سلسلہ وار ناول

طلسم : قسط نمبر 2

باب دوم : میں ابن شر (پہلا حصہ)
مصنفہ : صبا زین

نہ جانے کب سے…
شاید صدیوں سے یا اس سے بھی پہلے سے…
آسمان پر چمکتا ہوا چاند علامت تھا
خوبصورتی کا
خوشی کا
اور محبت کا…
وہی چاند جو اپنی ٹھنڈی میٹھی روشنی کسی پر ڈالتا تو اگلے انسان کے اندر تک سکون بھر جاتا ۔ وہی چاند، جو اپنے دیکھنے والے کو دیوانہ کر سکتا تھا اور اپنی ٹھنڈی روشنی سے ایسی آگ بھڑکا سکتا تھا، جس کو صرف وصل کی امید ہی ٹھنڈی کر سکتی تھی۔ وہی چاند جو چودہ دن کے پھیر سے نئے نئے روپ لیتا تھا اور صدیاں گزرنے کے بعد بھی پرانا نہیں ہوتا تھا ۔بالکل وہی چاند، اس پر بھی اپنی ٹھنڈی چھایا کئے ہوئے تھا ۔ جو اس کے سارے حالوں سی با خبر تھا ۔ جو اس کے اندر کی آگ کو بھی جانتا تھا اور اس کی دیوانگی کو بھی۔
’’ یہ محبت کیا ہوتی ہے، امّاں بی؟‘‘
ایک دن جب وہ اپنے گھر کی بالکونی میں پورے چاند کا نظارہ کر رہا تھا تو اس نے یہ سوال اس عورت سے پوچھا ‘ جس کو وہ اپنی ماں کی جگہ گردانتا تھا۔
’’ آج یہ سوال آپ کے ذہن میں کیسے آیا؟‘‘ اس کی امّاں نے پیار سے اس کے بھورے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔
وہ اپنی بالکونی میں پڑے پنگھوڑے کو ہلکا ہلکا جھلا رہا تھا ۔ آسمان پر روشن چاند کی طرح، وہ پنگھوڑہ بھی اس کے بچپن کا ساتھی تھا۔ فضیلہ بیگم کو بھی معلوم تھا کہ کوئی بھی پورے چاند کی رات وہ کبھی بھی اپنی بالکونی کے علاوہ کہیں نہیں گزارتا تھا ۔ لہٰذا وہ اسے گھر میں ادھر ادھر دیکھنے کے بجائے سیدھا یہی آ گئی تھی اورپنگھوڑے کے ساتھ رکھے ہوئے موڑھے پر بیٹھ گئی۔
فضیلہ بیگم کے سوال در سوال پر بھی اس نے ان کی طرف نگاہ نہ اٹھائی ۔ وہ جانتا تھا کہ یہ بد تمیزی تھی کہ جب ایک انسان کی بات کا جواب اس کی طرف دیکھے بغیر دیا جائے ؟ مگر ایک تو وہ ان سب باتوں سے پڑے تھا ۔ دوسرا وہ اپنی امّاں کو جانتا تھا کہ وہ اس کی نس نس سے واقف تھیں۔ ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ وہ اس کی کسی بات کا برا مان جائے؟
’’ ایسے ہی، چاند کو محبت کی علامت سمجھا جاتا ہے اور آپ جانتی ہیں کہ مجھے چاند سے کیسا عشق ہے ۔ تو ایسے ہی میرے ذہن میں تجسس اٹھا کہ پتا تو چلے کہ بھلا جس چیز سے مجھے عشق ہے تو وہ خود بھی عشق کی علامت ہے تو یہ عشق محبت آخر ہے کیا؟‘‘ اس کا لہجہ دھیما تھا، بالکل چاندنی کی طرح …
اس کی بات پر انہوں نے ایک میٹھی سی آہ بھری۔
’’ لوگ کہتے ہیں کہ چاند محبت کی علامت ہوتا ہے ۔ مگر جب دل میں محبت بس جائے تو ہر چیز ہی محبت کی علامت ہو جاتی ہے راجہ غازی، کیا ٹھنڈا چاند اور کیا تپتا ہوا صحرا ۔‘‘ان کے چہرے پر یہ کہتے ہوئے بڑی دھیمی سی مسکراہٹ تھی ۔ایسے جیسے وہ کسی پیارے سے راز سے واقف تھی ۔اب کی بار اس نے امّاں کی طرف نظر اٹھا کر دیکھ ہی لیا ۔بھلا ایسا کیا تھا محبت میں جو کسی کو اس کے ہوتے ہوئے تپتا ہوا صحرا بھی پیارا لگنے لگ جائے ۔
’’ تو کیا چیز ہے یہ محبت امّاں بی؟‘‘
اس نے ان کی نیلی انکھوں میں جھانک کر پوچھا ۔ وہ آنکھیں جن کے قریب جھریوں نے گھیراؤ کیا ہوا تھا مگر جن میں دنیا جہاں کا تجربہ چھپا بیٹھا تھا۔
’’ یہ تو دل سے دل ملنے کو کہتے ہے۔‘‘ ان کا جواب برجستہ تھا، بغیر کسی شک کے۔
ان کی بات پر ایک خواب ناک سی مسکراہٹ نے غازی کے چہرے کا احاطہ کر لیا ۔ اس نے ہلکا سا اپنے پنگھوڑے کو ہلایا اور اپنا رخ دوبارہ سے اپنے عشق کی طرف کر دیا۔
’’ اور پتا کیسے چلتا ہے کہ آپ کا دل کسی سے مل گیا ہے؟‘‘ اب کی بار اس نے پوچھا تو وہ مسکراہٹ اسکے چہرے پر کہیں بھی نہیں تھی۔ بس ذرا سی الجھن اور بہت سارا تجسس تھا۔
مگر امّاں بی سے بہتر بھلا غازی کو کون جان سکتا تھا ۔ وہ چوبیس سال کا ہو گیا تھا، مگر ان کے لیے تو وہ ابھی بھی آٹھ سال کا بچہ تھا جس کو نہ جانے کس جذبے کے تحت انہوں نے اپنے گلے سے لگا لیا تھا ۔ بلکہ نہیں جذبہ تو انہیں اچھی طرح پتہ تھا، مگر کچھ چیزوں سے انجان رہنے کا مطلب تھا کہ وہ اپنی باقی زندگی (اگر کوئی بچی ہے تو) اس جَذبے سے نظر بچا سکتی تھیں۔
ہاں تو امّاں بی کے لیے وہ ابھی بھی آٹھ سال کا تھا ۔ مگر اس کے سوال نے ان کے دل میں کچھ عجیب سا جذبہ جگا دیا۔
جیسے کہ امید…
’’ جب آپ کو کوئی اچھا لگنے لگ جائے۔‘‘ انہوں نے کہنا شروع کیا مگر اپنے آپ کو وہی روک دیا۔
نہیں یہ ٹھیک تشریح نہیں تھی ۔ آپ کو کوئی بھی اچھا لگ سکتا ہے مگر ہر اچھے لگنے والے انسان سے وابستگی آپ محبت سمجھنے لگ جائیں گے تو پھر انسان کچھ سے کچھ ہو جائے گا۔
’’ اور جب وہ اچھا لگنے والا انسان آپ کو اتنا پیارا ہو جائے کہ آپ کو لگے کہ اس کی خوشی آپ کی خوشی سے بڑھ کر ہے تو وہ محبت ہوتی ہے ۔ ‘‘
انہوں نے بات مکمل کی‘ ہاں یہ صحیح تشریح تھی ۔ انسان اتنا خود غرض ہے کہ اس کے پاس محبت کرنے کی فرصت ہی کہاں تھی اور جب محبت دل پر دستک دیں تو انسان کو مجبوری میں ہی سہی، صرف ایک انسان کے لیے بے غرض تو ہونا ہی پڑتا ہے۔
’’ آپ کو لگتا ہے کہ مجھے محبت ہو سکتی ہے؟ میرا دل کسی سے جڑ سکتا ہے ؟ ‘‘ غازی نے مڑ کر ان کی طرف دیکھا ۔
وہ چاند کی روشنی میں کسی اُمید کی کرن اس کی آنکھوں میں دیکھ سکتی تھی ۔ بڑا ہی عجیب سا سوال پوچھا تھا ان سے ان کے بچے نے ۔ وہ کہنا چاہتی تھیں کہ کیوں نہیں، مگر کسی چیز نے ان کی جیسے زبان بندی کر دی تھی ۔ ان کو ایک ایک کر کے غازی کے بچپن کے سارے واقعات یاد آنے لگ گئے تھے اور ان کا دل کیا کہ وہ وہی اپنے شہر کے آسمان پر روشن مانوس سے چاند کی روشنی تلے بیٹھ کر رودیں ۔ بھلا کوئی ایسا انسان بھی ہوسکتا ہے جو محبت کے بغیر رہ سکتا ہے ؟ جو محبت کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔ ان کے اپنے الفاظ ہی ان کی ذہن کی دیواروں سے پلٹ پلٹ کر آ رہے تھے۔
’’ مجھے لگتا ہی راجہ اشعر، آپ کا یہ بیٹا شیطان کی اولاد ہے۔‘‘
انہوں نے غازی کے باپ کی آنکھوں میں پہلی بار خوف دیکھا تھا۔
’’اس کا کیا مطلب ہے؟ ‘‘
’’ اس کا مطلب ہے کہ یہ اپنی زندگی میں کبھی بھی محبت کا ذائقہ نہیں چکھ پائے گا ۔ ‘‘ انہوں نے اس وقت غازی کے باپ کو یہ جواب دیا تھا۔
اب کی بار جب انہوں نے چاند کے عکس میں راجہ غازی کا چہرہ دیکھا تو اسے پہلی بار جگمگاتا ہوا پایا ۔ ان کی جہاںدیدہ آنکھیں کم بینائی کے باوجود دیکھ سکتی تھی کہ یہ نور محبت کا پھوٹا پڑا تھا اور غازی کی اگلی بات نے ان کی بات پر مہر لگا دی تھی۔
’’ مجھے لگتا ہے امّاں بی کہ میرا بھی کسی سے دل مل گیا ہے۔‘‘
٭…٭…٭
بہت سال پہلے(جہاں سے غازی کی کہانی کی شروعات ہوتی ہے)
’’ راجہ غازی… غازی ہی نام ہونا چاہیے اس کا ۔ آخر کو موت کو شکست دے کر آیا ہے۔‘‘
راجہ اشعر نے اپنی شادی کے سترہ سال بعد پیدا ہونے والے پہلے جیتے جاگتے بیٹے کو جب گود میں لیا تو پہلا جملہ یہی بولا تھا ۔ غازی نے عمر کوٹ کی اس سفید محل جیسی حویلی میں آنکھیں کھولی تھی ، جس کی گہرائی میں ما سوائے سیاہی کے کچھ نہ تھا ۔ اس کے باپ کا شجرہ بہت اونچا، نسب بہت اعلیٰ تھا مگر اس اعلیٰ نسب کو سنبھالنے کو بیٹا نہ تھا ۔ان کے ابائو اجداد اس زمین سے صدیوں سے وابستہ تھے ۔ ان کا شجرہ و نسب راجپوتوں سے سیدھا جا ملتا تھا ۔ ان کے ابائو اجداد اس وقت سے عمر کوٹ کے شاہی خاندان کا حصّہ تھے ، جب عمر کوٹ امر کوٹ ہوا کرتا تھا ۔ انہوں نے یہاں کے قلعے بنتے دیکھیں تھے اور نسلی اجڑتے بھی ۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کا نام بھی، ان کے نام کے ساتھ ہی ختم ہو جائے۔
دوسری طرف اولاد ہوتی ہی نہیں تھی اور اگر ہوتی بھی تو پیدا ہونے سے پہلے ہی اس اندھیری دنیا میں آنے سے انکار کر دیتی یا پھر دو سانسیں لے کر ہی دم توڑ دیتی ۔ شادی کے تقریباً پانچ سال بعد راجہ اشعر کی دوسری بیوی سے انہیں ایک اولاد ہوئی تھی، ایک بیٹی…مگر بیٹی کا کیا کرتے ؟ اس کو یہ ریاست، یہ نام، یہ نسب، جہیز میں دے دیتے تاکہ وہ اپنے شوہر کو یہ سب عطاء کر سکے ؟ نسلیں ایسے چل سکتی تو وہ خوشی خوشی حرا کو قبول کر لیتے مگر بات وہاں ختم نہیں ہوئی ۔ پھر دوبارہ امید لگائی گئی … پھر دوبارہ، اور ہر بار مایوسی ان کا مقدر ہوتی۔
پھر تیسری شادی کی اور اب کی بار باہر کی ذات والی عورت سے ۔ سنا تھا کہ قریب کے رشتے داروں میں شادی کرنے کی وجہ سے بھی خاندان میں نقص آ گیا تھا کہ ان سے اولاد کی خوشی روٹھ گئی تھی۔ تیسری شادی کرتے ہوئے نسب کو پھر سے دھیان میں رکھا گیا۔ ان کا ماننا تھا کہ عورت اعلیٰ نسل کی ہی ہونی چاہیے، تاکہ آنے والا خون بھی اعلیٰ ہو ۔ مگر جب وہ عورت ان کی زندگی میں آئی تو ان کو ایسا لگا کہ زندگی روشن ہو گئی ہو۔ حالانکہ وارث کی طلب ان کے دل سے وہ نئی محبت بھی نہیں نکال سکی تھی۔
پھر دوبارہ خدا سے امید لگائی گئی اور اس بار ان کو لگا کہ وہ عورت ان کے حق میں سچ میں مبارک ثابت ہوئی تھی۔
راجہ اشعر نے اس کے پیروں کے نیچے پھول بچھا دیے اور وہ اپنے نصیب پر پھولے نہ سماتی تھیں ۔ ابھی بچے کو اس دنیا میں آنے میں پانچ مہینے تھے کہ اس کو کوئی کانٹا لگا اور وہ خوشی ان دونوں سے روٹھ گئی ۔
چند سال بعد پھر امید لگی تھی، اس بار پھولوں کا اضافہ کیا گیا مگر پھول کے ساتھ کانٹے تو ہوتے ہی ہیں ۔ چند مہینے بعد نیا مہمان دنیا میں آنے سے پہلے پہلے ہی روٹھ گیا ۔ کافی سالوں تک کسی بھی بیوی سے ان کو کوئی نئی امید، کوئی نوید نہیں ملی ۔ بچے ہوئے پھول مرجھانے لگے اور راجہ اشعر کی چھوٹی سی ریاست میں بے چینی پھیلنے لگ گئی تھی ۔ کچھ رقیبوں نے تو یہ تک کہہ دیا تھا کہ انہیں ابھی سے اپنی جائیداد کی بولی لگا کر اپنی بیٹی کے جہیز میں دینے کی تیاری کر لینی چاہیے۔
’’ ایسی جائیداد کا کیا فائدہ جس کو کوئی سنبھالنے والا نہیں‘ اماں بی…‘‘
ایک بار راجہ اشعر، جب رقیبوں کی باتیں سن کر جھنجھلائے ہوئے تھے تو تنہائی میں فضیلہ بیگم کے پاس آ کر بولے تھے ۔ وہ ان کی خالہ تھیں مگر مقام ان کا ماں والا ہی تھا ۔ اسی لیے تو ان کے چہرے سے ہی ان کی پریشان حالی کو جان گئی تھیں ۔ اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات تو نہیں تھی کہ ان کو خبر نہ ہوتی ، وہ تو اس حویلی کے اندر ‘ باہر کے سارے رازوں سے واقف تھیں۔ ان سے بھی، جن سے راجہ اشعر بھی نہیں تھے۔
’’ ضرار کے پاس، اپنی زوجہ کو لے کر جاؤ ۔ ‘‘ ان کے پاس بس یہی چارہ بچا تھا۔
دوسرا وقت ہوتا تو راجہ اشعربھی شاید اعتراض کرتے مگر اب تو انہیں اولاد نرینہ چاہیے تھی اور کسی بھی حال میں چاہیے تھی ۔
اور ان کی ضد ان کے گھر میں اندھیرے لے آئی تھی ۔ جو چیز غیر اللہ سے مانگی جائے ، وہ بھلا کیا برکت لے کر آئے گی ۔ ان کی تیسری بیوی کے یہاں پھر سے امید بندھی تھی ۔ اس بار انہوں نے پھول نہیں بچھائے تھے، کالے دھاگے باندھنے شروع کر دیے تھے ۔ چلّے کاٹے گئے اور پھول مرجھانے لگے ۔ روزانہ ضرار آتا اور ان کی بیوی کو ڈاکٹر کی طرح چیک کرتا ۔ ان کا گھر پاک کرتا اور ان کو یقین دلا کر چلا جاتا کہ اس بار بیٹا ہی ہوگا ۔ ساتویں مہینے میں یہ امید پھر سے دم توڑ گئی ۔ ڈاکٹر نے کہہ دیا کہ یہ بچہ نہیں بچے گا۔
اس بار فضیلہ بیگم ضرار کو لے آئیں ۔ اس نے تیسری بیوی کی مسہری کے گرد چلا کاٹا اور کچھ دیر بعد دائی نے بیٹے کے پیدا ہونے کی خوش خبری ان کو آ کر سنائی۔
سانس تھا کہ پھر بھی اٹکا پڑا تھا ۔ دو دن تک بچے کی شکل کسی خدشے کے تحت نہ دیکھی تھی۔ دو دن بعد اس کو گود میں لیا تاکہ تسلی کریں کہ سچ میں اولاد نرینہ سے نوازے گئے تھے۔
مگر خوشی پھر بھی زیادہ دیر نہیں ٹھہری۔ بھلا جس حویلی میں خوشیوں کو چلوں کے ساتھ کاٹا گیا ہو، وہاں وہ بہار کی طرح سدا کیسے بسیرا کر سکتی تھی؟ غازی کی ماں اس کے نام رکھنے کے کچھ دن بعد ہی یہ دنیا چھوڑ کر چلی گئی اور پھر خوشیاں بھی جیسے ان سے روٹھ ہی گئی ۔ان کی تیسری بیوی راجہ اشعر کی محبوبہ تھی، لہٰذا صدمہ بھی گہرا تھا۔ اب احساس ہو رہا تھا کہ انہوں نے کیا کر دیا تھا ۔ رہی سہی کسر غازی کے رویے نے پوری کر دی۔
’’ راجہ صاحب! یہ بچہ تو روتا ہی نہیں ۔ ‘‘ غازی کی آیا ایک دن ان کے پاس آ کر بولی تھی۔
’’ کچھ بچے قدرتی طور پر صبر والے ہوتے ہیں ۔ ‘‘ یہ امّاں بی تھی۔
راجہ اشعر کے دل میں کھٹکا سا آ گیا تھا ۔ وہ غازی کو بڑی گھاک نظروں سے دیکھنے لگ گئے تھے۔ ورنہ کون تھا جو مردے کو زندہ کرسکتا تھا ؟ سب جانتے تھے کہ ضرار شیطان کا پجاری تھا ۔ نسل قائم رکھنے کے لیے انسان کو بہت کچھ کرنا پڑتا ہے، ورنہ مرنے کے بعد ان کو تو سب نے بھلا دینا تھا ۔
پھر جیسے جیسے غازی بڑا ہوتا جا رہا تھا، ان کو احساس ہو رہا تھا کہ نسل بچانے کی کہیں انہوں نے زیادہ قیمت تو نہیں چکادی ؟ وہ کبھی نہ رونے والا بچہ، پتہ نہیں کتنی دیر تک خلاؤں میں گھورتا رہتا۔
پہلے انہیں شک ہوا کہ کہیں غازی ابنارمل تو نہیں ۔ ڈاکٹر کو دکھایا گیا تو کچھ ہاتھ نہ آیا۔
’’ راجہ صاحب! آپ کا بیٹا بالکل صحت مند، نارمل ہے ۔ بس کچھ بچے تھوڑے الگ ہوتے ہیں ۔ ان کی نارمل گروتھ دوسرے بچوں سے الگ ہوتی ہے ۔ اس کو باہر لے کر جائیے، دوسرے بچوں سے انٹریکشن کروائیے ۔ خاص طور پر اس کی عمر کے بچوں سے۔‘‘
راجہ اشعر نے ایسا ہی کیا ۔ کچھ قریب اور دور کے بچوں والے رشتے داروں کی دعوتیں کی گئی ۔ علاقے میں بھی دیکھا گیا کہ کون سا بچہ غازی کا ہم عمر ہے ، مگر کوئی بھی مستقل تو نہیں ٹھہر سکتا تھا ۔ اس سے اور تو کچھ نہیں ہوا، مگر غازی مزید چھپنے لگ گیا ۔ اس کو ایسے جیسے لوگوں سے ڈر لگتا تھا ۔ اور جب وہ کھیلتا بھی تھا تو اپنی شرطوں پر۔
ایسے ہی کچھ دنوں میں پہلا واقعہ ہوا، جو بہت سارے واقعات کی کڑی بن گیا ۔ کچھ رشتے دار بچوں سے کھیلتے ہوئے نہ جانے کس بات پر بچوں کا جھگڑا ہوا‘ شاید کھلونوں پر … اور مادی چیزیں تو شروع سے ہی نسل انسانی میں جھگڑے کا باعث بنتی آئی ہیں ۔ چھوٹے بچے کیسے اس فطرت انسانی سے بے خبر رہتے ؟ غازی نے اس کھلونوں کے جھگڑے میں، ایک رشتے دار بچے کو اتنا مارا کہ اس کے سر سے خون نکلنے لگ گیا ۔ اس وقت اس کی عمر صرف چار سال تھی۔ بھلا چار سال کے بچے میں اتنی جان کہاں سے آ گئی ۔ بات وہاں ختم نہیں ہوئی ۔ غازی کی بات نہ ماننے والا ہر انسان اسی طرح کے انجام کا شکار ہوتا ۔ ایسے جیسے کوئی بندھ تھا،جو کھل گیا۔
ایک بار تو ایک ملازم بچے جس کو خاص طور پر غازی کے لیے ہی رکھا گیا تھا، اس نے اتنا برا مارا کہ وہ دس سال کا بچہ بے ہوش ہی ہو گیا ۔ اس وقت غازی کی عمر صرف سات سال کی تھی ۔ اس کے بعد سے سب اس سے دور دور رہنے لگ گئے تھے۔

1 2 3 4اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے