کنافہ : عندلیب زہرا
سفید اور گلابی پھولوں سے سجے گھر میں کنافہ کی میٹھی خوشبو پھیلی ہوئی تھی ۔ اس کی حس شامہ نے وہ خوشبو اپنے اندر جذب کی اور پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔
’’عید مبارک۔‘‘ ماں نے پیشانی پر محبت ثبت کی تھی ۔ سارے گھر میں بسبوبہ اور قطایف کی خوشبو رقصاں تھی ۔ وہ سب تیار ہو کر عید کی نماز کے لیے مسجد اقصی جا رہے تھے ۔ صبح بہت اجلی اور فضا نکھری ہوئی تھی ۔ اچانک اسے کوئی چیز زور سے چبھی تھی۔
’’آہ…‘‘ اس کی زبان سے بے ساختہ نکلا ۔وہ امدادی کیمپ میں تھی۔
’’یہ خواب۔‘‘ اس نے سر جھٹکا تھا۔
دور سے مسجد کا سنہرا گنبد نظر آ رہا تھا ۔ہر خاندان ادھورا تھا ۔ ہر شخص دل شکستہ ، ہر کسی کے دامن میں کوئی نہ کوئی درد پنہاں تھا۔ لیکن کھلی ہتھیلیوں پر مانگی جانے والی دعا مشترک تھی۔
یہ روحوں کا ربط تھا یا دلوں کا تال میل ، لب خاموش تھے لیکن جیسے سب ایک تار سے بندھ گئے تھے ۔ مسجد اقصیٰ کی مقدس فضا میں دعائیں جمع ہو رہی تھیں ۔وہ خاموشی سے اپنی گلابی ہتھیلیوں پر دعاؤں کے پھول جمع کر رہی تھی ۔ جب وہ شفاف آئینے بن گئیں ۔ اتنی شفاف،اتنی چمک دار کہ اس کی آنکھیں جھلملانے لگیں ۔ اور ایک منظر روشن ہو گیا۔
وہ منظر بہت چمکدار تھا اور روشن۔
’’ غزہ کا آسمان کتنا خوبصورت ہے ناں۔‘‘ اس نے بازو پھیلا کر گھومتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں ۔
حماد اسے مسکراتی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ وہ ایسی ہی تھی۔شوخ و چنچل،جذباتی،سراپا محبت…
’’ یاد ہے میں نے تمہیں پہلی بار عید کی نماز مسجد اقصی میں ادا کرتے دیکھا تھا۔‘‘فاطمہ نے اسے یاد کروایا۔
’’مجھے لگتا تھا یہ سبز آنکھوں والی بلی مجھ سے دوستی نہ کرے گی ۔ ‘‘حماد نے اسے چھیڑا۔
’’اور تم اس مغرور لیلیٰ کے لنچ باکس سے کبھی سماقیہ تو کبھی سالک و اداس اڑا لاتے۔‘‘
’’چوری کہاں کی تھی ۔بس یہ کہا تھا کہ لاؤ تمہارے لنچ باکس کی حفاظت کروں ۔ ‘‘حماد کی ڈھٹائی قابل دید تھی۔
’’یہ چوری تھی۔‘‘ فاطمہ نے زور دے کر کہا تھا۔
’’تم نے بھی تو میرا دل چرا لیا تھا ۔ یاد ہے ناں۔‘‘حماد نے آہستگی سے کہا۔
’’حساب برابر ہوا ۔ بس یہ بچپن کی دوستی پلس محبت مرتے دم تک قائم رہے۔‘‘
اس نے فاطمہ کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بوجھل لہجے میں کہا جہاں محبت اور حیا کے مختلف رنگ سجے تھے ۔
اچانک فضا بارود کی بو سے بھر گئی تھی۔
فاطمہ نے چونک کر دیکھا تو وہ ماضی سے حال میں واپس آ گئی تھی ۔ اسرائیلی بمباری نے فضا گرد آلود کر دی تھی ۔ اس نے دل کی ٹیسوں کو دباتے ہوئے آنسو صاف کیے تھے۔
’’غزہ کا آسمان کتنا گرد آلود ہے۔‘‘اس نے اداسی سے سوچا تھا۔
’’میں اکثر خواب دیکھتی ہوں ۔ جس میں صرف تم اور میں ہوتے ہیں ۔ ہمارے خوب صورت لباس ، دبکہ کی محفل اور قنافہ کی میٹھی خوشبو…‘‘
اس کی ڈائری کے گلابی اوراق سنہری خوابوں سے سج رہے تھے۔
ٔٔ٭…٭
فاطمہ کا خط اس کے ہاتھ میں تھا ۔ سنگلاخ ، آگ و خون کے ماحول میں یہ الفاظ مدھر موسیقی کی مانند تھے ۔ فاطمہ کا چہرہ تحریر کے پس منظر میں ابھر رہا تھا ۔ وہ خاموش تھا ۔ جیسے یہ اس کی خواہش نہ ہو۔
’’تمہاری منگیتر تم سے عشق کرتی ہے ۔ ‘‘اس کا دوست منتظر مہدی اس کے متعلق تبصرہ کرتا۔
’’فاطمہ میری فرسٹ کزن کی سہیلی ہے ۔ پہلی بار ہم دونوں عید کے دن ملے تھے ۔ دوسری بار تب جب وہ عرفات ( بیکری) سے کیک خرید رہی تھی ۔ اس جیسی حسین پورے غزہ میں کوئی نہیں ۔ میں نے اس سے قطرہ قطرہ محبت کی ہے جب ہمارے دل ایک دوسرے کے لیے دھڑکنے لگے تو اب ۔ اس محبت جو نکالنا میرے لیے دشوار ہے ۔میرے دوست…‘‘
حماد کے لہجے میں کرب تھا۔
’’تم نکاح کر لیتے‘ محبت کو مکمل کر دیتے تاکہ وہ آس نراس میں نہ رہتی۔‘‘ منتظر نے اس کے بازو پر ہاتھ رکھ دیا۔
’’ میں اسے خود سے باندھ کر نہیں رکھ سکتا تھا ۔ میرا عقد شہادت سے ہو چکا ہے ۔ زندگی غیر یقینی ہے ۔ واپسی کے سارے دروازے بند کر آیا ہوں۔‘‘
اس نے مخصوص فلسطینی رومال گلے میں باندھ دیا جو ہر فلسطینی کی پہچان تھا۔
زرد چہرہ،خشک لب،تھکاوٹ ہر رنگ سے عیاں تھی ۔ پیروں پر سوجن ، ہاتھوں پر جابجا خراشیں تھیں ۔ بس آنکھوں کی چمک جو ماند نہ ہوئی تھی ۔ منتظر مہدی نے اس پر ایک نظر ڈالی اور خاموشی سے گدے پر لیٹ گیا ۔
جب آسمان کا رنگ شوخ ہو
فضا بہت خوش کن
سمجھ لینا
تمہارا محبوب آ رہا ہے
ہوا کے رتھ پر سوار
تمہارا محبوب… تمہارا محبوب
وہ زیر لب عربی گیت گنگنا رہا تھا۔
ٔٔ٭…٭
’’کیا دنیا میں کسی کو نہیں معلوم کہ غزہ میں بچے بھی رہتے ہیں ؟‘‘یہ آٹھ سالہ مریم تھی جو پندرہ سالہ خدیجہ سے شکوہ کناں تھی۔
’’ہم بہت دور رہتے ہیں شاید اس لیے…‘‘ خدیجہ نے اداسی سے بہن کو سمجھایا
’’ کیا انسانوں کے دلوں سے بھی دور رہتے ہیں ۔‘‘یہ لیلیٰ تھی۔
’’تم نے سحری میں کیا کھایا تھا؟‘‘ مسلم نے تجسس سے پوچھا۔
’’ گھاس کا سوپ اور ایک بریڈ۔‘‘مریم نے اداسی سے جواب دیا۔
’’کیاوہ سوپ اب بھی ہے۔‘‘ اس نے خشک لبوں پر زبان پھیری۔
’’کیا تمہارا روزہ نہیں ہے؟‘‘ مریم نے رعب سے پوچھا۔
’’نہیں مجھے بھوک بہت لگتی ہے ۔ اور ماں کہتی تھی چھوٹے بچوں کو روزہ معاف ہے۔ ‘‘چھ سالہ مسلم کا ارادہ جھوٹ بولنے کا تھا لیکن سامنے مسجد اقصیٰ کا سنہری گنبد دیکھا تو سچ اگل دیا۔
’’موٹو…‘‘ ایمن نے اسے مکہ رسید کیا تھا۔
یہ وہ بچے تھے جن کے رشتے بچھڑ گئے تھے ۔ سو وہ امدادی کیمپ میں پناہ گزین تھے ۔اچانک شور اٹھا ۔ امدادی سامان آ رہا تھا ۔ سب بھاگتے دوڑتے آگے پیچھے بھاگ رہے تھے ۔ اچانک فضا گولیوں سے بھر گئی۔
’’ زندگی کتنی انمول ہے ناں ۔اور موت کتنی ارزاں۔‘‘
فاطمہ بے حس ہو چکی تھی یا درد لا علاج ہو چکا تھا ۔ اسرائیلی بمباری کی وجہ سے امدادی سامان لینے والے افراد خون میں نہا گئے تھے ۔ اس نے آنکھیں بند کر دیں ۔ منظر سیاہ ہو گیا تھا۔
وہ اور حماد اپنے گھر کی بالکونی پر کھڑے ستاروں سے سجا آسمان دیکھ رہے تھے اس کے لباس پر بھی ستارے سجے تھے اور آنکھوں میں دمک رہے تھے۔
’’ میں تمہاری زندگی میں کس درجے پر ہوں حماد؟‘‘
نیچے دبکہ کی محفل سجی تھی ۔ عفان اور ہاجرہ کی شادی کی سالگرہ تھی ۔ وہ چپکے سے اوپر آ گئے تھے۔
’’ہمم…‘‘ وہ گم صم تھا۔
اس نے گھور کر دیکھا لیکن وہ متوجہ نہ ہوا ۔ فاطمہ کا دل سہم گیا تھا۔
’’محبت اتنی وہمی کیوں ہوتی ہے؟‘‘ اس نے شکوہ کیا۔
’’کیونکہ محبت میں کھونے کا ڈر ہو تا ہے ۔ جاناں…‘‘ حماد نے اس کی لٹ کو چھوا تھا۔
’’تم دل مضبوط رکھنا ہم ملیں گے ضرور،یہاں نہ سہی وہاں سہی ۔ ‘‘وہ ستاروں پر نظر جمائے ہوئے تھا۔
’’کک…کیا مطلب…؟‘‘سبز آئینے گلابی ہو گئے تھے۔
’’بس تم میرا انتظار مت کرنا۔‘‘
’’کیا ایسا ممکن ہے؟ ‘‘ اس کا لہجہ بھیگ گیا تھا۔
حماد نے اس کے ہاتھ تھام کر اپنی محبت کایقین دلایا تھا ۔ فاطمہ کے ہاتھ کھو جانے کے خوف سے ٹھنڈے تھے ۔حماد کے ہاتھ گرم تھے۔ اس نے اس کی آنکھوں میں دیکھا ۔لیکن فاطمہ کی آنکھیں اسے نہ دیکھ سکیں ۔ نمکین پانیوں نے منظر دھندلا دیا تھا ۔
فاطمہ نے دیکھا بے جان جسم اٹھائے جارہے تھے۔
معصوم مریم ، نادان مسلم ، شوخ ایمن اور لیلیٰ ، ضیعف،بچے،عورتیں کتنی بے نور آنکھیں تھیں وہاں۔
’’کیا میں بے حس ہو چکی ہوں یا موت کا خوف نکل چکا ہے؟‘‘اس نے خود سے سوال کیا تھا۔
فاطمہ اور خدیجہ امدادی کیمپ میں تھیں ۔ دونوں اپنوں سے بچھڑی ہوئی تھیں سو ایک دوسرے کا سہارا بنی ہوئی تھیں۔
’’غزہ یہاں ہے۔‘‘
وہ صفحہ قرطاس پر روز ایک کہانی لکھتی لیکن دوسری کہانی پہلی سے زیادہ درد ناک ہوتی۔
’’ جنگ ختم ہو جائے بس ۔‘‘ خدیجہ نے اپنی خالی نظریں آسمان پر جما دی تھیں ۔ جہاں سے امدادی سامان گرایا جا رہا تھا ۔ فاطمہ نے ہمت کی اور ایک بیگ حاصل کر ہی لیا۔
’’ زندگی انمول ہے یا ظالم ۔ اپنے پیچھے دوڑاتی رہتی ہے ۔ ‘‘ اس نے خدیجہ کو پانی کی بوتل دی تھی۔
’’تمہیں کون یاد آتا ہے؟‘‘
’’سب…ماں،باپ،بہن، بھائی … کیٹی۔‘‘خدیجہ نے اداسی سے کہا۔
’’اور تمھیں کون یاد آتا ہے؟‘‘
’’حماد۔‘‘
’’باقی یاد نہیں آتے؟‘‘
’’وہ سب وہاں ہیں۔‘‘ اس نے ستاروں کی جانب اشارہ کیا تھا۔
فاطمہ خاموشی سے روشن ستارے دیکھ رہی تھی جب ایک ستارہ روشن ہو گیا ۔ اتنا روشن کہ تاریکی چھٹ گئی اور سارا ماحول روشن دھوپ سے سج گیا۔
فاطمہ اور حماد کی رسم تھی ۔دبکہ کا اہتمام کیا گیا تھا ۔کئی طرح کے کھانے تھے ۔ فاطمہ اور حماد کے چہرے الوہی خوشیوں سے سجے ہوئے تھے ۔ روایتی لباس میں وہ دونوں مکمل لگ رہے تھے۔
’’اٹھیں فاطمہ!سحری کا وقت ختم ہونے والا ہے۔‘‘ خدیجہ کی آواز نے یادوں کی زنجیر توڑ دی تھی۔
’’ مجھے اپنی ماں کے ہاتھ کی بنی ڈش قنافہ یاد آتی ہے ۔ قنافے کو عموماً پینر،بالائی یا گری دار میوے سے تیار کرتیں ۔ سب فرمائش کر کے ان سے بنواتے۔‘‘ فاطمہ بار بار ماں کو یاد کر رہی
’’مجھے اپنا بھائی قاسم یاد آتا ہے وہ فٹبالر تھا۔‘‘ خدیجہ کا لہجہ اداس تھا۔
’’ یہ رمضان اور پھر عید اپنوں کے بغیر کیسی ہو گی فاطمہ؟‘‘ اس نے سوال کیا جس کا جواب نہ تھا ۔ وہ خاموشی سے سماقیہ کھا رہی تھیں ۔ خیمے میں قہوہ کی مہک پھیلی ہوئی تھی۔
مسجد اقصیٰ کے میناروں سے اذان کی آواز بلند ہوئی اور انہوں نے روزے کی نیت کر لی ۔آخری عشرہ بہت اداس تھا ۔ جنگ انسانی جانوں کا المیہ بن گئی تھی ۔ اسرائیلی بربریت رضا کاروں کو نشانہ بنا رہی تھی ۔ موت تھی،بھوک،افلاس … کون کب موت کا شکار بن جائے کچھ خبر نہیں تھی ۔افطار میں شربت تھا اور نمکین گوشت کا ٹکڑام، دو کھجوریں ۔ یہ بھی نعمت تھی۔
’’آج عید کاچاند نکلے گا۔‘‘ خدیجہ پرجوش ہو رہی تھی۔
اس نے مسکرا کر اسے دیکھا ۔ دونوں گزشتہ سال کی یادیں بیان کرنے لگیں ۔آخر اعلان ہوا کہ کل عید ہو گی ۔دونوں نے ایک دوسرے کو مسکرا کر دیکھا۔
’’ آؤ دعا کرتے ہیں۔‘‘ خدیجہ نے اس کا ہاتھ تھاما ۔ خربوزے کی قاش جیسا ہلال عید سامنے تھا۔
اس نے ہاتھ اٹھائے تو آنکھیں بھیگ گئیں۔
’’کیا مانگوں؟‘‘اس نے خود سے سوال کیا۔
اور اپنے معاملات خدا کے سپرد کر کے وہ خیمے میں آ کر لیٹ گئی ۔ خدیجہ بچوں کے ساتھ عربی گیت گا رہی تھی۔
کب آنکھ لگی یاد نہیں ۔ بس وہ بادلوں پر سوار تھی ۔ سب دوست احباب پڑوسی خوش تھے ۔ اس کا شہر قندیلوں سے سجا تھا ۔ سب زرق برق لباس میں ملبوس عید مل رہے تھے ۔فاطمہ کی نگاہیں حماد کو ڈھونڈ رہی تھیں۔
’’ سنو فاطمہ ۔ ‘‘ اس نے چونک کر دیکھا تو وہ فلسطینی رومال باندھے سفید لباس میں حماد تھا ۔
”یہ تمہارے لیے۔‘‘ اس نے سفید پھولوں کا گلدستہ اسے دیا۔
وہ پھولوں کی مہک اپنے اندر اتارنے لگی۔
’’ اپنا خیال رکھنا میری محبوبہ ۔‘‘ حماد کے لب ہلے ۔وہ اسے چھونا چاہتی تھی لیکن اچانک خواب ٹوٹ گیا۔
وہ کھردری زمین پر لیٹی تھی۔
’’ عید مبارک۔‘‘ خدیجہ اس کے گلے لگ گئی۔
’’ خیر مبارک ۔‘‘ اس نے اس کو پیار کیا۔
’’ آؤ عید کی نماز پڑھتے ہیں۔‘‘
فضا بہت نکھری ہوئی تھی ۔ خوشی کا احساس دلا رہی تھی ۔ مسجد اقصیٰ کے درودیوار سے کلام الٰہی کی صدائیں گونج رہی تھیں ۔ عجب تقدس تھا،رعب…
’’ فاطمہ بنت علی!فاطمہ بنت علی!‘‘ وہ کوئی رضا کار تھا ۔ جو دور سے اسے آواز لگا رہا تھا
’’ آپ کے نام یہ پارسل۔‘‘ ٹوٹی پھوٹی عربی میں اس نے مدعا بیان کیا۔
اس نے کھول کر دیکھا تو ایک فلسطینی رومال میں مرجھایا ہوا سفید پھول تھا ۔ اور ایک کاغذ تھا۔
’’ ہم دونوں ضرور ملیں گے یہاں نہ سہی وہاں سہی۔ ‘‘ یہ حماد کی تحریر تھی۔
’’ حماد شہید ہو گیا ہے۔‘‘ یہ مختصر سی تحریر تھی۔
اس کا دل ایک لمحے کو رک سا گیا ۔ دھڑکن تیز ہوئی اور پھر ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی ۔
غزہ کی سرزمین پر ایک اور درد بھری داستان رقم ہو گئی تھی۔
ختم شد