ناولٹ

اک شام گلابی پھولوں کی: آمنہ رضا

’’آغا جی نے شادی کر لی ۔‘‘وصی کی زبانی ملنے والی یہ خبر سن کر بڑی آپا جہاں کی تہاں تھیں وہیں تھم کر رہ گئیں۔ گویا سانپ سونگھ گیا ہو۔
’’ہیں؟ کیا؟‘‘ بمشکل لڑکھڑاتی زبان سے الفاظ ادا ہوئے ۔
’’واہ اماں کمال کی ایکٹنگ کیا ایکسپریشن ہیں کمال ۔‘‘سوفی نے دیکھا تو جھٹ کہہ اٹھی۔
بڑی آپا نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اٹھا جوتی جھٹ سوفی کو کھینچ دے ماری ۔بیچا ری غریب ماں کی اس کج ادائی پہ غور کرتی کمر سہلاتی ہائے ہائے کرتی رہ گئی کہ آج امّاں کو ہوا کیا ہے ۔ اپنی اداکار ی کی تعریف پر پھولے نہ سمانے والی بڑی آپا کو تو آج اپنی تعریف ایک آنکھ نہ بھائی تھی۔
بڑی آپا کو بچپن سے ہی ڈرامے دیکھنے اور کرنے کا بڑا شوق تھا ۔ وہ کمال کی اداکاری کرتیں کہ سامنے والا حقیقت سمجھے بغیر نہ رہ پاتا۔ وہ تو گھر کا ماحول ایسا تھا کہ اداکاری کی اجازت نہ ملی ورنہ بقول بڑی آپا ہر بڑا اداکار اُن کے آگے پانی بھرتا نظر آتا ۔خیرتو بات ہو رہی تھی آغاجی کی شادی کی۔
یہ وہ دھماکے دار خبرتھی جو خاندان بھر میں ایک ’’چٹپٹی مصالحے دار‘‘بریکنگ نیوز کے طور پر نشر ہوئی تھی۔ جس نے سنا دانتوں تلے انگلیاں داب لیں ۔ ہر کوئی انگشت بدنداں تھا۔ یہ وہ انہونی تھی ، جس نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا ۔ لوگوں کے ہاتھ عرصے بعد کوئی ایسا موضوع لگا تھا‘ جس پر جتنا مصالحے ڈالو اتنا ہی چٹپٹا ۔ اور چٹپٹی چیز بھلا کس کو نہیں اچھی لگتی؟سو چہرے ہزار باتیں…
’’ارے آغا کو اس عمر میں کیا سوجھی تھی کہ لڑکی بھگا لائے۔‘‘کوئی ناک پر انگلی دھر کے کہتی!
’’ارے جوانی میں تو بہنوں کے پلّو سے بندھا رہا ۔ اور اب جب بڑھاپا آپہنچا تویہ گل کھلا دیے۔‘‘
’’ارے کچھ تو اپنی عمر کا لحاظ کیا ہوتا۔‘‘
’’اے ہے بہن یہ بھی خوب کہی تم نے ۔ارے بیچارہ کرتا بھی تو کیا کرتا؟بہنوں نے بھی تو قسم کھائی ہوئی تھی کہ گھر نہیں بسنے دینا ۔ ‘‘کوئی کانوں کو ہاتھ لگا کے کہتی۔
’’ارے میاں بھگا کہ بھی تو کس کو لائے ۔ سنا ہے شینا کی عمر کی ہے ۔ صحیح کہتے ہیں بھئی کہ عشق اندھا ہوتا ہے۔‘‘
’’ارے ایسا بھی کیا عشق کے موئی نے نہ اپنی عمر کا لحاظ کیا نا ماں باپ کی عزت کا نکل آئی اپنی سے دگنی عمر کے ساتھ۔‘‘
’’اے بہن!عمر کا بھی تم نے خوب کہا پیسہ بولتا ہے جی پیسہ ۔پیسہ پھینک تماشا دیکھ۔شریف عزت دار گھرانے کی لڑکیاں یوں منھ اندھیرے نہیں آتیں۔‘‘
الغرض جتنے منھ اتنی باتیں ۔لوگوں کی زبانیں کون پکڑ سکتا ہے بھلا۔
٭…٭
ابا اپنے پیچھے پانچ اولادیں چھوڑ کے گئے تھے۔ آغا سے بڑی تین بہنیں اُن کا نمبر چوتھا تھا اور اُن سے چھوٹی زرین۔ اماں اپنی زندگی میں بڑی آپا اور منجھلی آپا کو بیاہ گئی تھیں ۔ اور باقیوں کی ذمّہ داری آغا کے ناتواں کاندھوں پر ڈال کر اسے پورا کرنے کا وعدہ لیے آنکھیں موند گئیں تھیں ۔ یوں بہنوں کی ذمہ دار یا ں اٹھاتے اٹھاتے بیچارے آغا کی کنپٹیوں ہلکی ہلکی چاندی اُتر آئی تھی ۔ آغا بہنوں کے لیے وہ بس ایک بینک اکاؤنٹ کی حیثیت رکھتے تھے۔
جس سے جب چاہو جتنا چاہو کیش کروا لو۔ کس نے پوچھنا تھا۔ اور آغا کے خیر سے کونسے بال بچے تھے جن پر خرچ کرنا تھا ۔بہنوں پر بھی نہ خرچ کرے تو بھلا کس پر کرے گا ۔کبھی جو بھولے سے شامت کے مارے آغا کسی حکم سے روگردانی کر بیٹھتے یا کوئی کوتاہی ہو جاتی ۔تو وہ ٹسوے بہائے جاتے کہ الامان… جھٹ دوپٹہ منھ پے رکھ وہ دہائیاں دی جاتی آغا کو لینے کے دینے پڑ کہ جاتے۔
’’ہاں بھئی ہم تو بھائی کی محبت میں بھاگے چلے آتے ہیں ۔ ورنہ اپنا بھی گھر بار لگا ہے ، لاکھوں جھنجھٹ جان سے چپکے ہیں ۔ یہ تو ہم ہی ہیں جو تمہارا خیال کرتے چلے آتے ہیں۔ ورنہ اس افراتفری کے دور میں کس کو پڑی ہے دوسروں کے گھروں میں جھانکا‘ تاکی کرے۔‘‘
کبھی جو آغا ممنائی ہوئی آواز میں دبے لفظوں میں کہہ دیتے کے آپا اس بار ہاتھ ذرا تنگ ہے تو آپا کے تیور دیکھنے والے ہوتے ۔
’’ارے ما ں جائے سے بھی نہ مانگوں تو کیا غیروں کے آگے ہاتھ پھیلاؤں ۔ جب ماں جائے نے انکار کر دیا تو دوسرے کونسے سگے ہیں ۔ارے ہائے اماں ذمہ داری سونپ کے بھی کس کو گئیں جس میں نہ لحاظ ہے نہ پاس۔ ابّا ہوتے تو کیا کبھی ایسے منع کرتے ۔ دیکھ تو سوفی ذرا میری چادر کہاں گئی ۔ یہ موئی جوتی بھی جانے کہاں چلی گئی ۔چل بھئی اٹھ چلیں ۔ اس گھر سے اپنا دانا پانی ہی اٹھ گیا ہے ۔ اس سے پہلے تمہارے ماموں میاں ہمیں ہاتھ سے پکڑ کر نکال باہر کریں ۔ خود ہی نکل چلیں ۔ اپنی عزت اپنے ہاتھ ہے۔ ‘‘
’’ امّاں چادر تو آپ کے گھٹنے تلے ہی دبی ہے ۔ اور جوتی تو آپ نے وصی کو آتے ہی دے ماری تھی بائیک تیز چلانے پر، وہیں ڈیوڑھی میں پڑی ہے ۔ ‘‘سوفی دبی دبی سی ہنسی ہنستے ہوئے کہتی۔
’’اور گندی اولاد کو اتنی توفیق نہ ہوئی ماں کی جوتی ہی اٹھا لاتی ۔ ‘‘بڑی آپا چلاتیں۔
اب سوفی کوئی پاگل تو تھی نہیں ماں کا ہتھیار جس کو استعمال کرنے سے ذرا نہ چوکتی تھیں اور نشانہ بھی بلا کا تھا خود ہی کھانے واسطے اٹھا لاتی۔ تھی تو وہ بڑی آپا کی ہی اولاد…
’’اے ہاں دیکھ تو ذرا بھائی کی باتیں سن کے آنکھوں تلے اندھیرا آگیا کہ سامنے پڑی چیز دکھائی نہیں دے رہی ۔ سچ کہہ گئے ہیں بڑے کہ میکہ تو امّاں باوا کے ہی دم سے ہووے ہے ۔ ابھی تو بھاوج آئی نہیں تو ماں جائے نے آنکھیں ماتھے پر رکھ لی ‘ وہ آگئی تو پھر تو یہ دِن میں تارے ہی دکھاویں گے ہمیں ۔ ‘‘ بڑی آپا ہاتھ ملتے ہوئے کہتیں۔
بڑی آپا کی اداکار ی کے آگے بھلا کوئی اچھے سے اچھا نہ ٹکے پھر تو وہ آغا تھے ۔بڑی آپا وہ اعلیٰ پائے کی اداکاری کرتی ‘ بیچارے آغا ماموں کو لینے کے دینے پڑ جاتے ۔گھٹنے پکڑتے پاؤں پڑتے جانے بیچارے کس سے پیسے پکڑتے ۔ آپا کے آگے ہاتھ پاؤں جوڑتے تب کہیں جا کے بڑی آپا کی آنکھیں خشک ہوتی۔
٭…٭
دنیا دکھاوے کو کئی بار رشتے بھی دیکھے ۔ پر ایک نہ دو پوری تین ایکسرے مشینوں کے معیار پے لڑکی کا پورا اترنا مشکل ہی نہیں قریبا قریباً نا ممکن تھا ۔ خوبصورت امیر اور پڑی لکھی بھابی لانا تو بڑی آپا کے نزدیک اپنے پاؤں پے آپ کلہاڑی مارنے کے مترادف تھا ۔ جو آتے ہی اُنہیں دودھ سے مکھی کی طرح نکال پھینکتی ۔ آغا ٹھہرے سدا کے بھولے بھالے، بیوی جیسے انگلیوں نچاتی ناچ پڑتے ۔ اب رہ گئی غریب گھر کی کوئی واجبی سی تعلیم یافتہ اور معمولی شکل و صورت کی حامل لڑکی ، کسی ایسی لڑکی کو بھابی بنائے جانا منجھلی آپا کے اسٹیٹس کے برخلاف تھا ۔
منجھلی آپا خیر سے ایلیٹ کلاس میں بیاہی گئیں تھیں ۔ لوکل چیزیں تو کبھی ناک میں سمائی ہی نہ تھیں ۔ سدا کی برانڈڈ کانشیش ‘ اب کیسے اپنے اکلوتے بھائی واسطے ایسی لوکل کلاس سے لڑکی لے آتیں ۔ جسے اپنی سسرال اور کلاس میں متعارف کراتے ان کی ناک نہ کٹ جاتی۔
تیسری آپا وہ تو دونوں ہی بڑی بہنوں کی ہم خیال تھیں۔
اور رہی سب سے چھوٹی زریں وہ شادی کے بعد اٹلی جا بسی تھی ۔ یہاں کی سیاست سے اُسے نہ غرض تھی نا سروکار۔
اور جو کبھی کوئی شاذو نادر ہی اُن کے معیار پہ اجتماعی طور پر پوری اتر پاتی ۔ تو جہیز کی اور زمہ داریوں کی اتنی لمبی لسٹ تھما دی جاتی کہ آلامان … لڑکی والوں کو خود ہی معذرت کرنی پڑتی ‘ اور اس جنجال پورے میں بیٹی وہ ہی بیاہے جسے بیٹی بھاری ہو۔
اور اگر کبھی کوئی بھولے بسرے سے کسی بیوہ یا مطلقہ کا رشتہ بتا دیتا تو بڑی آپا وہ لتے لیتیں کہ بیچارہ مشورہ دے کے پچھتاتا ۔ بقول بڑی آپا کہ اب میرا ہیرے جیسا افسر بھائی کیا اس قابل ہی رہ گیا کہ بیوہ یا مطلقہ کو بھاوج بناتی پھروں۔
کوئی کہنے والا ہوتا تو کہتا کہ…
’’اے نوج نہ کنواری پسند نہ کوئی بیوہ۔ ارے سچ تو یہ ہی ہے بھائی کی مفت کمائی کھانے اور بے دام غلامی کا چسکہ پڑ گیا ہے ۔‘‘
پر کہے وہ ہی جسے اپنی عزت نہ پیاری ہو ۔تو پھریہ اونٹ بھلا کس کروٹ بیٹھتا؟ ہر کسی کو اپنا مفاد عزیز تھا ۔ ساجھے کی ہنڈیا بیچ چورہائے میں نہ پھوٹتی تو کہاں پھوٹتی؟
آغا کی شادی کا خیال اپنے آپ ہی دم توڑ تا جا رہا تھا ۔ اب تو ویسے بھی آغا ماموں خیر سے قریب قریب انتالیس کے ہو گئے تھے ۔ کہنے کو تو عمر اتنی بھی زیادہ نہیں ہوئی تھی ۔ مگر بہنوں کے رویّوں اور لوگوں کی باتوں سے ازخود ہی بڑھاپا فرض کر لیا تھا۔
اب تو شینا اور ولی کی شادی کی عمریں تھیں‘ ایسے میں آغا کی شادی کی خبر ملنا سب کو ہکا بکا کر گیا تھا ۔ چپ چھپاتے آغا جانے کس کو بیاہ لائے تھے کہ بہنوں کو کانوں کان خبر بھی نہ ہونے پائی تھی۔تو پھر بہنوں کے سر پے آسمان ٹوٹنا تو بنتا تھا نا…؟
٭…٭
بہنوں کے ارمانوں پر گویا اوس پڑ گئی تھی ۔ اکلوتا ماں جایا جو اُن کے ہانکنے سے چلتا تھا ۔ جس کی اپنی کوئی رائے تھی نہ سوچ، جس کی سوچ بڑی آپا کے تابع تھی ۔جس کی ڈگڈگی بڑی آپا کے ہاتھ میں تھی ‘ جب چاہو جتنا چاہو نچا لو۔ اف بھلا کس نے کرنی تھی اور کرنے کس نے دینی تھی۔ وہ بھلا اتنا بڑا قدم ان کی مرضی کے بغیر کیسے اٹھا سکتا تھا ۔پھر بھلا بہنوں پر یہ خبر سن کر سکتہ طاری نہ ہوتا تو اور کیا ہوتا ؟بڑی آپا جو آج تک ڈائیلاگ میں سنتی اور استعمال کرتی آئیں تھیں آسمان سر پے ٹوٹنا ، سانپ سونگھ جانا بلا بلا … آج صحیح معنوں میں ان الفاظ کی سنگینی کا اندازہ ہوا تھا ۔
بڑی آپا کے گھر بہنوں کی گول میز کانفرس بلائی گئی ۔ جس کا اختتام بحث و مباحثہ کے بعد آغا کے سماجی بائیکاٹ ہوا۔ آغا ماموں نے لاکھ ہاتھ پیر جوڑے‘ منتیں سماجتیں سب اکارت گئیں ۔ بہنوں کی نہ ہاں میں نہ بدلی ۔ بڑی آپا کی ایک ہی رٹ اُس موئی کو نکال باہر کرو جس نے ان کا کاٹھ کا الو ہتیا لیا۔
اپنے گھٹنے پے دھرا آغا کا ہاتھ ایک جھٹکے سے پرے جھٹک دیا۔
’’میاں ایسا کام کرتے ہوئے تو ذرا حیا نہ آئی ۔ ساری برادری تھو تھو کر رہی ہے ۔ تم نے تو کہیں ہمیں منھ دکھانے کے قابل ہی نہیں چھوڑا ۔ ہائے میاں! امّاں باوا کے نیک نام پر بٹا لگا دیا۔ایسی بھی کیا آگ لگی تھی ؟ ارے ڈھونڈ ہی رہے تھے نہ لڑکی ۔ بیاہ دیتے کہیں نہ کہیں‘ جانے کہاں سے کس بے نام و نشان لڑکی کو اٹھا لائے۔‘‘
’’ایسا بھی کیا اتاؤلا پن جانے کس کو ہمارے سر پہ لا دھرا۔ ذرا سوفی کا ہی لحاظ کر لیا ہوتا۔ تمہارے کندھوں تک آنے لگی ہے اب تومیاں ۔‘‘
سوفی دور بیٹھی ماں کی ایکٹنگ پے عش عش کرتی رہی۔
پر اس بار آغا پہ بڑی آپا کے ٹسووں کا اثر ہوا نہ منجھلی آپا کی ’’سسرال میں آکورڈ فیلنگ ‘‘کی دہائی پہ … کل کی آتی نے جانے کیا گھول کے پلایا تھاکہ اب کہ آغا بہنوں کو بھی خاطر میں نا لائے تھے۔
٭…٭
بڑی آپا کے ولی نے یہ خبر سنی توچپکے سے آغا ماموں کی طرف نکل لیا ۔
ماموں کی اس جرات پر پیٹھ تھپکی۔ گلے لگا کر مبارک دی ۔ آغا شرماتے ہوئے بھانجے سے مبارک وصول کرتے رہے۔
ولی ماموں کی حالت زار پر کڑھتا ۔ ماں اور خا لاؤں سے گھنٹوں آغا کی ویران بے مقصد زندگی پر بحث کرتا ۔ اُس کا ساتھ دینے کیلئے شینا بھی شامل ہوجاتی۔پر وہ ہی ڈھاک کے تین پات۔
’’آغا کی کون سا اب عمر رہ گئی شادی بیاہ کی ‘اس عمر میں کیا خاندان برادری میں اپنا ٹھٹھہ بنا لیں۔‘‘
منجھلی آپا کی شینا جو آزادی نسواں کی علمبردار تھی ۔ عورتوں کی تنظیم سے وابستہ تھی ‘ اُن کے حقوق پر تقریریں کرتی نہ تھکتی تھی ۔ جہاں کوئی واقعہ سنتی جھٹ بینر کارڈز اٹھائے جانے کہاں کہاں کی خاک چھانٹی پھرتی ۔ نعرے لگاتے حلق میں کانٹے اُگ آتے۔
ولی اور شینا جن کا ساتھ برسوں سے ان کہی کے طور پر طے تھا۔
ولی آغا ماموں کو چپکے سے نکاح کر لینے کے نادار مشور و ں سے نوازا کرتا تھا ۔ پر ہر بار آغا کی بزدلی، سادگی اور بہنوں سے بے وفائی کا خیال آڑے آجاتا ۔ اب ولی آغا کو اس دلیری پر شاباش دیے بنا اور اتنے بڑے قدم کے پیچھے کی کہانی جانے بغیر نہ رہ سکا۔
بقول آغا ماموں نیلما اُن کے کولیگ اور بہت اچھے دوست کی بہن تھی ۔ صداقت کی اچانک موت کے بعد دفتری کام کی غرض سے اُنہیں اس کے گھر جانا پڑا ۔ جہاں مینا کی بھاوج اُسے گھر سے نکالنے کے در پہ ہوئی پڑی تھیں ۔ آج کل تو سگے رشتوں کا خون سفید ہوا پڑا تھا ۔ پھر نیلی سے کونسا خون کا رشتہ تھا ۔ جو بھاوج اتنی بڑی ذمہ داری اٹھاتی ۔ جانے کون کون سے الزام لگاتی اُسے کھینچتے ہوئے دروازے تک لائیں تھیں ۔ جن کو سن کر نیلی کا دل چاہتا تھا ۔ زمین پھٹے اور وہ اُس میں سما جائے ۔ جب آغا وہاں آ پہنچے۔
سدا کے ہمدرد اور بیوقوف آغا‘ کود پڑے پرائی لڑائی میں ۔ بھاوج نے بھی کہہ دیا ۔
’’اے میاں اتنی ہی ہمدردی جاگ رہی ہے تو لے جاؤ ساتھ ۔ ہم تو باز آئے اس ذمہ داری سے۔‘‘
اب آغا لیں تو جائیں پر کس رشتے سے ۔ بہنوں سے کوئی آس تھی نہ اُمید ۔ نیلی تو ممنائی ہوئی آواز میں کہتی رہی اُسے کسی شیلٹر ہوم چھوڑ دیں ۔ پر آغا اس کے حق میں نہ تھے ۔ شش و پنج میں پڑے آغا کی اس مشکل کوساتھ آئے ساتھی کولیگ نے ہی نئی راہ دکھائی ۔ مینا کو بھی سہارا چاہیے تھا ‘ اُنہیں بھی کسی کا ساتھ ، ایک سے بھلے دو ۔ یوں آغا کے سر پہ بھی سہرا سج گیا۔ جس کی امید بھی اب دم توڑ تی جا رہی تھی۔
’’ ہینگ لگی نہ پھٹکڑی رنگ بھی چوکھا آیا۔‘‘ ولی نے دانت نکالے۔
اگرچہ اس رنگ میں بھنگ ڈالنے کو بہنیں موجود تھیں۔
’’واہ آغا ماموں واہ آپ تو ہیرو نکلے ہیرو چھا گئے ہیں …‘‘
ولی آغا کی شادی خانہ آبادی کی داستان سن کے داد دیے بنا نہ رہ سکا۔
شینا کو تو بیٹھے بٹھائے ایک واقعہ مل گیا تھا ۔ وہ اس واقعے کی کوریج اپنی تنظیم کے ذریعے کرنا اور نیلی کو اس کا حق دلانا اور اس کی بھابی کو ناکوں چنے چبانا چاہتی تھی ۔ آغا ماموں اور نیلی نے منع کر دیا ۔ وہ اسی پر قناعت پسند تھے۔
٭…٭
ایک سُہانی سی شام ولی اور شینا کی طرف سے آغا کی شادی کی خوشی میں دیے گئے ڈنر پر سوفی نے تو کہہ بھی دیا۔
’’ آغا ماموں آپ تو اب ہیرو لگ رہے ہیں ۔اپنے ولی بھیا جیسے ہی ہینڈسم اور گرو مڈ، نیلی نے تو جادو کی چھڑی گھُما کر آپ کو بدل ڈالا۔‘‘
’’نیلی کیاہوتا‘ وہ ہماری ممانی ہے ۔‘‘ ولی نے کہا۔
’’نیلی پری آنا چھپ چھپ کے آنا ۔ ‘‘ سوفی نے تان اڑائی۔
اور آغا ماموں نیلی کی طرف دیکھ کر شرماتے ہوئے کتنے بھلے لگے تھے ۔نیلی لبوں پر شرمگیں مسکراہٹ لیے حیا سے پلکیں جھکا گئی ۔ شینا نے چپکے سے ولی کو ٹہوکا دے کر آغا کی طرف متوجہ کیا تھا ۔ اور ولی نے دل ہی دل میں اُن کے لیے خوشیوں کی دعا کی تھی ۔ایک ڈھلتی شام بڑی آپا جب حساب کتاب میں مصروف تھیں ۔ تب خیال آیا آغا کا بائیکاٹ تو سراسر خسارے کا سودا ہے ‘ اس کا کیا جانا۔ نقصان تو اپنا ہی ہے ۔ ساری زندگی بھلے سے کسی کو اس گھر میں پر ‘نہیں مارنے دیا ۔ اب خود ہی اس کل کی آئی کے لیے راہ ہموار کر دی جو اس راجدانی کی بلا شرکت ایرے غیرے مالک بنی ہوئی ہے ۔ بس اس خیال کا آنا تھا ‘ بڑی آپا نے آؤ دیکھا نہ تاؤ جھٹ پٹ چادر اوڑھ ‘ ولی کو ساتھ لیا ۔لشتمّ پشتمّ آغا کے گھر کی راہ لی ۔ راستے سے بہنوں کو ساتھ گاڑی میں گھسایا ۔ ولی بیچارہ اس ہوائی توائی پر ہیں ہیں کرتا رہ گیا۔
نیلی کو دیکھ کر بہنوں کے منھ کھلے کے کھلے رہ گئے ۔ بمشکل بائیس تئیس کی لگتی تھی ۔ متناسب سراپا پرکشش نقوش کی حامل وہ ایک سلیقہ شعار اور پھرتیلی لڑکی تھی جس نے چند دنوں میں ہی
گھر کی شکل نکال دی تھی ۔ گھر کی سجاوٹ آرائش و تزئین اس کے سلیقہ شعاری اور اعلیٰ ذوق کا منھ بولتا ثبوت تھا ۔ کچھ پل کے لیے تو بہنیں بھی مبہوت رہ گئیں۔
پھر بھلا آغا پر اس کا جادو سر چڑھ کے کیوں نہ بولتا ۔ جو وفا کا پیکر تھی ۔ اپنی اور آغا کی عمروں کے فرق کو نظر انداز کر کے اس نے جس نے صبر کے ساتھ اپنے حالات سے سمجھوتہ کر لیا تھا وہ بلا شبہ سر اہے جانے کے لائق تھا ۔آغا تو لمحوں میں اُس کے اسیر ہوگئے تھے۔
رنگ ڈھنگ تو آغا ماموں کے بھی بدل گئے تھے ۔ وہ جو کبھی الول جلول حلیے میں پھرتے تھے ۔ کبھی ٹائی ندارد تو کبھی کوٹ غائب ، کبھی بال بنانا بھول جاتے تو کبھی ایک موزا کیسا تو ‘ دوسرا موزا کیسا چڑھائے آفس کی راہ لینے والے اور کسی کے توجہ دلوانے پر کھسیانی سے ہنسی ہنس دینے والے آغا اب سوٹڈ بوٹڈ حلیے میں نظر آتے۔
کوٹ کی جیب میں اٹکا ہم رنگ رومال کسی کے ساتھ اور محبت کے راز کا امین تھا ۔
٭…٭

1 2اگلا صفحہ

Related Articles

One Comment

  1. سلام آمنہ! بہت ہی پیارا افسانہ ہے، عرصے بعد ایسی کہانی اور ایسا سٹائل پڑھنے کو ملا ہے۔ پرانے رائٹرز کی یاد دلاتی ہے یہ تحریر۔ بڑی آپا کا انداز مسکراہٹ بھی کے کر آتا ہے اور غصہ بھی۔ انڈینگ بھی بہت پیاری تھی، صحیح افسانے کا اس تحریر نے حق ادا کیا ہے۔ میں امید کرتی ہوں کہ جلد ہی آپکی کوئی اور تحریر بھی پڑھنے کو ملے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے