مضامین

یہ وقت گواہ ہے : افشاں چوہدری

وقت نے خود کو سرزمین انبیاء فلس تین میں وجود پایا ۔
وقت نے ملبے کے ڈھیر پر بیٹھے مرد کو دیکھا ۔ وہ اپنا سب کچھ اس ملبے تلے کی گنوا چکا تھا ۔ اب وہ چلنے پھرنے ، کھانے پینے ہر چیز کو طریقہ بھول چکا تھا ۔ وہ لمحہ موجود میں اپنی بیوی اور تین بچوں کے ہمراہ یادوں کے دریامیں غرق ہو چکا تھا ۔ وہ یقین نہیں کر پارہا تھا کہ اس کا سب کچھ ختم ہو چکا ہے ۔ وہ اداس وہاں اس جگہ بیٹھا تھا ۔ جہاں کبھی اس کا گھر تھا ۔ اس کا پورا خاندان اس ملبے تلے سانس لینا چھوڑ چکا تھا ۔ جس وقت یہ سب ہوا وہ گھر پہ موجود نہ تھا ۔ واپس آنے تک سب بدل چکا تھا ۔ اداس آنکھوں سے بس زمین کو تکتا تھا۔
وقت نے ایک گلی میں جھانکا ۔ اب وہاں بس ویرانی ہی ویرانی تھی ۔ عمر بھر کی کمائیاں ملبے کا ڈھیر بن چکی تھی ۔ وہاں ایک بوڑھے آدمی کی آنکھوں میں نمی دیکھی ۔ وہ ایسے ہارئے ہوئے انسان کی طرح نظر آتا تھا جس کی زندگی بھر کی کمائی کوئی ایک لمحے میں لوٹ کر لے جائے ۔
ٓآہ، اب وہ کہاں جائے ؟ اس کا دل درد سے پھٹنے کے قریب تھا ۔ اس نے آسماں کی سمت دیکھا ۔ ایک امید ابھی بھی اس کے چہرے پہ موجود تھی ۔ وہ امید ابھی زندہ تھی ، وہ امید مری نہیں تھی ۔ وہ امید ہر فلس تینی کے چہرے پر نظر آتی تھی ۔ وہ امید ہر فلس تینی کے سانسوں کی ڈور کو جاری رکھے ہوئے تھی ۔ وہ آسماں کی سمت کسی معجزے کے انتظار میں دیکھتا تھا ۔ اسے شاید ابابیلوں کا انتظار تھا ، جو ہاتھی والوں کے لشکر کو نیست و نابود کر دینے کی صلاحیت سے نوازے گئے تھے۔
وقت اب کھلے میدان میں کھڑا سڑک کو دیکھ رہا تھا ۔ کبھی سڑک کی دونوں اطراف گھر بنے ہوئے تھے ۔ اب بس سیمنٹ اور سریے کے ٹکڑے نظر آتے تھے ۔ اور گرد اڑتی تھی ۔ ملبے کی ڈھیر کے نیچے جانے کتنے سانس لیتے وجود مدد کے انتظار میں تھے اور کتنے سانس لینا چھوڑ چکے تھے ۔ وقت نے خود کو بے بس پایا ۔ تھوڑی دور کچھ رضاکار ملبے کے ڈھیر تلے ، کچھ لوگوں کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہوچکے تھے ۔ملبے کا ڈھیرہٹانے پر وہاں کچھ بچے ملے تھے ۔ ان میں سے کچھ زندگی کی بازی ہار چکے تھے ۔ البتہ ان میں سے دو چار ایسے تھے جو زندہ تھے ۔
زندہ لگتے نہیں تھے مگر سانسوں کی آمدورفت زندگی کا پتہ دیتی تھی ۔ گرد اور خون میں لت پت وہاں وہ زندہ تھے ۔ وہ انہیں علاج کے لیے ایمبولنس کی جانب لے کے جا رہے تھے ۔ ان میں سے ایک بچے نے درد کی انتہا کو چھوتے اپنے نیچے والے دھڑ کو دیکھنا چاہا ۔ وہ ملبے تلے دب کے کچلا جا چکا تھا ۔ اس نے دیکھنا چاہا ، لیکن حرکت نہ کرسکا ۔ اس نے سانس لے لینا چاہا لیکن درد کی انتہا پر یہ ممکن نہ رہا ۔ اس کی زبان میں بے آواز حرکت کی۔
’’لا الہ الا اللہ۔‘‘
ماں کی نصیحت یاد تھی۔
’’بیٹا شہادت کے وقت تمہاری زبان پر توحید کی گواہی ہونی چاہیے ۔ ‘‘ اس کے چہرے پر ابدی سکون چھا گیا ۔ ہر درد مٹ چکا تھا ۔
دوسرا وجود ایک چھوٹی بچی کا تھا ۔ وہ ہسپتال پہنچنے میں کامیاب ہو چکی تھی ۔ اس کی جان بچ چکی تھی لیکن جانے کتنے وقت کے لیے … خطرات ہر وقت سر پر منڈلا رہا تھا ۔ وقت نے اس بچی کے چہرے پہ کرب دیکھا ۔ وہ ہذیانی انداز میں چیختی تھی اور اپنے ماں باپ کو ڈھونڈتی تھی ۔ وہ اس بڑی دنیا میں اکیلی رہ جانے پہ گھبرا گئی تھی ۔ وقت نے اس کی آنسو بھری آنکھوں میں بس انتظار دیکھا تھا ۔ اپنے ماں باپ کا جو شاید کبھی لوٹنے والے نہ تھے ۔ لیکن اس کی آنکھیں پرامن فضا کی ، مسلمانوں کی فتح کی اور ماں باپ کی واپسی کی منتظر تھی ۔
ہسپتال میں ہر طرف شور تھا ۔ چیخ و پکار … اور گرد …اور خون …
وقت نے کرب سے آنکھیں میچ لیں ۔ ہر چہرے پر ویرانی تھی ۔ سب اپنا کچھ نہ کچھ گنوا کر وہاں بیٹھے تھے ۔ بہت سوں کے گھر گئے اور بہت سوں کے گھر والے ۔
وقت نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی ایک لڑکی کو دیکھا ۔ وہ ایک آنکھ سے محروم ہو چکی تھی ۔ لیکن یہ واحد دکھ نہ تھا ۔اس کی شادی ہونے والی تھی لیکن اس کا ہونے والا شوہر منو مٹی تلے جا سویا تھا ۔
وقت نے ایک مرد کو اپنے بیٹے کی میت پہ گرتے ہوئے اسے والہانہ چومتے ہوئے دیکھا تھا ۔ وہ بس ایک ہی بات کہتا جاتا تھا ۔
’’میرا بیٹا شادی کے چودہ سال بعد پیدا ہوا تھا ۔ میں نے اس کے لیے بہت دعائیں کی تھی ۔ میں نے ہر روز اس کو دعاؤں میں مانگا تھا ۔ ‘‘
وقت نے بڑے صبر کے ساتھ ایک ماں کو اپنے شہید بیٹے کے ماتھے پر ابدی بوسہ دیتے بھی دیکھا تھا۔
وقت نے جوان بیٹی کی میت پر بوڑھے باپ کی آنکھوں سے بہتے آنسو بھی دیکھے تھے ۔
وقت نے ایک چھ سالہ بچی کو اپنے ڈیڑھ سال بھائی کو ماں کی طرح سنبھالتے بھی دیکھا تھا ۔
وقت نے بہت کچھ دیکھا تھا روتے ہوئے ہچکی لی تھی ۔
وقت نے محبت کو مسلمانوں کی آنکھوں میں مجسم دیکھ لیا تھا ۔ محبت جو اللہ کے لیے تھی ، محبت جو القدس کے لیے تھی ۔
پھر وقت شہید ہوئی ایک مسجد سے اذان کی آواز بلند ہوتے سنی ۔ وقت پر سجدہ شکر واجب ٹھہرا ۔
وقت نے کچھ بچوں کو مار کر اسے اپنے بازؤں پر اپنے نام لکھتے دیکھا ۔ وہ چاہتے تھے شہادت کے بعد اپنے نام سے پہچان لیے جائیں ۔ وقت کا سر فخر سے بلند ہوا ۔اس نے بچوں کی عظمت اور بہادری کو سلام پیش کیا ۔
اور وقت نے دیکھا کہ …
اور وقت…
اور…
٭…٭
اب وقت مسلمانوں سے مخاطب ہوا تھا۔
’’اے راہ حق پہ چلنے والو ! آزمائش کٹھن سہی مگر کامیابی تمہارا مقدر ہوگی ۔انشاء اللہ …
اللہ کی محبت میں چلنے والے فتح یاب ہوں تو غازی کا رتبہ پا لیتے ہیں اور سرِ میدان کٹ کر گر جائیں تو ابدی زندگی … کہ شہادت تو حیات جادو اں ہے۔‘‘
وقت نے سورج کو غروب ہوتے دیکھا ۔ وقت کو اس صبح کا انتظار تھا جب مسلمانوں نے اپنی فتح کا اعلان ہر سو سننا تھا۔ وقت ایک ایک منظر کا گواہ بن رہا تھا ۔ یہ وقت گواہی دے گا ۔ یہ وقت گواہی دے گا ۔
صبر اور عظمت کے ایک ایک پل کی ۔ کیوں کہ یہ وقت گواہ ہے اور وقت انتظار میں ہے فتح کی ، صبح کے انتظار میں ہے۔
٭٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page