خرمن قلب: قسط نمبر 5

جنت پور جب تک وہ پہنچا تھا تقریبا پورے ملک میں سوشل میڈیا پر وہ وائرل ہوچکا تھا ۔ عجیب ہی صورتحال تھی جسے وہ خود بھی حیران ہو کر دیکھ رہا تھا ۔ اس کے خیال میں تو اس نے ایسی کوئی بات نہیں کی تھی کہ اتنا ایشو بنتا، یہ بات تو ہر ایک کو ہی پتہ تھی ۔ ہاں، اس بات کا زبان پر آنا شاید اس کی غلطی تھی وہ بھی ٹی وی پر بیٹھ کر زبان پر لانا۔
’’کیسی دنیا ہے ، سچ بولنے پر اتنا ہنگامہ۔‘‘ وہ مسکراتے ہوئے سوچ رہا تھا ۔ اور یہ اس کی سٹرانگ نروز تھیں کہ وہ ابھی بھی مسکرا رہا تھا ۔ ورنہ جو صورتحال بن گئی تھی وہ مسلسل اس کے لیے خطرناک ہوتی جارہی تھی۔
گھر پہنچنے تک بہت رات ہوگئی تھی مگر گھر میں سب ابھی تک جاگ رہے تھے ۔وہ جانتا تھا سب اس کی فکر میں جاگ رہے ہیں ۔یہاں کے باسیوں کے دل ایک دوسرے کے لیے دھڑکتے تھے، کوئی ایک بھی پریشانی میں ہوتا تھا تو سب کی نیندیں اڑجاتی تھیں ۔وہ خود کو مکمل پرسکون کرتا ہی اندر آیا تھا۔
اس کے اندر آتے ہی وہ سب اٹھ کھڑے ہوئے تھے ۔ وہ سب کی طرف مسکراہٹ اچھالتا ہوا سیدھا دادو کے پاس آکر جھکا۔
’’یہ آپ کیوں اتنی دیر تک جاگ رہی ہیں۔‘‘ انہیں ساتھ لگاتے ہوئے وہ ریلیکس سا بولا ۔ مگر ان کی نظریں اس کے وجیہہ چہرے پر جمی تھیں ۔ ہلکی سی بڑھی ہوئی شیو کے ساتھ براؤن چمکتی آنکھیں اور بال‘ وہ کتنا پرسکون تھا ۔
’’کیا کر آئے ہو۔‘‘ وہ بس اتنا ہی بولی تھیں۔
ایک لمحے کو ان کو لگا تھا کہ وحید کھڑا ہے ان کے سامنے ۔ بالکل ویسی ہی آنکھیں، وہی غیر متزلزل ارادے‘ ہر کسی کو چونکا دینے والے۔
’’کچھ نہیں کیا میں نے‘جو کہا سچ کہا ۔ یہاں سب کو عادت ہے بات کا بتنگڑ بنانے کی۔‘‘ وہ نرمی سے ان کے ہاتھوں ہر بوسہ دے کر امی سے ملنے لگا ۔ساتھ ہی کن انکھیوں سے زینب کو دیکھا تھا جو ناراض چہرے کے ساتھ لال سوٹ میں الگ ہی غضب ڈھا رہی تھی ۔ پتہ نہیں وہ واقعی اتنی خوبصورت تھی یا اسے ہی لگتی تھی ۔ جب بھی وہ اسے دیکھتا تھا، ہر فکر سے خودبخود آزاد ہونے لگتا تھا۔
’’بھائی ، یوں ایجنسیوں کے خلاف بولنا … یہ مناسب نہیں ہے۔‘‘ عفان کی فکر بجا تھی ۔ وہ جو کچھ سوشل میڈیا پر دیکھ چکا تھا،باقی سب نے نہیں دیکھا تھا۔
’’میں…‘‘ وہ کہتے کہتے رکا ۔ پھر زینب کے ساتھ ہی صوفے پر بیٹھ گیا تھا ۔
’’تمہیں کیا لگتا ہے عفان ۔ میں کوئی اینٹی آرمی بندہ ہوں ؟ میں نے صرف اسٹیبلشمنٹ کے رول کی بات کی ہے بس۔‘‘ وہ پہلی بار وضاحت دے رہا تھا ۔
’’اسٹیبلشمنٹ صرف ایجنسیاں تو نہیں ہوتی یار ۔ یہ ہمارے ملک کا ایک خاص طبقہ ہے اور ان کی سوچ کہ صرف وہی سب پاورز کے مالک ہیں ۔ سالوں سے حکومتیں وہی لاتے ہیں اور جانے دیتے ہیں ۔ اس میں آرمی شامل نہیں ہے ۔ کوئی بھی ادارہ کیسے مکمل کسی چیز کا زمہ دار ہوسکتا ہے ؟ یہ ادارے کے کچھ افراد ہوتے ہیں بس اور بیوروکریٹس، عدلیہ، قانون ۔ یہ سب،ان سب اداروں سے بھی ایسے ہی افراد اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہوتے ہیں۔‘‘ اس کے تفصیل سے بتانے پر زینب کے چہرے پر یکدم ہی تشویش بڑھی تھی۔
’’پھر تو سارے ہی محکمے آپ کے خلاف ہوگئے۔‘‘ وہ ساری ناراضی بھول کر بولی تھی ۔ اس فکرمندی کے سر عام مظاہرے پر عمر نے اس سے بمشکل نظر ہٹائی تھی ۔
’’ یہ سب کوئی نہیں سمجھے گا بھائی۔ ‘‘عفان کے کہنے پر وہ پھر سے مسکرایا۔
’’کوئی بات نہیں ۔ آج میں سمجھا ہوں ۔ کل کچھ تو لوگ سمجھ ہی جائیں گے ۔ میں کسی ادارے کے خلاف نہیں ‘ نہ ہی کسی سے جنگ ہے میری ۔ لیکن ان کے اندر بیٹھے فرعونوں کے خلاف جب بھی مجھ سے پوچھا جائے گا میں بولوں گا ۔ فیکٹس کو سامنے رکھوں گا ۔ یہ ہم سب کا ملک ہے ۔ ہر سیاست دان کا احتساب ہوسکتا یہاں پر ، ہر کسی پر الزام لگتے ہیں، کسی ہر کرپشن کے ۔ کسی کی آڈیو آرہی ہے، کسی کی ویڈیو ۔ ان اداروں کے فرعونوں کے خلاف ایک بات بھی نہیں کی جا سکتی ‘کیوں ؟ یہ کوئی آسمان سے نہیں اترے ۔ کہاں لکھا ہے کہ اگر سیاست دان ہے تو برا کر سکتا ہے ۔ کرپشن کر سکتا ہے جھوٹ بول سکتا ہے ۔ لیکن اگر ایجنسی کا بندہ ہے تو وہ نہیں کر سکتا کیوں؟ وہ بھی انسان ہے ۔ وہ بھی غلطی کرسکتا ہے ۔ اس کابھی احتساب ہوسکتا ہے ۔ اس کو بھی ڈر ہونا چاہئے یہ‘ اس کی بھی آڈیو آسکتی ہے ۔ پھر ہی سب صحیح ہوگا ورنہ تو پچھتر سالوں سے یہ ڈھونگ چلتا آرہا ۔ آگے بھی چلے گا۔‘‘ وہ شاید اپنی زندگی میں پہلی بار اتنا کھل کر بولا تھا ۔ وہ بھی شاید اس وجہ سے کہ صبح سے اپنے خلاف ہوتے پروپیگنڈے کو دیکھ دیکھ کر وہ اپنا پوائنٹ آف ویو کہیں نہیں رکھ سکا تھا ۔
’’اور یہ چینل پر پابندیاں ۔ یہ سب ڈرامے بازی ۔ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہورہا ۔ سو آپ سب پریشان مت ہوں کائنڈلی‘ ریسٹ کریں جا کر ۔ جب تک میری زندگی اللہ نے لکھی ہے تب تک تو مجھے کچھ نہیں ہوگا ۔ جب تک میری قسمت میں عزت لکھی گئی ہے تو کوئی چھین نہیں سکتا ۔ تو پریشانی کس بات کی۔‘‘ وہ اب اٹل لہجے میں کہتا اٹھ کر اندر کی طرف چلا گیا تھا ۔ پیچھے وہ سب اب کچھ ریلیکس تھے۔
’’چلو جاؤ سب سو جاؤ ‘ خیر کی دعا مانگو ۔ ‘‘ دادو کے کہنے پر وہ سب خاموشی سے اٹھ گئے تھے ۔
’’ زینب ۔ ‘‘ وہ کمرے کی طرف جارہی تھی جب عفان کی آواز پر مڑی ۔ اور سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
’’بھائی کا خیال رکھنا۔‘‘ اس کی بات پر اس نے بھنویں اچکائی۔
’’بہت اچھی طرح خیال رکھوں گی‘ ڈونٹ وری۔‘‘ وہ دانت پیستی اندر کی طرف بڑھی۔
٭…٭…٭
جب وہ کمرے میں داخل ہوئی تھی وہ اسی طرح آنکھیں بند کیے بیڈ پر جوتوں سمیت نیم دراز لیٹا ہوا تھا ۔ شاید اس کی آنکھ لگ گئی تھی اور وہ جو فل شعلہ جوالا بنی اندر آئی تھی ایکدم ہی پانی کی طرح ٹھنڈی ہوگئی تھی ۔ سارا غصہ ہوا ہوگیا تھا ۔ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے وہ اس کے پاس آئی تھی ۔ بند آنکھوں پر بازو دھرا تھا ۔گویا نیند میں بھی ان آنکھوں کو پڑھنا بالکل منع تھا ۔ اس نے جھک کر بوٹ اتارنے چاہے تھے، لیکن ایک مضبوط گرفت میں اس کابازو آیا تھا اور اگلے ہی جھٹکے سے وہ اس کے اوپر گری تھی۔
’’آئی…ی۔‘‘اس کے منہ سے بے اختیار چیخ نکلی تھی ۔
’’جوتے اتروانے کے لیے تھوڑی نکاح کیا ہے۔‘‘ کان میں سرگوشی ہوئی تھی ۔ وہ دھک دھک کرتے دل کے ساتھ قدرے پیچھے ہوئی مگر گرفت بہت مضبوط تھی۔
’’جوتے کھانے کے لیے تو کیا ہے نا۔‘‘ اس کے تپے ہوئے جواب پر وہ بے اختیار ہنسا ور اسے کروٹ کے بل سائیڈ پر کر کے اب خود اوپر کی طرف ہو کر جھکا۔
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
اس کے بالوں کو بڑی نرمی سے اس کے چہرے سے ہٹاتے ہوئے وہ بڑے جزب سے بولا ۔ پھر وہاں پھیلتی سرخی کو دیکھ کر مزید جھکا تھا۔
’’دس از ناٹ فیئر ۔ وعدہ خلافی کر رہے ہیں آپ۔‘‘ وہ بمشکل اسے پیچھے دھکیلتی ہوئی بولی۔
’’یہ جو جلوے آپ دکھاتی ہیں، یہ فیئر ہے ؟ بندہ بشر ہوں، کتنا سہہ سکتا ہوں؟‘‘ وہ بالکل بھی سنجید ہ نہیں لے رہا تھا۔
’’کوئی آج کہہ رہا تھا کہ میں ان کو فرسٹ پرائرٹی نہیں دیتا۔‘‘ وہ اب اس کاہاتھ اپنے سینے پر رکھتے ہوئے چھیڑ رہا تھا ۔ عجیب سکون تھا اس لڑکی کی قربت میں‘ اسے اپنا ہی یہ روپ نیا لگنے لگ جاتا تھا ۔ اتنا خوش تو وہ کبھی بھی نہیں ہوتا تھا۔
’’کوئی بالکل ٹھیک کہہ رہا تھا۔‘‘ وہ جواباََ اب کچھ آہستہ آواز میں بولی۔
’’آپ کی سیاست‘ آپ کا پروفیشن …آپ کے لیے فرسٹ پرائرٹی ہے۔‘‘ وہ بہت سنجیدہ تھی ۔ عمر نے کہنی کے بل اس کی طرف کروٹ لی۔
’’اتنی جلدی کسی نتیجے پر نہیں پہنچتے کبھی بھی۔‘‘ اس کے کہنے پر زینب نے بے اختیار اس کی طرف دیکھا ۔ وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔ ایک طرف ڈر تھا، کسی انہونی کا، وہ ان سیکیور ہو رہی تھی ۔ ڈر رہی تھی ۔ جس عمر میں وہ تھی اس کایہ ڈر جائز تھا ۔ دوسری طرف ارادوں کی مضبوطی تھی ۔ زینب کو اس کی آنکھوں میں دیکھنا مشکل لگا تھا ۔ وہ کوئی عام مرد نہیں تھا ‘ اس نے بے اختیار اعتراف کیا دل میں ۔ وہ بڑی آسانی سے کسی بھی عورت کو پاگل کر سکتا تھا ۔ اور عمر کو وہ اس وقت پہلی بار کافی معصوم اور بے ضرر سے لڑکی لگی تھی ۔ حویلی کی شہزادی نہیں‘ بالکل ایک عام سی لڑکی جو کھل کر اقرار بھی نہیں کر رہی تھی اور اسے کھونے سے ڈر بھی رہی تھی ۔ اور وہ عام چیزوں کو ہی خاص مانتا تھا ۔ عام لوگوں کو ہی خاص کہتا تھا۔
بہت آسانی سے اس نے اسے خود میں سمویا تھا۔
’’میری زندگی میں تین سب سے اہم عورتوں میں سے تیسری تم ہو زینب۔‘‘ اب وہ بھی سنجیدہ تھا۔
’’یہ دنیا، یہ چکا چوند، شہرت، بدنامی یہ سب ہماری زندگی کے ساتھ ساتھ چلتا ہے ۔ اپنی بتیس سالہ زندگی میں میں ہر جگہ بہت فیئر رہنے کی کو شش کی ہے ہمیشہ ۔ ہر رشتے کو میں کو شش کرتا ہوں کہ اس کی اہمیت دوں مکمل۔‘‘ وہ پھر سے سحر پھونک رہا تھا اور وہ پگھل رہی تھی۔
’’کبھی کبھار غلطی ہوسکتی ہے ۔ مجھ سے بھی ہوجاتی ہے ۔ اس کے لیے ایم رئیلی سوری … آئندہ ہوئی تو تمہیں اللہ نے اسی لیے میرے ساتھ باندھا ہے تا کہ وقتاََ فوقتاََ میری طبیعت صاف ہوتی رہے۔‘‘ اینڈ پر اس کالہجہ کچھ شرارتی ہوا تھا اور وہ احتجاجاََ پیچھے ہوئی تھی۔
’’ میں نے تو کچھ کہا بھی نہیں ۔ آپ تو ایسے کہہ رہے جیسے میں کوئی جلاد ہوں ۔ بڑی ظالم ہوں،ہے نا ۔ ‘‘وہ قدرے غصے سے بولی۔
’’ظالم تو ہو ‘ وہ بھی تھوڑی نہیں ۔ بہت زیادہ۔‘‘ اس کالہجہ پھر بوجھل ہوا تھا اور زینب کی پلکیں بوجھل ہوئی تھیں ۔ ایسے ہی وہ اسے بڑے آرام سے زیر کرتا تھا ۔
’’چلو، میں چینج کرلوں ۔ سو جاؤتم بھی۔‘‘ اس کاماتھا چوم کر وہ کھڑا ہوا ۔
’’اور یہ سرخ رنگ پہننے سے ذرا پرہیز کریں ، کائنڈلی۔‘‘ وہ بے بسی سے کہ رہا تھا۔
’’کب تک؟‘‘ وہ بڑی شان سے مسکرائی تھی۔
’’جب تک آپ کی تعلیم مکمل نہیں ہوجاتی۔‘‘ کہہ کر وہ فورا واش روم میں گھس گیا تھا جبکہ وہ گہری ہوتی مسکراہٹ اور سرخ رخساروں کے ساتھ بستر سیٹ کرنے لگی تھی۔
٭…٭…٭
اگلی صبح وہ سب سے مشہور آدمی بن چکا تھا ۔ کوئی اس کے خلاف تھا تو کوئی اس کی فیور میں ۔ اس کے نام کے گروپس بن گئے تھے ۔ وہ جنت پور کا شہزادہ تھا ۔ اب سارا ملک اس کو جانتا تھا ۔ ہر جگہ اس کی خبریں تھیں ۔ اس کے ٹرینڈز تھے ۔ بڑے بڑے نام تھے، بڑے بڑے تجزیہ کار تھے جو اس پر تجزیہ کر رہے تھے ۔ وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں رہا تھا ۔ ہر جگہ سے اس کو کالز آرہی تھیں ۔ اور وہ اپنی چھوٹی دنیا میں مگن تھا ۔ اس ایک کنال کے پکے سادہ گھر میں … اپنے لوگوں کے مسئلے سنتے ہوئے ‘ ان کے درمیان خوش تھا ۔ جہاں اس کی ماں تھی، اس کاسب سے بڑا کمفرٹ زون ‘ دادو تھیں ۔ اس کاسب سے بڑا سپورٹ سسٹم‘اس کابھائی تھا جس میں اس کی جان تھی ۔ اس کی فیملی تھی جن کے لیے وہ سب کچھ تھا ۔اور اس کی زینب تھی ۔ جو اس کے لیے سب کچھ تھی ۔ وہ صرف سکون کرنا چاہتا تھا ۔ وہ دنیا کو اتنی ہی اہمیت دیتا تھا پہلے بھی، لیکن دنیا کو یہ بات اب پتہ چلی تھی ۔ ورنہ وہ اپنے فیصلوں میں بہت صا گو رہا تھا ۔
میڈیا، ملک دشمن این جی اوز اور ادارے ۔ اسے اپنے مفاد کے کیے رابطہ کر رہے تھے تا کہ آرمی کے خلاف بیانیے کو تقویت ملے ۔ ایک گروپ اسے اپنے بیانیے سے پیچھے ہٹانے کے لیے رابطہ کرنا چاہ رہے تھے اور وہ بس مسکراتے ہوئے اس ’’فریڈم آف ایکسپریشن‘‘ نامی چیز کا اس قدر مذاق بنتا دیکھ رہا تھا اور سکندر بیچارہ صبح سے فون سن سن کر پاگل ہوچکا تھا ۔ کیونکہ وہ شہزادہ اپنی جنت سے باہر جانے کے لیے تیار نہیں تھا لیکن وہ بھول گیا تھا کہ جنت سے انسانوں کو نکالا جاتا ہے ۔دنیا میں بھیجا جاتا ہے ۔ پھر وہ محنت کرتے ہیں ۔ وہاں رہنے کے لائق اعمال کرتے ہیں ۔ پھر ہی واپس آتے ہیں ورنہ نہیں ۔ امتحان شروع ہونے والا تھا اور بظاہر وہ بے خبر تھا مگر کون جانتا ہے ۔ واقعی بے خبر تھا یا بس پوز کر رہا تھا۔
٭…٭…٭
’’آپ کے خلاف غداری کے تحت ایف آئی آر کاٹی جارہی ہے ۔ ‘‘ سکندر اس کے سامنے کھڑا اس کو بتا رہا تھا ۔
وہ آج چار پانچ دن بعد شہر آیا تھا ۔لیکن اس واقعے کی ہائپ ختم نہیں ہوئی تھی ۔آگ کی طرح بڑھتی جارہی تھی اور پھیلتی جارہی تھی۔
’’ تین جگہ پر کٹ چکی ہے۔‘‘ اس نے اب تعداد بھی بتائی۔
’’ہوسکتا آپ کو اریسٹ کرنے کی کوشش کریں ۔ سادہ لباس میں صبح سے مشکوک لوگ ادھر ادھر گھوم رہے ہیں۔‘‘ اب کہ اس کالہجہ بہت دھیما ہوگیا تھا۔
’’میرا خیال ہے آپ دوبئی چلے جائیں ابھی اسی وقت۔‘‘ اس کے لہجے کی فکرمندی بتا رہی تھی کہ وہ کس قدر وفادار ہے ۔اور عمر وحیداس کے چہرے کے تاثرات ایسے تھے کہ کچھ بھی اندازہ لگانا مشکل تھا کہ وہ اس وقت کیا سوچ رہا ہے ۔ بظاہر وہ بہت نارمل تھا، سکون سے پیپر ویٹ گھما رہا تھا ۔جتنا وہ پرسکون تھا، اتنا ہی سکندر بے چین تھا۔
’’میں کہیں نہیں جاؤں گا سکندر۔‘‘ وہ بہت تسلی سے بولا۔
’’آپ کے پیچھے کوئی بڑا ہاتھ نہیں ہے ۔ وہ بہت آسانی سے آپ کو ٹارگٹ کرسکتے ہیں ‘ پلیز…‘‘وہ اب التجا کر رہا تھا۔
’’میں ادھر ہی رہوں گا ۔ تم بس پیچھے سب سنبھال لینا ۔ گھر والوں کو کچھ نہیں ہونا چاہیے ۔ کچھ بھی نہیں۔‘‘ اس کے لہجے میں ایک عجیب سی سردی تھی۔
’’میں اس طرح آپ کو شکار بننے نہیں دوں گا ۔ ساری پارٹیز آپ کے خلاف بول رہی ہیں ۔ ہوائیں ہماری مخالف سمت میں چل رہی ہیں ۔ آپ بس فوری کچھ دن کے لیے ادھر سے چلے جائیں پلیز ۔ جب معاملات ذرا ٹھنڈے ہوجائیں گے تب واپس آجائیے گا۔‘‘وہ زندگی میں پہلی بار عمر سے اختلاف کر رہا تھا ۔ ورنہ وہ بس جی کہنے کا عادی تھا۔
’’عمر وحید اتنا بھی آسان شکار نہیں ہے سکندر۔‘‘ اس نے بھی بہت مضبوطی سے پہلی بار اپنے بارے میں ایسی بات کی تھی ۔ اس کے اعتماد پر بھی سکندر کی کوئی ڈھارس نہیں بندھی تھی۔
’’ پریشان مت ہو ۔ آئو چیس کی بازی لگاتے ہیں آج۔‘‘ اس کی بات پر سکندر کو لگا تھا کہ اس کاذہنی توازن ٹھیک نہیں ہے ۔
’’آجاؤ، بڑے دنوں بعد تو موقع ملا ہے ۔ کھیل کھیلنے کا۔‘‘ وہ شطرنج بچھا چکا تھا۔
’’آپ کیسے اتنا پرسکون ہو سکتے ہیں ۔‘‘ وہ بے بس سا اب اس کے سامنے آکر بیٹھا تھا۔
’’وہ مجھے ڈرانا چاہتے ہیں سکندر تا کہ میں ڈر کر پھر ہمیشہ کے لیے ان کا مہرہ بن جاؤں ۔ میں ایسا کبھی نہیں کروں گا ۔ میں جانتا ہوں میں اکیلا کچھ نہیں بدل سکتا لیکن میں کوشش تو کرسکتا ہوں نا ، مجھے اپنے حصے کا کام کرنا ہے ۔ مجھے کرنے دو ۔ میں یہ کمپرومائز اور ڈرنے کے لیے اس فیلڈ میں نہیں آیا۔‘‘ اب وہ بھی سنجیدہ ہوگیا تھا ۔ سکندر خاموشی سے لب بھینچ گیا۔
’’ صاب، سکندر صاب ۔ وہ باہر کچھ لوگ آئے ہیں صاب کو گرفتار کرنے۔‘‘ نبیل کی ہانپتی ہوئی آواز پر وہ دونوں تیزی سے مڑے ۔ راہداری سے قدموں کی آوازیں ادھر ہی آتی سنائی دے رہی تھیں۔