افسانے

کیا ہیرا کیا پتھر : ماریہ غزال

’’آئے ہائے اپنے لیے بول رہی ہو یا کسی پرائی کے لیے ۔‘‘
’’حضور اپنے ہی لیے ۔ میں ابا جی اور اماں جی کی روز کی اس ایک ہی موضوع کی بحث سے سخت بیزار ہو گئی تھی ۔ ویسے میرے جانے کے بعد دونوں کے پاس مباحثے کا کون سا موضوع بچے گا ،یہ ہے اصل سوچنے کی بات ہے۔ ‘‘
’’ارے میری گڑیا بڑی ہو رہی ہے نا تم فکر ہی مت کرو ۔ ‘‘ اپیا نے ہنس کر کہا۔
ابا جی اور اماں جی کے مابین دو سالہ کثافت کیا دھلی، کے باہم شیر و شکر ہو گئے ۔ اب روز گاڑی نکالی جاتی ،روز کچھ نہ کچھ خریدا جاتا، روز کہیں نہ کہیں کی خاک چھانی جاتی ۔ دونوں اب ثنا کو بھی بھولے بیٹھے تھے ۔ اس کی ذاتی خریداری کی رقم بجو کو تھما دی گئی ،کہ جا کر تیاری کر وا دو ۔ اورخود دونوں برتن بھانڈ،سوغاتیں، پہناونیاں خریدنے نکل جاتے ۔ اسے تو یہ محسوس ہونے لگا کہ وہ خواہ مخواہ تھی، بلکہ سارے ہی بچے ۔ اگر شاید یہ بچے نہ ہوتے تو، ماں جی اور ابا جی میں کبھی اختلاف ہی نہ ہوتا ۔
شادی بیاہ بچوں کا کھیل نہیں کسی نے درست کہا ہے مگر اس کا یہ ماننا تھا کہ شادی نبھانا اصل کھیل ہے ۔ شادی کر کے دور پار کے رشتہ داروں میں گئی نیا گھر نیا در ، شہر سے دور بلکہ میکہ سے دور ۔ اب سب کچھ تو نہیں مل سکتا تھا سو چھ بیٹوں کے گھر بیاہی ۔ ان کے گھر سے آخری اور اس سے بڑے کا رشتہ آیا تھا ۔پھوپی بیگم لے کر آئی تھی ۔ پھپو کو آخری پسند تھا مگر اماں نے کہا آخر سے نہیں کریں گے ، ساری عمر منا بنا رہے گا ۔ ہر بات پیچھے اپنی اماں کے پلو میں منہ چھپائے گا ۔ اور وہ سوچتی ہی رہ گئی کہ کیا سچ مچ اس کے ماں باپ گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ ہیں ؟ بھلا کیا فائدہ ہے ایسی تعلیم کا جو ،توہم پرستی کو ختم ہی نہ کر سکی مگر چلو آخر کار بڑے کا قرعہ فال نکل آیا ۔
رخصتی کے لیےپھپو کے گھر آئی کہ ابا جی دوسرے شہر رخصتی پر راضی نہیں تھے ۔ پھر پھپو کا گھر بھی تقریبا خالی تھا ۔ مزے سے شادی انجام پا گئی ۔ رخصت ہو کے سسرال آئی یہاں کا عجیب سا سسٹم تھا ۔ بڑے بیاہے پھر دوسرے کنوارے ، تیسرے بیاہے اور چوتھے کنوارے ، پانچویں ثنا مختار کے شوہر نامدار باسم مطلوب بیاہے گئے تھے ۔ چلو جی خیر ہو گئی ۔
زندگی چند دن بعد ہی اپنی روانی سے بہنے لگی ۔ باسم کی والدہ روز صبح منہ اندھیر اُٹھ جاتیں ۔صبح سات بجے سے دوپہر بارہ بجے تک ہر بچے کے لیے علیحدہ علیحدہ ناشتے کا انتظام کر تیں ۔ منجلی بھابی شاید ذرا مزاج دار واقع ہوئی تھیں ۔ کئی کئی دن میکہ چلی جاتیں اور ان کے بچوں کا ناشتہ اور ٹفن باصم کی امی ہی دیتیں ۔ نو بجے سے ساڑھے دس تک کا وقفہ ہوتا ہے ۔ اس میں امی ابو کو ناشتہ کرواتیں اور اسی دوران کوئی بچہ چاہے کتنا بھوکا ہو اسے ناشتہ نہیں ملتا ، سو سبھی بچے اس روٹین کو جانتے تھے اس لیے اس ٹائم پر کوئی نہیں اٹھتا تھا ۔ امی کے روٹین سے سبھی واقف تھے ۔ امی کی چوتھی اولاد اپنی فیملی کے ساتھ کینیڈا سیٹل تھی ۔سو وہ اس گھر میں ایک طرح دوسری بہو تھی ۔ وہ سحر خیز تھی آفس کی عادی تھی ۔ ناشتہ بھی بناتی تھی ۔ سو صبح اٹھناکچھ مشکل نہیں تھا مگر میاں صاحب دن کے بارہ بجے دکان جاتے، اچھی مشکل تھی ۔ میاں صاحب آدھے دن بعد کمرے سے طلوع ہوتے اپنی امی کے بستر پر محو استراحت ہوتے ۔ پھر انکی پیاری امی جان اٹھ کر بچے کا ناشتہ بناتیں ۔ اگر انڈا کھاتا تو انڈا ورنہ سالن پراٹھے کے ساتھ سامنے رکھتیں ۔
اس ہی اثنا میں دوپہر کے کھانے کا وقت ہو جاتا ۔ جو ٹھیک دو بجے تیارہونا ضروری ہوتا ۔ جس کے لیے شاید وہ رات ہی کو کچھ تیاری کر کے سوتی ہوں گی ۔ کیونکہ بڑے جیٹھ کھانے کے وقفے میں موجود ہوتے ۔ وہ صبح سات بجے نکلتے تھے، پھر دوپہر کا گھر آ کر کھاتے ۔ شام کے سائے ڈھلے تک دوپہرکاکھانا چلتا اورچلتا ہی چلا جاتا ۔ رات میں دوپہر کا سالن دال چلتی لیکن اگر کسی کو وہ نہیں کھانی ہوتی تو اس کا انڈا ،گھٹالا انڈا، آلو فرائی، انڈا املیٹ، میٹھا پراٹھا بنتا ۔ رات کی روٹیاں منجھلی بہو کے سپرد تھیں ۔ پھلکے وہ بھی ایک دو نہیں پورے تیس ۔ اسے تو اس گھر کے نظام مطبخ پر کسی شاہی مطبخ خانے کا گمان ہوتا ۔
یا خدا یہ کیا ہے ۔یہ ابا جی اور ماں جی نے کہاں پھنسا دیا؟ بے شک ساس تندرست و توانا تھی (ابھی تک) ،مگر کیا وہ ایک اپنے شوہر کو ہر وقت کچن میں گھس کر کچھ نہ کچھ بنا کر دے سکتی تھی۔ پور ے دن کچن کی بے گار اسے تو غش آنے لگے ۔
شادی کو دو ماہ گزرے کے رمضان آگیا ۔سیاں جی کو اٹھانا، اور مردے کو جلانا یکساں ٹھہرا ۔ پر ایک دن دیور جی نے گرُ کی بات بتائی، کہ اس کو چھوڑ دیں بس ، کمرے کا دروازہ کھول دیں ،جب سب یہاں سے رخصت ہو جائیں گے تو وہ خود ہی اٹھ کر سحری کر لے گا ۔ سچ مچ گر کارآمد ثابت ہوا ۔ ایک دن اس نے کچھ خاص قسم کے پراٹھے بنانے تھے تو وہ وقت سے ایک گھنٹہ پہلے اٹھ گئی اور کچن میں مصروف رہی ۔ منجھلی بھابھی نے بھی آ کر مدد کروائی پھر دونوں نے مل کر دسترخوان لگایا ۔ ابو نے حکم دیا ’’ بیگم جا کر اس نامعقول کو بھی جگا کر لائیں کہ آج بہو کے ہاتھ کی پہلی سحری ہے ۔ اسے موجود ہونا چاہیے۔‘‘ سو امی گئی اور لے کر بھی آگئیں (شاید ان کے پاس بیٹوں کو چلانے کے لیے جادو کی چھڑی تھی) سحر ی خوشگوار ماحول میں ہوئی ۔ وہ برتن سمیٹنے لگی بھابھی کی گڑیا جاگ چکی تھی ۔ سو وہ جلد ہی سحری کے پلیٹ کے ساتھ کمرے میں جا چکی تھی ،اب سب کام اس کے ذمہ تھا ۔ برتن اٹھائے کچن سمیٹا ۔ آدھے گھنٹے بعد فجر کی نماز ادا کرنے جلدی سے نکلی تو امی کی آواز دینے پر رک گئی۔
’’ رکو دلہن !‘‘
’’جی امی؟‘‘ دل میں خیال آیا کہ ڈراموں کی طرح شاید کچھ انعام کی رقم ورنہ شاباشی ملے گی ۔
’’ یہ باسم ذرا بے دھیان ہے ۔ سوتے میں رضائی لات مار کر گرا دیتا ہے ۔ تم دھیان رکھا کرو ۔ جب تک تمہاری شادی نہیں ہوئی تھی ، تب تک میں ہر دو گھنٹے بعد اس کی رضائی درست طریقے سے اسے اڑھاتی تھی ۔ آج گئی تو سکڑا سمٹا پڑا تھانہ جانے کب سے، تم رات میں اٹھ اٹھ کر دیکھ لیا کرو ۔ میرے چھ بیٹے ہیں مگر میں نے سب کو اکلوتے کی طرح پالا ہے ۔ سب کو الگ الگ توجہ دی ہے۔ سب کو وقت دیا ہے۔ تم بے شک کچھ کرو نہ کرو مگر میرے بچوں کا خیال رکھو ۔‘‘ ادھر میاں صاحب کا کہنا ہے کہ میری ماں اکلوتی ہیں ،تمہیں ان کا بھرپور خیال رکھنا ہے ۔ یا خدا یہاں اولاد اکلوتی نہیں ۔ ان چھ بچوں کی ماں اکلوتی ہے ۔ اور سچ میں انہوں نے ہر اولاد کو اکلوتے ہی کی طرح ہی پالا ہوا ہے۔
عید پر گھر گئی رات رکی ، ماں جی نے باسم سے ہفتہ بھر رکنے کی اجازت لے لی ۔ سند س بھی بہت مشکل ہی سے مگر رکنے آ ہی گئی ۔ رات اس نے سندس کے استفسار پر یہ سب رام کتھا کہہ سنائی اور پھر دونوں خوب ہی ہنسیں ۔
’’واہ بھئی واہ ابا میاں نے کیا چھ لوتا ڈھونڈا ہے تمہارے لیے ۔ ویسے کہیں تمہاری ساس تمہارے رکنے پر ناراض نہ ہو جائیں ۔‘‘سندس نے خدشہ ظاہر کیا ۔
’’مستقبل کے لیے میں حال کو خراب نہیں کر سکتی۔‘‘ مگر جوں جوں جانے کے دن قریب آئے اسے سچ مچ ڈر لگا کہ کہیں گھر پہنچ کر امی عدالت ہی نہ لگا لیں ۔ آخر وہ دن آہی گیا ۔ ماں جی نے اس کے اور باسم کے علاوہ امی ابو کو ایک جوڑا کپڑا دیا ۔ دیور، جیٹھ ،جیٹھانی کی عیدی کے ساتھ ساتھ قیمتی تحائف بھی تھے ۔ شاید مکھن لگانے کا سامان کیاتھا ۔ سب کو تمام چیزیں دیں ۔ باسم موجود نہ تھے ان کا جوڑا امی کو دکھایا ۔ بھابھی کو جوڑا اور بچوں کی عیدی تھمائی پھر کمرے کا رخ کیا ۔ اب تک کوئی بدمزگی نہ ہوئی تھی امی کا موڈ بھی خرا ب محسوس نہ ہوا تھا۔
’’ دلہن۔‘‘ پیچھے سے آواز آئی۔
’’جی امی ۔‘‘ اب کی دفعہ کوئی خوش گمانی آڑے نہ آئی ۔یقینا کلاس ہوگی کمرہ جو خالی ہو گیا ہے ۔
’’مہینے میں ہفتہ بھر رہنے چلی جایا کرو ۔‘‘
’’جی؟‘‘ آنکھیں ابلنے کو بے تاب ہوئیں ۔
’’پہلے زمانے میں تو سا سیں زبردستی بہوؤں کو میکے بھیج دیتی تھی ۔ اب وہ وقت نہیں ،مگر میکہ یاد بھی تو آتا ہے ۔ تمھارا میکہ تو ہے بھی ویسے ہی شہر سے باہر ۔ ‘‘
’’ مگر امی باسم تو دو دن سے ناراض ہیں۔ ‘‘وہ منمنائی۔
ارے اسے چھوڑو تم چلی جایا کرو۔‘‘
’’ جی اچھا ۔ ‘‘اس نے کمرے کی سمت رخ کیا جب پیچھے سے بڑبڑاہٹ کی آواز آئی ۔
’’ ارے ہمارا بچہ کمزور ہوا جا رہا ہے ، ایک بیچاری ماں کیا کیا سوچے ۔ ‘‘ اور چھ بیٹوں کی اکلوتی ماں کے فرمان نے اسے حیرت کے سمندر میں غوطہ زن کر دیا۔ کیا انداز فکر ہے !اسے بھابھی کی پراسرار گمشدیاں یاد آئیں اور امی کا اطمینان بھی ۔
اف یہ چھے لوتا ۔ ہائے ابا ! یہ کیا کیا ۔وہ کراہی ۔اتنی تلاش کے بعد ملنے والا یہ کوہ نور ہیرا ۔
کاش اصلی ہوتاتو ابھی چاٹ لیتی۔
٭…٭

پچھلا صفحہ 1 2

Related Articles

One Comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page