خرمن قلب: قسط نمبر 6
اس کے ایک ایک نقش پر برستے ہوئے وہ بالکل مدہوش تھا اس کے ہوش اڑاتے ہوئے ۔ اور وہ کسی موم کی طرح اس کی اس قدر جان لیوا قربت میں پگھل رہی تھی ۔ وہ کتنا خوبصورت مرد تھا ۔ کتنا مضبوط اور وہ مکمل اس کاتھا ۔ جبکہ وہ مدہوشی میں بھی ہوش میں تھا ۔ اسے تو علم ہی نہیں تھا کہ وہ اس کے ساتھ کھیل کھیلا گیا ہے ۔ اس نے بھی تو اب کھیلنا تھا ۔ وہ زینب کو سر آنکھوں پربٹھائے پھر رہا تھا ۔ کسی تاج کی طرح سجائے، کسی ملکہ کی طرح سنبھالے ۔ وہ تو سمجھتا تھا وہ بہت پیور ہے، کچھ نہیں چھپا سکتی ۔ ایکسپریشن تک نہیں چھپا سکتی ۔ امیچور ہے ‘ جب تک تعلیم مکمل نہیں ہوتی وہ اس کے ساتھ کوئی فزیکل ریلیشن نہیں رکھے گا ۔ وہ اس سے دس سال چھوٹی تھی ۔ اسے بیوقوف بنانے کی کتنی مہارت تھی ۔ کتنی اچھی کھلاڑی تھی ، کیا بازی گر تھی ۔ اس کی ناک کے نیچے ایک کھیل چل رہا تھا اور وہ بے خبر تھا ۔ اسے وہ دن یاد آیا تھا جب وہ اچانک ویڈیو بناتے ہوئے ہوٹل کے کمرے میں آگئی تھی ۔ پاگلوں کی طرح وہ اس پر یقین کرتا رہا‘ اس کی ہر بات ہر آمین کہتا رہا ۔ بھاگتا رہا، جو وہ دکھاتی رہی وہ دیکھتا رہا۔
اپنے اندر کی ساری شدتیں،جنون اور بے چینی اس کے وجود پر اس نے بہت سکون سے نکالی تھی ۔ وہ دشمنی میں بھی سختی کا قائل نہیں تھا ۔ یہ اس کی تربیت تھی ۔ صنف مخالف کے لیے۔
اگلی صبح زینب کو اپنی زندگی کی سب سے خوبصورت صبح لگی تھی ۔ وہ اسے جیت چکی تھی ۔ وہ مکمل اس کاہوچکا تھا ۔ اس نے تو سوچا نہیں تھا کہ وہ اتنا مہربان انسان ہے اور اتنا دلکش ۔ اسے یکایک ہی بہت شرم آئی تھی ۔ کیسے وہ اس سے نظریں ملائے گی ۔ شیشے کے آگے کھڑے ہو کر بال سلجھاتے ہوئے وہ دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ اسے ہی سوچی جارہی تھی ۔ جب وہ اچانک سے نجانے کب اٹھ کر آکر پیچھے سے اسے اپنے حصار میں لے چکا تھا ۔ اس کی پرحدت گرفت میں زینب فوراََ ہی سمٹی تھی ۔
’’ظالم لڑکی۔ ‘‘ وہ مدہوش سا اس کے بھیگے بالوں میں منہ دیئے بولا تھا ۔
اسے کوئی شرمندگی نہیں تھی گزری رات پراور دوسری طرف وہ بول نہیں پا رہی تھی ۔ ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی ۔ وہ اس کی زندگی میں آنے والا پہلا مرد تھا جو اس کے دل پر راج کرتا تھا، اس کی روح پر اور اب اس کے وجود پر بھی ۔ اس کے لیے تو سب بالکل نیا تھا ۔ اسی لیے اس جیسی بولڈ لڑکی کی بھی بولتی بند ہوگئی تھی۔
’’ویسے یہ تم نے کیوں کیا زینب۔‘‘ وہ دونوں بازو پیچھے سے اس کے گرد مزید کس کر بولا تھا اچانک۔
’’کیا؟‘‘ اسے سمجھ نہیں آئی تھی۔
’’میرے معافی نامے کی تصویر تم نے کس کو بھیجی تھی۔ ‘‘ وہ پہلے سے بھی نارمل تھا اب اسی طرح بالوں میں منہ دیئے‘جبکہ زینب…وہ ہل نہیں سکی تھی ۔ جان وجود سے کیسے نکلتی ہے اسے پہلی بار پتہ چلا تھا ۔ وہ سفید پڑھتے چہرے اور ساکن آنکھوں کے ساتھ بالکل ساکت تھی۔
اسے لگا تھا وہ پتھر کی ہوگئی ہے ۔ نہ بول سکتی ہے نہ ہل سکتی ہے۔
’’بولو ناں۔‘‘ وہ اب بھی مدہوش تھا۔
’’مم …میں…‘‘ اس کے سارے الفاظ گم ہوگئے تھے ۔
آسمان سر پر گرا تھا اور زمین پاؤں کے نیچے سے کھسک گئی تھی ۔ کسی گہری کھائی میں اسے اپنا وجود گرتا محسوس ہوا تھا ۔ زندگی کی سب سے خوبصورت رات کی سب سے بھیانک صبح تھی۔اس کے بعد شاید اس کی زندگی میں کبھی صبح نہیں آنے والی تھی۔
’’کس کے کہنے پر کیا ہے سب کچھ۔‘‘ وہ اب اسے اپنی طرف گھماچکا تھا ۔ بڑے پیار سے اس کے بال کانوں کے پیچھے کرتے ہوئے پوچھا تھا۔
اس کی آنکھوں سے پانی گالوں پر آگیا تھا ۔ٹپ ٹپ بے آواز… اب ساکت وہ ہوا تھا ۔ اسے پہلی بار پتہ چلا تھا عورت کے آنسو کتنا بڑا ہتھیار ہوتے ہیں ۔ اسے تکلیف ہوئی تھی۔ جو بھی تھا وہ واقعی اس لڑکی کو چاہتا تھا۔
’’روئے بغیر بتاؤ زینب ۔ اسی اعتماد کے ساتھ جس سے تم نے یہ سب کیا ہے۔‘‘ اب اس کالہجہ سرد تھا۔اتنا سرد کہ زینب کو ہر چیز اپنے گرد برف ہوتی محسوس ہوئی تھی۔
’’بولو، کب سے چل رہا ہے یہ کھیل۔ ‘‘ اس نے مزید گرفت مضبوط کی جھٹکے سے۔
’’آغا… آغا جان۔‘‘ وہ بھرائے لہجے میں بس اتنا ہی بولی تھی۔
اس سے آگے بولا نہیں گیا تھا۔ عمر جانتا تھا یہ بات لیکن پھر بھی زینب کے منہ سے سن کر اسے دھچکا لگا تھا ۔ سب جاننے کے باوجود اس کے دل میں پھر بھی کہیں نہ کہیں کوئی امید چھپی تھی کہ شاید۔ شاید ایسا نہ ہو ۔بائیں بازو میں تکلیف یکدم شدید ہوئی تھی۔
وہ ایک جھٹکے سے پیچھے ہوا تھا اور وہ گویا ہوش میں آئی تھی۔
’’لیکن‘لیکن ہم سب ۔ ہم سب آپ کا بھلا چاہتے تھے ۔ ہم سب وہ لوگ‘ وہ دو آدمی جو ہوٹل میں تھے ۔ وہ اچھے نہیں ہیں وہ۔ ‘‘ وہ ٹوٹے پھوٹے لہجے میں بول رہی تھی مسلسل روتے ہوئے۔ادھورے۔نامکمل فقرے۔
’’تمہارے آغا جان آج آرہے ہیں‘ ان کے ساتھ واپس چلی جانا ۔ اس سے زیادہ میں کچھ نہ ہی سنوں گا‘ نہ ہی کہوں گا کیونکہ یہ میری تربیت میں نہیں ہے ورنہ…‘‘ وہ کہتے کہتے رکا ۔ اور زینب کو لگا تھا کہ اسے موت کا پروانہ تھمایا گیا ہے۔
’’ورنہ خدا کی قسم اگر تمہاری جگہ کوئی اور ہوتا تو میں اس کی جان لے لیتا۔‘‘ وہ جان لے چکا تھا اس کی ۔ وہ چیخنا چاہتی تھی لیکن اس کی صحبت میں رہتے رہتے وہ بھی ویسی ہی مضبوط اعصاب والی ہوگئی تھی ۔
’’ یہ تم نہیں ہو زینب ۔ میری زینب ‘ بہت پیور تھی ۔ وہ لڑکی جو میری زندگی میں آئی تھی وہ بہت خالص تھی ۔ جھوٹ نہیں بولتی تھی ۔ مائنڈ گیمز نہیں کھیلتی تھی۔ اس کے منہ پر کوئی نقاب نہیں تھا ۔ میں نے اس لڑکی سے محبت کی تھی ۔ اسے چاہا، اسے ہر تکلیف سے بچایا مگر مجھے استعمال کیا گیا ۔ میرے ساتھ کھیلا گیا ۔ اس کاتاوان میں رات لے چکا ہوں ۔ میری طرف سے تم اب میرے لیے کچھ نہیں ہو ۔ میری یاداشت میں تم بس ایک ایسی یاد بن کر رہو گی جو ایک مہرے کی طرح مجھے استعمال کرتی رہی۔ ‘‘ وہ اب بھی نارمل تھا ۔
چیخ نہیں رہا تھا ۔ لیکن اس کالہجہ اتنا ٹوٹا ہوا تھا کہ اس کی کرچیاں زینب کو اپنے وجود میں چبھتی ہوئی محسوس ہورہی تھیں ۔اسے لگا تھا وہ وہیں کھڑی کھڑی اس کے لفظوں سے ہی مرگئی ہے ۔
’’یہ سیٹ ،یہ کرسی ، یہ راج تم لوگوں کو مبارک ‘ میں چھوڑ چکا ہوں ۔ جاؤ، میرا تھوکا ہوا چاٹ لو جا کر…‘‘ آخر میں اس کالہجہ حقارت سے بھرا تھا ۔ اس کے بعد وہ باہر نکلنے لگا تھا لیکن وہ نیچے بیٹھ کر اس کی ٹانگ پکڑ چکی تھی ۔ وہ ایک پل میں ہی ملکہ سے داسی بنی تھی۔
’’میری بات‘ ایک بار میری بات سنیں پلیز۔‘‘ وہ چیخی تھی۔
’’اب نہیں زینب‘اب نہیں ۔ میں کل سے انتظار کرتا رہا، تمہارے قریب آیا، تمہیں اپنی محبت کا یقین دلایا کہ شاید تم شرمندہ کر بتا دو کچھ ۔ لیکن اب نہیں۔‘‘ وہ اسے کھڑا کرتے ہوئے بولا۔
’’ایک بار پلیز‘پلیز ایک بار۔پلیز…‘‘ وہ گڑگڑائی۔
’’اب نہیں ۔ نکاح والی رات سے کل تک میں کبھی تم پر شک نہیں کیا حالانکہ تم جس خاندان سے تھی وہ میرے باپ کا قاتل ہے ۔ میرے گھر والوں نے کبھی تمہیں کوئی طعنہ نہیں دیا ۔ ہمیشہ مان دیا، عزت دی، محبت دی ۔ بدلے میں تم کھیلتی رہی ہمارے ساتھ‘اب نہی سن سکتا میں ۔ ‘‘ وہ آج جتنا بولا تھا زندگی میں کبھی نہیں بولا تھا ۔ ایک جھٹکے سے دروازہ بند کرکے وہ باہر چلا گیا تھا اور پیچھے وہ زمین بوس ہوئی تھی۔
٭…٭…٭
چوہدری ظہور سے ملتے وقت بھی وہ مکمل پرسکون تھا ۔ لیکن ان کی خوشی اسے صاف نظر آرہی تھی ۔ ایک ایک انگ سے عیاں ہورہی تھی۔ وہ بہت اچھے طریقے سے سمجھ رہا تھا ان کی خوشی کا راز۔انہیں بٹھا کر اس نے عفان کو ردا اور زینب کو بلانے بھیجا تھا ۔ چوہدری ظہور قدرے حیرت سے اس کے پرسکون چہرے کو دیکھ رہے تھے۔ وہ تو ایسے تھا جیسے اس کو کوئی فرق ہی نہیں پڑ رہا تھا ۔ کون جانتا تھا اس کے اندر کتنے طوفان آئے ہوئے ہیں۔
تھوڑی دیر بعد ردا آئی تھی ۔ آتے ہی وہ بھاگتی ہوئی آغا جان کے گلے لگی تھی۔
’’زینب کہاں ہے۔‘‘ آغا جان نے اسے پیار دیتے ہوئے پوچھا ۔
ان کی بات پر عمر بے اختیار طنزیہ مسکرایا تھا ۔ کل تک کیسے ڈرامہ کر رہی تھی وہ کہ وہ نہیں ملے گی آغا جان سے ۔ وہ ان سب کو اپنا دشمن مانتی ہے اور حقیقت کیا نکلی تھی۔
’’بھائی وہ۔ ‘‘ عفان کی گھبرائی ہوئی آواز پر وہ سب دروازے کی طرف دیکھنے لگے تھے۔
’’وہ زینب ‘بے ہوش پڑی ہوئی ہے کمرے میں ۔ اسے نجانے کیا ہوگیا ہے۔‘‘ عفان کی بات پر وہ بے اختیار کھڑا ہوا اور دروازے کی طرف بھاگا ۔ وہ سب اس کے پیچھے ہی آئے۔ وہ بے اختیار رکا۔
’’آپ لوگ ادھر ہی رکیں۔ ‘‘ قدرے تلخ اور سرد لہجے میں کہتا وہ اندر بھاگا تھا ۔ جہاں امی اور علیزے اس کے بے ہوش وجود پر جھکے ہوئے تھے ۔ اس کو آتا دیکھ کر وہ فوری پیچھے ہوئی تھیں۔
’’اس کاتو رنگ بہت پیلا پڑگیا ہے عمر ۔اس کو کیا ہوگیا ہے۔‘‘ امی کی ڈری ہوئی آواز اسے جھکتے ہوئے سنائی دی تھی۔
’’زینب…‘‘ اس نے اس کاسر ذرا سا اونچا کر کے دونوں گال تھپتھپائے۔اس کارنگ سرسوں کی طرح پیلا پڑا ہوا تھا۔
’’زینب ۔ ‘‘وہ تشویش سے اب اس کی دھڑکن سننے کے لیے اور قریب ہوا۔
’’ڈاکٹر آگئی ہے بھائی۔‘‘ عفان نے پیچھے سے کہا ۔ اس نے فوری اس کے دھان پان وجود کو بیڈ پر لٹایا تھا۔
گاؤں کی ڈاکٹر آگئی تھی ۔ وہ سب پیچھے ہٹ کر کھڑے ہوگئے۔
’’ ان کا بلڈ پریشر بہت لو ہے ۔ اس وجہ سے یہ بے ہوش ہو گئی ہیں ۔ لیکن مجھے ڈر ہے کہ ان کا نروس بریک ڈاؤن نہ ہو گیا ہو ۔ آپ فوراََ ان کو شہر لے جائیں۔‘‘ اس کی بات پر وہ سب پریشان سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے تھے ۔ کل تک تو وہ بالکل ٹھیک تھی پھر اتنی اچانک…
’’میں شہر جارہا ہوں ۔ عفان تم امی کو لے آؤ۔‘‘ اسے اٹھا کر وہ باہر چلا گیا تھا ۔
دو گھنٹے پہلے کیے گئے سارے نفرت کے دعوے خاک ہوگئے تھے۔ وہ اسے اٹھائے پاگلوں کی طرح بھاگاتھا ۔عفان بھی تیزی سے سر ہلاتا امی کو لے کر پیچھے آیا تھا ۔پونے گھنٹے کا راستہ اس نے بیس منٹ میں طے کیا تھا ۔ ہسپتال پہنچتے ہی اسے ایمرجنسی میں لے گئے تھے اور وہ بالکل ہارا ہوا وہیں بیٹھ گیا تھا ۔اسے آج رونا آرہا تھا ۔ وہ واقعی رونا چاہتا تھا ۔ وہ نہیں جانتا تھا قسمت اس کے ساتھ کیا کھیل کھیل رہی ہے ۔کیا سچ ہے کیاجھوٹ‘ سب گڈ مڈ ہونے لگا تھا ۔ فی الحال اسے وہ زندہ چاہیے تھی۔
’’اللہ اپنا کرم کرے گا عمر ، ضرور کرے گا۔‘‘ امی نے روتے ہوئے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔
وہ اپنی آنکھوں کی نمی چھپاتا سر جھکا گیا تھا ۔ اتنے برسوں میں پہلی بار اس کاجی چاہا تھا کہ وہ روئے‘ بہت روئے ۔ اپنے اندر کا ہر درد باہر آنے دے ۔ڈاکٹر کو آتا دیکھ کر وہ آنکھیں تیزی سے جھپکتا کھڑا ہوا تھا۔
’’آپ کی مسز کو کوئی گہرا صدمہ لگا ہے ۔ اس وجہ سے ان کا نروس بریک ڈاؤن ہوگیا ہے ۔ ورنہ اتنی چھوٹی عمر میں ایسا بہت کم ہوتا ہے ۔ ابھی ان کی حالت کچھ بہتر ہے لیکن اگلے چوبیس گھنٹے ابھی اہم ہیں ۔ کیونکہ ان کی ذہنی حالت بہت مخدوش ۔ہے ‘‘ ڈاکٹر کی بات پر امی نے روتے ہوئے حیرت سے ڈاکٹر کو دیکھا ۔ صدمہ…اس کو کیا صدمہ لگ سکتا تھا ۔ وہ تو ہر وقت ایسے چہکتی ہنستی پھرتی تھی۔
عمر خاموشی سے بنا کچھ کہے باہر آگیا تھا ۔ اس کادل تیز تیز دھڑک رہا تھا۔کسی ڈر سے‘کسی خوف سے ۔ کیا اسے اس کی بات سن لینی چاہیے تھی ۔نظروں کے سامنے بے اختیار اس کاقربت کے انتہائی لمحوں میں گلابی پڑتا چہرہ گھوما تھا ۔وہ غلط تھی یا صحیح‘ وہ اسے عزیز تھی ۔ اتنی عزیزکہ وہ اسے کھونے کا رسک نہیں لے سکتا تھا ۔ اس کادل اس خیال سے ہی ڈوب رہا تھا ۔ وہ جو صبح بڑے بڑے دعوے کر رہا تھا سارے زمین بوس ہوئے تھے ۔ نمی گالوں پر آگئی تھی ۔ وہ اس وقت ہسپتال کے اس گوشے میں تھا جہاں تاریکی تھی ۔ اس نے اب آنسو روکے نہیں تھے ۔
عشقا سوچ کے کیتا تے کی کیتا
دل دے کے دل لین دی آس جے رکھی
پیارایہو جیا کیتا تے کی کیتا
کوئی وہاں سے گزرا تھا۔ گانا سنتے ہوئے۔
عمر کو لگا اس کادل رک گیا ۔ گزرنے والا گزر چکا تھا اور وہ ساکت ہوگیا تھا ۔ نمی اب بہت تیزی سے گالوں سے ہوتی ہوئی اس کے ہاتھوں پر گرنے لگی تھی۔
بہت دیر تک ایسے ہی کھڑے رہنے کے بعد وہ واپس ایمرجنسی روم کے باہر آیا تھا اور وہاں بیٹھے چوہدری ظہور، زینب کے بابا عزیز اور زوار کو دیکھ کر وہ خاموشی سے ‘دونوں جیبوں میں ہاتھ ڈالے دوسری سائیڈ پر کھڑا ہوگیا تھا ۔ یقینا وہ عفان کے ساتھ رابطہ کرکے ادھر پہنچے تھے ۔ اور وہ فی الحال کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں تھا ۔ کہتا بھی تو کیا‘ وہ ان کی اولاد تھی۔ اس کے ساتھ رہ کر بھی ان کی سگی رہی تھی ۔ تو وہ کس آسرے ان کو یہاں سے جانے کے لیے منع کرتا ۔ اس کاجی چاہا تھا وقت پیچھے چلا جائے ۔ صرف دو دن پیچھے‘ جب ہر چیز اس کی زندگی میں بہت اچھی تھی ۔ اس نے شیشے سے اندر پڑے نالیوں کے سہارے بے سدھ پڑے وجود کو بڑی ہمت کرکے دیکھا تھا ۔ اور دل کو بہت زور سے دھچکا لگا تھا ۔ رات وہ نازک وجود اس کی مضبوط پناہوں میں تھا ۔ وہ کتنی خوش تھی۔پھر وہ سب کیا تھا ۔ فریب، حقیقت، خیال … زندگی میں پہلی بار وہ پاگل ہورہا تھا ۔ ایک دفعہ پھر وہ وہاں سے ہٹ گیا تھا۔اور ہسپتال کے ملحقہ بنی مسجد میں آیا تھا ۔
کس بھاری دل کے ساتھ اس نے وہ حاجت کی نماز پڑھی تھی صرف وہی جانتا تھا۔اسے لگ رہا تھا ضبط کے مارے اس کادل پھٹ جائے گا۔
’’ میں نہیں جانتا کہ یہ سب کیا ہوا‘ کیسے ہوا ۔ جو مجھے دکھایا، آپ نے دکھایا ۔ اتنی آگہی آپ نے دی ۔ آپ چاہتے تو مجھے ابھی بھی نہ خبر ہوتی ۔ میں نہیں جانتا کس نے کھیل کھیلا میرے ساتھ اور کس نے نہیں‘ میں صرف اتنا جانتا ہوں ‘مجھے وہ صحیح سلامت چاہیے ، مجھے وہی چاہئے پلیز ۔ میرے لیے چیزوں کو ٹھیک کردیں ۔ ‘‘ وہ اب کھل کر رو رہا تھا ۔ یہاں اس در پر کیا پردہ ‘ ہر کوئی ادھر رونے ہی آتا تھا۔ اللہ تھوڑی ناں اپنے بندوں کو جج کرتا ہے ۔