ممتا کے رنگ : زرش نور
’’باجی!تیرے مُنڈے جِیوَن …سوہنی باجی!‘‘
دعا کی تال سے تالی کی تال ملاتی ریشماں نے آس بھری نگاہ سے اُس نیلے ڈوپٹے والی میڈم کو دیکھا، جس نے ایک ہاتھ میں تین چار شاپنگ بیگ پکڑ رکھے تھے اور دوسرے ہاتھ سے تین سالہ بچے کی انگلی تھام رکھی تھی ۔ وہ ابھی گلی کے نکڑ پر تھی ۔ شاپر سے جھانکتا پلاسٹک کا بلا اور گیند یقیناً بچے کی عید کا تحفہ تھا ۔ ریشماں نے بچے کی شکل نہیں دیکھی لیکن اُسے ماں کے پہناوے سے گھر کی حالت معلوم ہو رہی تھی۔
’’ اللہ سوہنے دا صدقہ باجی!! ‘‘
چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی ریشماں اس میڈم کے پاس جا پہنچی ۔ مگر وہ اس کی صدا پہ پلٹے بنا گلی کا موڑ مڑ چکی تھی ۔ آج دن میں تیسری بار بھی ریشماں کے ہاتھ خالی تھے ۔ اُس نے اپنے پرس سے چھوٹا شیشہ نکالا اور اپنا آدھا ادھورا سراپا دیکھنے لگی ۔پٹڑی زدہ ہونٹوں پہ جمی سوکھی لپ اسٹک بالکل اچھی نہیں لگ رہی تھی ۔لال غازے پہ گرمی کی لالی غالب آئے کئی گھنٹے بیت چکے تھے ۔رہی سہی کسر دائیں آنکھ کی سوجن پوری کر رہی تھی ۔کم بخت کوئی کیڑا اُسے رات میں کاٹ گیا تھا۔
’’ اللہ سوہنیا! کوئی سبیل بنا دے ۔ بختو راہ اُڈیک رہی ہو گی۔‘‘
دل ہی دل میں دعا کرتی ریشماں بازار کی دوسری گلی سے باہر نکل آئی ۔ آج انتیسواں روزہ تھا اور کل عید ہونے کا قوی امکان تھا ۔ تین دن سے بختو اسہال میں مبتلا تھی ۔ ریشماں نے تینوں دن دو وقت کی کھچڑی جیسے تیسے کر کے پوری کی تھی ۔ لیکن آج شاید کھچڑی بھی نہیں بن پانی تھی ۔ اس نے ظہر سے پہلے مسجد کے باہر پورے چار چکر لگائے تھے، لیکن چالیس روپے بھی اکھٹے نہیں ہو پائے ۔ وہ تو شکر ہے اس پہ مولوی صاحب کی نظر نہیں پڑی، ورنہ اسے خالی پیٹ جھڑکیاں کھانی پڑتیں ۔ اب بازار کی گلیوں میں گھومتے عصر کے بعد کا وقت تھا۔
بختو کا خیال اسے پل پل ستا رہا تھا ۔جس دن گرو نے اُسے ریشماں کے سپرد کیا تھا اسی دن ریشماں میں ممتا نے جنم لیا تھا ۔ خود سے سولہ سال چھوٹی بختو اسے جہان بھر سے پیاری تھی ۔ بختو کے بخت روشن کرنا تو اس کے بس میں نہیں تھا، لیکن اس کے چہرے پہ مٹھی بھر مسکان لانا اسے خوب آتا تھا۔ اگر آج کمائی ہو جاتی تو وہ بختو کے لیے کلائی بھر لال چوڑیاں خریدتی۔
آخر آج چاند رات متوقع تھی۔
لیکن ایک کے بعد دوسری اور اب وہ تیسری دکان کے سامنے تھی ۔ بے انتہا رش میں حدِ نگاہ تک دِکھتے سر ہی سر، موٹر سائیکلوں کے ہارن، بھانت بھانت کی آوازیں اور پرس میں پڑے چند مڑے تڑے نوٹ ریشماں کے اعصاب شل کرنے لگے تھے۔
اس سے پہلے کے آنسو پلکوں کی باڑ توڑتے دو ننھے ہاتھوں نے مضبوطی سے اُسے قمیص سے جکڑ لیا۔
آنسوؤں سے تر چہرہ لیے، ڈرا سہما سا وہ تین سالہ بچہ اس رش میں اپنی ماں سے نجانے کب بچھڑا ۔ ریشماں نے اسے گود میں اٹھا لیا ۔ افطار کا وقت قریب تھا اور اس سمے دو دکانوں سے آگے دستر خوان لگنے لگے تھے ۔ اس نے دکاندار کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا مگر بھرے رش میں وہ اپنی گاہکی چھوڑ کر اک ہیجڑے کو تھوڑی دیکھتا۔
اگلے ہی پل اُس کے قدم مسجد کی طرف مڑ چکے تھے ۔ ابھی افطاری میں پانچ منٹ باقی تھے جب اُس نے دروازے سے باہر صدا لگائی۔
’’ اللہ سوہنے دے واسطے میری گل سُن لئیو۔‘‘
اُس نے اپنی مخصوص آواز میں کہا ۔کچھ روزہ داروں نے اسے مڑ کے دیکھا اور کچھ ہنوز اپنی دعاؤں میں مشغول رہے ۔ آخری صفوں میں بیٹھے دو تین روزے دار اسے خفگی سے دیکھ رہے تھے۔ وہاں سے ملی جلی آوازیں آنے لگیں:
’’ سارا دن مانگ مانگ کے پیٹ نہیں بھرا۔ ‘‘
’’ دیکھو بچہ بھی اٹھا رکھا ہے۔ یہ ان کے دھندے کا کوئی نیا گُر ہے۔‘‘
’’ اللہ کا خوف ہی نہیں ان لوگوں کو ۔ روزہ خراب کرنے کے لیے یہی وقت ملا تھا۔ ‘‘
تبھی سائرن بجنے لگا اور ریشماں کی آواز حلق میں ہی کہیں دبی رہ گئی ۔ اُس کے دل کی دھڑکن تیز ہونے لگی تھی ۔ وہ پُرنم آنکھوں سے مسجد کے محراب کو دیکھنے لگی اور ہولے سے بولی۔
’’ تیرا خوف ہے تبھی اس لعل کو رُلنے سے بچا رہی ہوں ۔ ورنہ ریشماں نہیں جانتی گُردوں کے بھاؤ کو۔ ‘‘
وہ تھکے تھکے قدموں سے اُس گلی سے نکل آئی ۔ بازار کی رونقیں جوں کی توں تھیں ۔ بلکہ اب تو رش میں اور اضافہ ہونے کو تھا ۔ اپنا پرس ٹٹولا تو دو سوکھی کھجوریں ہاتھ میں آئیں ۔ نجانے کب بختو نے اپنے حصے کی کھجور اس کے پرس میں ڈالی تھی ۔ اُس کا ضبط ٹوٹ گیا اور وہ وہیں بیٹھ کر رونے لگی ۔گود میں بیٹھا بچہ ریشماں کی پکڑائی ہوئی دونوں کھجوریں کھا چکا تھا اور اب کھانے کے لیے اس سے مزید کچھ مانگ رہا تھا ۔تبھی دکاندار کی نظر اُس پہ پڑی۔
’’ ایک تو ہے جو ہٹی کٹی ہو کر رو رہی ہے ۔ ایک وہ ہے جو اندر بے ہوش پڑی ہے ۔ گھنٹہ پہلے بے چاری کابچہ گم گیا۔ تیرا کیا گم ہوا ہے جو ایسے رو رہی ہے ۔ پیسے زیادہ مل گئے ہیں کیا ؟ ‘‘
اُس نے بے یقینی سے آسمان کو دیکھا پھر وہ یکایک کھڑی ہوئی اور اُس نے پرس سے مڑے تڑے نوٹ نکال کر دکاندار پہ وار دیے۔
’’ شالا تیرے بچے جِیوّن۔‘‘
رندھی ہوئی آواز میں کہتے وہ دکان کے اندر جا پہنچی ۔ اک سٹول پہ نیلے ڈوپٹے والی وہی میڈم آڑھی ترچھی سی بیٹھی تھی ۔ قدموں میں پڑے شاپروں سے جھانکتا پلاسٹک کا بلا اور گیند ریشماں کچھ دیر پہلے بھی دیکھ چکی تھی۔
اس نے بچے کا منہ چوما اور اسے اُس ماں کی گود میں پکڑا دیا ۔ ماں چیخ مار کے اپنے بچے کو آغوش میں بھر چکی تھی ۔ وہ اسے والہانہ چومتے سارا جہان بھول گئی تھی ۔تبھی اس نے سر اٹھا کے ریشماں کو دیکھا اور ممتا کے ست رنگی رنگوں سے سجا اس کا چہرہ دیکھ کر پھر سے رونے لگی۔
ریشماں کا من ہلکا ہو چکا تھا ۔ اس کے قدم گھر کی طرف تھے، جہاں بیٹھی بختو اُس کی منتظر تھی ۔ بختو نہیں جانتی تھی کہ یہ عید سچ میں مبارک ہے ۔ اسے علم نہیں تھا کہ اک ماں ممتا کے رنگ پہچان کر اُس کی ریشماں ماں کو سویوں کے ساتھ ساتھ نیا جوڑا اور لال چوڑیاں بھی دلوا چکی ہے۔
ختم شد
Boht khoob .. heart touching ❤️
بہت عمدہ اور دلچسپ افسانہ