افسانے

چوکیدار کی سیٹی : عائشہ آصف

’’فرررررررررر…فرررررر…‘‘
وہ جو گہری نیند میں جانے ہی والی تھی،چوکیدار کی سیٹی کی آواز پر ایک دم ہڑ بڑا کر جاگی ۔ کہرے میں ڈوبی رات اور گہرے سناٹے میں گونجنے والی اس آواز سے وہ ہمیشہ اداس ہو جایا کرتی تھی ۔ گردن گھماکر دیکھا ‘ مروہ کانوں میں ہینڈ فری دبائے لیٹی تھی نہ معلوم سو گئی تھی کہ جاگ رہی تھی ۔ کمرے میں ہیٹر کی گرمی ابھی تک رچی بسی تھی جبکہ کھڑکی کے پردے کے باہر کس قدر ٹھنڈ تھی اس کا اندازہ اسے شیشے کی مانند پڑتی رنگت سے ہو رہا تھا۔
چوکیدار انکل کی کتنی بڑی مجبوری تھی ۔ بچوں کے پیٹ پالنے کی خاطر وہ اتنی ٹھنڈ میں اپنے فرائض ادا کر رہا تھا جبکہ سب آرام سے گرم کمروں میں دبک کے سو رہے تھے ۔ٹھنڈ،غربت اور تاریکی کا ایک ساتھ مقابلہ کرتے بوڑھے اور کمزور وجود پر اسے بے تحاشہ ترس آتا تھا۔
’’کاش میں انکل کو ایک کپ چائے ہی پلا سکتی۔ ‘‘
اس کا حساس دل آزردگی میں گھرنے لگا ۔ ذرا سا پردہ سرکا کر دیکھا ۔ باہر اس قدر اندھیرا تھا کہ اپنی ہی شکل واپس نظر آ رہی تھی ۔ چوکیدار کی سیٹی کی آواز اور قریب سے سنائی دی ۔ یقینا وہ ان کے گیٹ کے قریب سے گزرنے والا تھا ۔ منال نے دل ہی دل کمرے سے کچن اور کچن سے گیٹ تک کے فاصلے کو ناپا اور آہستگی سے بیڈ سے پاؤں نیچے اتارے۔ جہاں دبیز قالین کی نرمی نے پاؤں کو چھوا وہیں کمبل ہٹائے جانے پر کپکپی سی پورے وجود میں دوڑ گئی ۔ دبے پاؤں چل کر بالکونی کی طرف کھلتے دروازے تک آئی ، آہستگی سے لاک گھمایا۔
’’ اگر وہ چوکیدار چاچا کو روک کے ایک کپ چائے پلا دے تو۔‘‘
بالکونی کا دروازہ کھلتے ہی ٹھنڈی سیت ہو اکا جھونکا اندر آیا تھا وہ کپکپا کر رہ گئی۔
’’سوچنا جتنا آسان تھا کرنا اتنا ہی مشکل۔‘‘
صحن میں لگے پودے دھند میں لپٹے خطرناک دیو کا روپ دھارے ہوئے تھے ۔ گیٹ کے باہر جلتا بلب ملگجی روشنی کا دائرہ سا بنائے ہوئے تھا ۔ منال نے ذرا سی ایڑھیاں اٹھا کر گلی میں جھانکنے کی کوشش کی ۔پول لائٹ کی روشنی میں اسے چوکیدار چاچا کی ہلکی سی جھلک دکھائی دی ۔ جیمز بونڈ کی طرح لمبا سا چغہ پہنے، بھدے سے لانگ شوز کے اوپر گرم شال کابکل مارے وہ سیگرٹ کے مرغولے اڑا رہا تھا ۔ وہ چلتا چلتا عین ان کے گیٹ کے آگے آن رکا۔اس کا دل زور سے دھڑکا ۔ گردن گھما کر روم میں لگے کلاک کی طرف دیکھا ۔ ابھی صرف ساڑھے گیارہ کا ٹائم ہوا تھا ۔ وہ دبے قدموں کچن تک جا سکتی تھی اگر وہ انکل کو روک لے تو اس کے خدمت خلق کے جذبے کو بھی سکون مل جائے گا ۔ دبے دبے جوش اور سردی کی شدت سے وہ مسلسل کپکپا رہی تھی ۔سگریٹ پاؤں تلے مسل کر چوکیدار نے گلے میں لٹکتی سیٹی ہونٹوں سے لگا کر بجائی ۔ حلق سے نکلنے والی دلدوز چیخ کو قدرت نے ہی اس کے حلق میں دبا دیا تھا ورنہ آج درو دیوار ہل جاتے ۔ سیٹی کی آواز جو کھلے دروازے سے بلا ترددمروہ کے کانوں تک دگنی شدت سے پہنچی تھی وہ تو ہڑبڑا کر جاگی تھی ۔ منال بھی پوری جان سے کانپ گئی تھی۔
’’وہاں کیا کر رہی تھی؟‘‘
اپنے سوشل ورک کو لپیٹ کر وہ کانپتی ہوئی اپنے بستر پر پہنچی تھی ۔ جہاں مروہ اسے ابھی تک قہر بھری نظروں سے گھور رہی تھی۔
٭……٭
سورج نے دن میں بھی شکل نہیں دکھائی تھی ۔ درختوں کے پتوں کے کنارے سموگ کے اثر سے سیاہ پڑے ہوئے تھے ۔ فضا میں بھی نمناک سی ٹھنڈک گھلی ہوئی تھی ۔ سکول واپسی پر سارے راستے وہ وین کی کھڑکی سے باہر لٹکتی آئی تھی ۔ اپنی گلی میں داخل ہوتے ہی اس نے کھڑکی کھول کر باہر دور تک جھانکا تھا ۔ ٹھنڈی ہوا کے تیز جھونکے نے فوراََ انٹری ماری تھی جس پر ساری لڑکیاں چلانے لگی تھیں ۔ اس کی خود کی ناک سرخ ہو چلی تھی ۔مسلسل وین کے ٹھنڈے شیشے سے ٹکائے ٹکائے۔
’’ آخر تمہیں مسئلہ کیا ہے،رات سے کسے تلاش کر رہی ہو؟‘‘
مروہ کی جھلائی آواز پر وہ سنبھل کر بیٹھی ۔ نفی میں سر ہلاتے ہاتھ میں پکڑے نوٹ کوزور سے مٹھی میں دبایا۔
’’کالے چور کو رازدار بنا لوں گی اس کو نہیں۔‘‘
مروہ جو اس کی جڑواں بہن بھی تھی ‘ نہایت ہلکے پیٹ کی واقع ہوئی تھی اور قدرے بے حس بھی یہ اس کا اپنا خیال تھا ۔ وین اس کے گھر کے باہر رکی تو اس نے ہاتھ میں پکڑے سو کے نوٹ کو دیکھا ۔ سارے راستے وہ بوڑھے کمزور چوکیدار بابا کو تلاش کرتی آئی تھی تاکہ وہ ان کو پیسے دے سکے اور وہ ان پیسوں سے شام کو چائے خرید لیں۔
مگر ان کی ڈیوٹی تو رات کو شروع ہو گی وہ اس وقت کیوں نظر آئیں گے بھلا ۔قدرے مایوس سی وہ گھر میں داخل ہوئی ۔ فریش ہو کر جب وہ نیچے آئی تو اس کی امی فون پر لگی ہوئی تھیں۔
’’جی جی سارے محلے والے ہی تین تین سو دیتے ہیں میں نے پتا کیا ہے۔ ‘‘
امی نے گرم روٹی اس کے آگے رکھی فون کو کان اور کندھے کے درمیان دبا کر جگ سے پانی گلاس میں انڈھیلا۔
’’امی کس کا فون ہے۔ ‘‘
یہ مروہ تھی چیئر گھسیٹ کر ساتھ بیٹھتے اس نے چلا کر امی سے پوچھا ۔ منال نے ناگواری سے اس کی طرف دیکھا ۔ تجسس کی بھی حد ہوتی ہے ۔امی نے بھی ہاتھ کے اشارے سے اسے خاموش کروایا۔
’’جی میں نے دے دیے ہیں،اوکے اللہ حافظ… ‘‘
’’ تمہارے پاپا کا تھا ۔ ‘‘ مروا کے آگے روٹی رکھتے امی نے مختصراََ بتایا۔
’’ چوکیدار پیسے لینے آیا تھا۔ ‘‘
منال کا نوالہ منہ میں ڈالتا ہاتھ رکا۔
’’ او نو ‘ انکل آئے تھے۔ ‘‘بیگ میں پڑا سو کا نوٹ جیسے دہائی دینے لگا۔
’’ کہہ رہا تھا پانچ سو لینے ہیں ۔ بھئی جب سب محلے والے تین سودے رہے ہیں تو میں کیوں پانچ سو دوں؟‘‘
’’ اچھا پھر؟ ‘‘
مروہ نے اس کے دل کا سوال پوچھا۔
’’ تین سو ہی دیے میں نے بھی۔‘‘
منال کا دل رنج سے بھر گیا ۔ شکوہ بھری نظروں سے ماں کی طرف دیکھا۔
’’ کیا تھا امی پانچ سو ہی دے دیتیں ۔ بیچارے چائے ہی پی لیتے رات کو اتنی ٹھنڈ ہوتی ہے۔‘‘
’’ بھئی مہنگائی سب کے لیے ہی ہوئی ہے کیا کریں۔ ‘‘
اس کے آگے سے پانی کا جگ اٹھاتے منال کی نظر ماں کے ہاتھ میں چمکتی سونے کی چوڑیوں پر پڑی۔
’’ کیا تھا امی ایک سونے کی چوڑی ہی دیدیتیں ، بیچارے بوڑھے انکل…‘‘ اس سے پہلے کہ آنسو آنکھوں سے چھلک پڑتے وہ اپنی پلیٹ پر جھک گئی۔
مروہ اور امی کی نان سٹاپ گفتگو جاری تھی۔
٭……٭
’’ اپنی امی سے کہو ایک کپ چائے تو اور بنا دیں ۔ آج سردی کچھ زیادہ ہی ہے۔‘‘
وہ جو پاپا کے موبائل پر گیم کھیل رہی تھی سر ہلا کر اٹھی،امی نماز پڑھ رہی تھیں وہ واپس پلٹی۔
’’ میں بناتی ہوں پاپا۔ ‘‘
ایک خیال نے اس کی آنکھوں میں روشنی بھر دی ۔ جب سے وہ سکس کلاس میں ہوئی تھی اس نے چائے بنانا سیکھ لی تھی ۔ جبکہ مروہ کچن سے کو سوں دور بھاگتی تھی ۔ دونوں کے مزاجوں میں بھی بلا کا تضاد تھا ۔ مروہ جتنا چہکتی پھرتی،منال اتنی ہی کم گو اور شدید حساس واقع ہوئی تھی ۔چائے بنا کر ایک کپ اوون میں چھپایا ۔آج تو وہ چوکیدار انکل کو چائے دے کر رہے گی ۔ پاپا کو چائے پکڑاتے ایک عزم سے سوچا ۔ حسب معمول چوکیدار کی سیٹی کی آواز پر آنکھ کھلی ‘ اس نے تیزی سے اٹھنا چاہا مگروہ تیز بخار میں پھنک رہی تھی ۔ ناک بند ہو نے کے ساتھ ساتھ گردن میں بھی شدیددرد ہو رہا تھا اور جسم الگ ٹوٹ رہا تھا۔
’’ مروہ… ‘‘نقاہت سے اس نے مروہ کو آواز دی تھی ۔ گرم گرم سیال اس کی آنکھوں سے بہ نکلا۔
’’ مروہ… ‘‘اس بار پورا زور لگا کر تیز آواز دی ۔ مروہ جو ہینڈ فری لگائے ‘ امی کے فون پر یو ٹیوب شارٹس دیکھ رہی تھی ، تیزی سے اس کی طرف جھکی ۔ اس کی آنکھوں سے نکلتے آنسو دیکھ کر وہ گھبرا گئی ۔
’’ تمہیں تو بہت تیز بخار ہو رہا ہے۔‘‘
’’ کیا کروں امی کو جگاؤں؟ ‘‘ وہ چھلانگ لگا کر بستر سے اتری۔
منال نے اسے بازو سے پکڑ کر روکا ۔ اوون میں پڑی چائے،بخار کی دوا کے ساتھ اسے ہی ملنے والی تھی ۔ اتنا اسے پتہ تھا۔
٭……٭
آج ان کا برتھ ڈے تھا اور چھٹیاں ہونے کی وجہ سے پھپو بھی آئی ہوئی تھیں ۔ پھپو کی بیٹی سیرت اور منال یک جان دو قالب تھیں ۔ دونوں ہی بلا کی حساس واقع ہوئی تھیں ۔ منال جتنا سیرت کے ساتھ چہکتی پھرتی اس کے والدین بھی اس کا یہ روپ دیکھ کر بہت حیران ہوتے ۔ان دونوں کی دوستی کے جہاں سب گواہ تھے ‘ وہیں وہ ایک دوسرے کے دل کا حال بھی خوب جانتی تھیں۔
برتھ پارٹی کے بعد منال کی دوستیں اپنے اپنے گھر روانہ ہوئیں تو وہ گفٹ کھولنے لگ گئیں۔
’’ سب سے پہلے تم میرا گفٹ کھولو۔ ‘‘
سیرت کے کہنے پر اس نے گفٹ کھولا تو حیران رہ گئی جبکہ سب مسکرانے لگے۔
’’ تم نے چائے بنانا سیکھ لی ہے اور تمہیں چائے پسند بھی بہت ہے تو تمہارے لیے۔ ‘‘
وہ ایک چھوٹا سا دو کپ سٹور کرنے والا تھرموس تھا ۔ منال کی آنکھیں چمکنے لگیں ۔
’’ بھئی آج میں تو منال کے ہاتھ کی چائے کے ساتھ کیک کھاؤں گی ۔ ‘‘
پھپو نے منال کو دیکھ کر محبت سے کہا۔
’’ میری بیٹی بہت اچھی چائے بناتی ہے۔ ‘‘اس کے پاپا نے بھی تائید کی۔
امی نے ساس پین میں دودھ ڈال کر منال کو پکڑایا تو اس نے چپکے سے دو کپ چائے کا دودھ اضافی ڈال دیا۔
’’ یہ کس لیے؟ ‘‘
سیرت جو اس کے ساتھ مدد کے لیے موجود تھی حیران ہو کر بولی۔
’’ تمہارے دیے گفٹ کا آج میں بہت اچھا استعمال کروں گی ۔ ‘‘
تھرموس میں چائے ڈالتے منال مسکرا کر بولی۔
٭……٭
گہرے سناٹے میں گونجنے والی آواز آج کچھ تردد سے اندر آئی تھی ۔ کیونکہ کھڑکی سے اندر جھانکو تو آدھی رات کو بھی دن کا سماں تھا ۔ وہ سب ٹی وی لاؤنج میں جمع تھے ۔ ماما،پاپا اور پھپھو اپنی محفل جمائے بیٹھے تھے،جبکہ حذیفہ(پھپھو کا بیٹا) اور مروہ شارٹس پر لاحاصل تبصرہ کرنے میں مصروف تھے۔
منال نے سیرت کو اشارہ کیا ۔ وہ بنا لائٹ جلائے مطلوبہ سامان کچن سے نکال لائی ۔ وہ آہستگی سے ٹی وی لاؤنج کا دروازہ کھول کر باہر نکل آئیں،اندر کی نسبت باہر کی ہولناکی جوں کی توں تھی ۔ٹی وی لاؤنج سے گیٹ تک کا راستہ ہی پل صراط محسوس ہو رہا تھا ۔ صحن میں لگے پودے دیو کا روپ دھارے اپنے شکار کو آنکھیں سکوڑے قریب سے دیکھ رہے تھے ۔ دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ مضبوطی سے تھاما،دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ۔ دبے قدموں وہ گیٹ تک آئیں۔
چوکیدار کی سیٹی کی آواز قریب سے آ رہی تھی ۔ منال نے آہستگی سے گیٹ کا لاک کھولا ۔ ہیبت ناک سناٹے کے ساتھ خنک ہوا دھند کے مرغولے اڑا اڑا کر ان پر اچھال رہی تھی ۔ شال کو مضبوطی سے اپنے گرد لپیٹے وہ دم سادھے کھڑی تھیں۔
’’ اگر کوئی چور آگیا یا پیچھے سے پاپا ہی آگئے تو ان کا سوشل ورک گلے پڑ سکتا تھا ۔ ‘‘
چوکیدار کے قدموں کی آواز قریب آرہی تھی ۔ منال نے ڈسپوزیبل ڈبے کو مضبوطی سے تھام کر اپنی کپکپاہٹ پر قابو پایا ۔ ڈبے میں اس کی سالگرہ کا بچا ہوا کیک تھا جبکہ دوسرے ہاتھ میں سٹیل کا تھرموس اور ابلے ہوئے انڈے ٹھنڈ کی وجہ سے اپنی گرمائش کھو رہے تھے ۔ ساڑھے گیارہ بجے چوکیدار چاچا نے گلی میں پہلا چکر لگانا تھا۔
دور کہیں کتے کے بھونکنے کی وجہ سے منال نے گھبرا کر گیٹ چھوڑا۔
’’ کون ہے ؟ ‘‘
ہلکے کھٹکے کی آواز پر چوکیدار چاچا کی قریب سے ہی آواز آئی تو وہ دونوں اچھل پڑیں۔
’’ جاگتے رہو۔ ‘‘لمبی تانگ کے ساتھ چوکیدار کی سیٹی کی آواز پر منال نے جلدی سے گیٹ کھولا ۔چوکیدار غور سے ان کے دروازے کی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔
ایک لمحے کو منال گڑبڑا گئی ۔ وہ جو چوکیدار چاچا کو بہت بوڑھا کمزور نحیف سمجھتی رہی تھی ۔ جن کو چور جب چاہتا گلا مروڑ کر چلتا بنتااور ان کے حلق سے آواز تک نہ نکلتی ، مگر یہ توپینتالیس سے پچاس کے درمیان اچھی صحت کے حامل شخص تھے ۔ سفید،سیاہ ڈبیوں والے کھیس کو سر کے اوپر سے دہرا گھما کر پگڑی کی طرح باندھے،لمبے کوٹ کے اوپر سیاہ دستانے بھی چڑھا رکھے تھے ۔ ایک ہاتھ کا دستانہ اترا ہوا تھا جس میں ادھ جلا سگریٹ تھا ۔ بھدے لانگ شوز کا چمڑا جگہ جگہ سے اکھڑا ہوا تھا ۔ضعیفی نہ سہی مگر غربت عروج پر تھی ۔ سگریٹ اور جلی ہو لکڑی کی ملی جلی بو ان کے کپڑوں سے اٹھ رہی تھی ۔ ان کے پیچھے چند قدم کے فاصلے پر لکڑیوں کا الاؤ بھی دہک رہا تھا۔
’’ کیا بات ہے بٹیا۔ ‘‘
چوکیدار بھی یقینا ان کو اس طرح دیکھ کر حیران ہوا تھا ۔ سیرت نے اس کو ٹہوکا دیا وہ ہڑبڑا کر ہوش میں آئی۔
’’ انکل آج میری سالگرہ تھی،یہ آپ کے لیے۔ ‘‘جلدی سے شاپر ان کی طرف بڑھایا۔
’’ جیتی رہو بیٹی۔‘‘ آگے بڑھ کر سر پہ ہاتھ پھیرا۔
ہنسنے سے چوکیدار کے گالوں میں گہرے گھڑے پڑے‘ جن کا مطلب ان کی پیچھے والی داڑھیں غائب تھیں ۔ آگے کے دانت بھی کافی خراب تھے۔
’’ اور انکل برتن واپس نہیں چاہیے آپ اس میں روز چائے لے آئیے گا۔‘‘
اس بے وقت کی ضیافت پر چوکیدار چاچا ان کی توقع سے بھی زیادہ خوش ہوگئے تھے ۔ گیٹ بند کر کے منال نے مسکرا کر سیرت کی طرف دیکھا دونوں نے ہاتھ پر ہاتھ مار کر کر وکٹری کو انجوائے کیا ۔
‘‘رات کو ڈھائی بجے سیٹی کی آواز پر منال کی دوبارہ آنکھ کھلی۔دل میں اترتے گہرے سکون کو محسوس کرتے اس نے آنکھیں موند لیں۔ کیونکہ آج اور آنے والے کئی دنوں تک اس سیٹی سے اسے ایک ہی آواز آنے والی تھی۔
‘‘شکریہ بیٹی۔‘‘

ختم شد

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے