مہندی سے لکھ دو: محمد طاہر رفیق
” کیا مطلب آپا کون سی مکھی ؟”
”کیسی مکھی ؟ ”
”مجھے تو یہ بات سمجھ نہیں آئی۔”نجمہ جو پہلے بیزاری سے ساری باتیں سن رہی تھیں اچانک ان کی طرف متوجہ ہوئیں۔
” بس کیا بتاؤں نجمہ۔ مجھے اماں نے کیسی کیسی انہونی باتیں بتائی تھیں ۔ میری ہی عقل پر پتھر پڑے تھے کہ سب بھول بھال گئی۔ ‘‘پھپھو نے نجمہ بھابھی کو متوجہ دیکھ کر مزید رنگ آمیزی کی۔
”کیا ہو آپا کچھ مجھے بھی تو بتائیں۔”نجمہ نے بے چینی سے پہلو بدلا ان سے اب صبر نہیں ہو رہا تھا۔
” بس چھوٹی دلہن کیا بتاؤں ۔ آمنہ تو بچپن سے ہی ایسی تھی ۔ اماں بتاتی تھیں کہ اس پر جنوں پریوں یا آسیبوں کا سایہ بھی تھا ۔ جس دن مہندی لگا لیتی اس کے بعد اس کے رنگ ڈھنگ نرالے ہوتے ۔ وہ آنگن میں لگے بڑے درخت کے نیچے بیٹھی ہوتی اور کبھی اس کے ہاتھ سے بے موسمی پھل ملتے اور کبھی عجیب و غریب مٹھائیاں۔”پھپھو نے رنگ آمیزی میں بڑے بڑے قصہ گو حضرات کو مات دے دی۔
” ہائے پھپھو ! اسی لیے تائی اماں آمنہ کو مہندی نہیں لگانے دیتی تھیں ۔ حالانکہ کہ آپی کو مہندی بہت اچھی لگتی تھی ۔ اور ان کے جیسے ڈیزائن تو پارلر والیوں کو بھی نہ آتے ہوں گے۔”ہانیہ چائے لیے ابھی آئی تھی اور پھپھو کے ساتھ جڑ کے بیٹھ گئی۔
٭٭…٭٭
پھپھوکے جانے کی دیر تھی کہ مصطفی جو اتنے دیر سے خود پرضبط کیے بیٹھا تھا طیش سے باہر آیا اور ہانیہ کو گھورنے لگا۔
” بھائی خیریت تو ہے ایسے کیوں گھور رہے ہیں ۔ آپ کے حصے کی چائے اور لوازمات ابھی باقی ہیں۔” ہانیہ نے چائے ڈال کر کپ مصطفی کی طرف بڑھایا۔
” مجھے چائے کی وجہ سے غصہ نہیں ہے بلکہ پھپھو کی عجیب وغریب منطق پر اور پھرآپ سب کے ان کی ہاں میں ہاں ملانے پر ہے ۔ غضب خدا کا تم سب تو اس بیچاری آمنہ کو منحوس اور آسیب زدہ ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہو ۔”مصطفی نے کب کا روکا ہوا غبار باہر نکالا۔
” بھائی ! میں تو خو د ان باتوں پر یقین نہیں رکھتی ۔ وہ تو بڑوں کی وجہ سے ہاں میں ہاں ملا رہی تھی۔”ہانیہ نے اپنی صفائی پیش کی۔
” مصطفی ! تم اتنی دیر تک سوتے رہے آپا نے بھی کتنی بار تمھارا پوچھا تھا۔ تم ہوتے تو سنتے کہ آپا نے کیسی کیسی باتیں بتائی ہیں آمنہ کے بارے میں۔ اللہ بچائے ایسے لوگوں سے۔ـ‘‘ نجمہ بیگم نے کانوں کی لوؤں کو چھوا۔
” امی آپ بھی کمال کرتی ہیں۔ کیسے پھپھو کی باتوں میں آ جاتی ہیں۔ آپ کو پتہ تو ہے کہ پھپھو پر کا کوا بنانے میں ماہر ہیں۔”مصطفی نے چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا۔
” بیٹا جہاں آگ ہو دھواں بھی وہیں سے اٹھتا ہے۔ رائی کا دانہ ہوتا ہے تبھی تو پہاڑ بنتا ہے۔مانا آپا نے کچھ مبالغے سے کام لیا لیکن کچھ سچائی بھی تو ہو گی اس میں۔”نجمہ بیگم نے بیٹے کو قائل کرنے والے انداز میں کہا۔
” امی جان !اب آپ سے بحث کون کرے۔”وہ جو کمرے سے یہ سوچ کر آیا تھا کہ آمنہ کے حق میں امی کو ہموار کرے گا۔ ساری تدبیریں ہی ناکام ہو گئیں ۔ تو وہ گھر سے باہر نکل آیا۔
ہانیہ کے سسرال والے شادی کی جلدی مچا رہے تھے جبکہ آصف صاحب اور نجمہ بیگم کا خیال تھا کہ بیٹی کے ساتھ ہی بہو کو بھی گھر لے آئیں۔لیکن اتنے عرصے بعد بھی ان کو اپنی مرضی کا کوئی رشتہ نہ مل سکا ۔ اگر کہیں کوئی لڑکی پسند بھی آئی تو مصطفی نے کچھ نہ کچھ بہانہ بنا کر انکار کر دیا۔اس نے کئی بار اشاروں کنایوں میں اپنی ماں کو آمنہ کے بارے میں بتانے کی کوشش کی ۔ لیکن نجمہ بیگم تو اسے کوئی چھوت کی بیماری سمجھے بیٹھی تھیں۔آخر جب ہانیہ کے سسرال والوں نے ذیادہ تقاضا کیا تو مصطفی نے والدین سے دو ٹوک بات کرنے کا سوچا۔
” امی جان آپ سے ایک بات کرنی تھی”رات کو وہ جب اس کو دودھ دینے آئیں تو مصطفی نے تمہید باندھی۔
”ضرور بیٹا۔ بتاو کیا بات کرنی ہے۔”نجمہ بیگم نے بیٹے کو نثار ہونے والی نظروں سے دیکھا۔
’’اماں اب جبکہ ہانیہ کے سسرال والے شادی کے لیے جلدی مچا رہے ہیں تو حالات اور ہمارے بجٹ کا تقاضا یہ ہے کہ آپ میری شادی بھی ساتھ ہی کر دیں۔”مصطفی نے ڈرتے ڈرتے اپنی ماں کودیکھا۔
” بیٹا !ہماری بھی تو یہی خواہش ہے لیکن تمھارے معیار کے قابل کوئی لڑکی ملے تو تب نا۔‘‘ نجمہ بیگم نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔
” امی جان آپ سے کتنی بار کہا تو ہے کہ کہیں دور جانے کی کیا ضرورت ہے آمنہ کے بارے میں کیوں نہیں سوچتیں آپ؟‘‘آخر مصطفی نے مدعا زبان پر لایا۔
’’بس بیٹا اس کے بارے میں تو سوچنا بھی مت ۔ آج تم نے اپنی پھپھو کے اس کے بارے میں خیالات اور اس کے بچپن کی کہانیاں
نہیں سنیں ۔ اگر سن لیتے تو اس کا نام لینے سے پہلے آیت الکرسی ضرور پڑھ لیتے۔”نجمہ بیگم نے اس بار تو حد ہی کردی ۔ اورمصطفی اپنا سر پکڑ کر رہ گیا۔
ہانیہ کی شادی کی تاریخ پکی ہو گئی تو نجمہ بیگم کو ناچار اپنے شوہر آصف کے ساتھ وسیم بھائی کے گھر شادی کا دعوت نامہ دینے جانا پڑا۔ان کے گھر پر آصف صاحب کا اپنی بھتیجی آمنہ سے التفات دیکھ کر منہ کے برے برے زاویے بناتی رہیں ۔ جاتے سمے جب چچا نے پھر اصرار کیا کہ آمنہ تم نے ضرور آنا ہے اور مہمانوں کی طرح گھڑی دو گھڑی کے لیے نہیں بلکہ کچھ دن پہلے آ جائو اور کام میں ہانیہ کا ہاتھ بٹانا۔”
” آپ تو بچی کے پیچھے لٹھ ہی لے کر پڑ گئے ہیں کیوں نہ آئے گی آخر کو سگے چچا کی بیٹی کی شادی ہے۔”اس بار نجمہ بیگم اپنی ناگواری نہ چھپا سکیں۔
” اماں مجھے ہانیہ کی شادی پر ساتھ جانے کے لیے اصرار نہ کیجئے گا۔”آمنہ کومعلوم تھاکہ اب اماں اس کو ساتھ جانے کے لیے زور لگائیں گی تو چچا کے جاتے ہی اس نے پہلے ہی ان سے کہہ دیا۔
” ارے بیٹا !کتنے دنوں سے گھر میں بند ہو وہاں جانے سے جی بہل جائے گا۔ پھر چچا کو کیا جواب دو گی۔ کتنے اصرار سے آنے کا کہہ رہے تھے۔”اماں نے اسے پچکارتے ہوئے کہا۔
” اماں وہاں پھپھو بھی ہوں گی اور پھر مجھے دیکھتے ہی تماشا لگا دیں گی ۔ اب مجھ سے برداشت نہیں ہوتا یہ سب۔”
’’آپا بھی دل کی بھڑاس نکالنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔‘‘ یاسمین بیگم کی آنکھوں کی نمی چھپاتے ہوئے کہا۔
ہانیہ کی مہندی والے دن سہ پہر کو ہی ابا نے آمنہ کو تیاری کا کہہ دیا اور وہ ابا کو انکار نہ کر سکی۔ شام کو جب وہ بہت عام سے ہلکے سے رنگوں کے کپڑے پہنے کمرے سے باہر آئی تو یاسمین کا دل کٹ کے رہ گیا اور وہ کہے بنا نہ رہ سکیں۔
” بیٹا آج تو کوئی ڈھنگ کا جوڑا پہن لیتیں۔وہاں سب سج دھج کے آئی ہوں گی اور تم وہاں اتنے سادہ کپڑوں میں جاؤ گی تو سب مذاق اڑائیں گے۔”
”اماں مذاق تو وہ ہر حال میں اڑائیں گے۔ چاہے شوخ رنگ کے کپڑے پہنے ہوں یا ہلکے رنگوں کے۔ سچ بتاؤں اماں تو میرا جانے کو بالکل دل نہیں کررہا۔ آپ دیکھ لیجئے گا پھپھو ضرور جلے دل کے پھپھولے پھوڑیں گی۔”آمنہ نے ان چاہے من سے چادر اوڑھی اور اماں کے پیچھے چل پڑی۔
٭٭…٭٭
جب وہ شادی والے گھر سے نکلنے ہی والی تھیں کہ وہ حادثہ ہو گیا۔
” ارے کوئی بچائے میری بچی کو۔” یاسمین بیگم نے برآمدے میں بچھے تخت سے چادر کھینچی اور دھواں دھواں ہوتے صحن میں کھانستی ہوئی آمنہ کی طرف لپکیں۔
آگ کو بجھاتے بجھاتے بھی آمنہ کا نازک سا وجود جھلس جھلس گیا۔
آمنہ دھواں دھواں ھوتے صحن میں منہ کے بل زمین پر گری ہوئی تھیں اور اس کی بے رنگ ہتھیلیاں مہندی کے تھال کے ساتھ لگ کر مہندی سے لتھڑی ہوئی تھیں ۔ آگ کے شعلوں سے بہت سارے بال جل گئے تھے اور جس جگہ سے کپڑوں نے آگ پکڑی وہ جسم کے ساتھ چپکے ہوئے تھے۔
شور شرابے کی آواز سن کر ساتھ والے گھر سے آمنہ کے ابا، چچا اور مصطفی بھی اندر آگئے اور جلدی جلدی آمنہ کو ہاسپٹل لے گئے۔ ہاسپٹل کے برن یونٹ کی بروقت امدادی کاروائی سے آمنہ کا ذیادہ نقصان نہیں ہوا تھا۔ اماں کی منتوں کے بعد جب ڈاکٹرز نے ان کو اندر جانے کی اجازت دی تو آمنہ ابھی دوائوں کے زیر اثر غنودگی میں تھی۔
اماں کی ممتا بھری نظریں جب اس کے چہرے سے ہوتی ہوئی ہاتھوں پر گئیں تو ان کی سسکاری نکل گئی۔
آمنہ کی مدت سے بے رنگ ہتھیلیاں مہندی کے سرخ رنگ سے رنگی ہوئی تھیں۔
” یا اللہ تو کریم ہے کیسے کیسے بندے کے ارمان پورے کرتا ہے۔”اماں نے آسمان اوپر کی طرف دیکھ کر آنکھوں سے بہنے والے آنسو چادر کے پلو سے صاف کئے اور آمنہ پر ایک اور نظر ڈال کر کمرے سے باہر نکل گئیں۔ایک ہفتہ ہاسپٹل میں رہنے کے بعد ڈاکٹرز نے آمنہ کو گھر جانے کی اجازت دے دی۔اس حادثے کی وجہ سے ہا نیہ کی شادی کی تاریخ ایک ماہ آگے کر دی گئی تھی ۔ہا نیہ کو معمولی خراشوں کے علاوہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا ۔ آمنہ نے اپنی جان کی بازی لگا کر اس کو بچا لیا تھا۔
آصف چچا نجمہ اور ہانیہ کے ساتھ آمنہ کی مزاج پرسی کو آئے تو ان کے ساتھ آئے ڈھیروں مٹھائی اور پھل رکھنے کو برآمدے میں بچھے بڑے تخت پر جگہ کم پڑ گئی۔
” بھائی جان اللہ پاک نے بہت کرم کیا کہ ہماری آمنہ خیریت سے گھر واپس آگئی۔ بیٹا تم نے ہا نیہ کو بچا کر مجھ پرجو احسان کیا ہے اس کا بدلہ میں ساری عمر نہیں اتار سکوں گا۔”آصف چچا نے آمنہ کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
” چچاجان! کیسی باتیں کررہے ہیں بھلا اپنوں پر بھی کوئی احسان ہوتاہے۔ہا نیہ میرے لیے سگی بہنوں کی طرح ہے۔”آمنہ کو چچا کی باتوں سے شرمندگی ہونے لگی۔
”بھابھی اور بھائی جان ہم آپ کے گھر کی چاندنی سے اپنا آنگن روشن کرنا چاہتے ہیں ۔ بس آپ جلد از جلد ہماری چاندنی ہمارے حوالے کر دیں۔”چچا نے آمنہ کو شفقت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے بھائی بھابھی کے آگے جھولی پھیلائی۔
وسیم صاحب نے ایک نظر آمنہ کے چہرے پر پھیلتے رنگوں پر ڈالی اور دوسری نظر یاسمین بیگم کی طرف ۔ دونوں کی رضامندی جان کر انہوں نے بھائی کو ہاں کر دی۔آصف صاحب نے بھائی جان کو گلے سے لگایا اور ہا نیہ کیساتھ ساتھ آمنہ اور مصطفی کی شادی کا عندیہ بھی دے ڈالا۔
٭٭…٭٭
ایک عرصے بعد آمنہ کے گھر پھر خوشیوں کی بارات اتری تھی ۔ ایک بار پھر مہندی کی رات آئی تھی اور پھر وہی گانا چل رہا تھا۔
مہندی سے لکھ دو، ہاتھوں پہ سکھیو۔
میرے سانوریا کا نام
آمنہ ہاتھوں پر مہندی سے لکھے مصطفی کے نام پر انگلی پھیرتے ہوئے مسکرائے جا رہی تھی۔
اس بار اس کے مدت سے بے رنگ ہاتھوں کو قدرت نے ایک حادثے کا بہانہ بنا کر رنگا تھا اور رنگ بھی بہت پکا آیا تھا۔
(ختم شد)