افسانے

عید اپنوں کے سنگ : ظل ہما

’’ ماما ، ماما نیچے والے پورشن میں ایمبولنس آئی ہے۔ ‘‘ گیارہ سالہ شہیر دوڑتے ہوئے باورچی خانے میں آیا تو افطاری کی تیاری کرتی ثمینہ چونک گئیں۔
’’ الٰہی خیر،سب ٹھیک ہو۔‘‘ وہ زیر لب بڑبڑاتی گلی کی طرف کھلنے والی کھڑکی میں جا کھڑی ہوئیں اور نیچے جھانکنے لگیں ۔ ایمبولنس گلی کا موڑ مڑ رہی تھی ۔ پریشان سی واپس پلٹ رہی تھیں کہ ظہیر صاحب ستا ہوا چہرہ لیے پریشانی سے چلتے باورچی خانے میں آ گئے۔
’’ ثمینہ، ماریہ کو ایمرجنسی شوکت خانم لے گئے ہیں ۔ اس کی حالت کافی خراب ہے ۔ کینسر دوسری سٹیج پر پہنچ چکا ہے ۔ نچلے پورشن میں تو رونا دھونا مچا ہوا ہے۔ ‘‘
دل گرفتگی سے بولتے ظہیر صاحب کی باتیں سنتے ثمینہ ساکت کھڑی تھیں۔مکافات عمل کا سنا تھا مگر آج اپنے سامنے دیکھ بھی لیا تھا۔
ماضی کسی فلم کی طرح ان کے ذہن میں چلنے لگا ۔ سکینہ خاتون نے بھانجی ماریہ کو بیاہتے ہی بڑی بہو ثمینہ سے امتیازی سلوک شروع کر دیا ۔ کام سے دل چرانے کے علاوہ ماریہ جیٹھانی کا احترام کرنے سے بھی گریز کرتی ۔ ذرا سی خلاف مزاج بات پہ بدتمیزی کر جاتی مگر ثمینہ حتی الامکان درگزر سے کام لیتیں ۔ ایک دن سکینہ بیگم کی نا انصافی سے تابوت میں آخری کیل بھی ٹھک گئی ۔ اس دن ظہیر خلاف معمول دکان سے جلدی واپس آگئے تو ثمینہ کو ساس اور دیورانی کے سامنے سر جھکائے بے بھاؤ کی سنتے پایا ۔ بات کی تہہ میں جا کر انہیں ثمینہ بالکل بے قصور محسوس ہوئیں ۔ انہوں نے ادھر ہی کھڑے کھڑے حتمی فیصلہ کر لیا ۔ اوپر کے پورشن کی ضروری مرمت اور تبدیلیاں کروا کر اگلے ہی دن وہ بیوی بچوں کے ساتھ اوپر منتقل ہو گئے ۔ اس پورشن کی سیڑھیاں پہلے ہی گھر کے باہر سے جاتی تھیں سو کسی بھی قسم کی دخل اندازی ختم ہو گئی۔
والد کی وفات کے بعد ظہیر اور نصیر دونوں بھائی کاروبار مل کر، کر رہے تھے سو یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا ۔
’’ نیچے اماں بہت پریشان ہیں ۔ مسلسل رو رہی ہیں ۔ رمضان کے بابرکت مہینے میں اللہ تعالیٰ کی جانے کیسی آزمائش ہے کہ اپنا گھر بار اور چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ کر ماریہ کو اس طرح ہسپتال جانا پڑا۔ ‘‘ ظہیر صاحب کی پریشانی میں ڈوبی آواز ثمینہ کو ماضی سے حال میں کھینچ لائی ۔ ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے انہوںنے ایک فیصلہ کیا اور گویا ہوئیں۔
’’ ظہیر میں نیچے چلوں اماں کو اور ماریہ کے بچوں کو تسلی دینے؟‘‘ جواباََ ظہیر صاحب کی آسودہ مسکراہٹ اور مشکور نظروں نے انہیں بھی مطمئن کر دیا اور وہ ان کی ہمراہی میں نیچے کی سیڑھیوں کی طرف چل پڑیں۔
’’ مجھے معاف کر دو بیٹی، میں نے اور ماریہ نے تمہارے ساتھ جو زیادتیاں کی ہیں یہ شاید انہی کا نتیجہ ہے کہ آج چھوٹے معصوم بچے ماں کے وجود کو ترس رہے ہیں۔‘‘ سکینہ بیگم نے روتے ہوئے بہو کے آگے ہاتھ جوڑے تو ثمینہ نے جلدی سے آگے بڑھ کر ان کے ہاتھوں پر ہاتھ رکھ دیئے ۔
’’ نہیں امی جان ایسے نہ کہیں۔ میں نے رمضان کے بابرکت مہینے کے صدقے پچھلی تمام باتیں درگزر کیں ۔ آپ بھی انہیں چھوڑیں اور مجھے ماریہ کے بارے میں بتائیں ۔ اسے ایک دم اچانک اتنی بڑی بیماری کیسے لگ گئی ۔‘‘
’’ بس بیٹی کیا بتاؤں کچھ ماہ پہلے اسے بغل کے اندر درد اور گلٹی محسوس ہوئی ۔لاپرواہی میں نظر انداز کرکے درد کش دوائیاں کھاتی رہی ۔ مرض بڑھا تو ڈاکٹر کے پاس گئی ۔ اس نے ضروری ٹیسٹ کر کے چھاتی کا کینسر تشخیص کیا ۔ اور دوائیاں کھانے کے باوجود نامراد پہلی سٹیج سے دوسری سٹیج تک پہنچ گیا ۔ آج تو درد کی شدت سے بے ہوش ہو گئی ۔ نصیر نے فٹا فٹ ایمبولنس بلائی اور شوکت خانم لے گیا ۔ جہاں سے اس کا علاج چل رہا ہے ۔ ہائے میرے چھوٹے چھوٹے پوتے۔‘‘ سکینہ بیگم بات ادھوری چھوڑ کر رونے لگیں تو ثمینہ انہیں چپ کرواتے گھر کا جائزہ لینے لگیں ۔
کنال کے وسیع و عریض رقبے پر بنا جدید ساز و سامان سے آراستہ عالی شان پورشن مالکن کی عدم توجہی اور لاپرواہی کی عملی تفسیر بنا ہوا تھا ۔ قیمتی سامان جا بجا بکھرا ہوا تھا اور چیزوں پر جمی گرد اس بات کی گواہی دے رہی تھی کہ مدت سے خاتون خانہ کے ہاتھ نہیں لگے ۔ بچے گندے سندے حلیے میں پریشان سے پھر رہے تھے ۔ ثمینہ نے کچھ سوچ کر جھاڑن ڈھونڈی اور سب سے پہلے ضروری چیزوں کو پونچھ کر ایک ٹھکانے پر لگایا ۔ بچوں کے کھلونے سمیٹ کر ایک طرف رکھے اور انہیں نہلا دھلا کر صاف ستھرے کپڑے الماری سے نکال کر پہنائے ۔ تینوں اوپر نیچے کے لڑکے ماں کے نہ ہونے سے اداس تھے ۔ انہیں صاف ستھرا کرکے ٹی وی پر کارٹون لگا کر بٹھایا ۔ پھر سکینہ بیگم سے سحری کی بابت دریافت کیا ۔ انہوں نے بتایا کہ جوں رمضان شروع ہوا تھا ،ماریہ کی طبیعت خراب ہی چل رہی تھی ۔ ملازمہ آتی مارے باندھے صفائی اور برتن صاف کر کے چلی جاتی اور مشکل سے ماریہ سحری اور افطاری کا کام نمٹاتی تھی ۔ ثمینہ باورچی خانے میں گئیں تو اس کی ابتر حالت دیکھ کر ایک دفعہ تو چکرا گئیں ۔ اللہ کا نام لے کر ہمت مجتمع کی اور دھونے والے برتن اکٹھے کر کے سنک میں رکھے ۔ سلیب صاف کیے ۔ مصالحہ جات کے ڈبے ان کے ٹھکانے پہ رکھے ۔ تیل والی کڑاہیوں کو ڈھک کر ان کی جگہ بنائی اور برتن دھونے شروع کر دیے ۔ فریج کھول کر جائزہ لیا تو سحری کے لیے آٹا بھی نہیں تھا ۔ اس کے بعد دہی جمایا اور کچھ مزید ضروری تیاریاں کر کے دروازہ بند کر کے باہر آگئیں ۔ ماریہ کے سب سے چھوٹے چھ سالہ ریان کو فیڈر پلا کر بمشکل سلایا اور سکینہ بیگم کو بتا کر اوپر اپنے پورشن کا رخ کیا۔
یہاں سے ثمینہ کا اصل امتحان شروع ہوا ۔ دونوں پورشن میں سحری اور افطاری کی روٹین کو مینج کرنا شروع میں بہت مشکل ثابت ہو ا۔ لیکن پھر انہوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ اپنے چاروں بچوں اور ظہیر صاحب کے ساتھ سحری اور افطاری نیچے کے پورشن میں کرنی شروع کر دی ۔ روزہ رکھنے کے بعد کچھ دیر آرام کرتیں ۔ پھر اٹھ کے اپنے پورشن کے ضروری کام نمٹا کر اور کھانے پینے کا ضروری سامان لے کر نیچے آ جاتیں ۔ پھر افطاری کے وقت تک سکینہ بیگم اور ماریہ کے بچوں کی دیکھ بھال کرتیں ۔ ساتھ ساتھ ملازمہ سے اپنی نگرانی میں صفائی اور برتنوں برتنوں کا کام کرواتیں ۔ بیماری کے باعث سکینہ بیگم روزہ نہیں رکھتی تھیں سو ساتھ ساتھ ان کے کھانے پینے کا بندوبست بھی کرنا ہوتا ۔ ان کی بڑی چودہ سالہ بیٹی آمنہ بھی ماں کی حتی امکان مدد کروانے کی کوشش کرتی لیکن سکول میں اس کی فرسٹ ٹرم چل رہی تھی سو وہ ایک حد تک ہی مدد کروا پاتی ۔ افطاری میں ماریہ کے بچوں کی نت نئی فرمائشیں پوری کرنا کئی دفعہ بہت مشکل ہو جاتا ۔ اس کے تینوں بیٹے بہت ضدی اور شرارتی تھے۔
کسی کو افطاری میں چیز موموز چاہیے تھے اور کسی کو ملائی بوٹی رول ۔ چھوٹا ریان تو ماں کی غیر موجودگی کی وجہ سے اور بھی چڑچڑا ہو گیا تھا ۔ اس کو سنبھالنا بھی ایک مشکل کام تھا ۔ ثمینہ کی نیک نیتی اور خلوص کی وجہ سے اللہ تعالی نے ان کی مدد فرمائی اور رمضان کی بابرکت مصروفیات میں روزے رکھنے کے ساتھ خوش اسلوبی سے سارے کام انجام پا گئے ۔ اس ساری روٹین کے ساتھ وہ کئی دفعہ ہسپتال میں ماریہ کا پتہ بھی کرنے گئیں ۔ جہاں اس نے جیٹھانی سے ہاتھ جوڑ کر اپنے برے سلوک کی معافی مانگی تو ثمینہ نے بھی اسے کھلے دل سے معاف کر دیا ۔ ماریہ کی حالت اب بہتر تھی ۔
پھر جب سارا پاکستان چاند نظر آنے کی خوشی منا رہا تھا تو کھوکھر ہاؤس کے باہر ایمبولنس آ کر رکی ۔ ماریہ کے بچے ماں کو صحیح سلامت اپنے سامنے دیکھ کر کھلکھلا اٹھے ۔ ساس سے ملنے کے بعد ماریہ نے جیٹھانی کو گلے لگا کر چاند کی مبارک دی اور ایک دفعہ پھر بہت شکریہ ادا کیا ۔کھوکھر ہاؤس کے در و دیوار بھی اس خوبصورت ملاپ پر مسکرا دیے ۔ یقینا یہاں کے مکینوں کے لئے عید کے خوبصورت لمحات بہت خوشگوار ہونے والے تھے۔
ختم شد

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page