آٹھ مارچ: عندلیب زہرا
پہلے وقتوں میں یہ کہا جاتا تھا کہ عورت کا حسن یا عزت گھر کا چراغ بننے میں ہے ۔ وقت بدلا تو سوچ کے انداز بھی بدل گئے ۔ اب ہر وہ عورت یا لڑکی جو اپنے ماحول میں رہ کر مثبت کردار ادا کرے وہ قابل عزت ہے ۔ اصل بات مثبت کردار ہے جو قابل تقلید ہو اور نیک اطوار ہو۔
مجھے وائرل ویڈیوز نہیں پسند ۔ ظاہر ہے کہ اس میں میرا بھی قصور نہیں ۔ جب میٹرک فیل لڑکیاں ’’ میرا دل یہ پکارے آ جا‘‘ پر الٹے سیدھے ہاتھ مار کر راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جائیں۔
یا ’’پاری ہو رہی ہے ‘‘ کی چول مار کر سٹار بننے کی دعوے دار ہوں۔
یا اپنی بے ہودہ بولڈ ویڈیوز بنا کر عوام الناس میں ہیجان پھیلائیں ۔ وہ کوئی بھی ہو سکتی ہے تو ظاہر ہے وائرل ویڈیوز مجھے کوفت ہی دیں گی ۔ کیونکہ اس طرح کی ویڈیوز سے معاشرے کی منفی تصویر سامنے آتی ہے۔
ہم یا تو ظلم وستم کی شکار بنت حوا کو دیکھنا چاہتے ہیں یا ایسی دختران مشرق کو جو حیا سے نا بلد ہوں ۔ ان کے معنی خیز مکالمے ، اشارے ، رقص مقبولیت حاصل کرتے ہیں ۔ یہ ہے عورت کی قیمت‘ جس سے ہم جتنا بھی انکار کریں وہ تلخ حقیقت بن کر موجود ہے۔
باہر کے ممالک میں وہ ویڈیوز وائرل ہوئیں جن میں پاکستان میں عورت کا وہ تصور پیش کیا گیا جو منفی تھا ۔
گریٹر اقبال پارک میں عورت کو ہراساں کرنے کی ویڈیو، حریم شاہ یا صنم خٹک کی بے باک ویڈیوز، اقرا کنول ، علیزے سحر انہوں نے بس منفی تصویر ہی پیش کی ہے۔
اگر عورت اپنے حقوق کے پامال ہونے کا گلہ کرتی ہے تو قصور وار وہ بھی ہے ۔ مرد کی ہراسانی کا گلہ کرتی ہے تو کچھ نہ کچھ قصور اس کا اپنا بھی ہوتا ہے۔
لیکن ایک ویڈیو ایسی ہے جو میں بار بار دیکھ رہی ہوں اور بیساختہ خود پر فخر ہوتا ہے۔ایسی بہادر،باعزم خواتین پر رشک آتا ہے۔
شاید جب قدرت عزت دینا چاہتی ہے تو اسباب مہیا کرتی ہے۔ایسے راستوں سے گزار کر نوازتی ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
میرا لکھنے کا مقصد لاہور اچھرہ میں ہونے والا واقعہ ہے جو اے ایس پی شہر بانو نقوی کی حکمت عملی کی وجہ سے سانحہ بنتے بنتے رہ گیا ۔ ایک خاتون پر توہین رسالت کا الزام لگا کر لوگوں کے جذبات کو بھڑکایا جا رہا تھا ۔ بپھرا ہوا ہجوم جس کی اپنی ذہنی اپروچ نہیں ہوتی ۔ بس’’ وہ مارو یا مر جاؤ‘‘ کی آگ میں جل رہا ہوتا ہے ۔ اس ہجوم کے جذبات کو کنٹرول کرنا ، خاتون کو بڑے حادثے سے بچانا اور کسی بھی کسی قسم کی بدمزگی پیدا کیے بنا کیس حل کرنا ۔ یہ اس بنتِ حوا کا کام ہے جسے صنف نازک کہا جاتا ہے ۔ جس کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ وہ یا تو شو پیس بن سکتی ہے یا دل بہلانے کا سامان۔
بنتِ حوا حوصلے میں بلند ہے ۔ دلیری میں مثل آہن ہے ۔ اپنے وقار اور شستگی میں مثال ہے تو بلاشبہ شہر بانو نقوی اس کا عکس ہے ۔ خاص طور پر پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں عورت کو اپنے حقوق منوانے کے لیے ایک دریا کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔وہاں اپنے نسوانی وقار کو قائم رکھنا،مثبت کردار ادا کرنا اور مردوں کے معاشرے میں خود کو منوانا،اس طرح سے کہ آپ نیک نامی کمائیں یقینا کسی انعام سے کم نہیں۔
آٹھ مارچ… یہ دن عورتوں کے حقوق سے متعلق ہے ۔ اس روز ان تمام خواتین کی صلاحیتوں کا اعتراف کریں جو ہمارے معاشرے میں مثبت کردار ادا کر رہی ہیں ۔ اور ان کے قریب رہنے والے لوگ ان کی شخصیت سے فیض یاب ہوتے ہیں ۔ وہ اے ایس پی شہر بانو نقوی جیسی قدآور ورکنگ لیڈی ہو یا گھر میں رہنے والی کوئی عام سی لڑکی جو اپنی خدمت،تابعداری سے والدین کے لیے اجالے کا باعث ہے ۔ وہ آفس میں جاب کرنے والی محنتی لڑکی ہو یا کسی فیکٹری میں پیکنگ کرنے والی کم عمر بچی ، حالات کا شکار سڑک پر آلو چھولے بیچنے والی خاتون ۔ یا کوئی بھی فی میل میڈیا پرسن ۔ ہر وہ عورت جو مثبت کردار ادا کر رہی ہے یہ دن ان کے نام…
آج کا دن ان نام نہاد لبریز کے نام نہیں ہے جو سستی شہرت کو اپنا ماحصل سمجھ لیتی ہیں ۔ یا خواتین کو میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگانے پر مجبور کرتی ہیں ۔ جو محض بینر پکڑ کر سڑک پر کھڑا ہونے تک محدود ہے ۔
آج ان خواتین کو خراج تحسین پیش کرنا ہے جو معاشرے میں مثبت کردار ادا کر رہی ہیں ۔ خواہ ان کا تعلق کسی بھی طبقہ یا کلاس سے ہے اگر وہ اپنے نسوانی وقار کے ساتھ مثبت تصویر پیش کر رہی ہیں وہ لائق عزت ہیں۔