افسانے

میری بہن سویرا: عندلیب زہرا

گھر میں گہما گہمی سی تھی۔اکثر ایسا ہوتا ہے ناں کہ ایک دم سے سارے کام اکٹھے ہو جاتے ہیں۔معاملات الجھ جاتے ہیں۔ہلچل سی نافذ ہو جاتی ہے۔ایسی ہی صورت حال آج کل ہمارے گھر میں تھی۔
چھوٹے چچا پانچ سال بعد پاکستان آ رہے تھے ۔ دادی جان کا اچانک فریکچر ہو گیا تھا ۔گھر میں کنسٹرکشن کا کام جاری تھا اور فائنل امتحان کی تاریخ آ گئی تھی۔
سب کنفیوز تھے بلکہ جھنجھلا رہے تھے ۔ سب سے زیادہ کوفت کا شکار میں اور سویرا تھیں ۔ کنسٹرکشن کا کام کب سے ملتوی تھا وجہ پیسے کی کمی ۔اب اچانک ابو کو پیسے ملے تو رکا کام جاری ہو گیا۔چچا کو اچانک سرپرائز کی سوجھی تھی ۔ اور دادی بیچاری بڑھاپے کی بیماری کا شکار…اصل ٹینشن پیپرز کی تھی۔چچا کے آنے کا پروگرام اچانک ملتوی ہو گیا۔ٹھیکے دار کو گاؤں جانا پڑا۔ہم نے شکر کیا،بس دادی کی بیماری تھی۔
’’سویرا!تم دادی کے کمرے میں منتقل ہو جاؤ۔‘‘
’’وہ تم سے زیادہ اٹیچ ہیں ۔ پڑھ بھی لینا اور خیال بھی رکھ لینا۔ میں بھی دیکھتی رہوں گی۔‘‘ ناشتے کی میز پر میں نے تجویز دی تھی ۔ میرا مقصد یہ تھا کہ وہ دادی کو سنبھال لے گی۔اور مجھ پر زمہ داری بھی نہ ہو گی ۔ امی تو آپی کے گھر تھیں وجہ انکی پریگننسی۔آٹھ سال بعد خوشی کی خبر ملی تھی سو امی کا دھیان وہیں رہتا۔
’’صبا،لیکن میرے بھی ایگزامز ہونے والے ہیں۔‘‘ اس نے چڑ کر کہابلکہ یاد دلایا تھا۔
’’دادی سے بڑھ کر ہے ہر چیز کیا۔‘‘ ابو کو غصہ آگیا ۔وہ چپکی ہو گئی ۔ میں مطمئن ، میرا مقصد جو کامیاب ہو گیا تھا۔
میں نے سکون سے پیپر کی تیاری کی تھی ۔ پڑھا تو اس نے بھی تھا لیکن ظاہر ہے کہ ایک بیمار انسان کے ساتھ کتنا پڑھا جا سکتا تھا ۔ سو وہ کچھ پزل تھی۔
’’تو کامیاب ہو گی سویرا۔‘‘ دادی نے اس کے ہاتھ سے دودھ کا گلاس لیا۔وہ پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ وین میں بیٹھ گئی ۔
’’فرسٹ تو صبا آئے گی۔‘‘ سب کو یقین تھا۔خود مجھے بھی۔
’’شکر ہے جو سوال یاد کیے تھے وہی آئے ہیں ۔‘‘ سویرا اپنی سہیلی کو بتا رہی تھی۔میں کندھے اچکا کر باہر دیکھنے لگی۔
دادی مسلسل دیکھ بھال سے ٹھیک ہو گئیں ۔ میں نے بھی پیپرز کے بعد ان کی خدمت کی لیکن وہ زیادہ سویرا سے قریب تھیں ۔ جس دن رزلٹ آیا تو میں پانچویں نمبر پر تھیں جب کہ سویرا کے دوسری پوزیشن۔
’’آپ کی دعائیں رنگ لائی ہیں دادی۔‘‘ سویرا مسلسل چہک رہی تھی اور میں اپنی غلطیاں ڈھونڈ رہی تھی ۔
یہ سوال یوں کرتی ، یہ پیپر یوں حل کرتی … حالانکہ میں نے زیادہ محنت کی تھی لیکن ہوا یوں کہ اس مرتبہ سوال گھما پھرا کر دیے گئے تھے ۔ میں نے سب کچھ یاد کیا تھا لیکن وہ گڈ مڈ ہو گیا اور سویرا بس خاص خاص سوال ہی یاد کر سکی ۔ اب قسمت تھی کہ وہی سوال پیپرز میں آ گئے اور نتیجہ سامنے تھا۔
مجھے اور سویرا دونوں کو شادی بیاہ کی تقریبات میں جانے کا شوق تھا ۔ ہلہ گلہ کرنا،گیت گانا،ڈھولکی بجانا… سب کو علم تھا ۔ تایا کی صبغہ کی شادی پر ہم نے خوب رونق لگائی تھی ۔ سب نے میری ڈریسنگ کی تعریف کی تھی ۔ پکس بھی میری بنیں ۔بیچاری سویرا(میں اپنے سامنے اسے بے چاری ہی سمجھتی تھی) اس کے ڈریسز موقع سے مطابقت نہ رکھتے ۔ آپی نے جو کپڑے خرید کر ہمیں بھجوائے تھے ان پر کمال مہارت سے میں نے قبضہ کر لیا۔
’’تم تھوڑی موٹی ہو گئی ہو۔میرا خیال ہے کہ غرارہ سوٹ نہیں کرے گا۔‘‘میں نے ہمدردانہ لہجے میں کہا۔
’’کیا سچ مچ؟‘‘ اس نے آئینے کے سامنے خود کو دائیں بائیں گھما کر دیکھا۔
’’یہ گرے کلر تو دادی جان پر سوٹ کرے گا۔‘‘ میں نے اس کے دوسرے جوڑے پر تنقید کی ۔جو بہت اسٹائلش تھا۔
’’سویرا بارات پر پہننا۔‘‘ آپی نے تاکید کی تھی ۔لیکن آگے میں تھی جو ہر اچھی چیز پر اپنا حق سمجھتی۔ ولیمہ پر آپی نے ایک جیسی میکسیاں بھجوائی تھیں سو میں خاموش رہی ۔ اس کی دبتی رنگت پر نیلا رنگ کہاں سوٹ کر سکتا تھا۔
اس بار نتیجہ حسب توقع تھا ۔میں ہر فنکشن میں نمایاں رہی ۔سویرا بھی اچھی لگ رہی تھی لیکن میرے سامنے ماند رہی۔
لیکن وہ ہنستی مسکراتی سب سے ملتی رہی ۔ولیمہ پر ہم ایک جیسی تیار تھیں۔
’’خوب صورت ۔‘‘ ماموں کے فرحان نے بے ساختہ کہا ۔ میں نے اپنا حق سمجھا اور سویرا کا چہرہ تن گیا ۔اسے یہ انداز پسند نہ آیا تھا۔
’’ہم کزنز ہیں یار…اگنور کرو۔‘‘میں نے اسے ٹھنڈا کیا۔
’’اسی لیے تو غصہ ہے ۔ گھر کی بیٹیوں کو اس نظر سے دیکھنا، اونہہ… ‘‘ اس نے سر جھٹک کر کہا۔
مجھے فرحان پسند تھا سو میں تقریب میں اسے چپکے چپکے دیکھتی رہی لیکن وہ تو متوجہ ہی نہ تھا۔
’’شادی بیاہ کی تقریبات میں لڑکیوں پر خاص نظر رکھی جاتی ہے ۔ان دونوں کا کوئی رشتہ نہیں آیا؟‘‘ آپی ہر فون پر پوچھتیں۔امی کبھی افسردہ ہو جاتیں کبھی چڑ جاتیں۔
’’کس چیز کی کمی ہے میری بیٹیوں میں۔اچھا ہی ہو گا۔‘‘ شاید خود کو تسلی دیتیں۔
میں اپنا ماسٹرز یونیورسٹی میں ریگولر کرنا چاہتی تھی ۔گھر کے حالات ایسے نہ تھے ۔ سو سکول میں پڑھانے لگی۔سویرا پرائیویٹ پڑھنے لگی۔
’’کوئی بات نہیں پڑھنا ہے تو یونہی سہی ۔‘‘ اس نے رسانیت سے جواب دیا۔
انہی ایک جیسے سرد ٹھنڈے دنوں میں ماموں کے گھر سے فرحان کا رشتہ آیا ۔میرے لیے نہیں بلکہ سویرا کے لیے ۔وہ کچھ حیران تھی بلکہ نالاں ۔میں کڑھ رہی تھی۔
’’ہر اچھی شے پر اس کا قبضہ ہو جاتا ہے ۔ مامی نے پسند کیا ہو گا۔ایسی لڑکیوں کو مائیں ہی پسند کر سکتی ہیں۔‘‘ میں نے سوچا۔
’’گھر کی بات ہے۔‘‘ امی بہت پرجوش تھیں ۔وہی میکے کی محبت۔
تایا اپنے بیٹے کا رشتہ لے آئے وہ بھی سویرا کے طلب گار تھے۔
امی کو بہت برا لگا۔
’’میری صبا کسی کو نظر نہیں آتی ۔ وہ بڑی ہے ۔‘‘امی آپی کو کہہ رہی تھیں۔
’’حالات پر نظر رکھیں ۔ ‘‘ آپی ٹھنڈے مزاج کی تھیں ۔ سویرا کے دل میں نجانے کیا تھا ۔ بس اس نے ابو کے پاس جا کر اپنے دل کی بات بتا دی۔ ابو کچھ خاموش سے ہو گئے ۔ تاہم دسمبر کی ٹھنڈک بھری شام جب اس کی کولیگ کا بھائی اپنے والدین کے ساتھ آیا ۔ وہ ایسا رشتہ تھا جسے کوئی اندھا ہی مسترد کر سکتا ۔ سو سویرا بی بی خوش باش نظر آئیں ۔سیلف میڈ لوگ تھے ۔ لیکن قابلیت کیساتھ ساتھ اخلاق و مروت سے مالا مال۔
’’تم مجھ سے شیئر کرتیں۔‘‘ میں نے گلہ کیا۔
’’ہمارے والدین بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں۔‘‘ اس نے چائے کا کپ مجھے تھمایا۔
اب ماموں،تایا دونوں کو جواب مل گیا تھا۔
’’کیا تھا جو فرحان میرا رشتہ مانگ لیتا۔‘‘ میں خود ترسی کا شکار ہو رہی تھی۔
’’فرحان اچھا لڑکا نہیں ہے صبا۔‘‘ اس نے مجھے سمجھایا۔اس کے سکینڈلز گردش کرتے رہتے تھے ۔
بعد میں اس کی منگنی کہیں اور ہو گئی ۔میں گم صم سی تھی۔
‘‘اس رشتے سے تم نے امی کو منع کیا ہے ناں۔‘‘ میں مشکوک تھی۔آپی نے بتایا تھا کہ ماموں میرے لیے آنا چاہتے تھے۔
’’ہاں۔‘‘ اس کا لہجہ پر سکون تھا۔
’’تم…تم…غاصب ہو سویرا۔‘‘ میں نے چٹخ کر کہا ۔وہ کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن امی کی آمد نے خاموش کروا دیا۔
سویرا کی شادی بہت دھوم دھام سے ہوئی۔
’’یار!تم زیادہ پیاری ہو۔ نمایاں بھی پھر پہلے سویرا کی۔‘‘ ایک دو سہیلیوں نے پوچھا۔
’’جس کا نصیب اٹھے بس۔‘‘ امی نے رسانیت سے کہا۔
سویرا پر بہت روپ آیا تھا ۔ یہ سب کی مشترکہ رائے تھی ۔حالاں کہ وہ جہاں گئی وہ ماموں اور تایا کے مقابلے میں اتنے امیر نہ تھے ۔ انہی دنوں خبر ملی کہ فرحان کی منگنی ٹوٹ گئی ہے ۔ میرا دل ایک لمحے کو سکڑ کر پھیلا۔
’’کاش!یہ میرا مقدر بن جائے ۔‘‘ میں نے بلا سوچے سمجھے دعا مانگی۔
سویرا اپنے گھر میں خوش تھی۔مطمئن…
’’امی! ماموں سے رشتہ مضبوط ہو جائے گا۔اور گھر میں ہے ہی کون۔باہر سے اب کس نے آنا۔‘‘ میں نے امی کی برین واشنگ کی۔
’’یہ عورت میکے کی محبت میں اندھی ہے۔ ‘‘دادی جان اکثر چڑ جاتیں۔
اور واقعی امی نے خالہ کے ذریعے ماموں تک اپنا مدعا پہنچایا اور جنوری کی بھیگی شام کو میرا نکاح ہو گیا۔
’’اللہ تعالیٰ تمھارے نصیب میں خوشیاں رکھے آمین ۔‘‘سب کی مشترکہ دعا نے مجھے خوشیوں کی پھوار میں بھگو دیا تھا ۔
میں رخصت ہو کر ماموں کے گھر آ گئی۔
میری شادی پر وہ رونق نہ لگی جو سویرا کی شادی پر تھی ۔ایک تو مالی حالات اوپر سے مامی کے بگڑے تیور ۔مجھے بار بار سویرا کے سسرالی رشتے دار یاد آتے جن میں اخلاق و مروت تھی۔بہرحال میں فرحان کی سیج پر تھی۔
وہ بس نارمل تھا ۔ روایتی شوہر… میں مطمئن تھی کہ جسے چاہتی تھی مل گیا تھا ۔ہاں نجانے کیوں دل ہی دل میں سویرا سے مقابلہ کرتی رہتی ۔حالانکہ وہ بڑے ٹبر میں رہتی ۔خود بھی نوکری کر رہی تھی لیکن جو آنکھوں میں چمک اور شوہر پر مان تھا اس سے میرا دامن تہی تھا۔
وجہ فرحان کی رنگین مزاجی لیکن اپنا فیصلہ تھا سو بھرم عزیز تھا۔
قدرت نے اسے دو بیٹے دیے تھے ۔ مجھے لگتا بیٹوں کی ماں ہونا ایک اعزاز ہے جس سے میں محروم تھی ۔اوپر تلے کی تین بیٹیاں ۔ساس کے طعنے، فرحان کی بے حسی … میں ٹاکسک ہو رہی تھی ۔ اور اکثر سویرا میرے طنز کا نشانہ بنتی۔
وقت گزرتا گیا۔میں اکثر اسے احساس دلاتی کہ میں فرحان کے گھر کتنی خوش ہوں ۔ وہ مالی مسائل کو فیس کرتی ہے۔مقصد اسے ڈی گریڈ کرنا ہوتا۔ میرے حالات ویسے ہی رہے ۔ بس دنیا کے سامنے ظاہر کرتی کہ میں کتنی خوش قسمت ہوں ۔ سویرا میرے سامنے چپ ہو جاتی یا گم صم ۔آپی مجھے ٹوک دیتیں۔ میرے پاس پیسہ تھا لیکن ذہنی آسودگی نہیں تھی ۔بچیاں جوان ہو رہی تھیں باپ بے فکر ۔اس کی حرکات کے سب کوئی رشتہ نہ لیتا۔ایسا سسر کسے پسند تھا بھلا؟
مسلسل سوچوں نے مجھے کئی بیماریوں میں مبتلا کر دیا تھا ۔ بیٹیوں کی بڑھتی عمریں، اپنے حالات، میرے سرد رویے یا تلخ گفتگو نے فاصلے پیدا کر دیے تھے ۔وقت کی ندی میں روانی تھی۔والدین رہے نہیں ،آپی ملائیشیا شفٹ ہو گئیں ۔ بس پاکستان میں ہم دو بہنیں ہی تھیں ۔ جن کی ملاقات بہت کم ہوتی وجہ میرا سرد رویہ۔
اب سن رہی تھی کہ اس کے بیٹے بہت قابل نکلے ہیں ۔ اس نے اپنا گھر بنا لیا تھا۔نشیب و فراز آئے تھے لیکن اب حالات بہتری کی جانب گامزن تھے ۔ سویرا کی ترقی … ایک جلن تھی بس۔
زندگی اپنی ڈگر پر رواں دواں تھی۔
آخر ایک ہارٹ ایٹک میں فرحان فوت ہو گئے وجہ کثرت سے مئے نوشی ۔قرض خواہ دہلیز پر کھڑے تھے ۔باقی بہن بھائی جائیداد میں حصے بخرے کر رہے تھے ۔ کیونکہ ہمارا بنگلہ اور شو روم ماموں کی محنت سے بنے تھے۔
میں بے آسرا جیسی ، کرائے کے مکان میں آ گئی ۔ بچیاں جاب کی تگ و دو میں تھیں ۔مجھے زمانے کا ڈر ، لوگوں کے تبصرے، اپنوں کی بے مہری…
ایسے ہی مایوس دنوں میں میں پرانی البمز دیکھ رہی تھی ۔ بچپن،لڑکپن،نوجوانی،شادی۔ کتنے پیارے رشتے تھے ۔کیسی مان بھری زندگی تھی ۔ میں یاسیت سے سوچ رہی تھی۔
سویرا کی جانب ذہن بھٹک رہا تھا ۔ نشیب و فراز اس کی زندگی میں بھی آئے تھے لیکن وہ ان کا سامنا کرتی گئی۔
’’شاید بیٹوں کی ماں ہے یا شوہر کا سہارا۔‘‘ میں نے ایک آہ بھری۔مجھے یاد آیا کیسے دادی کی دیکھ بھال کے باوجود اچھے نمبر لے لیتی۔ سادگی میں بھی سب کو نظر آ جاتی۔
’’میسینی…‘‘ میں نے ہنکارا بھرا ۔ فرحان کا رشتہ بھی اسی کے لیے پہلے آیا تھا ۔مجھے دل میں کسک محسوس ہوتی۔
آنے والے دن بہت سخت تھے ۔ مسائل کا پہاڑ، تنہا عورتیں۔
’’اے اللہ! ہمارے پردے قائم رکھنا۔‘‘ میں دعا کرتی۔
انہی مایوس دنوں میں سویرا مجھ سے ملنے آئی ۔میں اس کے گلے لگ کر روتی رہی ۔وہ بردباری سے مجھے سہلاتی رہی ۔ اس نے مجھے کچھ نہ کہا ۔ بس ادھر ادھر کی عام سی گفتگو۔ جیسے کوئی ناراضگی طنز ہمارے درمیان نہ ہو۔
’’رات امی خواب میں آئی تھیں۔ تمھارے لیے پریشان۔ مجھ سے خفا کہ بہن کا حال کیوں نہیں پوچھتیں۔‘‘
اس نے امی کی تصویر پر ہاتھ پھیرا۔ لہجہ اداس تھا ۔ پھر اس نے نمی صاف کی ۔مٹھی میں رقم دبائی اور بچیوں کو پیار کر کے چلی گئی۔
بڑے دنوں بعد طبیعت ہلکی پھلکی سی تھی ۔بہنیں سہارا ہوتی ہیں ، رشتے طاقت … سنا تھا اب یقین آیا۔
سویرا جس کی زندگی میں شامل ہوتی خیر بن جاتی تھی ۔دادی کا خیال تھا ۔اس نے مجھ سے رابطے مضبوط کیے۔ مجھے بھی ڈھارس درکار تھی ، مجھے گھر کی انیکسی میں منتقل کیا ۔بڑی بیٹی کو بہو بنا لیا اور چھوٹی کو اپنے سکول میں جاب دلوا دی ۔سب سے چھوٹی کی تعلیم کا بیڑہ اٹھا لیا۔
وہ بہت امیر نہ تھی بس دل کی سخی تھی۔مجھے اب ادراک ہورہا تھا۔
اس کی موجودگی میرے لیے ڈھارس بن گئی۔
جب اس نے نمرہ کو اپنی بہو بنانے کا عندیہ دیا تو میری زبان سے بے ساختہ نکلا
’’سویرا میری بہن۔‘‘
کتنے برس بیتے مجھے نہیں یاد ۔بس بہن کے رشتے کی حلاوت میں اب محسوس کر رہی ہوں ۔ جب سے اپنا احتساب کیا ہے تو آئینے میں نظریں چراتی ہوں۔ اس سے بے ریا محبت کرتی ہوں۔ دونوں میں کوئی گلہ شکوہ نہیں ہے بس حلاوت،محبت،اور خلاص ہے۔
کبھی ڈائری نہیں لکھی لیکن اب کچھ لکھنا ہے۔ میں نے چائے کا کپ سائیڈ پر رکھا اور پین سنبھالا۔
’’سویرا ہمیشہ مجھ سے ایک قدم آگے تھی ۔یہ تلخ حقیقت بلکہ کڑوا سچ ہے لیکن تسلیم کیے بنا چارہ بھی نہیں ۔ اب تعصب کی عینک اتار کر دیکھوں تو احساس ہوتا ہے کہ یہ مقابلہ، یہ مسابقت تو میری جانب سے تھی ۔ایسا ہوتا ہے ناں کہ ہم خود ہی کسی نہ کسی سے مقابلہ بلکہ بیر باندھ لیتے ہیں ۔ حالانکہ ہمارا نصیب،رزق،کامیابی،صحت سب کچھ ایک دوسرے سے مختلف اور بہتر ہیں ۔میں سوچتی کہ زیادہ حسن کے باوجود میں اسکے سامنے ماند کیوں پڑھ جاتی ہوں؟
زیادہ پڑھنے کے باوجود نمبر کم ہوتے ہیں۔اس کے سامنے میری کارکردگی ماند پڑ جاتی۔
مجھے وہ غاصب لگتی ، میسینی،گھنی، مکار، سازشی…
مجھے بہت عرصے بعد سمجھ آئی کہ اس کا دل بے ریا تھا ۔جو سب کے لیے یکساں درد رکھتا۔
آہ!یہ بات سمجھنے میں عمر گزر گئی میری۔
لیکن تلافی کا وقت مل گیا ہے۔
’’تم انمول ہو میری بہن سویرا…‘‘
٭٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page