افسانے

وعدہ : عندلیب زہرا

عبدالعلی کی تمام زندگی درس و تدریس میں گزری تھی ۔
ان کا گھرانہ تقسیم ہند کے خونی مناظر دیکھ کر آیا تھا ۔ آگ،خون،قتل و غارت گری … والد جناح صاحب کے پرستار، سب کچھ فنا کر کے آئے تھے ۔ مال کی قربانی بھی دی تھی ، رشتے بھی کھوئے تھے ۔ بس دامنِ دل میں دو ہی جذبے تھے ایک پاکستان سے محبت دوسرے محمد علی جناح سے عقیدت۔
’’میرا بیٹا استاد بنے گا۔‘‘ جب عبدالعلی نے پہلی بار تختی اور دوات اٹھائی تو انہوں نے اعلانیہ کہا ۔ بیٹے نے باپ کا مان رکھااور سی ٹی کر کے گاؤں کے سکول میں استاد لگ گئے۔
’’تم آنے والی نسلوں کو محمد علی جناح کا تعارف کرواؤ گے ۔ ان کے خون میں قائد اعظم کی محبت رواں کر دو گے تاکہ ہر نسل کو یاد رہے ان پر کتنا بڑا احسان کیاگیا ہے۔ ‘‘انھوں نے اپنے بیٹے سے وعدہ لیا تھا ۔
وہ اپنے پیشے کے ساتھ بہت مخلص تھے ۔ باتوں کے ذریعے ، کبھی درسی کتب میں لکھے قائد اعظم کی زندگی کو وہ بارہا زیر بحث لاتے ۔ یہ ہی وجہ تھی کہ ان کے پڑھائے گئے اسباق وہ کبھی نہ بھولتے ۔ درسی کتب کے ساتھ شخصیت کی تعمیر سازی بھی کرتے ۔ وہ دو قومی نظریہ کی وضاحت بارہا کرتے ۔ایک استاد معاشرہ تعمیر کرتا ہے ۔ انھوں نے کلاس روم میں بڑے سے چارٹ پر لکھوا رکھا تھا’’مسلمان گھبرایا نہیں کرتا‘‘ محمد علی جناح کے اقوال ان کی گفتگو کا حصہ بنتے رہتے۔
وہ ان کی زندگی کے واقعات شگفتہ انداز میں بیان کرتے۔تاکہ طلبا اپنے لیڈر سے ہمیشہ آگاہ رہیں۔
’’ یاد رکھو!جو قومیں اپنے لیڈر کے احسان بھول جاتی ہیں ۔ وہ تاریکی میں ٹامک ٹوئیاں مارتی ہیں۔‘‘ ان کے چہرے پر ایک نرمی کا تاثر تھا اور آنکھوں میں تجربے کی روشنی ۔ یہ ہی سبب تھا کہ ان کے شاگرد زندگی کے میدان میں نمایاں مقام حاصل کرتے ، لیکن انہیں جس شاگرد پر فخر تھا وہ عبدالواسع تھا ۔ اس سے ملاقات بھی عجیب حالات میں ہوئی تھی۔
’’بیٹا!یہ تم کیا کر رہے ہو؟‘‘ نہر کنارے ایک دبلا پتلا بچہ درخت گننے کی کوشش کر رہا تھا۔
’’ایک ، دو ، تین ، چار…دس۔‘‘وہ دس پر آ کر رک جاتا ۔ پھر بجلی کی تار پر بیٹھی چڑیاں گننے لگا ۔پھر گلاب کی شاخ پر اگے پھول ۔لیکن گنتی دس تک رک جاتی ۔ وہ سائیکل پر سکول جاتے کئی روز سے یہ بچہ دیکھ رہے تھے۔
’’پڑھنا چاہتا ہوں۔ابا نہیں راضی۔‘‘اس نے اداس لہجے میں کہا ۔اور پھر سے نہر کنارے درخت گننے لگا ۔ ماسٹر عبدالعلی نے افسوس سے دیکھا۔ اور اس کے باپ سے بات کی ۔ میلے کچیلے کپڑوں میں نک چڑھا آدمی بھٹے بیچ رہا تھا ۔ غربت،فاقے،وسائل کی کمی… ان کے لیے پڑھائی عیاشی تھی اور بس۔
’’ میں روز آپ کو دو سو دوں گا لیکن اپنے بیٹے کوپڑھنے دیں۔‘‘ماسٹر عبدالعلی کا لہجہ ملتجی تھا۔
ان کی انگلی تھامے ننھا بچہ آس و نراس میں باپ کا چہرہ پڑھ رہا تھا ۔ آخر تھوڑی سی بحث کے بعد وہ راضی ہو گیا۔اب صبح نہر کنارے ان کی سائیکل کی گھنٹی کا منتظر رہتا۔وہ اسے بٹھاتے اور اپنے سکول لے جاتے ۔ راستے میں درخت گنتے، مرغیاں گنتے ، سکول جانے والے بچے گنتے ۔ اس نے گنتی یاد کر لی ۔ وہ ذہین نہیں تھا بلکہ بہت ذہین تھا ۔نہ پڑھتا تو یہ ظلم ہوتا اس پر بلکہ ان کی بستی پر ۔ عبدالواسع نے پانچویں میں وظیفہ جیتا ۔ اس کی اعلیٰ کارکردگی پر سکول سے وظیفہ ملنے لگا ۔ جو مخیر حضرات کی جانب سے مقرر تھا ۔ اب اس کے باپ کو ماسٹر عبدالعلی کے ماہانہ دوسو کی ضرورت نہ تھی ۔ کیونکہ عبدالواسع نے سکول کے بعد کام شروع کر دیا تھا ۔ جب اس نے میڑک میں بورڈ میں پوزیشن لی تو سارا گاؤں اس کے بوسیدہ دروازے کے آگے مٹھائی ہار لیے کھڑا تھا ۔ لیکن وہ خود ماسٹر صاحب کے قدموں میں سر رکھے رو رہا تھا۔
’’اگر اس دن آپ مجھے نظر انداز کر دیتے تو آج میں بھی ریڑھی لگا رہا ہوتا۔‘‘ماسٹر عبدالعلی نے اسے کندھوں سے پکڑ کر کھڑا کیا اور گلے لگا لیا۔
’’ میری ہر کامیابی ماسٹر عبدالعلی کے نام…‘‘اس نے انٹرویو میں کہا تھا۔
عبدالواسع نے محنت کی اور اتنی کی کہ اپنے گاؤں کی پہچان بن گیا۔وقت کے سنہری سکے گرتے گئے۔ایک روز اخبار میں نمایاں شہ سرخی تھی۔
’’ڈھوک عالم گیر کے عبدالواسع نے سی ایس ایس میں اول پوزیشن حاصل کی ہے۔‘‘
آج پہاڑوں میں گھرے اس گاؤں میں ہر سمت خوشیاں تھیں ۔ ہر گھر میں چراغاں تھا ۔عبد الواسع بڑا افسر بن گیا تھا ۔ماسٹر عبدالعلی اب بھی علم کی روشنی دے رہے تھے ۔ پہلے سے بوڑھے اور کمزورلیکن ویسے ہی پرعزم جیسے برسوں پہلے تھے ۔ان کی جماعت میں آج بھی کوئی نہ کوئی گوہر نایاب موجود تھا جسے مستقبل کا عبد الواسع بننا تھا ۔وہ اپنی کامیابی پر شاداں و فرحاں ان سے ملنے آیا ۔ سرما کی دھوپ میں حلاوت تھی۔سوکھے پتوں کا ڈھیر پڑا تھا ۔ کسی نے ان میں آگ دہکا دی تھی سو وہ باس ہوا میں شامل تھی ۔ وہ ان کے قریب دو زانو بیٹھا تھا ۔ اس کی آنکھوں میں عقیدت تھی اس روشن مینار کے لیے جس نے اسے کندن بنا دیا تھا۔
’’میں جانتا تھا ۔ میرے وجدان نے مجھے خبر دے دی تھی کہ تم منزل پا لو گے ۔ لیکن تمھارا امتحان اب شروع ہے ۔ کتاب کی دنیا سے نکل کر انسانوں کے جنگل میں تمھیں اپنی بقا کی جنگ لڑنی ہو گی ۔ وقار کی جنگ ۔ خبردار!کوئی ایسا کام مت کرنا کہ تمھیں،اپنی نظروں میں شرمندہ ہونا پڑے ۔ تمھیں یاد ہے ناں محمد علی جناح کی بات جو میں نے بارہا دہرائی ہے ۔ ‘‘ ماسٹر عبدالعلی نے اپنے ہونہار شاگرد کو دیکھا ۔ اس نے ان کے ہاتھ پر بوسہ دیا۔اور جھک کر سلام کیا ۔ کمرے کی فضا میں مانوس خاموشی تھی جس میں بھید تھے ۔ ماضی کا مدقوق کمزور عبدواسع اب ڈی سی تھا ۔ ایک دستخط پر وہ کچھ بھی کر سکتا۔شہر میں اس کی شہرت کا ڈنکا تھا۔
جب ایک فائل اس کے پاس بھیجی گئی ۔ اس میں غیر قانونی کام کو قانونی رنگ دینا تھا اور وہ کام اس کا ایک دستخط کر سکتا تھا ۔اور معاوضہ میں اس کا روشن مستقبل اور بہت سی مراعات تھیں ۔لالچ اس کے اندر سر اٹھانے لگی ۔طاقت کا نشہ …اس سے پہلے کے وہ دستخط کر دیتا ۔ اچانک تیز ہوائیں چلنے لگیں کھڑکی کے پٹ وا ہو گئے ۔ سامنے دھندلا زرد سا عکس تھا۔وہ اپنی کرسی سے اٹھا۔اور دروازہ کھول کر باہر آ گیا۔
’’لے کر رہیں گے پاکستان ۔قائد اعظم زندہ باد۔‘‘ لوگ نعرے لگاتے اس کے پاس سے گزر رہے تھے ۔ لیکن اس کی جانب کوئی متوجہ نہ تھا۔
’’آج جناح صاحب کا جلسہ ہے ان کی سواری آنے والی ہے۔‘‘دو آدمی پاس سے بولتے ہوئے گزرے ۔ اس نے چونک کر دیکھا وہ شاید ستر اسی برس پیچھے چلا گیا تھا ۔ انیس سو چالیس یا بیالیس کا زمانہ تھا اس نے اندازہ لگانا چاہا ۔اسٹیج پر دبلا پتلا تیز نگاہوں والا لیڈر کھڑا تھا ۔ پنڈال ان کے نعروں سے گونج رہا تھا۔وہ قائد اعظم تھے ۔
عبدالواسع کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا پھر پنڈال پر سکوت طاری ہو گیا۔جناح صاحب تقریر کر رہے تھے۔
’’مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرزِ حکومت کیا ہو گا ؟پاکستان کے طرزِ حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں ؟ مسلمانوں کا طرزِ حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن مجید میں ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا۔‘‘
نگاہیں عبدالواسع پر تھیں یا اسے محسوس ہو ا ۔یوں لگا جیسے وہ پورے پنڈال میں اپنے لیڈر کے ساتھ تنہا کھڑا ہے ۔ وہ ان کے الفاظ اپنے اندر جذب کرنے لگا ۔ اچانک اسے ٹھوکر لگی وہ منہ کے بل گر پڑا ۔اس نے چونک کر دیکھا وہ اپنے کمرے میں تنہا بیٹھا تھا ۔فائل قدموں میں گری تھی ۔ہوا ساکت ، کھڑکی بند تھی۔ کوئی ذی روح نہ تھا ماسوائے اس کے ۔ سامنے دیوار پر قائد اعظم کی پروقار تصویر اسے دیکھ رہی تھی ۔ جیسے اس کو تنبیہ کررہی ہو۔اس نے فائل پھاڑ کر ڈسٹ بن میں ڈالی ۔ کرپشن کا حصہ بننے سے انکار کیا۔
’’مجھے آپ سے کیا گیا وعدہ یاد ہے قائد۔‘‘ اس نے تصویر کے سامنے کھڑے ہو کر زیر لب کہااور آنکھوں میں آئی نمی کو صاف کر دیا ۔ اسے لگا قائد اعظم کی آنکھوں میں چمک بڑھ گئی ہے اور لبوں پر مسکراہٹ گہری ہو گئی ہے۔

1 2 3 4 5اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page