لباس: رابعہ ناز چشتی

’’ تمہاری یہ مجال! ‘‘
وہ بپھرے ہوئے شیر کی طرح اس پر غرا رہا تھا ۔پاس بیٹھی ماں بہنوں کے دل میں ڈھیروں اطمینان اترتا جا رہا تھا اور وہ سر جھکائے اپنی مجال پر ماتم کر رہی تھی ۔ بس یہی تو کہا تھا کہ پہلے حمل کے باعث میری طبیعت مضمحل رہتی ہے تو حمنہ یا ثانیہ (نندوں) میں سے کوئی آج روٹی بنا لیں ۔
’’ اے ہے تم اکیلی بچہ نہیں جننے جا رہی ۔ ہم نے بھی تین تین اولادوں کو جنم دیا ساتھ ساتھ ذمہ داریاں بھی پوری کرتے تھے۔‘‘ اماں ہاتھ نچا کر بولیں۔
’’ تو اور کیا اماں! میرے پیپر ہو رہے ہیں ، میں پڑھائی پر توجہ دوں یا گھر کے کام کروں ۔‘‘چھوٹی نند نے بھی لقمہ دیا ۔ سب ہی ٹھیک تھے اک وہی سر جھکائے مجرم بنی کھڑی تھی ۔
’’ اب جاؤ جا کر روٹی بناؤ ۔ ‘‘ مجازی خدا نے قہر آلود نظروں سے اسے گھورا وہ اپنے آپ کو سنبھالتی کچن میں جا گھسی ۔
’’ شانزے بیٹا! میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں ۔ اپنے ساتھی کا اچھے برے حالات میں ساتھ دینا ، اس کے عیبوں کو ڈھانپ لینا کہ لباس کا کام جسم کو ڈھانپنا ہی تو ہوتا ہے ۔ ‘‘ابا کی آواز اس کی سماعت میں گونج رہی تھی ۔
اس نے خود کو سنبھالا اور آنے والے حالات کے لیے خود کو طرح طرح کی دلیلوں سے تیار کرنے لگی ۔ زندگی آسان گزرنے والی نہیں تھی اس بات کا اندازہ اسے ہو چلا تھا ۔
٭…٭
’’ اماں آپ نہیں جانتیں میرے شوہر کو وہ بڑا کائیاں ہے ۔ ماں بہنوں کے تلوے چاٹنے والا میری تو کوئی عزت ہی نہیں ۔ ‘‘
ثانیہ اماں کے سامنے اپنے دکھڑے رو رہی تھی ۔ جب کہ شانزے اپنے دو سالہ بیٹے کے ساتھ کچن میں اٹکھیلیاں کرتے ہوئے اس کے لئے چائے بنا رہی تھی ۔ اماں بھی منہ پر ہاتھ رکھ کر ہائے ہائے کرتیں بیٹی کے غم میں شریک ہو جاتیں ۔ وہ زین کا ہاتھ تھامے دوسرے ہاتھ میں بڑی سی ٹرے پکڑے صحن میں آئی ۔ ثانیہ نے اسے سرتاپا دیکھا مامتا نے اس کے حسن میں چار چاند لگا دئیے تھے ‘ اور ایک وہ تھی کہ سسرال کے مظالم نے اسے اَدھ موا کر دیا تھا ۔ وہ سوچوں میں کھوئی تھی کہ شانزے نے کہا ۔
’’ دیکھو ثانیہ! وہ جیسا بھی ہے اسے قبول کر لو تم اسے بدلنے کی کوشش کرو گی تو خود کو ہی تھکا ئو گی ۔‘‘ اماں نے اس کی اس جرات پر آگ بگولہ ہو کر اسے دیکھا ۔
’’ تو تُو ہماری باتیں سن رہی تھی چوری چھپے! ‘‘
’’ آپ غلط سمجھ رہی ہیں اماں ۔ ‘‘ اس نے کمزور سی دلیل پیش کی تھی۔ اس کا شوہر بھی آ گیا جسے دیکھ کر اماں مظلوم بن گئیں ۔
’’ دیکھ رہا ہے ‘ اب تیری بیوی ہماری باتیں چوری چھپے سنے گی اور پھر شریکوں میں جا کر بیان کرے گی کیا عزت رہ جائے گی ہماری ۔‘‘ وہ دوپٹے کے پلو سے آنکھ کا کونا صاف کرنے لگیں ‘ثانیہ نے بھی خود کو مظلوم ظاہر کیا ۔
’’ تمہیں کتنی بار کہا ہے اپنے کام سے کام رکھا کرو ۔ ہمارے گھر کے معاملات میں ٹانگ مت اڑایا کرو ۔‘‘احسن اسے بری طرح لتاڑ رہا تھا اور وہ ہکا بکا پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
’’ یہ میرا بھی تو گھر ہے احسن ۔‘‘اس کی آواز اندھی کھائی سے آئی تھی ۔
’’ تم نے میرے گھر کو اپنا گھر سمجھا ہوتا تو ثانیہ کے ساتھ ہمدردی کرتی اسے دلاسے دیتی نہ کہ نصیحتیں ۔‘‘اس کا جی چاہا اپنا سر پیٹ لے ۔ کتنے عجیب لوگ تھے یہ نصیحت کرنا کوئی بری بات ہے کیا؟ اس نے محض سوچا اور چپ چاپ منظر سے ہٹ گئی ۔
’’ شانزے بیٹا! اپنے گھر کو گھر سمجھنا ۔ اب وہی تمہارا گھر ہے ۔ اس گھر کے مکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا ان کی برائیاں کرنے کا مطلب اپنے شوہر کی برائیاں کرنا ہے اور شوہر کی برائیاں کر کے خود کو بے لباس مت کرنا ۔ جانتا ہوں آسان نہیں ہوتا یہ سب لیکن تم اپنی ذات سے سب کو خیر ہی پہنچانا ۔‘‘اس نے خود پر ابا کا دستِ شفقت محسوس کیا ایک گرم سیال اس کی آنکھوں سے بہہ نکلا ۔
’’ ابا! میں خیر بانٹتے بانٹتے تھک گئی ہوں میرے حصے میں خسارے ہی آ رہے ہیں۔‘‘وہ تصور میں اپنے ابا سے مخاطب تھی جو اس دنیا فانی سے کوچ کر گئے تھے مگر ان کی تربیت ہمیشہ اسے حوصلے دینے آتی تھی ۔
’’ جو خیر بانٹتے ہیں وہ کبھی خسارے میں نہیں رہتے ، وقت بہت بڑا منصف ہے خیر کا صلہ ضرور ملتا ہے یقین رکھنا!‘‘ وہ ابا سے باتیں کرتی کرتی کب نیند کی آغوش میں چلی گئی پتہ ہی نہیں چلا ۔
٭…٭
عورت ہمت کا دوسرا نام ہے ۔ یہ صبر کی لاٹھی تھامے مشکل سے مشکل راہوں سے بھی گزر جاتی ہے۔
حالات اپنے دھارے پر بہے جا رہے تھے ۔ ثانیہ طلاق کا داغ لئے گھر آ چکی تھی اور حمنہ روٹھ کر میکے آئی ہوئی تھی ۔ وجہ وہی گھسی پٹی سسرال کی چخ چخ …وقت نے اماں کو بستر پر لا پٹخا تھا ۔ موسمی بخار نے کیا آن گھیرا وہ بستر سے ہی لگ گئیں ۔ کچھ بچیوں کے اجڑنے کا دکھ انہیں چاٹ رہا تھا ‘ گھر کی بھاگ دوڑ شانزے کے ہاتھ میں تھی ۔ وہ ہر وقت پھرکی کی طرح گھومتی رہتی اوپر تلے ہونے والے بچوں نے بھی اسے گھن چکر بنایا ہوا تھا ۔ اگر کچھ نہیں بدلا تھا تو وہ تھی احسن کی سرشت ۔
وہ آج بھی اپنی مردانگی کے زعم میں اپنے آ پ کو بے لباس کر جاتا تھا شانزے بس آہ بھر کر رہ جاتی ۔
یہ سردیوں کی نرم گرم دھوپ تھی جب اماں نے اسے اپنے پاس بلایا ۔
’’ شانزے! تم حمنہ کو سمجھاؤ اپنی ضد چھوڑ کر واپس چلی جائے تاکہ مجھے سکھ کی موت آ سکے ۔‘‘
وہ اماں جو اسے گھر کے معاملات میں مداخلت کرنے سے آسمان سر پر اٹھا لیتی تھیں آج اسے کیا کہہ رہی تھیں ۔ حمنہ کی ساس نندوں سے نہیں بنتی تھی جس کی وجہ سے شوہر کے ساتھ بھی چخ چخ رہتی ۔ یہ ہر گھر کی کہانی ہے لیکن جن کے ساتھ ایک چھت تلے ہمیشہ رہنا ہو وہاں پھر نا چاہتے ہوئے بھی بنا کر رکھنی پڑتی ہے حقیقت سے فرار کیسا؟
حمنہ پاس ہی بیٹھی دونوں ساس بہو کی باتیں سن رہی تھی
’’ لیکن اماں۔‘‘ اس نے کچھ کہنا چاہا ۔
’’ دیکھو حمنہ! میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں اور لباس کا کام جسم کو ڈھانپنا ہوتا ہے ۔ سرد و گرم سے بچانا ہوتا ہے ۔ تمہارے شوہر کے گھر والے بھی اس کے جسم کا حصہ ہیں ۔ تم انہیں بے لباس مت کرو ۔ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا اللہ خیر پھیلانے والوں کو اس کا اجر ضرور دیتا ہے ۔‘‘شانزے نے اس کا ہاتھ دبایا تو اس کا سر جھک گیا ۔ اس نے ارادہ کیا اسے ان عورتوں میں سے نہیں ہونا تھا جو کہتی ہیں۔
’’ہم اچھے تھے لیکن ہمیں حالات نے برا بنا دیا ۔‘‘ثانیہ نے بھی نم آنکھوں سے شانزے کے کندھے پر دباؤ ڈالا ۔ اماں نے احساسِ تشکر سے آنکھیں موندے لیں اور پیچھے کھڑا احسن سوچ رہا تھا ۔
’’ میں بھی تو ہمیشہ اپنی بیوی کی برائیاں گنواتا خود کو بے لباس کرتا آیا ہوں ۔‘‘آگہی کا احساس اس کے جسم کے آر پار ہونے لگا اور اس نے خود سے عہد کیا وہ صحیح معنوں میں اپنے ساتھی کا لباس بنے گا۔
٭٭