کابلی پلاؤ
جب بھی پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری میں عظمیٰ گیلانی،روحی بانو، شہناز شیخ ،ثانیہ سعید کا نام لیا جائے گا ان کے ساتھ سبینہ فاروق کا بھی تذکرہ لازمی ہو گا۔
اس سال کا بلاک بسٹر ڈرامہ کابلی پلاؤ نے پی ٹی وی کے عہد رفتہ کو کس خوبی سے آواز دی ہے اور ان تمام ناظرین کے گلے شکوے دور کر دیے ہیں جو اسی اور نوے کی دہائی کے ڈراموں کو سنہرا دور کہتے ہیں ۔ ان ناقدین کو بھی کڑا جواب ملا ہے جو ریٹنگ کے چکر میں ڈرامہ کے نام پر رشتوں کا تقدس پامال کرتے ہیں اور بڑے بڑے گھر دکھا رہے ہیں ۔ جو سکرین پر میک اپ اور فیشن زدہ لڑکیاں دکھا رہے ہیں… یہ ڈرامہ یقینا ایک نئے دور کا آغاز بنے گا، ایک نیا دریچہ جس نے وا ہو کر لکھاریوں،ہدایت کاروں، فنکاروں کو نئی جہت سے روشناس کروایا ہے ۔
کابلی پلاؤ کہانی ہے محبت میں احترام کی…
یہ کہانی ہے باربینا اور حاجی مشتاق کی…
جو بنوں کی مخصوص فضا میں جنم لیتی ہے ، جب حاجی مشتاق ایک تبلیغی جماعت کے ساتھ بنوں جاتے ہیں ۔ وہ فطرتاً نیک،سادہ لوح اور درویش صفت انسان ہیں انھیں کابلی پلاؤ کھانے کا اتفاق ہوتا ہے اور یہیں سے وہ باربینا کے گھرانے اور،حالات سے روشناس ہوتے ہیں ۔ پوری اقساط میں مجھے نہیں یاد کہ باربینا نے کون سا لباس پہنا ، میک اپ کیسا کیا ، بس نظریں اس کے چہرے کے تاثرات پر جمی رہیں اور سماعتیں اس کے معصوم لہجے کو سننے کی طلب گار…
ان دونوں نے ہیرو ہیروئن کے مخصوص روایتی تصور کو دھندلا کر دیا۔ نہ بڑے گھر ، نہ شادی بیاہ کے بڑے بڑے فنکشن،نہ شاپنگ مالز ، روزمرہ کی گفتگو ، رشتوں میں آنے والے اتار چڑھاؤ ، نہ چٹ پٹا مصالحہ… بس لکھاری نے کبھی بنوں تو کبھی لاہور کے روایتی گھرانوں کے جذبات احساسات حالات قاری کے سامنے رکھ دیے ۔
منفی کردار بھی عمدگی سے پیش کیے گئے۔
غفار کا کردار ، اس کے تاثرات ، کمینگی یہ ڈرامہ سمیر ثاقب کو نئی پہچان دے گیا…
شمو کی نارسا محبت اور اس کا شاگرد، قیوم لالہ، بھابھی، چھمو، عائشہ کی محبت …
مطلب تمام کرداروں نے اپنا لوہا منوایا ہے ۔
اس ڈرامہ میں رائٹر نے ہر طبقے کی عکاسی کی ہے… باربینا کی محبت میں سچائی ، رشتے نبھانے کی عادت ،پاک دامنی نے ایک آئیڈیل لڑکی کو متعارف کروایا ہے ۔ حاجی مشتاق ایک سچے انسان اور باران جس پر اداکاری کا گمان نہیں ہوتا ۔ محبت میں نارسائی ہو بھی جائے تب بھی اسے باوقار رہنا چاہیے ۔ یہ بات باران یا مزدک پر پوری اترتی ہے ۔ اس کی باڈی لینگویج یقینا تعریف کی مستحق ہے…
ٹائٹل سونگ، بیک گراؤنڈ موسیقی ،نے جذبات نگاری کو عمدگی سے پیش کیا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ سب سے زیادہ شاباش کا مستحق کون ہے رائٹر ظفر معراج ، ہدایت کار کاشف نثار ،یا سبینہ فاروق اور احتشام الدین جنھوں نے ناظر کو سکرین سے ہٹنے نہیں دیا…ْ
یہ ڈرامہ ہماری انڈسٹری کے لیے کلاسک ثابت ہو گابلکہ آنے والے ڈراموں کا پیشرو بھی … عوام اچھا معیاری پروگرام دیکھنا چاہتی ہے، اسے محض گلیمر یا رشتوں کے تقدس کی پامالی نہیں دیکھنی اور فیملی انٹرٹینمنٹ اب بھی پیش کی جا سکتی ہے ۔
کابلی پلاؤ اس کا واضح ثبوت ہے۔
باربینہ کیونکہ جوان تھی اور پوری زندگی اس کے سامنے تھی تو اس کا انجام باران کے ساتھ ہونا چاہیے تھا
جبکہ حاجی صاحب کی شادی نادیہ افگن کے ساتھ ہونا چاہیے تھی جس نے اپنی پوری زندگی حاجی کے نام کی تھی۔
بالکل صحیح۔ شمو کی شادی اگر اینڈ پہ حاجی سے نہیں کرنی تھی تو اسکا اِتنا زیادہ کردار دکھانے کی ضرورت نہیں تھی۔ غفار کا انجام کُچھ زیادہ دکھانا چاہئے تھا، جتنی اس نے کمینگی دکھائی تھی اتنی ہی سزا بھی ملنی چاہیے تھی۔ ایک چیز سمجھ نھیں آئی کہ جب مشتاق کی بھتیجیاں باربینہ کی حمایتی تھیں تو اس نے باربینہ اور باران کی ویڈیو کیوں بنائی، اور اس کے بعد حاجی کو کیوں دکھائی۔