افسانے

کرچیاں : راضیہ سید

’’کیا بات ہے کامران آج کچھ پریشان لگ رہے ہو ، تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے ؟ یا وہی گھر کے مسائل کی وجہ سے فکرمند ہو ؟ ‘‘ تبریز لنچ کا پوچھنے کامران کے پاس آیا تو اسے پریشان دیکھ کر پوچھا۔
تبریز کامران کا بچپن کا دوست اور اب کولیگ بھی تھا ۔ ایک دوسرے کے گھروں میں بھی آنا جانا لگا رہتا تھا لہٰذا ایک کے مسائل دوسرے سے پوشیدہ نہیں تھے ۔ گہرے دوست ہونے کی وجہ سے ایک کی پریشانی دوسرے کا اطمینان بھی ختم کر دیتی تھی ۔ کامران خوش شکل ہونے کے ساتھ ساتھ ہمدرد اور حساس دل بھی رکھتا تھا ۔ لیکن قسمت نے اس کا ساتھ نہیں دیا تھا ۔ وہ اپنی آفس کولیگ غزل کو پسند کرتا تھا لیکن اماں نے اپنی پسند سے اس کی شادی ہزاروں رشتے ٹھکرانے کے بعد سنبل سے کر دی تھی ‘ جو حسن و جمال میں اپنی مثال آپ تھی۔ وہ خوبصورت تو تھی ہی لیکن اپنے حسن پر نازاں بھی تھی سو اصل مسئلہ یہی تھا۔
کامران کا دل تو لنچ کرنے کو بھی نہیں چاہ رہا تھا لیکن تبریزکے بے حد اصرار پر چند لقمے زہر مار کر کے بولا ۔
’’بس کیا بتائوں اماں اور سنبل دونوں میں ان بن ہوئی رہتی ہے ایک سیر ہے تو دوسرا سوا سیر ۔ مجال ہے کہ کوئی بھی ہار مان لے ۔ ‘‘ وہ بے بسی سے ہاتھ ملنے لگا۔
’’ اچھا اب ایسا بھی کیا ہو گیا ۔ بات کیا اب روایتی جھگڑوں سے بھی آگے نکل گئی ہے جو اب تمہارا گھر جانے کو بھی دل نہیں کرتا ۔ آفس میں اوور ٹائم بھی لگانے لگے ہو‘ پیسوں کا کچھ مسئلہ تو نہیں ہے ناں ؟ ‘‘تبریز نے دریافت کیا تو کامران نے پریشانی سے سر تھام لیا۔
’’ بات آج نہیں تو کل ضرور بڑی ہو جائے گی ۔ گھر جاتا ہوں تو اماں سنبل کی شکایتیں لگاتی ہیں ، سنبل اپنی ماں کو فون کر رہی ہوتی ہے ۔ گھر میں نہ کھانا پکا ہوتا ہے اور نہ ہی صفائی ستھرائی ۔ اماں کا یہ الزام کہ سنبل کام نہیں کرتی اس پر سنبل کے جوابی وار کہ مجھے تو اپنے گھر میں بھی کام کرنے کی عادت نہیں تھی ۔ برتن دھونے سے میرے ہاتھ خراب ہو جائیں گے اور کھانا پکانا مجھے نہیں آتا ۔ اس سب میں بچے اور میں پس کر رہ گئے ہیں ۔ ان عورتوں کی لڑائی میں میرا کباڑا ہو کر رہ گیا ہے ۔ اگر میں مزید اس گھر میں رہا تو لگتا ہے کہ پاگل ہو جائوں گا۔‘‘
’’اچھا تم فکر نہیں کرو یار سب ٹھیک ہو جائے گا تم کہو تو میں تمہاری بھابھی کو کہوں کہ وہ بھابھی کو سمجھائے ۔ گھر ایسے تو نہیں بنتے یار بہت قربانیاں دینی پڑتی ہیں ۔ بہت سنبھل کر قدم اٹھانا پڑتے ہیں ۔ تم میری بات سمجھ رہے ہو اگر تم اپنے گھر کا مسئلہ ہینڈل نہیں کر پائو گے تو مجھے دوست ہونے کے ناطے کچھ تو کرنا پڑے گا ناں ۔ ‘‘ تبریز اب واقعی پریشان ہو گیا تھا۔
’’نہیں تبریز تم کیا کر لو گے اور بھابھی کے سمجھانے سے سنبل اور چڑ جائے گی ۔ اماں کو بھی چاہیے کہ اس کے ساتھ تھوڑا سمجھوتہ کریں ۔ سنبل بھی چھوٹے چھوٹے بچوں کو سنبھالتی ہے مانا کہ سنبل بھی ٹھیک نہیں کر رہی ‘ کوکنگ تو کم سے کم سنبل کو ہی کرنا چاہیے ۔ کہیں میں کوئی سخت فیصلہ کرنے پر مجبور ہی نہ ہو جائوں ۔ ‘‘ کامران کا انداز حتمی تھا۔
تبریز نے ہمیشہ کی طرح اسے تسلی دی اور وہ گھر آگیا ۔سنبل کو پیار سے سمجھایا اور منتیں کی کہ یہ لڑائی جھگڑے چھوڑ دو ۔ چند دن تو سکون سے گزرے لیکن پھر وہی روٹین شروع ہو گئی ۔
آج بھی ناشتے کے لئے باہر آیا تو اماں باورچی خانے میں غصے سے پیچ و تاب کھا رہی تھیں ۔
’’تم اٹھ گئے اور تمہاری مہارانی بیگم اب تک آرام فرما رہی ہیں ۔ تمہاری بوڑھی ماں کھانے پکائے اور وہ سوتی رہے۔ لیکن تمہیں اس سب سے کیا؟ ‘‘
’’جی اماں مجھے کیا، سنبل آپ کی پسند تھی میں نے تو شو پیس کی تمنا نہیں کی تھی ۔ آپ نے ہی کہا تھا کہ میں گوری پتلی اور لمبی بہو لائوں گی ۔ میں تو غزل کے لئے سیریس تھا لیکن آپ نے مان کر ہی نہ دیا ۔ آپ کی ضد کی وجہ سے تو یہ دن دیکھنا پڑ رہا ہے ۔ ‘‘ کامران کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو چکا تھا۔
سنبل واش روم سے نکل کر سیدھی کچن میں آئی ۔
’’اچھا اب مجھے پتہ چلا کہ آپ کے دل میں تو وہ آفس کولیگ بسی ہوئی ہے ۔ سب لوگ ہمیشہ مجھے غزل کے بارے میں بتاتے تھے ‘ لیکن میں نے کبھی اعتبار تک نہ کیا تھا ۔ یعنی میں آپ کی اماں کی پسند تھی ۔ اب تو میں اس گھر میں ایک پل نہ رکوں گی ۔ میرے باپ اور بھائیوں کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ وہ مجھے اور میرے بچوں کو پال سکتے ہیں ۔ ‘‘ سنبل بلند آواز سے رونے لگی ۔
کامران اور اماں نے منت سماجت کر کے سنبل کو گھر روکا ۔ سنبل رک تو گئی تھی لیکن اس کا مزاج سوا نیزے پر تھا۔ کامران اس سب سے ذہنی طور پر بہت پریشان ہو گیا تھا ۔ وہ دودن سے آفس بھی نہیں جا رہا تھا اور تو اور تبریز سے بھی سرد مہری سے بات کی تھی ۔
کامران رات سے اسٹڈی روم میں بند تھا اور اس نے رات کے کھانے سے بھی منع کر دیا تھا ۔ سنبل اس کا ناشتہ بنانے کچن میں چلی گئی ۔ کچھ بھی تھا ماں اور بیوی دونوں ہی اس سے بہت پیار کرتی تھیں لیکن ایک دوسرے کی اہمیت اور حیثیت کو تسلیم کرنا نہیں چاہتی تھیں۔
اماں جائے نماز پر بیٹھی نفل پڑھ رہی تھیں اور سنبل ناشتہ کی ٹرے لے کر اسٹڈی روم کی طرف جا رہی تھی کہ اس کی چیخوں نے اماں کو بھی ہولا دیا ۔ وہ بھاگ کر سنبل کے پیچھے آئیں تو اسٹڈی روم کی چھت کے پنکھے سے کامران کی لاش لٹک رہی تھی ۔ کامران موقع پر ہی دم توڑ چکا تھا ۔
دو عورتوں کے درمیان اختیارات کی جنگ نے گھر کے مرد کو موت کی نیند سلا دیا تھا ۔ ساس بہو کے آپسی جھگڑوں اور طعنہ زنی نے کامران کے وجود کو کرچیوں میں بانٹ کر چکنا چور کر دیا تھا اور ایک ہنستا بستا گھر ماتم کدے میں تبدیل ہو گیا تھا۔

ختم شد

Related Articles

One Comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page