا بن سکتا تھا۔
انعم نے اس کو دیکھ کر جھرجھری لی۔
’’ تم پر یہ انداز سوٹ نہیں کرتا بشائر ، مجھے نہیں معلوم کہ غازی کیسا انسان ہے اور جب تم لوگوں کا واقعہ ہوا تھا تو ہم لوگ جو سمجھے تھے…‘‘
اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی بشائر بری طرح ہنسنے لگ گئی تھی۔
’’اب کیوں ہنس رہی ہو؟‘‘ انعم برا مان گئی۔
اس کی بات پر بشائر نے اس کو ہاتھ سے اشارہ کیا اورجب اچھا خاصا ہنس دی تو بولی۔
’’ کبھی کبھار زندگی کی شرارتوں پر ہنس بھی لینا چاہیے ۔ ‘‘ وہ اپنی آنکھوں کے کنارے صاف کرتے ہوئے ایک بار پھر مسکرا دی۔
انعم نے اس کو الجھ کر دیکھا۔
’’ دیکھو، زندگی کیسی کیسی شرارتیں کرتی ہے ہمارے ساتھ اور ہم بس اس کے اندھیر پہلو پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ کبھی کبھار جو باتیں ہمارے ساتھ رونما ہو رہی ہوتی ہے تو ہم اس کو اتنی بڑی بات سمجھ کر اس وقت پریشان ہو رہے ہوتے ہیں ، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ہمارے لیے وہی واقعہ ہنسنے کا بہانہ بن جاتا ہے اور ہم اپنی پریشانی کو بے معنی کر دیتے ہیں ۔ ‘‘
’’ تو تمہیں افسوس نہیں اس واقعہ کا ؟ ‘‘ انعم کو اس کی مسخریاں سمجھ نہیں آرہی تھی۔
’’ نہیں ، ہماری زندگی کا ہر واقعہ دوسرے کی کڑی ہوتا ہے ۔ اس کو نکال دو تو زندگی کا رخ بدل سکتا ہے ۔ مجھے زندگی کا یہ رخ اچھا لگ رہا ہے ۔ میں اس کو بدلنا نہیں چاہتی بلکہ آنے والے دس پندرہ سال بعد میں اس واقعے پر ہنسوں گی اور اپنے بچوں کو بتائوں گی کہ کس طرح ان کی سٹرونگ ماما نے ان کے پاپا کی پٹائی کی تھی ۔ ‘‘ اس نے ہاتھوں کا مکا بنا کر پیٹنے کا نقلی اشارہ کیا۔
پھر جب اس کو احساس ہوا کہ اس نے کیا کہا تھا تو وہ ایک دم رکی۔ جس بات کا فیصلہ وہ اتنے عرصے سے نہیں کر پا رہی تھی وہ اس کے منہ سے نکلی ایک بے ساختہ سی بات نے کروا دیا تھا ۔ منہ سے وہی نکلتا ہے جو دل کی پکار ہوتی ہے۔
’’ نو وے، ڈونٹ ٹل می…‘‘ انعم اب حیران کے ساتھ پریشان بھی تھی۔
’’ہاں، میں اس سے شادی کروں گی ۔ یہ بس فائنل ہے ، مگر پلیز ابھی کسی کو بتانا مت ۔ تمہیں پتہ ہے ارمان کا‘ میں اماں ابا کو خود ہی بتاؤں گی ۔ ‘‘
انعم نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا مگر اس نے اس کو ہاتھ اٹھا کر روک دیا۔
’’ مجھ پر بھروسہ نہیں ہے کیا؟‘‘
اس پر بھروسہ تھا، اس لیے انعم خاموش ہو گئی۔
٭…٭ …٭
وہ لوگ اس دن ارمان کے گھر جمع تھے ۔ سوائے ان تینوں کے اور کوئی نہ تھا ۔ غازی ارمان سے ملنے آیا تھا اور بشائر اماں کے کہنے پر پھر سے ہوسٹل سے خالہ کے گھر شفٹ ہو گئی تھی ۔
اس وقت وہ تینوں ارمان کے گھر کے آگے بنے باغ میں آ گئے تھے ۔ ارمان اور غازی ٹینس کھیلنے کے موڈ میں تھے ، وہ ان دونوں سے ہٹ کر پرندوں کے پنجرے کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی تھی ۔ وہ اس وقت رنگ برنگی چڑیوں کے پنجرے کے سامنے کھڑی ان کی چوں چوں سن رہی تھی ۔ ارمان کے بابا، ریحان خالو کو اعلیٰ نسل کے پرندے پالنے کا بہت شوق تھا۔
’’ ان کا شور ایک عجیب سا سکوں بھر دیتا ہے دل میں ۔ ‘‘ وہ بے وجہ ہی بغیر کسی کو مخاطب کیے بولی۔
’’ انسان بھی اپنے سکون کے لیے نجانے کیا کچھ کرتا رہتا ہے ۔ ‘‘ غازی نجانے کب اس کے پیچھے آ کر کھڑا ہو گیا۔
’’ کیا مطلب ؟ ‘‘ اس نے پلٹے بغیر پوچھا، نگاہیں ابھی بھی اب ان چہچہاتی چڑیائوں پر ہی تھی۔
’’ مطلب کہ اپنے سکون کے لیے ان بے زبان پرندوں کو قید کر لیا جائے۔‘‘ وہ وضاحت دیتے ہوئے بولا۔
’’ ہاں، بے شک! انسان سے بڑھ کر کوئی قیدی نہیں ہوتا مگر اس سے بڑھ کر کوئی قید کرنے کا ہنر بھی نہیں جانتا ۔ ‘‘
یہ کہتے ہوئے اس کے چہرے پر ایک سایہ سا گزر گیا، ایسے جیسے اس سے بڑھ کر اس حقیقت کا علم کس کو ہوگا۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو غازی وہی گھاس کے قالین پر بیٹھا بوتل سے پانی پی رہا تھا۔
’’ ارمان کہاں ہے؟‘‘
’’ اس کو تمہارے خالو نے فون کر کے کسی کام سے بھیجا ہے۔‘‘
’’ تم نہیں گئے ساتھ ؟ ‘‘
’’ ان کا کوئی پرسنل کام تھا ، مجھے مناسب نہیں لگا ۔ ‘‘ اس کی بات پر وہ سر ہلا کر دوبارہ پرندوں کو دیکھنے لگ گئی۔
نجانے کتنے لمحے ایسے ہی ان کے درمیان خاموشی سے گزر گئے ۔ جن میں یا صرف چڑیاں باتیں کر رہی تھی یا سرسراتی ہوائیں۔
’’ خالو کو شروع سے ہی پرندے پالنے کا بہت شوق تھا ۔ مجھے یاد ہے، ہمارے بچپن میں انہوں نے بڑے اعلیٰ نسل کے کبوتر رکھے ہوئے تھے ۔ ‘‘ وہ کچھ دیر بعد خاموشی سے گھبرا کر بولی۔
’’ کبھی کبھار میں سوچتا ہوں کہ یہ اعلیٰ نسل کا ہونا بھی کتنا بڑا عذاب ہوتا ہے ۔ ان پرندوں کے پر اس لیے کاٹ دیے گئے کہ وہ اعلیٰ نسل کے ہیں ۔ یہی یہ کوئی عام سی چڑیا ہوتی، جنگلی مگر عام سی تو لوگ ان کو کم از کم اکیلا تو چھوڑ دیتے ؟ ‘‘ اس نے دونوں ہاتھ گھاس پر رکھیں اور خود دور آسمان پر اڑتے آزاد پرندوں پر نظر رکھ کر کہا۔
بشائر کو معلوم تھا کہ بات کس سمت میں جا رہی تھی۔
’’ ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ جو سہولت، عیش و آرام ان پرندوں کو ملا ہوا ہے، وہ ان جنگلی پرندوں کے نصیب میں کہاں ؟ ‘‘ وہ اس کا فلسفہ سمجھ گئی تھی مگر صرف کریدنے کو بولی۔
’’ کیا آزادی سے بڑھ کر کچھ ہے ؟ ‘‘ غازی نے اسی انداز سے پوچھا۔
اب کی بار وہ پوری طرح اس کی طرف پلٹی۔
’’میں نے ایک فلم دیکھی تھی ۔ جس میں ایک انسان صرف اس لیے جیل جانا چاہتا تھا کہ وہاں اس کو کم از کم روٹی تو میسر ہوتی ۔ یہ زندگی ہے غازی، ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں ‘وہ فیری ٹیل ہے ۔ کئی لوگوں کے لیے آزادی سے بڑھ کر بھی بہت کچھ ہے اور کئی کے لیے کچھ بھی نہیں ۔ یہ سب تو ہر کسی کی پریوریٹی (ترجیح) پر ہے ۔ ‘‘
وہ بھی اب پنجرے کے پاس سے ہٹ کر گھاس پر غازی سے ذرا فاصلے پر بیٹھ گئی، جو کہ اب نم ہو رہی تھی۔ وہ نمی کی پرواہ کیے بغیر بیٹھ گئی۔
’’میرے بابا نے تین شادیاں کی تھی ۔ میری والدہ ان کی تیسری بیوی تھی ۔ صرف نسل قائم رکھنے کے لیے انہوں نے جادو کا سہارا لیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ میں پری میچیور پیدا ہوا اور ان سب کی تکلیف میں میری ماں اس دنیا سے چلی گئیں ۔ اچھا غازی ثابت ہوا میں ۔ ‘‘ وہ تلخی سے مسکرایا، نظر ابھی بھی ان آزاد پرندوں پر تھی۔
ایک ننھی سی چڑیا آ کر ان پرندوں کے پنجرے کے پاس بیٹھ کر اِدھر اُدھر دانے کی تلاش میں دیکھنے لگ گئی ۔ شاید اس کے گھونسلے میں بھوکے بچے اس کے منتظر تھے ۔ غازی یہ منظر دیکھ کر پھیکا سا مسکرا دیا ۔ اس کی نظروں نے غازی کی نظروں کا پیچھا کیا تو غازی سے ملتی ہوئی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر بھی ٹھہر گئی ۔ کبھی کبھار کچھ زخموں کے لیے کوئی لفظ مرہم نہیں بنتے ۔ بشائر کے پاس بھی غازی کے درد کا کوئی مرہم نہ تھا۔
’’ اگر تم میرے بارے میں سب جاننے کے بعد بھی مجھ سے کوئی تعلق نہ رکھنا چاہو تو اٹس اوکے‘ میں سمجھ سکتا ہوں۔‘‘
بشائر کا دل اس کی بات سن کر زور کی دھڑکا ۔ چڑیا قید پرندوں کے پنجرے کے پاس سے دانہ چن کر اپنے گھونسلے کو اڑ گئی تھی۔
’’ ایسا کیوں بول رہے ہو ؟ ‘‘ اس کی بات پر غازی اس کو سب کچھ بتاتا گیا۔
ان آوازوں کے بارے میں، اس کے اس پر اثرات کے متعلق اور کس طرح وہ ان آوازوں سے مسلسل لڑ رہا تھا۔ تھوڑا بہت اس کو پہلے ہی اندازہ تھا ، باقی کا غازی کا کھل کر بتانے پر معلوم ہو گیا تھا۔
’’ تم سمجھتی ہو میرے ساتھ کوئی سائکو لوجیکل ایشو ہے ؟ ‘‘ وہ اپنی بات کے آخر میں بولا۔
’’ نہیں، ہم انسان اتنے زیادہ مادی ہو گئے ہیں کہ ہم ہر چیز کا جواب منطق سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ روح کی اہمیت کو بھول جاتے ہیں ۔ یہ آوازیں تمہارے شیطان ہیں غازی جو کہ ہر کسی کے ہوتے ہیں ۔ ہر کسی کو اپنے شیطانوں سے لڑنا ہوتا ہے ۔ کیا تمہیں اور کیا مجھے…‘‘ وہ بظاہر لاپرواہی سے بولی۔
’’ تمہیں بھی ؟ ‘‘ غازی نے حیرانگی سے پوچھا۔
وہ سمجھ سکتی تھی کہ غازی اتنا حیران کیوں تھا۔ اس جیسی ہنستی مسکراتی شہزادیوں جیسی لڑکی کی زندگی میں بھلا شیطان کا کیا کام، مگر یہ ہر کسی کی زندگی کا حصہ ہوتے ہیں ۔ یہاں تک کہ اس کی بھی۔
’’ ہاں، میری بھی ۔ ‘‘ وہ آہستہ سے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔
پنجرے کے اندر ایک اعلیٰ نسل کے پر کٹے پرندے نے حسرت سے آسمان کے باسیوں کو دیکھا۔
٭…٭ …٭
زندگی انسان سے بہت سے فیصلے کرواتی ہے اور کچھ فیصلے خود ہی ہو جاتے ہیں ۔غازی کا اس کی زندگی میں آنا بھی اس سے بڑھ کر زندگی کا فیصلہ تھا ۔ سمسٹر کا اختتام تھا اور بشائر اب واپس جانے کے لیے اپنا سامان پیک کر رہی تھی ۔ اس کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ اس پچھلے ایک سال میں کیا کچھ بدل گیا تھا۔ جس دن وہ لوگ آخری پیپر دے کر فارغ ہوئے تھے تو وہ بہانے سے غازی کے ساتھ اکیلی ہوئی تھی۔ وہ لوگ اس وقت سب سے پہلے پیپر دینے والے گروپ ممبرز تھے۔ بشائر اس سے ٹیپیکلی یہی پوچھنا چاہ رہی تھی کہ پیپر کیسا گیا، مگر وہ جانتی تھی کہ ان کو صرف چند ہی لمحات میسر تھے۔
’’ ہے تو بہت گھسا پٹا جملہ، مگر مجھے یاد کرو گے ؟ ‘‘
’’ پچھلی دفعہ تو یہ سوال پوچھا نہیں تھا،جبکہ تب چھٹیاں بھی لمبی تھی ۔ ‘‘ کیا وہ چھٹیوں کو جدائی سے تعبیر کرنا چاہتا تھا؟
’’ تب کی بات الگ تھی۔‘‘
وہ ان کی آخری بار کی پکنک کے بارے میں یاد کرکے مسکرائی۔
’’ ویسے اس کا گھسا پٹا جواب کیا ہوگا ؟ ‘‘ وہ کچھ دیر بعد بولا جب بشائر ایک بار پھر سے اپنا کوئسچن پیپر چیک کر رہی تھی۔
’’ بہت، یا پھر نہیں کہ یاد تو انہیں کیا جاتا ہے جن کو بھولا جائے ۔‘‘ وہ پیپر سے نظریں ہٹا کر بولی۔
اس کی بات پر غازی کے چہرے پر وہ پیاری سی مسکراہٹ دوڑ گئی جو کبھی کبھار ہی اس کا ذات کا حصہ بنتی تھی، اب اکثر بننے لگی تھی۔
’’ اور تم کہتی ہو کہ میں لو سٹوریز نہیں دیکھتی۔‘‘
’’کہا ناں، کسی زمانے میں بہت دیکھی تھی، اب بور ہو کر چھوڑ دیا۔‘‘
’’ قصہ صرف یہ تو نہیں ۔ ‘‘ وہ جانتا تھا کہ محبت سے ایسے نفرت تو نہیں کی جاتی، کبھی کبھار ماضی بیچ میں کھڑا ہوتا ہے۔
اس نے نظریں جھکا لی۔
’’ہاں، قصہ صرف یہ نہیں ہے۔ اگر زندگی ہم نے ساتھ ہی گزارنی ہے تو تمہیں میرے اور مجھے تمہارے شیطانوں کا پتہ ہونا چاہیے ۔ ‘‘ اب کی بار اس نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر جواب دیا۔
غازی نے سر ہلا دیا۔

1 2 3 4 5اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page