مکمل ناول

ابو سوتہ: ام ہانی

اے ہمارے رب میرے بدن میں عافیت دے ۔
اے ہمارے رب ہمیں کانوں میں عافیت دے۔
اے ہمارے رب ہمیں بصارت میں عافیت دے ۔
ہاتھوں پہ پھونک مار کر اپنے سارے بدن پہ پھیرتے ان کی نظر سامنے دیوار پہ لگی معاذ کی تصویر پہ ٹک گئی ۔ ایسا ہنستا مسکراتا چہرہ جس پہ نظر تک ٹھہرانا مشکل تھی ۔ وہ خوبصورت تھا … نہیں وہ حسین تھا ۔ یہ ایک ماں کی آنکھ نہیں کہتی تھی ۔ یہ ہر آنکھ کہتی تھی ۔ہر وہ آنکھ جو دیکھ سکتی تھی وہ کہتی تھی کہ جب وہ بچہ تھا تو خوبصورت بچہ تھا اور بڑا ہوکر حسین لڑکے میں ڈھل گیا ۔
چار سال گزر چکے تھے ۔ وہ آج تک اس گتھی کو سلجھا نہیں سکی تھیں ۔ آج بھی وہ رات کو ڈر سے اکثر جاگتی رہتیں اور سو جاتیں تو سوتے میں ڈر کر اٹھ جاتیں ۔ اپنے دونوں بیٹوں اور بیٹی کے کمروں کے چکر لگا کر آتیں کہ وہ ٹھیک سے سو رہے ہیں ۔ ان پہ ہاتھ پھیر پھیر کر دیکھتیں ۔ ان کی موجودگی پہ سکھ کی سانس لیا کرتیں ۔وہ اپنا گھر تک تبدیل کر چکی تھیں ۔ لیکن اس خوف نے اب تک ان کا پیچھا نہیں چھوڑاتھا۔
چار سال سے صبح شام کے اذکار چلتے پھرتے ان کی زندگی کا حصہ بن چکے تھے ۔ صبح کا آغاز سورہ بقرہ کی تلاوت سے ہوتا تھا جو گھر کے کونے کونے تک سنائی دیتی تھی۔ناشتے سے بھی پہلے عجوہ کھجور ان کے حلق سے اترتی تھی اور تینوں بچوں کو بھی باقاعدگی سے کھلاتی تھیں۔ سعد ان کی اس درجے احتیاط سے چڑتا تھا لیکن نمرہ سختی سے بھائی کو خاموش کرواتی کہ ماں سے کبھی بدتمیزی مت کرنا ۔ وہ جانتی تھی کہ وہ اندر سے کتنا زخمی ہیں ۔
’’ امی آپ صبح صبح جگا دیتی ہیں ۔ چھٹی والے د ن تو سونے دیا کریں ۔‘‘ سعد کبھی کبھار چڑ کر اٹھ جاتا اور بستر چھوڑ دیتا۔
’’ جو بھی کرتی ہوں برکت کے لیے کرتی ہوں ۔ رزق میں ، زندگی میں ، صحت میں… ‘‘ اس پہ پڑھ کر کچھ پھونکتی ‘ وہ کہتیں ۔
’’ صاف کہیں آپ اب تک ڈری ہوئی ہیں۔‘‘ اپنی جمائی روکتے سعد نے ماں کو دیکھتے سنجیدگی سے کہا ۔
’’ ہاں میں بہت ڈر گئی ہوں کیونکہ میں ایک ماں ہوں اور ہر ماں اپنے بچوں کیلئے ڈرتی ہے ۔ ‘‘اپنے سبھی بچوں کیلئے اب وہ ساری زندگی ڈری ہی رہیں گی یہ تو طے تھا۔
’’ وہ ایک بیماری تھی امی ۔اس ڈر کو دل سے نکال دیں۔ہم سب ٹھیک ہیں ‘ نارمل ہیں۔‘‘ نمرہ ماں کا ہاتھ تھام کر پیار سے سمجھاتی تاکہ وہ اس ڈر سے خود کو نکال سکیں ۔کچھ سکون سے جی سکیں ۔
’’ میں ڈاکٹر ہوں کیا میں نہیں سمجھتی کہ وہ بیماری تھی ؟‘ ‘ وہ عجیب سے انداز سے کہتیں ۔جیسے انہیں یقین ہو کہ وہ بیماری نہیں تھی ۔
’’ لیکن ڈاکٹرز ہی کہتے ہیں نا کہ وہ بیماری تھی ۔ ممانی نے کتنا سمجھایا ہے آپ کو کہ و ہ بیماری تھی تو آپ ذہن سے یہ سب نکال کیوں نہیں دیتیں ۔ ‘‘ مگر وہ نہیں مانتی تھیں ۔ وہ کسی کی نہیں مانتی تھیں ۔
انہیں کتنا سمجھا سمجھا کر ان کے تینوں بچے تھک چکے تھے لیکن وہ ہر طرح کی احتیاط اپنائے رکھنا چاہتی تھیں ۔ وہ اب مزید کوئی نقصان نہیں چاہتی تھیں ۔ مزید کسی نقصان کو برداشت بھی نہیں کر سکتی تھیں ۔ ایک دکھ ، ایک بہت بڑا دکھ ان کے دل چیر چکا تھا ۔ ایسا چیر ا دے چکا تھا جو کسی آپریشن سے بھی ٹھیک نہیں ہونا تھا ۔ اب ان میں مزید دکھ سہنے کی تاب نہ تھی ۔
٭…٭…٭
نمرہ کچن میں داخل ہوئی تو امی وائٹ ساس پاستا بنا رہی تھیں ۔ وہ جانتی تھی کہ دو دن سے بھائی نے کھانا زیادہ رغبت سے نہیں کھایا تھا تو امی اسی کے لیے پاستا بنا رہی تھیں کیونکہ وہ وائٹ ساس پاستا کا دیوانہ تھا ۔
’’ بھیجا کھانا نہ کھائیں تو ان کے لئے خاص کھانا بناتی ہیں اور جس دن ہمیں کھانا پسند نہ ہو تو کہتی ہیں کہ کھانا ہے تو کھاؤ ورنہ بھوکے رہو۔‘‘ اس کے منہ بسورنے پہ سدرہ مسکرا دیں ۔وہ تینوں بڑے بھائی کو بھائی جان کی بجائے’ ’بھیجا‘‘ بلاتے تھے ۔ بھائی جان کی شارٹ فارم بھیجا ۔
’’ کیونکہ بھیجا کبھی کھانے میں نخرے نہیں کرتا ۔ یہ تو اسے کچھ دن سے نجانے کیوں بھوک نہیں لگ رہی ۔ رنگت بھی پیلی زرد ہو رہی ہے ۔ اس لیے سوچا کہ اس کی پسند کا کھانا بناؤں تو شوق سے کھا لے گا ۔‘‘ سدرہ نے وائٹ ساس میں چکن اور شملہ مرچ فرائی کر کے ڈالیں اورمکس کرنے لگیں ۔اوپر سے کدوکش چیز ڈالی اور ذرا سا اوریگانو چھڑکا ۔
’’ سارے نخرے بھیجا کے ہی اٹھاتی ہیں ۔ سچ کہتے ہیں لوگ کہ بڑے بیٹے ماؤں کے بہت فیورٹ ہوتے ہیں ۔ ‘‘
وہ جانتی تھیں کہ ان کی تینوں چھوٹی اولادیں بھائی سے محبت کرنے کے ساتھ ساتھ کبھی کبھار ماں کی اس کے لئے بے پایاں مامتا دیکھ کر تھوڑا سا حسد میں مبتلا ہوتے ہیں ‘ خاص کر سعد جسے یہ اعتراض رہتا تھاکہ ان تینوں سے محبت ایک طرف اورمعاذ سے کی جانے والی محبت ایک طرف تھی ۔ وہ بہت کوشش کرتیں کہ چاروں سے محبت کے معاملے میں مساوات کرسکیں لیکن کیا کیا جائے کہ یہ جو دل ہوتا ہے اس پہ کسی کا اختیار نہیں ہوتا ۔ نہ یہ کسی کی سنتا سمجھتا ہے اور معاذ کے معاملے میں ان کا دل ایسا ہی تھا ۔
پاستا بنا کر وہ فرحانہ کو ضروری ہدایات دے کر نہانے چلی گئی تھیں ۔ وہ جب سے ہسپتال سے لوٹی تھیں انہوں نے ڈھنگ سے فریش ہو کر چینج تک نہیں کیا تھا ۔ رات کے کھانے سے کچھ دیر پہلے ہی معاذ گھرمیں داخل ہوا تھا ۔
’’ بھیجا !آج آپ ٹائم سے آگئے ہیں۔ لگتا ہے کہ آپ کو خبر ہو گئی تھی کہ امی نے آپ کی پسند کا کھانا بنایا ہے ۔ چلیں اب جلدی سے فریش ہو کر آجائیں۔میں کھانا لگا ہی رہی ہوں ۔‘‘ نمرہ اس وقت فرحانہ کے ساتھ میز ہی سیٹ کر رہی تھی ۔ جب سے وہ ساتویں کلاس میں آئی تھی امی نے اسے گھر کے کاموں میں لگانا شروع کردیا تھا تاکہ وہ بھی پڑھائی کے ساتھ کچھ گھر داری بھی سیکھے ۔ وہ جتنے بھی امیر تھے لیکن امی اس معاملے میں ذرا پرانے خیالات کی تھیں کہ لڑکیوں کی ایسی ٹریننگ ضرور ہونی چاہئے کہ اگر کبھی ان کے سر پہ پڑے تو انہیں گھر سنبھالنا آتا ہو ۔
’’ فرحانہ آنٹی ! امی نے کہا تھا کہ بھیجا آئیں تو ہی تازہ روٹی ڈالئے گا سب کے لیے ۔ امی ابھی شاور لے کر آتی ہی ہوں گی ۔ آپ جائیں اور روٹیاں ڈالیں ۔ میز میں لگاتی ہوں ۔‘‘
فرحانہ ان کی گھریلو ملازمہ تھی جو پچھلے نو سال سے ان کے گھر ہی رہتی تھی ۔ اس کا گھر میانوالی کے ایک گاؤں میں تھا جہاں اس کا شوہر اور ایک بیٹا اس کی ساس کے ساتھ رہتے تھے۔ شوہر اسے غصے میں طلاق دے چکا تھا ۔ میکے میں اس کے بھائی بھابھیاں ہی تھے جواسے رکھنے کے لیے تیار نہیں تھے اسی لئے وہ شہر کام کے لیے آگئی تھی ۔ یہاں اسے سدرہ کے گھر میں رہائش بھی مل گئی تھی اور کام کا اچھا معاوضہ بھی ملتا تھا جو وہ ہر مہینے اپنے بیٹے کو بھجوا دیتی تاکہ اسے کسی چیز کی طر ف سے پریشانی نہ ہو ۔ دو تین مہینے بعد اس کا شوہر بیٹے کو اس سے ملوا جاتا تھا ۔ طلاق دینے پہ پچھتاتا بھی تھا لیکن فرحانہ حلالے کے لیے بالکل تیار نہیں تھی کہ جان بوجھ کر یوں حلالہ کروانا گناہ ہے ۔ اسی لئے دونوں اب ایسی زندگی گزار رہے تھے جو زندگی کم اور وقت گزاری زیادہ لگتی تھی ۔ سدرہ اس کا بہت خیال کرتی تھیں تو بدلے میں وہ بھی سدرہ کو بڑی بہنوں جیسا مانتی تھی اور بچوں کو اس نے ویسے ہی سنبھالا تھا جیسے کوئی اپنی اولاد کو سنبھالتا ہے ۔
’’ مجھے بھوک نہیں ہے نمرہ جانی ۔‘‘ وہ بہن بھائیوں سے بہت محبت سے بات کرتا تھا چاہے اس کا موڈ کتناآف ہی کیوں نا ہو ۔
’’ لیکن امی نے آج وائٹ ساس پاستا بنایا ہے بھیجا ۔‘‘ نمرہ کو یقین تھا کہ اب وہ کھانے سے ان کار نہیں کرے گا ۔پاستا تو وہ پیٹ بھرا ہونے کی صور ت میں بھی کھا لیتا تھا ۔ وہ کہتا تھا کہ اللہ نے وائٹ ساس پاستے کے لیے اس کے معدے میں الگ سے ایک خانہ بنا یا ہوا ہے جو ہر وقت خالی ہی رہتا ہے ۔
’’ ابھی بھوک نہیں ہے ‘ بعد میں کھا لوں گا۔ میں بہت تھکا ہوا ہوں ۔ سونا چاہتا ہوں ۔‘‘ نمرہ نے اس کا بجھا بجھا چہر ہ دیکھا اور وقت دیکھا جہاں گھڑی پہ ابھی صرف پونے نو ہوئے تھے ۔ وہ کبھی اتنی جلدی سونے والوں میں سے نہیں تھا ۔ اسے حیرت ہوئی ۔
معاذ کے چہرے سے تھکن کے آثار ہویدا تھے ۔ اس کا رنگ پہلے سے کافی پیلا پڑ رہا تھا اور وہ مرے مرے قدموں سے چلتا ہوا اوپر کمرے میں جا رہا تھا ۔ بھیجا کے لیے اس کا دل اداس ہو گیا ۔
’’ کھانا لگا رہی ہو ‘ معاذ کو تو آنے دو ۔‘‘ امی کمرے سے نہا کر نکلیں تو پہلے کافی فریش لگ رہی تھیں ۔ نمرہ نے ماں کو دیکھا جو جوان بچوں کی ماں کم اور بڑی بہن زیادہ لگتی تھیں اور یہی کمنٹ انہیں ہر دوسرے جاننے والے سے ملتا تھا ۔
’’ بھیجا آ چکے ہیں لیکن وہ کھانا نہیں کھانا چاہتے ۔‘‘
’’ تم نے اسے بتایا نہیں کہ اس کا فیورٹ پاستا بنا ہے ؟‘‘ نمرہ نے ماں کو شکوہ کناں نظر و ں سے دیکھا ۔
’’ امی میں جتنا بھی چیں چیں کروں مگر سچ تو یہ ہے کہ بھیجا سے مجھے بھی پیار ہے ۔ اور میں بھی ان کی بجھی آنکھیں دیکھ کر پریشان ہو تی ہوں۔ آپ کو لگتا ہے کہ میں نے انہیں نہیں بتایا ہو گا ۔ میں نے بتایا تھا لیکن انہوں نے سن کر بھی کہا کہ مجھے بھوک نہیں ہے ۔ میں تھک چکا ہوں ۔ سونا چاہتا ہوں ۔‘‘
’’ اتنی جلدی سونے چلا گیا ہے؟‘‘ سدرہ نے بے اختیارگھڑی کو دیکھا ۔
’’ طبیعت ٹھیک نہیں تھی ان کی۔صاف بیمار لگ رہے تھے ۔‘‘ اس نے ماں کو بتایا تو وہ جلدی سے اس کے کمرے کی طرف لپکیں ۔
’’ اب یہ مت کہنا کہ ہم بیمار ہوں تو پوچھتی نہیں ہیں اور بھیجا کے لیے بھاگی جا رہی ہیں ۔ کیونکہ تم سب بیمار ہو تو پوری رات جاگ کر پہرہ دیتی ہوں ۔‘‘ سدرہ نے جاتے جاتے نمرہ کو مڑ کر دیکھتے کہا تو وہ شرارت سے مسکرا دی ۔
’’ نہیں کہتی ۔‘‘ وہ جانتی تھی کہ ماں ان کی بیماری میں ان سب کو کیسے سنبھالتی تھیں ۔وہ بھلا سچ مچ شکوہ تھوڑا ہی کرتی تھی ۔وہ تو یونہی بھائی اور ماں کو چھیڑا کرتی تھی ۔
سدرہ نے معاذ کے کمرے کے دروازے پہ دباؤ ڈالا تو وہ کھلتا چلا گیا ۔ وہ بیڈ پہ بے سدھ سا پڑا تھا ۔ لباس بھی تبدیل نہیں کیا تھا حالانکہ معاذ ایک نفاست پسند انسان تھا جو بھی ہو جاتا وہ ہمیشہ لباس موقع کی مناسبت سے پہنتا۔ رات کو سوتے ہوئے وہ نائٹ سوٹ ہی پہنتا تھا ۔ یہ تو پہلی بار تھا کہ جوتے یوں فرش پہ بکھرے پڑے تھے اور وہ آفس کے سوٹ میں ہی سو گیا تھا ۔
سدرہ نے اس کے چہرے پہ بکھرے بالوں کو ہٹایا ۔ اس کے نقوش بالکل حسیب اعظم جیسے تھے ۔ وہی ہونٹوں کا کٹاؤ ، وہی ستواں ناک اور بھرے ہوئے گال ۔ انہوں نے محبت سے بیٹے کے ہاتھ کو تھام کر اس کو بوسہ دیا لیکن وہ ماں کی اپنے قریب موجودگی سے بے خبر بس سوتا رہا تھا ۔ سدرہ اس کے پیروں سے جرابیں اتار کر ، جوتے سمیٹ کر اے سی کا ٹائم سیٹ کر کے دروازہ بند کر تی نیچے چلی گئیں ۔ لیکن ایک ماں کے دل کو عجب وسوسے نے گھر کر لیا ۔
’’ کہیں یہ اس لڑکی کی وجہ سے تو ایسا نہیں ہو گیا ۔ ‘‘ سیڑھیاں اترتے ہوئے ایک یہی بات ان کے دماغ میں چکرا رہی تھی۔
٭…٭…٭
صبح کے سات بجے تھے اور وہ ناشتے کی میز پہ بیٹھی سب بچوں کو ناشتہ کروا رہی تھیں ۔ وہ تینوں ڈرائیور کے ساتھ ہی سکول جاتے تھے ۔
سعد او لیول میں تھا ۔ نمرہ اور مونس دونوں سیونتھ سٹینڈرڈ میں تھے ۔ معاذ کی نسبت وہ تینوں آپس میں خاصے اٹیچڈ تھے چونکہ معاذ سے ان کی عمروں کا فرق زیادہ تھا تو وہ تینوں اس سے احترام کے رشتے سے منسلک تھے ۔ کبھی کبھار ہی ایسا ہوتا کہ چاروں مل کر باہر لان میں کرکٹ کھیلا کرتے ورنہ معا ذ کی اپنی سر گرمیاں تھیں جن سے اسے کم ہی فرصت ملا کرتی ۔
’’ معاذ ۔‘‘ وہ سیڑھیاں اترتا آ رہا تھا ۔ رات کی نسبت اس نے ڈھیلا ڈھالا سا ٹراؤزر شرٹ پہن رکھا تھا ۔
ماں کو سلام کرتے وہ اپنی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا ۔ وہ حسیب کی کرسی تھی جس پہ اب سدرہ اسے بٹھاتی تھیں کیونکہ حسیب کے بعد وہ ان کی جگہ سنبھال چکا تھا ۔ بزنس میں بھی اور گھر میںبھی ۔
’’ کیسی طبیعت ہے بیٹا ؟‘‘ اس نے زبردستی مسکراتے سر ہلایا۔
’’ کیا لو گے ناشتے میں ؟‘‘ وہ پوری طرح اس کی جانب متوجہ تھیں ۔
سعد نے مونس کو آنکھوں سے اشارہ کیا کہ دیکھ لو امی کو بھیجا کی کتنی فکر ہے ۔ وہ سامنے ہوں تو ہم کہیں جا چھپتے ہیں ۔
’’ جو بھی مل جائے ۔‘‘ معاذ کھانے میں بالکل نخرے نہیں کرتا تھا ۔ اس کا من پسند جملہ یہی تھا کہ جو کھانے کو مل جائے اور یہ سچ بھی تھا کہ جو کھانے کو مل جاتا وہ کھا لیا کرتا ۔اسی لئے عموما سدرہ اپنی پسند کا کھانا بنا دیا کرتی تھیں ۔
’’ فرحانہ معاذ کا ناشتہ لاؤ ۔‘‘
وہ ناشتے میں زیادہ رغبت سے جو کا دلیہ پسند کرتا تھا ۔ اس دن بھی سدرہ نے وہی بنوایا ہوا تھا لیکن معاذ خاصا بے رغبتی سے کھا رہا تھا جو سدرہ کو پریشان کر رہا تھا ۔
’’ کچھ اور بنوا دوں ؟‘‘معاذ نے سر نفی میں ہلایا ۔
’’ رات بھی کھانا نہیں کھایا اوربھوکے ہی سو گئے ۔ ناشتہ تو ٹھیک سے کرو ۔‘‘
’’ بس امی ۔‘‘ اس نے جو کا دلیہ ذرا سا کھا کر باؤل ایک طرف کردیا ۔
’’ بھوک جیسے مر گئی ہے ۔بالکل کھانے کو دل نہیںکرتا ۔‘‘
’’ کوئی پریشانی ہے تو بتاؤ ۔‘‘ اس نے ماں سے نظریں ملائے بنا سر نفی میں ہلا دیا ۔
سعد تیزی سے اپنی کرسی سے اٹھااور پیر سے کرسی کو دھکیلا ۔ اسے اکثر بھائی کی موجودگی میں اپنا یوں نظر انداز ہونا برا لگتا تھا اور اس وقت بھی یہی ہوا تھا ۔ اس کی دیکھا دیکھی مونس بھی اٹھ گیا اورپھر سر جھکائے نمرہ بھی ۔
’’ امی ناشتہ ہو گیا ۔ ہم چلتے ہیں ۔ سکول سے دیر ہو رہی ہے۔ بھیجااپنا خیال رکھیے گا ۔‘‘ وہ بھائی کے گال پہ ہلکا سا بوسہ دے کر الگ ہوئی تو معاذ مسکرا دیا ۔ بہن جب یو ں اسے پیار کرتی تو وہ جھینپ جاتا لیکن اس کی والہانہ محبت اسے اچھی بھی لگتی تھی ۔ سعد تب تک اپنا بیگ اٹھا کر باہر نکل چکا تھا ۔ مونس نکل رہا تھا ۔ نمرہ ذرا مرے قدموں سے باہر نکلی تھی ۔
’’ سعد ۔‘‘ اس نے باہر گاڑی کے پاس پہنچ کر اسے آواز لگائی جو فرنٹ سیٹ پہ بیٹھ چکا تھا ۔
’’ مت ایسے بی ہیو کیا کرو ۔وہ بھائی ہیں ہمارے ۔‘‘
’’ تو امی کو نہیں دیکھتی کہ وہ کیسے بی ہیو کرتی ہیں جیسے ان کی ایک ہی اولاد ہو ۔ ہم کبھی انہیں نظر نہیں آتے ۔‘‘
’’ بھیجا بیمار ہیں کچھ دن سے اسی لئے امی کو ان کی فکر ہے ۔‘‘
’’ امی کو ان کی فکر ہے تو اس کا مطلب ہم اپنی فکر خود کر لیا کریں ۔ کیونکہ ہماری ماں کو ہمیشہ سے اسی بیٹے کی فکر رہی ہے ۔‘‘ وہ بہت تلخ ہو رہا تھا اور اب اکثر وہ معاذ کو لے کرایسے ہی تلخ ہو جاتا تھا ۔ مونس چپ چاپ تھا اور پیچھے بیٹھ چکا تھا ۔
’’ ایسا نہیں ہے ۔ بھیجا بڑے بیٹے ہیں اور بڑے بیٹوں کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے سعد ۔‘‘ سعد نے غصے سے سر جھٹکا اور اپنی طرف کا دروازہ ٹھاک سے بند کیا ۔

1 2 3 4 5 6 7 8اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page