ناول: نورالقلوب از تنزیلہ ریاضتبصرہ: آبان احمد اکیس ماہ تک نور القلوب شعاع ڈائجسٹ میں شائع ہوتا رہا۔ پھر بالآخر اسے کتابی شکل مل گئی۔نور القلوب مصنفہ کے چاہنے والے سب قارئین کے لیے سرپرائز تھا کیونکہ زیسست پہیلی دس اقساط کے بعد مصنفہ نے مصروفیت کا کہہ کر روک دیا تھا۔ پھر نور القلوب کا لکھا جانا تحفہ سے کم نہیں ہے۔بہرحال آ جاتے ہیں اب کہانی کی طرف...... مجھے آنکھیں دکھائے گی کیا بھلا گردشِ دوراںمیری نظروں نے دیکھا ہے تیرا نامہرباں ہونا نور القلوب کہانی ہے دل کے سکون کی۔ وہ دل کا سکون جو سارے ناول میں کسی کردار کو نصیب نہیں ہوتا۔ کچھ لوگوں کی اللہ سے دوری اور کچھ لوگوں کا زعم.....چاہے وہ داؤد کی ممی ہو، داؤد ہو، مہر افروز ہو، شیریں کے ممی پاپا ہوں، حبیب اللہ خان ہو، گٌلے ہو، خوشل ہو یا لاریب ہو.....سب اپنے اپنے مدار میں سب کچھ ہوتے ہوئے نور القلوب کے لیے ترسے۔کہانی کے آغاز و انجام پر بات کرتے ہیں۔ لیکن پہلے بٹگرام کی خوبصورتی ہری حویلی اور نور القلوب کی منظر نگاری پر بات کرتے ہیں۔بٹگرام کے آخری سرے پر شہری آبادی سے ذرا الگ تھلگ سر اٹھا کر فخر سے کھڑی اس عمارت کا نام ہری حویلی تھا۔ اس کا ٹھاٹھ باٹھ چندھیا دینے والا.....سردیوں میں تو خیر سفیدی ہر رنگ پر حاوی رہتی ہے لیکن مارچ اپریل میں جب سنہری دھوپ کا دو شالہ اس کے وجود پر پڑتا تو اس کی چھب دور سے دیکھنے والوں کو محصور کر دیتی تھی۔ ایک جانب الائی کے سفیدے کی جالی سے ڈھکے پہاڑ، دوسری جانب سرسبز شاداب چراگاہیں..... ہری حویلی کے سحر سے آنکھیں خیرہ نہ ہوتیں تو کیا ہوتیں.....ہاں بھئی..... ہوتی ہیں کچھ عمارتیں بھی ایسی جو عورتوں سے بھی زیادہ حسین دکھائی دیتی ہیں.....اتنے زبردست طریقے سے مصنفہ نے الفاظ چنے کہ پڑھنے والا اش اش کر اٹھے.....مہر افروز پر اعتماد، ذہین، نڈر اور حوصلہ مند مگر ضدی، بے حد ضدی۔اسے اپنے جائز موقف پر ڈٹ جانے اور اسے منوا لینے کی عادت وراثت میں ملی تھی۔ جو ٹھیک تھا، اسے ٹھیک کہنے سے کتراتی نہیں تھی۔ جو غلط تھا، اسے دنیا کی کوئی طاقت مان لینے پر مجبور نہیں کر سکتی تھی۔ وہ مشکلات سے گھبراتی بھی نہیں تھی بلکہ ان کا حل تلاش کرنے لگ جاتی تھی۔ وہ جہاں جاتی چھا جاتی۔ ایک کامیاب انسان والی ساری خصوصیات اس کی شخصیت میں موجود تھیں۔ ممتاز ہونے کے سارے گر اسے زبانی یاد تھے.....وہ اور داؤد ایک مکمل زندگی جینے والے تھے۔لیکن ایک معمولی جراثیم نے ان دونوں کی دنیا پلٹ دی.....دونوں بھول گئے کہ بیماری تو صحت کا صدقہ ہوتی ہے.....وہ یہ بھول گئے تھے کہ ایک چیز انہوں نے تیار کی تھی اور ایک منصوبہ بندی ان کے پیدا کرنے والے نے کا تھا.....شیریں خلیق کو ایک حادثے نے اللہ کے قریب جانے کا موقع دیا۔ لیکن اس کی ضدی اور ہٹ دھرم طبیعت نے اسے نماز قرآن کے بعد بھی پلٹنے نہ دیا۔ عاجزی کا تکبر سب سے بری اسٹیج ہے اور سب سے پست بھی۔ اس میں انسان اپنے اعمال کو اپنے ہی ہاتھوں تباہ کر دیتا ہے۔نور القلوب ایک ایسا ادارہ تھا جہاں بچیوں کو حفظ قرآن کے ساتھ بنیادی مضامین بھی پڑھائے جاتے تھے۔ اس باوجود ادارے میں سختی بہت تھی۔ کسی سے پڑھائی سے ہٹ کر بات کرنا آسان نہیں تھا۔ کچی عمر میں بچیاں جو خواب دیکھنے لگتی ہیں ان کو زیر بحث لانے اور ڈیل کرنے کے لیے کوئی خاص انتظام نہیں تھا۔ وہاں ایک عجیب قسم کا جنریشن گیپ تھا۔ چھوٹی بچیاں جوان ہوتی بچیوں سے ڈرتی تھیں۔ اور جوان بچیاں ادھیڑ خواتین سے خائف رہتی تھیں۔صندل بی کا ایک منصب تھا۔ اس منصب پر بیٹھنے والی حقوق اللہ تو نبھا رہی تھی لیکن حقوق العباد سے بے بہرہ تھی۔ صندل بی کہتی تھیں لوگ ہم جیسوں کی غلطیاں محدب عدسے لگا کر ڈھونڈتے ہیں۔ دین سکھانے والوں کی غلطیاں کوئی معاف نہیں کرتا اور دوسری طرف اپنے اختیار کیے منصب پر کسی دیوی کی طرح براجمان تھیں۔ حدیث کا مفہوم ہے اللہ پاک فرماتا ہے میں اپنے حقوق تو معاف کر دوں گا لیکن میرے بندوں کے حقوق نہیں.....ہم جس اللہ کو مانتے ہیں، اس کی بنائی مخلوق پر رحم نہ کرنا سب سے بڑا ظلم ہے۔ صندل بی نے تو اپنی سگی اولاد کے ساتھ اچھا نہیں کیا تو پھر زہرہ کیا چیز تھی.....داؤد منور، اس کردار کے ساتھ بہت بری ہوئی۔ ساری زندگی دو عورتوں کے درمیان پنگ پانگ کی طرح لڑھکتا رہا مگر دونوں میں سے کسی ایک کو بھی خوش نہ رکھ سکا۔مہر افروز سے عشق نے داؤد منور کو تباہ کر دیا.....ناول کا تیسرا اہم کردر حبیب اللہ خان..... اس نے اپنے دل کی خاطر ساری بساط بچھائی لیکن پھر اسے کیا ملا؟ تین زندگیاں تباہ ہو گئیں اس کے دل کی خاطر..... پورے ناول میں اس کا کردار مجھے کھٹکتا رہا۔ اس انسان نے اپنے دل کو سکون پہنچانے کے لیے کتنے ہی لوگوں کا نور القلوب سلب کر لیا۔ اختتام پر داؤد اور شیریں کے ساتھ تو بہت بری ہوئی لیکن حبیب صاحب نہ صرف پتلی گلی سے نکل گئے بلکہ ایک عدد بیٹی بھی مل گئی.....اس کردار کا انجام صندل بی سے بھی برا ہونا چاہیئے تھا.....قصہ گو تنزیلہ ریاض ہوں تو پڑھنے والا کبھی بور نہیں ہو گا۔ ماضی اور حال کے گرد چکر کاٹتی اس کہانی نے بہت جلد اپنے پتے شو کر دیئے تھے۔ عہدالست اور راپنزل جتنا اس ناول کا سسپنس کھینچا نہیں گیا۔ ناول دلچسپ تو تھا لیکن بیچ کی کچھ اقساط نے بور بھی کیا.....مصنفہ نے رباب اور ارباب کو ملا کر ان کے ساتھ اچھا کیا..... لیکن کیا ہو جاتا جو زہرہ اور خوشل خان بھی مل جاتے.....دو تین سطریں ہی لکھنی تھیں مصنفہ کو چند سال بعد کی..... جب پھر مل جاتے خوشل اور زہرہ۔مجھے تو کم بخت ماری خدیجہ کے بچ نکلنے پر بھی افسوس ہی رہے گا.....ایسا لگا آخری اقساط مصنفہ نے بے توجہی سے لکھی ہیں۔جیسے بوجھ کر طرح اتار پھینکا ہو۔۔۔زہرہ کے لیے میرا دل بہت دکھا۔تو اس رفاقت کا نام دکھ ہے!اور ایسی وحشت نما فضا میںخاموش رہنا بھی اک سزا ہےمگر کسی سے کلام دکھ ہے!ہمیں خبر ہے!تمام دکھ ہے..... ایک اقتباس جو مجھے بہت پسند آیا۔”میاں بیوی کو اولاد سے پہلے رزق جوڑتا ہے۔ کیونکہ مرد عورت جب رشتے میں بندھتے ہیں تو ان کا رزق بھی مشترک کر دیا جاتا ہے۔ میاں بیوی لباس و بستر کے ہی حصہ دار نہیں ہوتے ہیں بلکہ روٹی کے بھی حصے دار ہوتے ہیں۔“نور القلوب کے بعد اب زیست پہیلی پڑھنے کی خواہش ہے.....مصنفہ کے لیے ڈھیر ساری نیک خواہشات..... آبان احمد