افسانے

ٹوٹا ہوا بٹن : محمد فرقان

کاؤچ پر بیٹھے نیل پینٹ لگاتے ایک دم سے اسے وہ صبح شدت سے یاد آئی۔
وہ صبح جب آسمان شفاف ندیا کی مانند بہہ رہا تھا اور اس ندیا کے پانی میں سورج کی کرنیں ناگن بن کر بل کھا رہی تھیں۔
وہ اس کی شادی کے ابتدائی ایام تھے ۔ بانہوں میں بھر بھر چوڑیاں تھیں۔ ہاتھوں کی حنا پھیکی پڑ چکی تھی۔ ہر لڑکی کی مثل اس کے بھی کئی خواب تھے، ارمان تھے۔ کچھ ہو بہو پورے ہوئے، کچھ آدھے ادھورے رہ گئے اور کچھ سہاگ رات کی بھیانک تاریکی میں بجھ گئے۔
میثم ڈریس پینٹ پہنے قد آدم آئینے کے مقابل کھڑا باڈی اسپرے چھڑک رہا تھا ۔ آفس جانے کی تیاری میں منہمک …
’’جلدی جلدی شرٹ پریس کرو۔‘‘ اس نے ذرا فاصلے پہ شرٹ استری کرتی نورین کو سرد پن سے مخاطب کیا ۔ نورین کے ہاتھ اور جاں فشانی سے چلنے لگے۔ ہاتھ استری پہ تھے اور نگاہیں میثم کے کسرتی جسم پر…
چوڑا چکلا سینہ… بازوؤں کے اُبھار …
کپڑے کی سلوٹ درست کرتا اس کا ہاتھ بے اختیاری میں گرم استری کو چھو گیا ۔ لبوں سے سسکاری نکلی۔
’’سس … آہ۔‘‘
’’کیا ہوا؟‘‘ میثم نے تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے عقب میں دیکھا۔
’’کچھ نہیں… بس ذرا سی انگلی جل گئی۔‘‘خفت اور تکلیف کے کارن اس کے گال گلابی پڑ گئے۔
’’دھیان سے۔‘‘ وہی اکھڑ پن …
پھر دوچار لحظے سر کے۔ اس نے پھر مخاطب کیا۔
’’یہ کھڑکیوں سے پردے تو اٹھاؤ ۔ دیکھو، کیسا مکروہ اندھیرا سارے کمرے میں چکراتا پھر رہا ہے۔‘‘
نورین نے وہیں شرٹ پہ استری چھوڑی اور کھڑکیوں کی اور لپکی ۔ دبیز پردوں کے ہٹتے ہی سنہری شعاعیں چھن کرتی اندر چلی آئیں ۔ ناگنوں نے میثم کے بدن کو ڈسا۔
وہ پلٹی تو جہاں کی تہاں رہ گئی ۔ شش در… ساکت و صامت۔
’’شرٹ جل گئی۔‘‘
’’اوہ کیا کرتی ہو، اندھی ہو کیا… اتنی قیمتی شرٹ برباد کر کے رکھ دی اور وہ بھی صبح ہی صبح … بد شگونی۔‘‘اس کا لہجہ بالکل اس کے سینے کی مانند لگ رہا تھا ۔ تنا ہوا … اکھڑا ہوا، سخت۔
’’اب کھڑی میرا منہ کیا دیکھ رہی ہو ۔ جاؤ جلدی سے دوسری شرٹ پریس کرو۔‘‘
وہ جو ندامت سے ادھ موئی ہوئی جا رہی تھی، بھاگم بھاگ وارڈروب کھولنے لگی۔ پھر اجلی سی کاٹن کی شرٹ نکالی اور استری کرنے لگی۔ جب شرٹ استری ہو چکی تو اسے تھمائی۔ وہ پہننے لگا۔
’’اوہ ہو … اس کا تو ایک بٹن ٹوٹا ہوا ہے۔ سوئی دھاگا لاؤ اور اسے درست کرو۔‘‘ وہ سر پہ کھڑا حکم صادر کر رہا تھا اور نورین آئیں بائیں شائیں ۔
’’کہاں سے لاؤں سوئی دھاگا؟‘‘ اس کی کانپتی ہوئی آواز برآمد ہوئی۔
’’مجھے کیا پتا … ارے یہیں کہیں دیکھو، دراز وراز میں۔‘‘ میثم کی نخوت بھری آواز سن کے وہ دراز ٹٹولنے لگی ۔ آخرکار ایک سوئی اور دھاگا مل ہی گیا۔ مگر … اب بٹن لگانا اس سے بڑی مصیبت تھی۔ آسمان سے گرا، کھجور میں اٹکا۔
میثم اسے دیدے پھاڑنے گھور رہا تھا۔ وہ فوراً اس کے سامنے آئی اور سوئی دھاگا اس کے سامنے لہراتے ہوئے بولی۔
’’وہ، مجھے بٹن لگانا نہیں آتا۔‘‘ جی کڑا کر کے گویا ہوئی۔
’’یہ کیا بات ہوئی ۔ شادی کر کے تم سسرال آ گئیں اور ابھی تک بٹن ٹانکنا نہیں آیا۔ مائی فٹ۔‘‘ وہ نورین کو سخت سست سنا کر کمرے سے باہر گیا اور اپنی اماں سے کہنے لگا کہ اسے بٹن ٹانک دیں۔
’’آئے ہائے ‘ یہ آج کل کی لڑکیاں … ایسی لا بالی کہ الامان الحفیظ ۔ اور ہم، ہمارا تو پوچھو ہی مت ۔ ہم تو بیاہ سے قبل ہی کھانے پکانے، سینے پرونے اور اوڑھنے کاڑھنے میں طاق تھے ۔ یہ آج کل کی چھوکریوں سے تو بس موٹی موٹی کتابیں پڑھوا لو۔ ہونہہ۔‘‘ اب اماں بٹن ٹانک رہی تھیں اور ساتھ ساتھ اپنی نئی نویلی بہو کو کوسنے سنا رہی تھیں۔
نورین کا دل دھک سے رہ گیا۔ اس نے اماں کی آواز بخوبی سن لی تھی۔ الفاظ تھے کہ نشتر … اور کاٹ دار لہجہ۔ میثم سامنے بیٹھا مزے سے سن رہا تھا۔
’’میثم کو اماں کے سامنے کچھ تو بولنا چاہیے تھا میرے حق میں۔ مانا کہ میری غلطی ہے مگر…‘‘ مگر وہ جو شوہروں پہ ایک مان سا ہوتا ہے، وہ ٹوٹ گیا تھا۔ اسے یہ رویہ شدید برا لگا۔
جو مرد لوگوں کے سامنے آپ کا دفاع نہیں کر سکتا۔ بند کمرے میں کیے گئے اس کے وعدے بھی بیکار ہیں۔
ابھی بیاہ کو دن ہی کتنے گزرے تھے اور یہ سب ۔ اسے میکا یاد آیا۔ جوائنٹ فیملی سسٹم کے مزے … ہک ہاہ ۔ گھر میں ہمہ وقت ایک رنگینی سی رہتی تھی ۔ ایک غلغلہ سا … بے فکری، من موجی … پیسے کی ریل پیل۔ وہاں تو دس دس ملازمائیں ہوتی تھیں جو ہر کام اس کی جنبش ابرو پہ کر دیتی تھیں ۔ اس کی امی کو آناً فاناً جانے کیا سوجھا تھا کہ انھوں نے انٹر ہوتے ہی اس کے بیاہ کی بات چلا دی اور رخصت کر دیا ۔ پہلے پہل تو اس نے خوب واویلا کیا البتہ پھر چپ سادھ کے بیٹھ گئی۔
طیش سے بڑبڑاتا ہوا میثم اندر آیا۔ وہ سہم کے پیچھے ہٹی۔
’’نگوڑی ، تمہیں میرے پلے کیوں باندھ دیا گیا ۔ جس لڑکی کو بٹن تک ٹانکنا نہیں آتا، وہ آگے چل کر لائف میں کیا کرے گی، بچے کیسے پیدا کرے گی؟‘‘ وہ جلا بھناہوا تھا ۔ عجلت میں بٹن بند کرنے لگا۔
’’تو کیا شادی بچے پیدا کرنے کے لیے کی جاتی ہے؟ شادی کے بعد بچے پیدا کیے جاتے ہیں؟‘‘
نورین کے نزدیک شادی دو خاندانوں کا ملاپ تھا، دو گھرانوں کا سنگم ۔ یہ بچے وچے تو بعد میں آتے تھے ۔ یہ تو ذیلی تھے۔
’’میرے علم کے مطابق تو پوری دنیا شادی کے بعد بچے ہی پیدا کرتی ہے ۔ اگر تمہارے پاس کوئی نیا فعل ہے تو ہم وہ بھی سرانجام دیں لیں گے۔‘‘ وہ دوبدو جواب گو ہوا۔
نورین کی تو ابھی کچی عمر تھی، وہ تو ابھی ٹین ایج کے چارم سے ہی باہر نہیں نکلی تھی لیکن میثم … جو ویل سیٹل بزنس مین تھا ۔ اسے تو اس کی کیفیت کو جاننا سمجھنا چاہیے تھا۔
وہ ترکی بہ ترکی بحث کرتے گئے اور یوں یہ معاملہ روز بروز بڑھتا گیا حتیٰ کہ نوبت طلاق تک آ گئی ۔
طلاق … طلاق … طلاق کی بازگشت سنتے ہوئے وہ میکے آ گئی ۔ طویل آرام خانے میں سبھی گپیں ہانک رہے تھے۔ دروازے تک پہنچتے ہوئے اپنے چچازاد بھائی احسن کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔
’’ہماری نورین کے ساتھ تو چٹ منگنی، پٹ بیاہ والا معاملہ ہوا ہے۔‘‘ وہ اندر داخل ہوئی اور تھکے ماندے لہجے میں گویا ہوئی۔
’’نہیں احسن بھائی! صرف چٹ منگنی، پٹ بیاہ، ٹھاں طلاق۔‘‘
٭…٭…٭
اس صبح کا اثر زائل ہو گیا جس میں سورج کی کرنیں ناگن بن کر گھروں کی اور لپکتی تھیں۔
اسے یاد آیا کہ کہ گھر کے بڑوں کو اس کی طلاق پر بڑا دکھ تھا ۔ امی تو آٹھ آٹھ آنسو رو رہی تھیں ۔ پھر اسے اس کی مرضی کرنے کی اجازت دے دی گئی ۔ اس نے گریجویشن کی اور CSS کا امتحان پاس کر کے ایک بڑی یونیورسٹی میں لیکچرار مقرر ہو گئی ۔ اب کی بار گھر والوں نے خوب چھان پھٹک کر اس کے لیے رشتہ تلاشنا چاہا ۔ خوش قسمتی سے اس کے ہی ایک کولیگ کا رشتہ آ گیا ۔ وہ جانتی تھی … اس لیے ہاں کردی۔ صارم بھی اس کے ماضی سے واقف تھا۔
’’ارے سنتی ہیں آپ۔‘‘ نورین صارم کی آواز پر چونکی … یکایک ماضی سے واپس ہال میں آئی۔
’’وہ میں کہ رہا تھا کہ اگر آپ کے مصروف جدول میں میرے لیے چند ثانیے ہوں تو براہ کرم میری شرٹ کا بٹن ٹانک دیجیے۔‘‘ وہ سنگھار میز کے سامنے کھڑا شوخی سے بول رہا تھا ۔ نورین جھینپ گئی۔
’’آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ بٹن ٹانکنا مجھے اب بھی نہیں آتا ۔ وارڈروب سے آپ دوسری شرٹ نکال کے زیب تن فرما لیں۔‘‘ وہ بھی اسی کے انداز میں مخاطب تھی۔
’’تو کب آئے گا آپ کو بٹن لگانا؟ کہیں تیسرا تجربہ تو نہیں کرنے لگیں…‘‘ صارم نے جان بوجھ کر بات کو ایک نیا رنگ دیا۔
’’جی نہیں، بے فکر رہیے ۔ میں آپ کی جان تب تک نہیں چھوڑنے والی جب تک عزرائیل نہیں آ جاتا۔‘‘
صارم شرٹ پہن چکا تھا اور مکمل تیار تھا ۔ وہ ہنوز کاؤچ پہ ٹانگیں پسارے ناخنوں پہ نیل پینٹ لگا رہی تھی۔
’’اچھا تو پھر اجازت دیں ۔ میں جا رہا ہوں یونی ورسٹی ۔ آپ نے تو غالباً آج اپنی فرینڈز کی شادی میں جانا ہے نا۔‘‘ وہ جاتے ہوئے بولا۔
’’جی شادی میں تو شام کو جانا ہے ۔ ابھی میں تیاری کروں گی ۔ آپ یاد سے درزی سے میری ساڑھی لے آئیے گا اور ہاں… دیکھیے گا کہ بلاؤز صحیح فٹ ہو۔‘‘
’’لے آؤں گا ۔ اب اجازت دیں آپ۔‘‘ وہ کمرے سے باہر نکلتے ہوئے بولا تو نورین کو ایک دم سے کچھ یاد آیا۔سارا ادب لحاظ اڑن چھو ہوا۔
اس نے چٹخ کر ہانک لگائی۔
’’ارے رکو صارم … میری کمر کا ناپ تو لیتے جاؤ۔‘‘
’’جاناں … تمھاری کمر کا سائز تو مجھے زبانی یاد ہے۔‘‘
ٹوٹے ہوئے بٹن کا
جواز بنا کر چھوڑنے والے
آ ذرا، ادھر آ کے دیکھ
بٹن ٹوٹیں یا ٹانکے ادھڑیں
جنھوں نے نبھانا ہو
وہ نبھا لیتے ہیں
ان کے دلوں کے تانے بانے ہمیشہ جڑے رہتے ہیں

1 2 3اگلا صفحہ

Related Articles

3 Comments

  1. السلام عليكم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
    بہت شکریہ اتنا زبردست پیج تیار کرنے کے لیے تمام کہانیان میعاری مختلف اور اچھوتےموضوعات پر ہی اگرکچھ لکھنے کی کوشش کرنا چاہتے ہین تو کیا طریقہ کار ہے، جوفیس بک یا انسٹا اگر نہ استعمال کرتے ہوں.؟

  2. السلام عليكم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
    بہت شکریہ اتنا زبردست پیج تیار کرنے کے لیے تمام کہانیان میعاری مختلف اور اچھوتےموضوعات پر ہے اگرقارئین میں سے کوئ لکھنے کی کوشش کرنا چا ہیں تو کیا طریقہ کار ہے؟ جوفیس بک یا انسٹا اگر نہ استعمال کرتے ہوں.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page