افسانے

تو ان دنوں ملا ہے مجھے: کرن راجپوت

ان لڑیوں میں گلاب اور موتیے کے پھول نہیں اس کی زندگی بھر کے ارمان پروئے ہوئے تھے ۔ اس نے ایک لڑی اپنے ہاتھ میں لی اور اس کو اپنی ناک سے لگا کر تازہ پھولوں کی مہک گویا اپنی روح تک اتاری ۔ پھولوں کی لڑیوں سے سجے بیڈ کے بیچوں بیچ اس کی منکوحہ بیٹھی تھی ۔ وہ عورت جس کے انتظار میں اس نے اپنی زندگی کی چونتیس بہاریں کسی انمول امانت کی طرح سینت سینت کر رکھی تھیں اور یوں کہ بے راہ روی کا ایک بھی چھینٹا اس کے دامن تک رسائی نہ پا سکا ۔ آج ارمانوں کے پورا ہونے کی رات تھی ‘ آج اس کی بے رنگ زندگی میں تصویرِ کائنات کے سارے رنگ ایک ساتھ اترنے والے تھے ۔ اس نے آنکھیں میچ کر ایک گہری سانس لی ، جیسے خود کو یقین دلا رہا ہو کہ وہ کوئی سہانا خواب نہیں مجسم حقیقت ہے ۔ اس نے پھولوں کی لڑیاں دونوں ہاتھوں سے پرے ہٹائیں ، پہلی ہی نظر ہاتھ کی ہتھیلیوں پر پڑی ‘ دونوں ہاتھوں پر سرخ مہندی سے گل بوٹے کھلے ہوئے تھے ۔ اس کے دل کو کچھ عجیب سا احساس ہوا ‘ یہ ہاتھ اتنے حسین کیوں ہیں؟ عجیب سا احساس عجیب تر سوال…
گہرے سرخ لہنگے میں ملبوس وجود کے چہرے پر گھونگھٹ گرا ہوا تھا ۔ اس کا سر از خود نفی میں ہلا ‘ اس نے ایک جھٹکے سے اس کا گھونگھٹ الٹا تھا ۔ دلہن سسک اٹھی ‘ دوپٹے کے ساتھ اس کے بال بھی کھنچ گئے تھے ۔ اس کا دل دھک سے رہ گیا ۔ گھونگھٹ کی اوٹ سے ایک چاند نمودار ہوا تھا ۔ نمیر ظفر کرنٹ کھا کر دو قدم پیچھے ہٹا ‘ چاند سے چہرے پر حیرانی ابھری ۔
’’یہ سچ نہیں ہے ۔‘‘ اس کا سر مسلسل نفی میں ہل رہا تھا ۔ نمیر ظفر کو اپنی ہی آواز اجنبی لگی وہ دروازے کی طرف پلٹا۔
’’میرے ساتھ دھوکا ہوا ہے بے جی۔‘‘ وہ دہائیاں دیتا دروازے کی طرف دوڑا ۔ چاند سے چہرے کی حیرت اب پریشانی میں ڈھلی ۔
’’میرے ساتھ ایسا بیہودہ مذاق نہیں ہو سکتا ۔‘‘ دھاڑ کے ساتھ دروازے بند ہوا تھا ۔ دروازے بند ہونے کی لرزش ایمل کو اپنے بستر تک محسوس ہوئی تھی۔
’’اپنا بستر؟‘‘ وہ گھبرا کر بستر سے اٹھی۔
’’کیا یہ بستر واقعی میرا ہے؟ ‘‘ اس نے زمین کی طرف دیکھا زمین رفتہ رفتہ اس کے پیروں تلے سے کھسکنے لگی تھی
٭…٭
’’ابراہیم بھائی ، اس سے زیادہ میں کیا کہوں کہ اب آپ خود ہی چل کر لڑکے کے اطوار دیکھ لیں عمر بھر دعائیں دیں گے مجھے ۔‘‘
ساتھ چلتے ان کے سالے نے لڑکے کی شان میں کوئی لمبی چوڑی تقریر نہیں کی تھی ۔ وہ اس مزاج کے تھے ہی نہیں ان کی بات مختصراََ اور دلیل کے ساتھ ہوتی تھی ۔ ابراہیم سرور کو ان پر پورا بھروسہ تھا کہ وہ ان کو کبھی غلط لوگوں کے حوالے نہیں کریں گے ۔ یقیناً لڑکا بے داغ شخصیت کا مالک رہا ہوگا ۔ ان کے قدم آپوں آپ تیز اٹھنے لگے ‘ اپنی بیٹی کے لیے اچھا بر ملنے کی خوشی ان کے انگ انگ سے پھوٹی پڑ رہی تھی
’’لڑکے کی اپنی گارمنٹس فیکٹری ہے اور فارغ وقت میں…‘‘
’’اذان سن رہے ہو شکیل ؟ ‘‘ ابراہیم سرور کو دور سے اذان کی آواز سنائی دی روح پرور لہجہ اور پرسوز آواز۔
’’ہاں سن رہا ہوں ! کچھ غور کیا آپ نے؟‘‘ شکیل صاحب نے جواب دیتے ہی سوال بھی داغا ۔ وہ سیٹلائٹ ٹاؤن کے رہائشی علاقے میں داخل ہو رہے تھے ۔ دور سے ہی جامع مسجد الحنان کے دو مینار دکھائی دینے لگے ۔ آواز ہر بڑھتے قدم کے ساتھ قریب تر محسوس ہونے لگی۔
’’ہاں۔‘‘ ابراہیم سرور کی آواز میں رشک تھا اور چہرے پر مسکراہٹ۔
’’کیا بھلا؟‘‘ شکیل صاحب نے چمکتی آنکھوں سے سوال کیا۔
’’ہچکیاں! ‘‘ ابراہیم صاحب کے اس لفظ پر دونوں کھل کر خوشی سے مسکرائے۔
’’مؤذن اذان ادا کرتے ہوئے ہچکیوں سے رو رہا ہے ۔ ‘‘ ابراہیم سرور نے دلچسپی سے کہا ۔
دونوں کی آنکھوں میں اس ایمانی جذبے کے لیے کیا کچھ نہیں تھا ؟ ستائش ، رشک ، خوشی ، حیرت اور اندر کہیں من سے اٹھتا ہوا پیار ‘ وہ دونوں چپ چاپ اذان سنتے ہوئے آگے بڑھنے لگے ۔
’’کیا آپ اس مؤذن سے ملنا چاہتے ابراہیم بھائی ؟ ‘‘شکیل صاحب نے پراسرار لہجے میں ان سے سوال کیا ۔
’’ہاں،ہاں مگر کیسے ؟ ‘‘ان کے لہجے میں تجسس بھی تھا اور خوشی بھی۔
’’یہ آپ مجھ پر چھوڑ دیجیے،چلیے ہم نماز ادا کرنے کے بعد ‘ اس مؤذن کے گھر ہی چلتے ہیں ۔ ‘‘شکیل صاحب تیز تیز قدم اٹھاکر مسجد کی طرف جانے لگے۔
’’نہیں مطلب رکو تو ، ہم تو پہلے لڑکے والوں کے ہاں جا رہے تھے نا ؟ ان لوگوں کو برا نا لگے گا اگر ہمیں دیر ہوئی!‘‘ انہوں نے شکیل صاحب کے قدم سے قدم ملاتے ہوئے استفسار کیا
’’برا کیوں لگے گا؟ وہیں تو جا رہے ہیں ہم۔‘‘ شکیل صاحب نے شرارتی آنکھوں سے مسکراتے ہوئے کہا اور ابراہیم سرور تو جہاں کے تہاں کھڑے رہ گئے ۔
’’تمہارا مطلب کہ نمیر ظفر ہی وہ مؤذن ہے ؟‘‘ وہ فوراً بات کی تہہ تک پہنچے تھے مگر پھر بھی انہوں نے جیسے تصدیق چاہی۔
’’ہاں میرے بھائی یہ اذان تمہارے ہونے والے داماد نے ہی ادا کی ہے ۔‘‘ شکیل صاحب نے مسجد کے دروازے پر رکتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
’’شکیل بھائی واپس چلیں ۔‘‘شکیل صاحب نے پلٹ کر ان کو حیرت سے دیکھا ۔
’’کیا مطلب بھائی میں سمجھا نہیں ! ‘‘ ان کے ماتھے پر تفکر کی لکیریں ابھری تھیں۔
’’واپس چلیے سالا صاحب مٹھائی کی دکان پیچھے رہ گئی ہے ۔‘‘ اور اگلے ہی پل دونوں سالا بہنوئی فلک شگاف قہقہہ لگاتے ہوئے گلے ملنے لگے ۔ ایمل ابراہیم کی بات جو پکی ہو گئی تھی۔
٭…٭
’’یہ میرے جیسی کہاں ہے بے جی ؟ ‘‘
اس کا بس نہیں چل رہا تھا پوری دنیا کو تہہ و بالا کر دے ۔ دونوں ماں بیٹا بستر پر بیٹھے تھے اور بے جی شفقت سے اس کا ہاتھ دباتے ہوئے اس کو رام کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
’’تم ایک بار اس سے بات تو کر کے دیکھو میرے بچے ‘ وہ بہت پیاری بچی ہے تمہیں بہت خوش…‘‘
’’اس کی شکل پر خوف دیکھ کر آ رہا ہوں بے جی ، صبح سے پہلے وہ یہاں سے بھاگ چکی ہوگی اور آپ کے یہ سارے خواب دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔‘‘اس نے بے جی کی بات کاٹتے ہوئے استہزایہ لہجے میں جواب دیا بے جی بس افسوس سے اس کو دیکھے ہی گئیں۔
’’کہا بھی تھا کوئی مجھ جیسی ہی ڈھونڈ کے لا دیں ۔ لولی لنگڑی ہوتی ، دبی رنگت کی ہوتی ‘ ارے کچھ نہ سہی کوئی بھنگن ہی لے آتیں آپ اماں مگر آپ تو آسمان کے سینے سے چاند نوچ لائیں ۔‘‘ وہ سر جھکائے اپنے بال مٹھیوں میں جکڑ کر نوچ رہا تھا ۔ ضبطِ گریہ سے سانولا چہرہ تاریک پڑ رہا تھا۔
’’اچھا تم یہ پانی تو پیو!‘‘ بے جی نے گلاس میں پانی بھر کر اس کی طرف بڑھایا۔
’’ارے رہنے دیجیے اس کو۔ ‘‘
اس نے تنفر سے گلاس کو جھٹکا تو پانی چھلک کر اس کے اور بے جی کے کپڑوں پر گر گیا ۔ دونوں ماں بیٹا پہلے گلاس کو اور پھر اپنے اپنے کپڑوں کو دیکھنے لگے۔
’’چھلک گیا نا بے جی ؟ برتن میں اس کی گنجائش سے زیادہ پانی ڈال دو تو چھلک ہی جاتا ہے ۔ دیکھ لیں بے جی چھلک گیا ناں۔‘‘ وہ انہیں شکوہ کناں نظروں سے تکتا ہوا بستر سے اٹھ گیا۔
’’تم ایک بار کوشش تو کر کے دیکھو بچے ! ممکن ہے اس کو تم سے محبت ہی ہو جائے آخر اب تم…‘‘ بے جی نے اس کو دروازے کی سمت بڑھتا دیکھ کر پکارا ۔
’’محبت…؟‘‘
وہ ایک جھٹکے سے واپس پلٹا تھا ۔ بے جی کی بات ادھوری رہ گئی ۔ اس کے لہجے میں ایک عجیب سی کاٹ تھی ۔ بے جی کو اس کے لہجے سے خوف آیا ‘ انہوں نے کبھی اسے ان تیوروں کے ساتھ نہیں دیکھا تھا ۔ جانے اس کے من میں کیا آئی کہ وہ سارے کمرے کو متلاشی نظروں سے گھورنے لگا بے جی گھبرائی گھبرائی اسے تکنے لگیں ۔اس نے کشنز کو الٹ پلٹ کر دیکھا ‘ صوفہ کے پیچھے جھانکا ‘ بیڈ کے نیچے دیکھا اور اب وہ درازوں کی تلاشی لے رہا تھا ۔
’’یہ کیا کر رہے ہو نمیر ؟ کیا ڈھونڈ رہے ہو؟ ‘‘ ان کی آواز سے پریشانی جھلکی۔ وہ الماری کی تلاشی لے رہا تھا ‘ کپڑے نکال نکال کر زمین پر ڈھیر کرتا جا رہا تھا ۔ بے جی بستر سے اٹھ کر اس کے پاس آئیں۔
’’نہیں مل رہی اماں ۔‘‘ نمیر نے بہت دکھ سے ان کو دیکھا۔
’’کیا نہیں مل رہی بچے ؟ بتاؤ مجھے میں ڈھونڈ دیتی ہوں۔‘‘ماں کے لہجے میں شفقت تھی۔
’’محبت اماں…‘‘
’’محبت نہیں مل رہی۔ ‘‘نمیر نے شکست خوردہ لہجے کے ساتھ سر جھکا کر کہا ۔
بے جی نے ایک ہاتھ اس کے بالوں میں پھیرا اور دوسرا ہاتھ اس کی طرف وا کر دیا ۔ وہ کسی چھوٹے سے معصوم بچے کی طرح ان کے ممتا بھرے سینے میں چھپ گیا اور پھر ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے ۔ وہ چونتیس سالہ لمبا چوڑا مرد اپنی ماں کے سینے سے لگا بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا ۔ شاید اس نے ٹھیک سے تلاش نہیں کیا تھا ‘ محبت اسی دائیں ہاتھ کے دوسرے کمرے میں تھی ۔ سرخ جوڑے میں ملبوس اور اس کی آہٹ کی منتظر تھی۔
٭…٭
’’احسان کروگی مجھ پر؟ ترس کھاؤ گی؟‘‘ دروازہ دھماکے سے کھلا تھا ایمل کے اوسان خطا ہوئے ۔
’’ہو کیا چیز تم ؟ سمجھتی کیا ہو خود کو؟‘‘ تیر کی سی تیزی سے اس نے دروازے سے ڈریسنگ ٹیبل تک کا فاصلہ طے کیا تھا ۔ ایمل کی ٹانگوں میں گویا جان نہ رہی وہ اس کے بالکل سامنے تھا اس کے بے حد قریب تھا۔
’’اچھی بیوی ہونے کی اداکاری کروگی تم ؟‘‘ وہ اس کی طرف جھکتے ہوئے طنز کر رہا تھا ۔ ایمل ابراہیم نے فوراً اپنے غائب ہو جانے کی دعا مانگی۔
’’ دنیا کی نظر میں ایک مہان عورت بنو گی تم۔‘‘وہ الفاظ نہیں کوڑے برسا رہا تھا ۔ ایمل نے کھلے دروازے کی طرف مدد طلب نظر سے دیکھا ۔
’’اللہ جی! بے جی کو بھیج دیں۔‘‘
’’ادھر آؤ۔‘‘ اس نے یکدم ایمل کو بازو سے دبوچ لیا ۔ آہنی گرفت نے اس کی شاخ سی نازک بازو کچل ہی ڈالی ۔ ایمل کی آنکھ سے آنسو چھلکا ‘ چھوٹی سی ناک گلابی ہوئی۔
’’یا محبت ہو جائے گی تمہیں مجھ سے؟ ‘‘ اس نے اس کا دوسرا بازو بھی آہنی گرفت میں جکڑا ۔ وہ درد سے بلبلا اٹھی۔
’’اس چیز سے محبت کرو گی؟ ‘‘ اس نے ایمل کا ایک ہاتھ چھوڑا اور اپنی گردن پر ایک انگلی رکھی ایمل سر جھکائے لب کاٹتی رہی۔
’’دیکھو اس کو ایمل ابراہیم ۔‘‘ نمیر ظفر چنگھاڑا ۔
ایمل نے سٹپٹا کر دیکھا ۔اس کی گردن پر دائیں جانب کسی پتے کی شکل جیسا گہرا سیاہ دھبہ تھا ۔ ہاتھ جتنے بڑے اس سیاہ پتے نے نمیر کی آدھی گردن ڈھک رکھی تھی ۔ ایمل نے نظر چرائی ‘ نمیر کے لبوں پر استہزائیہ ہنسی دوڑ گئی۔
’’یا پھر اس سے پیار ہو جائے گا تمہیں ۔‘‘نمیر نے اس کا دوسرا بازو بھی چھوڑا اور اس کا ہاتھ دبوچ لیا ۔ اس نے ایمل کا ہاتھ اپنی آہنی گرفت میں دبوچ کر اپنے ماتھے پر دائیں جانب رکھا ۔ ایمل تھر تھر کانپ رہی تھی ۔ اس کی انگلیوں کے عین نیچے نمیر کے ماتھے پر ایک گول سا گومڑ بنا ہوا تھا ۔ تین انچ جتنا موٹا گومڑ دور سے ہی نظر آ جاتا تھا اور دیکھتے ہی عجیب کراہیت سی محسوس ہوتی ۔ ایمل کو لگا وہ رفتہ رفتہ ہوش کھو رہی ہے ۔ اس کو پورا کمرہ گھومتا ہوا دکھائی دیا ۔ اس نے آنکھیں بند کر لی پلکوں سے دو آنسو ٹوٹ کر گرے۔
بند آنکھیں، سرخ پڑی ناک، دائیں گال میں ڈوبتا ابھرتا بھنور اور ہاتھ میں ایمل ابراہیم کی نازک کلائی ۔ نمیر ظفر کو لگا اس ایک پل میں کچھ بدل سا گیا تھا ۔ اس کے ہاتھ میں یہ نازک سا ہاتھ ‘ اس کی منکوحہ کا تھا اس کا’’جائز اور طیب رزق‘‘ ایمل نے آنکھیں کھولی نمیر ظفر کمرے میں نہیں تھا ‘ وہ جا چکا تھا ۔ اس نے ڈریسنگ ٹیبل کا سہارا لیا اور وہیں بے جان سی زمین پر ڈھیر ہو گئی۔
٭…٭
وہ فجر کے بعد کمرے میں داخل ہوا تھا ۔ ایمل جائے نماز پر بیٹھی مناجات میں مشغول تھی ۔ کمرے میں چیزیں پٹخنے کی آوازیں گونجنے لگی‘ ایمل آنکھیں بند کیے مناجات میں ہی مشغول رہی کمرے کی بتیاں بجھائی گئیں ، ٹیبل لیمپ جلایا گیا ۔ جب تک ایمل جائے نماز سے اٹھتی نمیر ظفر سو چکا تھا ۔ اس نے سائیڈ ٹیبل کی دراز سے تسبیح نکالی ‘ نمیر چت پڑا سو رہا تھا ۔ سانسوں کی ہموار آمد و رفت اس کی گہری نیند کا پتہ دیتی تھی ۔ یہ شخص ، یہ دبتی رنگت اور تیکھے نقوش کا حامل اونچا لمبا شخص جس کی قابلیت کی گواہی دی جاتی تھی ‘ جس نے چھوٹی سی عمر میں ہی اپنا کاروبار سنبھالنا شروع کر دیا تھا ۔ صرف اس لیے دھتکارا جاتا رہا کہ اس میں دو ظاہری عیب تھے ۔ ہمارا حسن پرست معاشرہ شکل و صورت کو اس قدر ترجیح دیتا آیا ہے کہ ہم دوسروں کی باطنی خصوصیات کو نظر انداز کر دیا کرتے ہیں ۔ ویسے دیکھا جائے تو ایک خوشگوار ازدواجی تعلق کے لیے جن خوبیوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ سب نمیر ظفر میں موجود تھیں ۔بے داغ کردار،احساسِ زمہ داری،قابلیت،آمدن کا حلال زریعہ ان سب سے بڑھ کر دین داری اور چاہتی بھی کیا ہے ایک عورت ؟ انہی خوبیوں نے ابراہیم سرور کو گرویدہ کر لیا تھا ۔ ان کو یقین تھا کہ ان کی بیٹی بہت سکھی رہے گی مگر یہ سب اتنا ہی آسان ہوتا تو لوگ بیٹیوں کے اچھے نصیبوں کی دعائیں نہ مانگا کرتے ۔ یہ سب اتنا ہی آسان ہوتا تو لوگ بیٹیوں کے نصیبوں سے ڈرا نہیں کرتے۔
٭…٭
اب یہ معمول ہی بن چکا تھا ۔
نمیر فجر کی اذان دے کر نماز پڑھ کے گھر آتا ‘ کچھ دیر کمرے میں اٹخ پٹخ جاری رہتی اور پھر وہ سو جاتا ۔ اس سب کے دوران ایمل ابراہیم نماز ادا کرنے میں مشغول رہتی ۔ وہ آج بھی عبادت ختم کر کے اٹھی تو نمیر سو چکا تھا ۔وہ اس کے برابر آ کر لیٹ گئی ۔ پہلو بہ پہلو لیٹے اشخاص میں کہنے کو تو ہاتھ بھر کا ہی فاصلہ تھا مگر اس فاصلے کی پیمائش کی جاتی تو یہ فاصلہ صدیوں پر محیط نکلتا ۔ وہ سویا ہوا شخص اور وہ جاگتی ہوئی لڑکی قانونی اور شرعی بندھن میں بندھے لوگ ایک دوسرے سے یکسر گریزاں تھے مگر کسی ایک کو تو ابتداء کرنی ہی تھی نا؟
’’ایسا کب تک چلے گا نمیر؟ آج لوگ چپ ہیں کل سوال کریں گے ۔ مجھے اپنی کوئی فکر نہیں مگر میرے ابا بوڑھے اور کمزور ہیں ‘ شاید وہ لوگوں کی باتیں سہار نہ سکیں ۔ مجھے آپ کے رویے کا شکوہ نہیں بس دکھ ہے کہ آپ مجھے ایک موقع تو دے کر دیکھتے ‘ زندگی اتنی تلخ بھی نہیں جتنی آپ سمجھے بیٹھے ہیں ۔ نمیر آپ سن رہے ہیں نا؟ ‘‘ اس نے چت لیٹے نمیر ظفر کی طرف کروٹ لے کر بہت دھیمی آواز میں پوچھا۔
گہری خاموشی کوئی جواب نہیں ملا ۔ ہموار سانس اس کی نیند کا پتہ دے رہی تھی ۔ ایمل نے ٹھنڈی آہ بھری اور سونے کی تیاری کرنے لگی۔
٭…٭
’’امی نے بلایا ہے ہم دونوں کو دعوت پر ‘ ہم مکلاوے پر بھی نہیں گئے تھے وہ پوچھ رہی تھیں کہ ہم دونوں …‘‘
’’میں اور تم ہم کب ہوئے ‘میں تمہیں کچھ کہتا نہیں بی بی مگر تم تو جوتوں سمیت آنکھوں میں ہی گھستی آ رہی ہو ! ‘‘ وہ بولتا نہیں تھا کوڑے برساتا تھا ‘ روح زخم زخم کرتا تھا ۔ ایمل کے بال باندھتے ہاتھ لرز گئے ۔ ہاتھ سے ہیئر برش گرا ‘ بال بکھر گئے ۔ اس نے پلٹ کر نمیر ظفر کی طرف دیکھا نہیں تھا ۔ دیکھ لیتی تو وہاں اسے کوئی میٹھا سا تاثر ملتا ‘ شاید پتھر کا پگھلنا اتنی ناممکن بات بھی نہیں ہوتی۔
’’تمہیں جہاں بھی جانا چاہو میری بلا سے اب آئندہ کبھی ایسی…‘‘ لہجہ البتہ کاٹ دار ہی رہا ۔
’’اچھا اچھا نہیں جا رہے ۔ ‘‘ ایمل نے ہاتھ اٹھا کر اس کی بات بیچ میں ہی کاٹ دی ‘ مبادا سنگ باری طول نہ پکڑ لے ۔ نمیر ظفر اس کو گھورتے ہوئے کمرے سے نکل گیا البتہ دروازے سے دیکھو تو اس کے لبوں پر بھولی بسری مسکان آ ٹھہری تھی۔
٭…٭

1 2اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button

You cannot copy content of this page