ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر: ماریہ غزال
’’میں کہہ رہی ہوں کہ نہیں کروں گی یہ شادی ۔ تانیہ آپی ‘ تبسم بھابھی جا کر بتا دیجیے بڑے ابا کو کہ ان کے نکمی ویلے بیٹے سے میں شادی نہیں کرنے والی۔ ‘‘میشا نے سلطان راہی والے سٹائل میں گنڈا سے کی جگہ دوپٹہ لہرایا۔
’’مگر سنو تو آہستہ بولو۔‘‘تانیہ نے کہ کہا جس کی بات پوری ہونے سے پہلے میشا بول اٹھی۔
’’ کوئی اگر نہیں کوئی مگر نہیں،باپ مرا ہے میرا میں نہیں کہ بول نا سکوں ۔بتائے دے رہی ہوں ورنہ میں جان دے دوں گی۔ ‘‘وہ بے نتھا بیل ہوئی جا رہی تھی ۔
باہر سے امی نے دروازہ بند کر دیا تھا جس کے سبب وہ لوگ نکل نہیں سکتے تھے اسٹور سے ورنہ تو وہ ابھی ہی نکل کر ہنگامہ کھڑا کر دیتی ۔ اسٹور میں بند کر دینے کی وجہ سے وہ فی الحال منع کرنے سے معذور تھی گرچہ یہ معذوری وقتی تھی ہمیشگی کی نہیں تھی ۔ اس کا اندازہ تھاتانیہ کو بھی اور تبسم کو بھی مگر اس وقت گھر میں جبران نہیں تھا اور بڑے ابا کسی تھانیدار کی طرح مٹھائی کا ٹوکرا ، انگوٹھی اور جوڑے کے ساتھ آن وارد ہوئے تھے اور مال برآمدی کی کا سا انداز لیے ہوئے تھے ۔ وہ اپنے سب سے نکمے بیٹے کا رشتہ لے کر آئے تھے اور اسی وجہ سے میشا دیوانی ہوئی جا رہی تھی اور نیچے نہ جانے کیسے امی جی بات سنبھالی بیٹھی تھی۔
’’ دیکھ میشا ، میں کہہ رہی ہوں اگر زیادہ اچھل کودکی نا تو قسم سے باندھ کر ڈال دوں گی۔‘‘ بھابھی نے دھمکی دی ۔
’’ہاں ہاں بن جائیں روایتی بھابی۔‘‘ میشا نے سلگتے ہوئے کہا۔
’’ قسم سے میشا کبھی کبھی پاگل لگتی ہو تم ‘ ابھی بھائی سے بات ہوئی ہے ۔ بھابھی کو بھائی کا حکم ہے کہ خبردار جوتم لوگوں نے ہلکی سی بھی آواز نکالی ۔ بھائی نے امی کو فون کر کے یہی سمجھایا ہے کہ تایا ابا کو بس یہ بتانا ہے کہ ہم لوگ تو کل سے نانو کے پاس آئے ہوئے ہیں ۔ اب یہاں سے شور ہوگا اور اگر نیچے پہنچ گیا تو تم خود تمام معاملے کی ذمہ دار ہو گی کچھ تو سمجھداری کا ثبوت دواور شور نا کرو ۔ تم خاموش رہو گی تو تمہارا ہی فائدہ ہے ورنہ مسئلہ بن جائے گا۔‘‘
اب تانیہ نے نہایت ہلکی آواز میں مگر سختی سے میشا کو چپ کروایا ۔ اس وقت وہ تینوں اوپری منزل پہ بنے اسٹور میں مقید تھیں جس کادروازہ امی جی نے باہر سے بند کر دیا تھا ۔ وہ تینوں دراصل شادی کے کپڑے اسٹور سے نکالنے کی مہم پر شام سے لگی تھیں ۔ امی جی نے لگے ہاتھوں گرم سامان بند کرنے کا بھی حکم نامہ جاری کر دیا تھا ۔ اگلے ہفتے ہونے والی عدنان بھائی کی شادی میں پہننے کے لیے اسٹور سے وہ لوگ جبران کی شادی میں میں بنائے گئے کپڑے نکال رہی تھی اور تبسم اپنے جہیز بری کے جوڑوں سے من پسند جوڑا نکالنے میں لگی تھی ۔ بقول امی کہ دروازے آئی بارات تو سمدھن کو لگی ہگاس ۔
ان کا چار چھ دن کا نانو کی طرف رہنے کا پلان تھا ۔ عدنان ان کا مامو ں ذادبھائی ہی نہیں جبران کا دودھ شریک بھائی بھی تھا ۔ جبران نے عدنان کی شادی کے لیے ہفتہ بھر کی چھٹیاں لی تھیں ۔ جبران کو آج آفس سے نکلنے میں دیر ہو گئی تھی ۔ وہ چھٹی سے پہلے تمام کام نمٹا کر آنے والا تھا ۔ اس نے سبھی کو بتا دیا تھا کہ سب ہی اپنی اپنی تیاری رکھیں تاکہ صبح فجر کے بعد نکلا جا سکے ۔ مگر یہاں سرِ شام ہی غدر مچ گیا ‘ بڑے ابا جس ٹھسے سے آئے تھے اس سے ان کی نیت واضح ہو رہی تھی اور تانیہ کے واقعے کو لے کر وہ جس طرح معاملے کو اپنے حق میں بہتر بنانا چاہ رہے تھے وہ ہمیشہ کی طرح ناقابل قبول و معافی تھا ۔ ابا کی موجودگی میں انہوں نے کبھی بڑے پن کا ثبوت نہیں دیا تھا اور اب وہ بڑے بن رہے تھے ۔ تانیہ کا نکاح عین وقت پر ختم کرنا پڑا تھا لڑکے والوں کی ساری ڈیمانڈ پوری کرنے کے باوجود جب وہ شادی سے چار دن قبل باہر سے آئے دولہا سے ملے تو وہ وہ دماغی طور پر تھوڑا چھوٹا معلوم ہوا ۔ لڑکے کی پوری فیملی ہی باہر سے آئی تھی ۔ رشتہ جان پہچان والوں نے ڈالا تھا سو اطمینان تھا مگر یہ اطمینان دولہا سے مل کر رخصت ہو گیا ۔ جبران نے اپنے خدشے کا اظہار کرنے سے پہلے معلومات کرانی شروع کی ۔ پرانا محلہ،دوست احباب،فیس بک پیج، لنکس سب کے ذریعے معلومات اکٹھا کی جو حوصلہ افزا ناتھیں مگر تایا ابا کا خیال تھا اب کچھ نہیں ہو سکتا ۔ ان لوگوں کو بد نامی سے بچنے کے لئے یہ شادی کر ہی دینی چاہیے ۔
یہ اک عام سی کہانی تھی کوئی فلم یا ناول توتھا نہیں کاچانک سے کوئی ہیرو سامنے آیا ، اس نے ولن سے ہیروئن کی جان چھڑائی اور پھر ہیروئن بطور ٹرافی اس کی ہو گئی ۔ ایسا کچھ نا ہوا البتہ امی جی اور ابا نے سٹینڈ لیا کہ ہم یہاں اپنی بیٹی کی شادی نہیں کریں گے مگر تایا بابا بضد رہے کہ اگر یہ شادی نا ہوئی تو مشکل ہو جائے گی ۔ اس زمانے میں تایاابا کے یہاں سعد بھائی موجود تھے جو کہ بہترین آپشن تھے مگر یہ کوئی فلم تھوڑی تھی جیسا کہ میشا ہمیشہ ہی کہتی تھی ۔ قصِہ مختصر یوں نکاح کینسل ہوا اب تو اس واقعے کو چار سال ہونے والے تھے ۔ ایسا نہیں تھا کہ پھر رشتے ہی نہیں آئے مگر ویسا نہیں آیا جیسا ابا اور امی کو چاہیے تھا ۔ بات بن ناپائی اور اس وقت تک تانیہ پچیس سال کی ہو چکی تھی اور اصولی طور پر توتایا ابو کو یہ رشتہ لانا ہی نہیں چاہیے تھا اور اگر لائے بھی تھے تو تانیہ کے لیے لے آتے مگر نا جانے انہیں کیسے اچانک ہی مرحوم بھائی کے بوجھ کا بیٹھے بٹھایا خیال آگیا ۔
راحیل گزشتہ دو تین سال سے نوکریوں کے لیے مارا چل رہا تھا ۔ اسے اچانک ایسی کیا افتادآ پڑی کہ اس کا رشتہ لے آئے ‘بلکہ رشتہ ہی نہیں انگوٹھی ، جوڑا جاما سب لے آئے اور وہ بھی میشا کے لیے جو کہ تائی امی کے بقول کٹا ر تھی پوری ۔ اُنہیں میشا کی لمبی زبان سے ہمیشہ ہی مسئلہ رہتا تھا اور جس کا اظہار وقتا فوقتاً برملا کرتی بھی رہتی تھیں تو پھر اس چھری کٹاریِ کے لئے رشتہ دینا اچھنبے کی بات تھی۔
امی نے بڑے ابا کو مشکل سے ٹالا ۔ رات گئے جبران کی آمد پر امی نے اس کو بتایا کہ تایاابا بڑے ماموں کے بیٹے کے ولیمے میں خاندان والوں کے سامنے نا صرف یہ رشتہ دیں گے بلکہ منگنی کے انگوٹھی بھی لے کر آئیں گے اور زور دعوے سے پہنائیں گے ۔ اور پھر یہ بات جبران سے تبسم اور تبسم سے تانیہ تک پہنچ گئی شکر ہے میشا ابھی تک غافل تھی۔
’’امی ابھی چار دن باقی ہیں جب کہ جب دیکھی جائے گی۔‘‘ جبران نے بات سمیٹی۔
٭…٭
عدنان اور جبران لنگوٹیا یارہی نہیں دودھ شریک بھائی بھی تھے ۔ اس لیے جبران نے شادی سے پہلے کے دن عدنان کے ساتھ گزارنے کا سوچا تھا اور عدنان نے بھی بہت سی شاپنگ بالخصوص منہ دکھائی کی خریداری جبران کے ساتھ جا کر کرنی تھی اور اس شادی کو لے کر جبران بھی بہت پرجوش تھا مگر تایا ابا کی اس بے وقت کی راگنی نے اس کے منہ کا مزاکِر کِرا کر دیا تھا۔
صبح صبح جانے کے پلان اس لیے ترتیب دیا تھا کہ ایک دن بھی ضائع نا ہو کیونکہ کراچی میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا بھی بہت دقت طلب کام ہوتا ہے اور یہ تو کارساز سے بحریہ ٹاؤن تک کا سفر تھا اسے گھر والوں کو نانو کے گھر چھوڑ کر چھوٹی خالہ کو ریسیو کرنے ایئرپورٹ بھی جانا تھا عدنان کے ساتھ ۔ چھوٹی خالہ کی انوکھی فرمائش تھی کہ دلہا ان کو پک کرنے آئے ۔ ان دونوں نے ساری سیٹنگ اور پلاننگ پہلے ہی سے کی ہوئی تھی مگر جبران رات بھر اس قدر ڈسٹرب رہا کہ صبح ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی جانے کی ۔ تب ہی تانیہ اور میشا نے اپنی اپنی ڈرائیونگ کے جوہر دکھانے کی پیشکش کی تو وہ منع نہ کر سکا ۔ صبح فجر کے بعد ویسے بھی بالکل خاموشی ہوتی ہے ۔ چھٹی کا دن تھا روڈوں پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر سو اس نے میشا کو بھی تھوڑی دیر ڈرائیونگ کی اجازت دے دی ۔ تانیہ تو خیر سے اچھی ڈرائیور تھی اس کو خود جبران نے ڈرائیونگ سکھائی تھی اور وہ اس کے متحمل مزاج سے واقف تھا ۔ مگرمیشا ذرا جذباتی اور تیز رفتار تھی لیکن جبران کے ساتھ بیٹھ کر وہ کوئی شرارت کرنے سے رہی حالانکہ امی نے میشا کو ڈرائیوری دینے سے منع بھی کیا مگر وہ دونوں بہنوں کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں اور خواہشوں کو رد نہیں کرناچاہتا تھا خاص کر تانیہ کی۔
٭…٭
’’او بھائی تم گاڑی چلاؤ گے۔‘‘ عدنان نے ہائی ایس کی چابی اسے تھمائی۔
’’میں نہیں چلا سکوں گا ابھی بھی تانی اور میشا ڈرائیو کر کے لائی ہیں ۔‘‘ جبران نے ناشتے کی میز پر موجود سب لوگوں کو اپنی بات سے حیرانی کر دیا۔
’’الٰہی خیر کیوں بھئی ۔‘‘ ممانی نے حیرت سے پوچھا۔
’’بس دیکھ لیں مما نی جان ہم صنف نازک سے صنف آہن بن گئی ہیں ۔‘‘میشا نے فخر یہ انداز میں کہا۔
’’ اور میری صنف آہن بہن۔ ‘‘عدنان نے ساتھ بیٹھی نازک سی میشا کو تھپکی دی مگر ہاتھ ذرا زور کا پڑ گیا یا شاید جان کر تنگ کرنے کو زرا زور ہی سے مارا تھا۔
’’او بھائی سچ مچ آہن کی نہیں ہو گئے ہیں وہی گوشت پوست کے ہیں ہم۔‘‘
’’ تو ذرا سنبھل کے یہ لمبی لمبی لفاظی پھر مت کرو۔‘‘عدنان اور میشا کا مزاق چلتا ہی رہتا تھا اس لئے کسی نے توجہ نادی البتہ امی بڑے ماموں، ممانی اور نانو کو رات والا واقعہ ہلکی آواز میں بتانے لگیں ‘بیشتر عوام چونکہ اس وقت سو رہی تھی۔ اس لیے تینوں خواتین آزادی اظہار رائے کا بخوبی استعمال کر رہی تھیں۔
فجوماموں فیصل آباد سے آ رہے تھے اس لیے انہیں ریسیو کرنے کوئی نہیں جانے والا تھا ۔ البتہ چھوٹی خالہ کیونکہ بچوں کے ساتھ اکیلی آرہی تھیں اس لیے انہیں لینے جانا ضروری تھا اور کچھ ان کی فرمائش بھی تھی دراصل چھوٹی خالہ اور فجو مامو ں اوپر تلے کے بہن بھائی تھے ایک ہی جیسا مزاج اور حرکات و سکنات ان میں پائی جاتی تھیں جہاں چھوٹی خالہ شوخ و شنگ تھیں وہیں فجو ماموں بزلہ سنج دونوں کی موجودگی میں محفل کو چار چاند لگ جاتے ۔ اگر ایک بھی موجود ناہوتا تو وہ مزہ نا آتا اس لیے چھوٹی خالہ کو بصدِ اصرار بلایا گیا تھا جس پر اُنہوں نے فورا فرمائش کر ڈالی کہ دولہے میاں آئیں گے ایئرپورٹ تب وہ آئیں گی ۔ویسے وہ تو اسلام آباد سے لینے آنے کی فرماش کر رہی تھیں مگر جب نانو نے بے رخی سے کہا کہ یہ فرمائش پوری نہیں ہو سکتی ‘ اس لیے وہ آنے کی زحمت نا ہی کرے تو فوراََ خود آنے پر راضی ہو گئیں اور اب جبران اورعدان ان کو لینے جا رہے تھے ۔
دونوں آگے پیچھے دو تین گھنٹوں کے وقفے سے پہنچے اور ان لوگوں کے آتے ہی گھر میں رونق لگ گئی،خوشی اور سر مستی نے جنم لیا اور گھر جو ابھی تک گھر ہی لگ رہا تھا ‘شادی کا گھر لگنے لگا ۔ چھوٹی خالہ کے ہنسی مزا ق شور ہنگامہ نے گھر میں رونق لگا دی ، چھوٹے مامو ں گوئیے کی طرح گلے میں ڈھول ٹانگے ٹپے گا رہے تھے اورساتھ میں میشا جھولی پھیلا ئے کھڑی تھی جس میں ہر فرد اپنا اپنا حصہ بقدرِ استطاعت ڈال رہا تھا ۔ شام میں اِنہیں پیسوں سے پان اور کولڈ ڈرنک کا انتظام کرنے کا ارادہ تھا ۔ خیر یہ بھی ہو سکتا تھا کہ چھوٹے مامو ںان پیسوں سے باہر جا کر ڈنر کرآتے مگراس ڈنر میں یقینامیشا، جبران اور عدنان کا حصہ ہوتا جو شروع سے ان کے کرائم پارٹنرز تھے۔
میشا تو ماموں کے ساتھ ٹو نو ںاور ٹپوں میں پیش پیش تھی ۔ نت نئی سر اور تال بنا رہی تھی مگر تانیہ کا دماغ اس ہی الجھن میں لگا ہوا تھا ۔ رات کے کھانے کے بعد سب کو چائے ، کافی ، پان ، سوڈا وغیرہ سرو کرکے تانیہ اور تبسم نے اپنی اپنی چائے کا کپ لیا اور اوپر ٹیرس کا رخ کیا وہ دونوں صبح سے بات کرنے کا موقع تلاش کر رہی تھی جس میں میشا شامل نہ ہو۔
’’ بھابھی میں بہت پریشان ہوں میں نے سوچا ہے کسی طرح بڑے ابا کو ولیمے کے فنکشن میں آنے کسی طرح روک دیا جائے۔‘‘
’’اس سے کیا ہوگا۔‘‘تبسم نے کہا۔
’’ کم از کم مسئلہ کچھ عرصے کے لیے ٹل جائے گا یا کم از کم ولیمے کی تقریب خراب ہونے سے رہ جا گی۔‘‘
’’ہم انہیں روکیں گے کیسے۔ ‘‘ تبسم نے پوچھا۔
’’آپ ساتھ دیں تو بتاؤں۔‘‘تانیہ نے کہا ۔
’’بتاؤ میں تمہارے ساتھ ہوں۔‘‘ تبسم نے یقین دہانی کر وائی۔
’’ ہم جب مینا بازار مہندی لگوانے جائیں گے تو وہیں میں راحیل کو بلا کر بات کرتی ہوں ۔ اسے کسی طرح میں اس بات پر راضی کرتی ہوں کہ بڑے ابا اس دن منگنی کی بات نہ کریں کوئی بہانہ ، کوئی ایسی تاویل کہ وہ میری بات سے متفق ہو جائے اسی وقت سوچ لوں گی۔‘‘
’’پلاننگ تو اچھی ہے پر ہم بہانہ کیا کریں گے ۔‘‘تبسم سوچ میں پڑ گئیں۔
’’یہی تو سمجھ نہیں آ رہا۔‘‘تانیہ نے کہا جب کہ اس نے سوچ لیا تھا کہ راحیل کے سامنے اپنا رشتہ پیش کر دے گی تاکہ میشا بچ جائے مگر وہ اس بات کا ذکر تبسم یا کسی سے بھی نہیں کرنے والی نہیں تھی۔
’’ چلو ٹھیک ہے میں جبران کے موبائل سے اس کا نمبر نکالتی ہوں اور اس سے ملنے کا ٹائم فکس کرتی ہوں پھر مل کر بات کر لیں گے ۔‘‘ تبسم نے کہا اسی وقت چھوٹی خالہ کی مہر نے آکر ان دونوں کو مزید بات کرنے سے روک دیا۔
’’تانی آپی، بھابھی آپ دونوں کو نیچے مما اور نانو بلا رہی ہیں ۔‘‘ وہ دونوں مہر کے ساتھ ہی نیچے کی طرف بڑھ گئی۔
٭…٭
راحیل نے تبسم کا میسج شاید دیکھا ہی نہیں تھا یا شاید ان لوگوں کو پتا نہیں چل رہا تھا ۔ صبح بڑی مامی نے ساری لڑکیوں کو مہندی لگوانے کے لیے لے کر جانا تھا ۔ ایک تو لڑکے کی شادی کا مسئلہ یہ ہوتا ہے مہندی لگنے کے لیے دلہن نہیں ہوتی ‘اس لیے کوئی بھی گھر پر اس مہندی والے پھیلاو ے کی کرنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ جن جن کو مہندی لگوانی ہوتی ہے ان کو مینا بازاریا کسی پالر لے جا کر لگوا دی جاتی ۔ اس سے پہلے شافعہ آپی کی شادی میں مہندی لگانے کا سارا انتظام گھر پرہی کیا گیا تھا مگر اب کی دفعہ ایسے کسی پھیلاوے کے لیے نانو اور ممانی دونوں ہی تیار نہیں تھی کیونکہ پھر سب ہی مہندی لگوانے بیٹھ جاتے اور پھر سب کے کھانے ناشتے کا انتظام بار بار چائے بنانا اور گھر میں مہندی کی گند الگ ‘جب کہ ممانی نے تمام سامان ، پردے ، کارپٹس نئے ڈالے تھے ۔ گھر کی ڈیکوریشن،کمروں کی سیٹنگ، سامان کا ترتیب سے رکھنا، قیمتی سامان کی حفاظت سبھی کے لیے ممانی کو جگہ چاہیے تھی ۔ اسی لیے وہ تمام بچیوں کو مہندی لگوا نے بھیج کر گھر کے کئی کاموں کے لیے گھر کو خالی اور خود کو فارغ کرنا چاہ رہی تھیں ۔ انہوں نے عین وقت پر تانیہ کو روک لیا یہ کہہ کر کہ تم رک جاؤ اور میری ڈرائیوری کر لو آج کے دن ، تم کو میں کہیں سے بھی مہندی لگوا دوں گی اور تانیہ کون سا مہندی لگوانے کے لیے مری جا رہی تھی مگر تانی اور تبسم کی ملاقات کا پلان ممانی کے اس فرمان کے بعد کھٹائی میں پڑ گیا تھا۔
ممانی نے کریم آباد کی فرنیچر مارکیٹ پر گاڑی رکوائی ۔ بڑے ابا کی دکان پر ان کو کارڈ دیا، معذرت کی کے گھر پر آ کر نہ دے سکیں ‘ایک آدھ چیز پسند کی گاڑی میں رکھوائی اور وہ دل ہی دل میں کلستی رہ گئی کیونکہ وہاں پر آج راحیل بھی تھا مگر ہائے حسرت ان غنچوں پر جو بن کھلے مر جھا گئے ۔ وہاں سے آگے ممانی نے محمود آباد اور ڈیفنس کے سنگم پر فرنیچر مارکیٹ جا کر اپنے آرڈرز کو اپنے سامنے لوڈ کروایا ۔ دراصل فجو ماموں کی شادی سے اس گھر میں لڑکے والوں نے جہیز نا لینے کی ریت ڈالی تھی جبران اور اب عدنان بھی اس اصول پر چل پڑے تھے ۔ ویسے بھی نانو کا خیال تھا کہ ہم بھوکے ننگے نہیں ہیں ‘جہاں اتنا مہنگا بری کا سامان بنا سکتے ہیں تو وہیں دلہن دلہا کے لیے ایک بستر مہیا نہیں کر سکتے ؟ نانو کا یہ بھی خیال تھا کہ یہ ذمہ داری قطعی طور پرلڑکے والوں کی ہے اور کیا آ ج سے پہلے ہمارے لڑکے زمین پر سوتے تھے جو آج ہم بستر کے لئے لڑکی والوں کی طرف دیکھیں ۔ اور اسی لیے آج ممانی اپنا آرڈر دیکھنے چلی آئی تھیں۔
نانو کے گھر کا سارا کام ممانی کے ذمے تھا بلکہ ممانی نے خود خوشی خوشی یہ ساری ذمہ داری اٹھائی تھی ۔ اُن کا خیال تھا کہ مامو ںلاپرواہ بندے ہیں اورکسی چیزیں کو بھی خریدتے ہوئے تسلی نہیں کرتے کہ آیا چیز درست بھی ہے کہ نہیں جب کہ ممانی بہت پرفیکشنسٹ تھیں ۔ اسی لیے آرڈر چیک کرنے پہنچی ہوئی تھیں تاکہ اگر کوئی چیز پسند نا ہو تووہ ان کے گھر ہی ناپہنچے بلکہ پہلے ہی وہ بدلوا لی جائے ۔ وہاں سے نکل کر آخری پڑاؤ طارق روڈ تھا ۔ تانیہ نے گاڑی سنار کی دکان پر روکی اتنی لمبی ڈرائیوری نے تانیا کی بھوک چمکاتی دی تھی اور جیولر شاپ کے نرم اور گداز صو فوں نے اس کی تھکن اور بھوک دونوں ہی اس پر طاری کرنی شروع کر دی ۔ جیولرشاپ کے کاؤنٹر پر بہت رش تھا اسی لیے انتظار کی لائن میں وہ لوگ بھی شامل ہو گئے ۔ کمرے کے اندر موجود مناسب ٹمپریچر نے اس کو کاہلی میں مبتلا کیا اب تو اس کا بالکل دل نہیں چاہ رہا تھا کہ وہ کچھ بھی کرے پر بھوک نے الگ ستانا شروع کر دیا تھا ۔ تب ہی اس نے ممانی سے ذکر کیا۔