ہم سرد ستارے: صبا زین
کئی بار وقت کے ہاتھ آپ کی باطنی ساخت کو اس قدر تبدیل کر دیتے ہیں کہ جب آپ وقت کے آئینے میں اپنے ماضی میں جھانکتے ہیں تو آپ کو اپنا وجود ناقابلِ پہچان لگتا ہے۔
آپ آئینے میں کھڑے شخص کو ’’اون‘‘ کرنے سے ڈرتے ہیں ۔ آپ کا اپنا وجود ہی آپ کو اتنا شرمندہ کر دیتا ہے کہ آپ کو اس کو قبول کرنے سے ڈر لگتا ہے ۔ مگر ہم نہیں جانتے کہ ماضی کو اپنائے بغیر مستقبل کی راہیں نہیں کھولی جاتی ۔ جو انسان اپنی ماضی کی غلطیوں کو معاف کر کے آگے نہیں بڑھ سکتا وہ ہمیشہ خلا میں پھنسا رہتا ہے۔
ایسے ہی خلا میں رومیسہ فرقان پھنسی ہوئی تھی۔
کہنے کو تو صرف چار سال گزرے تھے، مگر رومیسہ کے چھبیس سالہ جسم میں جیسے ستر سالہ بوڑھی بیوہ کی روح آ بسی تھی ۔ جس نے جوانی میں ہی بیوگی دیکھ لی ہوں اور پھر ساری عمر موت کے انتظار میں گزاردی ہو، جو اس کو جنت میں اپنے شریک حیات سے ملوادے ۔ مگر رومیسہ کی زندگی میں ایسی کوئی آس نہ تھی۔
اس کی روح تو کسی بنجارے کی مانند اپنی نوجوانی کے دنوں میں ایک در سے دوسرے در پر بھٹک کر اب تھک کر رومیسہ کے جسم میں ٹھہر گئی تھی ۔ اور ایسے ٹھہری تھی کہ اب ایک مشینی پراسیس تھا جو اس کو چلائے جا رہا تھا ۔ ابھی بھی وہ اسی مشینی پراسیس کے تحت اپنے گھر کے دروازے پر کھڑی ہو کر ایک ہاتھ سے پرنٹر کو سنبھالے، اس نے دوسرے ہاتھ سے کی لوک میں چابی کو گھما کر دروازہ کھولا ۔ اندر داخل ہو کر اس نے دونوں ہاتھوں سے پرنٹر کو سنبھالا اور پیروں کی ٹوہ سے دروازہ بند کیا۔
گھر میں داخل ہوتے گھٹن کی مخصوص بو اس کے نتھنوں سے ٹکرائی ۔ وہ بو جو بند کھڑکیوں والے گھر میں رچ بس جاتی ہے اور مکین کو اس بو کا اس وقت احساس ہوتا ہے جب وہ باہر کی کھلی فضا سے گھر دوبارہ لوٹتے ہیں ۔ اس گھر کے مکینوں نے کھڑکیاں کب کی کھولنا چھوڑ دی تھیں۔
وہ اندر داخل ہوئی تو ٹی وی لاؤنج سے منسلک کچن کے کاؤنٹر پر ٹیک آوے کے خالی ڈبے رومیسہ کا منہ چڑا رہے تھے ۔ کچن کے سینک میں جھوٹے برتن پڑے ہوئے تھے اور اس کا پانی کھلا ہوا تھا ۔ رومیسہ اس پانی کو نظرانداز کر کے اندر کمرے میں چلے جانا چاہتی تھی، مگر اس گھر میں رہنے والے تین نفوس میں سے صرف وہی تھی، جو 24 گھنٹے گھر پر گزارتی تھی۔ پانی ختم ہو جاتا تو اس کو ہی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا۔
اس نے ایک گہری سانس بھر کر پرنٹر لاؤنج میں پڑی شیشے کی میز پر رکھا اور جاکر نل بند کر کے دوبارہ پرنٹر اٹھا کر اپنے کمرے میں چلی گئی ۔ پرنٹر کو اس نے میز پر رکھ کر اپنے کمپیوٹر سے اٹیچ کیا اور سب سے پہلے اپنی ای میلز چیک کی ۔ اس کی پرانے کلائنٹ کی جس کے ساتھ اس نے پہلے بھی کام کیا تھا کی ای میل آئی ہوئی تھی جو کہ اس خلاصے پر مشتمل تھی کہ وہ اپنے پرانے ناول کی کامیابی کے بعد وہ رومیسہ کو اپنے نئے ناول کے لئے ہائر کرنا چاہتی تھی ۔ اس کی کلائنٹ اس وقت آن لائن ہی تھی۔
رومیسہ کے ہاتھ کی بورڈ پر تھرتھرائے۔
کچھ دیر میں ساری تفصیلات کے ساتھ رومیسہ کے پاس اپنا نیا پروجیکٹ تھا ۔ جس کی قیمت اس کے پچھلے پروجیکٹ سے دوگنی تھی ۔ مگر اس کے دل میں نہ اس نئے پروجیکٹ کی خوشی تھی اور نہ اپنی کامیابی کا اطمینان ۔ ایک حسرت تھی، ایک ناکامی کا احساس سا تھا۔
اس نے ایک حسرت بھری نگاہ اپنے بیڈ کے پاس پڑے کارڈبورڈ کے ڈبے پر ڈالی ۔ جس میں اس نے اپنے خواب قید کرکے رکھ دیے تھے اور کبھی دوبارہ پلٹ کر نہ دیکھا تھا۔
اس نے کلائنٹ کے میسجز کو ایک بار پھر سے ریویو کیا۔
’’اس بار کا ناول فیری ٹیل کی تھیم پر ہوگا مگر ہم نے ہیرو کو پرفیکٹ نہیں بنانا ہے، ہم نے اس کو ناقابلِ محبت دکھانا ہے ۔ دوسری طرف ہماری ہیروئن بھی بھٹکی ہوئی روح ہوگی ۔ یہی ان دونوں کا کرس ہوگا جو ایک دوسرے کی محبت پاکر ٹوٹے گا۔‘‘
رومیسہ نے ایک پل کے لئے آنکھیں بند کیں اور پھر کھول کر اپنی سکیچ بک اور گریفایٹ پنسلز لے کر بیٹھ گئی ۔ اس کی عادت تھی کہ وہ کبھی بھی کسی ناول یا کہانی پر کام کرنے سے پہلے اس کے کرداروں اور کہانی کی سیٹنگ کی تصویریں ضرور بناتی تھی ۔ تاکہ کہانی اس کے دماغ میں واضح ہو جائے ۔ یہی اس کاکام کرنے کا طریقہ تھا۔
کلائنٹ کہانی کی سیٹنگ ایک محل میں دکھانا چاہتی تھی ۔ ایسا محل جو کہ شاندار بھی ہو مگر جس سے وحشت ٹپکتی ہو ۔
کسی خوفناک فلم کی بھوتیا حویلی کی طرح؟
’’نہیں…‘‘ رومیسہ نے سر جھٹکا۔
کسی مضبوط قلعے کی طرح جس کے دل کے دروازے بند ہو۔
اس نے اس طرح کا محل پہلے بھی بنایا تھا، اس لیے ذہن کے پردے پر ابھی بھی وہ تصویر نقش تھی۔
اس نے پینسل کے مدد سے تصویر کھینچنا شروع کی، وہ درمیان میں کئی بار رک کر آنکھیں بند کرتی اور پھر اپنی تصور کی آنکھ سے محل کو دیکھ کر پھر سے اپنے سکیچ میں محو ہوجاتی ۔ آہستہ آہستہ کر کے وہ مینار تیار کرنے لگی، ستون سے پھر چبوتروں پر آئی اور داخلی دروازہ … اس آہنی دروازے کو اس نے نہر کے ساتھ منسلک کیا ۔ اور محل کے آس پاس گھنے درختوں والا جنگل … اس نے محل کے میناروں کی چوٹیاں سنہری رکھیں ‘ جس کی دیواریں سطح پر آتے آتے سرمئی ہو گئی تھیں ۔ جہاں پر سورج کی روشنی نہیں پہنچ پاتی تھی، وہاں پر سبز کائی نے اپنا بسیرا کیا ہوا تھا ۔ محل کی تصویر مکمل ہوئی تو اس نے سکیچ بک کا نیا صفحہ موڑا ۔
وہ ہیروئن سے پہلے ہیرو کو بناتی تھی ۔ رومینٹک ناول زیادہ تر خواتین کی مخلوق پڑھتی تھی اور وہ جانتی تھی کہ اگر آپ نے ہیرو کو ایسا بنایا جو نوجوان خواتین کے دل کے تار چھیڑ دے تو آدھی کامیابی تو آپ کے سر ہو جاتی ہے ۔ اس نے آنکھیں بند کر کے کلائنٹ کی ہدایت ذہن میں دہرائی۔
’’ہم نے ہیرو کو ناقابلِ محبت دکھانا ہے۔‘‘
ایسی کیا چیز ہوتی ہے جو آپ کو ناقابلِ محبت بنا دے ؟ اس نے اپنے آپ سے پوچھا ۔ آپ کی ذات کی تاریکیاں …اس کے اندر سے جواب آیا۔
آہستہ آہستہ اس کے ہاتھ پھر سے کورے کاغذ پر رنگ بکھیرنے لگے۔ وہ عام طور پر بلیک اینڈ وائٹ کے بجائے کلر پینسل استعمال کرتی تھی ۔ ابھی بھی وہ خاکہ تیار کرنے کے بعد رنگوں کا استعمال کرنے لگی ۔ سنہری رنگت، بھورے بال، کسی راج کمار کی سی ناک اور آنکھوں اور کان کے درمیان بائیں گال پر انگلی جتنا سیاہ تل ۔ آنکھوں پر وہ سب سے زیادہ اپنا وقت صرف کرتی تھی ۔
آنکھیں… جو روح کی کھڑکیاں ہوتی ہیں، وہی اندر کی تاریکیاں ظاہر کرتی ہیں۔
لمبی پلکوں والی سیاہ ترین گہری آنکھیں… جو آپ کی طرف دیکھے تو آپ کے اندر کے سارے راز پڑھ ڈالے۔
سکیچ مکمل کرکے رومیسہ نے جب اپنا شاہکار دیکھا تو اس کو اپنی ریڑھ کی ہڈی کے اندر تک جھنجھناہٹ محسوس ہوئی ۔ ان آنکھوں کو کبھی اس نے بہت قریب سے دیکھا تھا ۔ اس نے لاپرواہی سے سکیچ بک کا وہ صفحہ پھاڑا اور بے دلی سے اس کو مروڑ کر ردی کی ٹوکری میں اچھال دیا ۔ مگر نشانہ غلط ہونے کی بنا پر وہ لڑھک کر باہر آگیا۔
جب وہ دوبارہ ہیرو کی تصویر کو کاغذ پر اتارنے لگی تو صرف چہرے کے خاکے کے علاوہ کچھ تیار نہ کر سکی ۔ جب کافی دیر تک چاہ کر بھی اس کے تصور میں کوئی تصویر آ کر نہ دی تو اس نے سکیچ بک کو اپنے بیڈ کے سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔
وہ مسلسل چار گھنٹوں سے کام کر رہی تھی اب کام چھوڑا تو بھوک نے ایک دم حملہ کردیا۔
اس وقت تک اس کے والدین اپنے اپنے کمروں میں جا چکے ہوتے تھے ۔ اس لئے ان کا سامنا ہونے کا اس کو خوف نہ تھا ۔ وہ دبے پاؤں کچن کی طرف بڑھی ۔ اس گھر میں کھانا بنانے کا کوئی رواج تو نہیں تھا ۔ مگر پھر بھی کچھ نہ کچھ شاید فریج میں مل ہی جائے ۔ بہت تلاش بسیار کے بعد اس نے فروزن پیزا کا ڈبہ فریج سے باہر نکالا اور مائکرویو میں گرم کرنے رکھ دیا ۔
کھانے سے فارغ ہو کر دوبارہ اس نے اپنے کمرے کی طرف قدم بڑھائے۔
اپنے بیڈ پر بیٹھ کر دوبارہ اس نے سکیچ بک سنبھالی اور ایک بار پھر سے ہیرو کی تصویر کو کاغذ پر اتارنے کی کوشش کی ۔ مگر جب ان سیاہ آنکھوں کے علاوہ کوئی تصویر اس کے ذہن کے پردے پر نہ آئی تو اس نے ہار مان کر سکیچ بک بند کر کے بیڈ پر سیدھا ہو کر لیٹ گئی۔
اس کے بوجھل دماغ پر نیند کو حاوی ہونے میں چند لمحے لگے تھے ۔ وہ چند لمحے جس میں وہ کسی اور ہی دنیا کی باسی بننے والی تھی ۔ اس چیز سے بے خبر کہ ردی کی ٹوکری کے باہر وہ سیاہ آنکھیں اس مڑے ترے سکیچ کے اندر سے جھانک رہی تھیں۔
٭…٭…٭
وہ سنہری دھوپ جیسا محل تھا جس کے مینار آسمان کو چھوتے تھے ۔ جس کے چاروں طرف گھنے درختوں کا سایہ تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ اس محل کی بیرونی دیواریں سنہری دھوپ سے سرما کی شام کی سی رنگت اختیار کر گئی تھی ۔ جس پر آکاس بیلوں نے قبضہ کیا ہوا تھا ۔ اس محل کو دیکھ کر لگتا تھا جیسے ہزاروں سالوں سے اس میں کوئی بھی نہیں رہتا تھا ۔ اس وقت وہ اس محل کے سیاہ آہنی دروازے کے سامنے کھڑی تھی ۔ وہ اس وقت یہاں کیا کر رہی تھی؟ اس نے دروازے کو دیکھ کر اپنے آپ سے پوچھا۔
جیسے اس محل کی دیواروں کو آکاس بیلوں نے گھیرا ہوا تھا ویسے ہی اس کے دروازے پر نامعلوم بیلوں اور سورج مکھی کے پھولوں کے نقش ونگار بنے ہوئے تھے۔
رومیسہ کو یہ نقش و نگار بنانا یاد نہ تھا ۔اس نے ان نقش و نگار پر ہاتھ پھیرے تو اس کے ہاتھ کی جنبش سے دروازہ کھلتا چلا گیا۔ اس کے سامنے سفید اور سیاہ سنگِ مرمر کا فرش تھا، ایسے جیسے شطرنج کی بساط بچھی ہو ۔ وہ اس پر چل کر آگے بڑھی تو ہال کمرے کے بیچوں بیچ کاسنی رنگ کا مخملی قالین بچھا ہوا تھا، جس پر فرنیچر کے نام پر صرف سنہری تخت رکھا ہوا تھا ۔ سامنے کی طرف دونوں اطراف سے سیڑھیاں نکلتی تھیں جو دوسری منزل کی طرف جاتی تھی۔
اس نے آس پاس گھوم کر دیکھا ۔ دیواروں پر منقش پردے آویزاں تھے جس کا اصل رنگ، رنگ برنگے پھولوں نے چھپایا ہوا تھا ۔ دیواریں اونچی تھی اور تھوڑے تھوڑے فاصلے پر دو پٹ کی کھڑکیاں کھلی ہوئی تھیں ۔ ہر کھڑکی کے درمیان ایک مشعل جل رہی تھیں ۔چھت پر فانوس لٹک رہا تھا جو کسی پرانے درخت کی طرح اپنی شاخیں پھیلائے ہوا تھا، اور اس کی ہر شاخ پر پھولوں کے بجائے دیے جلے ہوئے تھے۔
اس نے آس پاس گھوم کر دیکھا تو وہاں کسی ذی روح کا شائبہ تک نہ پایا تھا ۔باہر سے آتے پرندوں اور پانی کے شور کے علاوہ کوئی آواز اس محل کی دیواروں سے نہیں ٹکرا رہی تھی۔
کیا اتنے بڑے محل میں کوئی بھی نہیں رہتا تھا؟
عام طور پر ایسی حالت میں کوئی بھی انسان گھبرا جاتا ہے۔ مگر ایسی گھبراہٹ اس کے وجود کا حصہ نہ تھی۔
وہ ادیبہ تھی، فنکار تھی، آرٹسٹ تھی۔
اس نے اپنے وجود کے اندر اتنی دنیائیں بسائی ہوئی تھی کہ اس کو یہ خواب میں آتی نئی دنیا پریشان نہیں کر رہی تھی ۔ اس نے بچپن سے ہی تو تصوراتی دنیا میں پناہ لی تھی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ حقیقی دنیا سے کٹتی جا رہی تھی ۔ لوگوں سے بھاگنے والی رومیسہ کے لئے ایک اجنبی محل میں کچھ لمحے دنیا سے کٹ کر گزارنا اتنا بھیانک نہ تھا۔
جب اس نے پورے ہال کمرے کو چھان مارا تو وہ ہار مان کر اسی سنہری تخت پر بیٹھ گئی، پھر چونک کر اٹھ گئی ۔ اپنے آس پاس کے منظر میں محو کر اس نے خود پر بلکہ اپنے لباس پر تو غور کیا ہی نہیں تھا ۔ وہ اس وقت ہلکے آسمانی رنگ کے لباس میں تھی جس کا دامن اس کے پیروں کو چھو رہا تھا ۔ اس نے آئینے کی تلاش میں ادھر ادھر نظر دوڑائی تو اس کو اس کی جھلک اپنے سامنے بنے کمرے کے اندر سے نظر آئی ۔ وہ اپنا لباس سنبھالے تیزی سے دروازے کھٹکھٹائے بغیر اندر داخل ہو گئی۔
اس کمرے میں صرف ایک آئینہ نہ تھا بلکہ ہر طرف آئینے ہی آئینے تھے ۔ سنہری آئینے، چاندی کے فریم میں سجے آئینے، لکڑی کے نقش و نگار سے منقش آئینے … ہر آئینے میں اس کا عکس تھا ۔ کبھی وہ اپنی زندگی میں ہر جگہ اسی طرح چھا جانا چاہتی تھی ۔ مگر اس خواہش کی اس نے بڑی بھاری قیمت چکائی تھی ۔ اب اس خواب میں ہر آئینے میں اس کے عکس کی اس کو کیا قیمت چکانی ہوگی؟
وہ سامنے قد آدم آئینے میں اپنا وجود دیکھ کر ٹھٹھک کر رک گئی اور سارے خیالات ذہن سے جھٹک دیے۔
وہ اس وقت فیروزی رنگ کی میکسی میں ملبوس تھی ۔ اس ریشم کے تار سے بنے ہوئے لباس پر اس کے بائیں کندھے پر چاندی کے تاروں سے پھول بوٹے کڑھے ہوئے تھے ۔ باقی کا لباس سادہ تھا ۔ اس کے دونوں آستین کسی چمگاڈر کے پروں کی طرف پھیلے ہوئے تھے جو کہ اگر وہ بازو اٹھاتی تو اس کی نوکیں اس کی کمر تک آتی تھی۔
قدیم زمانے کا وہ محل جو اس کے دل کی طرح خالی تھا ۔ وہ کسی زمانے کے شہزادی کے لباس میں اس محل میں قد آدم آئینے کے سامنے کھڑی تھی۔
بھلا اس سے بڑھ کر بھی کوئی دلچسپ خواب ہوسکتا تھا؟
وہ اپنے دونوں بازوں پروں کی طرح پھیلا کر آئینے کے سامنے گول گھوم گئی ۔ اپنی سرمستی کے عالم میں اس نے ان دو آنکھوں کو اپنے اوپر محسوس نہیں کیا تھا۔
’’کون ہو تم؟‘‘ وہ اس آواز پر چونک کر رکی۔
اس کی نگاہوں نے مقابل کو تلاش کیا تو اس کی نگاہیں گھنی پلکوں سے سجی گہری سیاہ آنکھوں پر آ کر رک گئی۔
٭…٭…٭
المصور اس کا خواب تھا ۔
اگر آٹھ سال کی عمر میں اس کے نانا اس کو المصور نہ لے کر جاتے تو وہ کبھی بھی مصور نہیں بنتا ۔ وہاں کی ہر تصویر اس سے باتیں کرتی تھی، اپنی کہانی آپ سناتی تھیں ۔ وہ ایسی تصویریں تھیں، جو ہمارے آس پاس کئی انسانوں سے زیادہ زندہ تھیں ۔ اس نے اپنے بچپن میں اپنی سیاہ آنکھوں میں حیرت بھر کر ایک ایک تصویر کو دیکھا تھا اور پھر ان کو اپنا مقصد بنا لیا ۔
وہ کاغذ اور رنگ لے کر بیٹھ جاتا اور اس زندگی کو اپنے لفظوں میں تلاش کرنے کی کوشش کرتا ۔ جب کبھی بھی اپنے نانا کے پاس جاتا تو المصور ضرور جاتا تھا ۔ پھر اس کے نانا کا کہیں اور ٹرانسفر ہو گیا اور وہ خود آرٹ کالج چلا گیا ۔ مگر وہ کبھی بھی المصور کو نہیں بھولا تھا۔
اور آج وہ اتنے سالوں بعد المصور دوبارہ آیا تھا تو المصور نے اس کو اپنانے سے انکار کر دیا تھا۔
پیرس کی آرٹ گیلریز میں اس کے فن کا انعقاد ہوچکا تھا ۔ آرٹ کی دنیا کے لوگ اس کو جاننے لگے تھے ۔ ان کی تعریفیں اس کے انا کے غبارے کو پھلا دیتی مگر المصور اس کے دل میں کسی کسک کی طرح دھڑک رہا تھا ۔ جب وہ دل کی ڈیمانڈ سے تھک گیا تو سوچا کیوں نہ مراکش کی اس چھوٹی سی آرٹ گیلری کو بھی رونق بخش دی جائے۔
اس نے ایک تصویر بنائی ۔ ایسی تصویر تو المصور میں کہیں نہ ہوگی ۔ وہ تو اتنے مشہور آرٹسٹ کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔
وہ صرف پراعتماد نہ تھا… وہ مغروربھی تھا۔
اس کے غرور کا بت اس وقت چٹخا، جب المصور نے اس کی پینٹنگ مسترد کر دی۔
’’آخر کیوں؟‘‘ اس کے دماغ نے احتجاج کیا۔