ناولٹ

مہندی سے لکھ دو: محمد طاہر رفیق

پھر تو سارا وقت ہی پھپھو آمنہ کو میٹھی میٹھی نظروں سے دیکھتی رہیں اور آنکھوں ہی آنکھوں میں تولتی رہیں۔سگھڑ سلیقے والی ہر کام میں ماہر۔ انہیں بھی توبہو کے روپ میں ایسی ہی لڑکی چاہیے تھی ۔جونہی آمنہ کی امی مہمانوں سے فارع ہوئیں راشدہ پھپھو نے ان کے کان میں سرگوشی کی۔
” یاسمین بس آج سے آمنہ میری بیٹی ہے اور ایک دو دن میں آ کر رسم بھی ادا کر دوں گی۔‘‘پھپھو نے صحن میں بکھری چیزوں کو سمیٹتی آمنہ کو پاس بلایا اور اس کے ہاتھ پر شگن کے لیے ہزار کا نوٹ رکھ کر اس کا ہاتھ دبایا اور ماتھے پر بوسہ بھی دے دیا۔آمنہ نے حیرانی سے اماں کی طرف دیکھا تو انہوں نے ناسمجھی سے سر ہلا دیا۔
”آپا اتنی جلدی بھی کیا ہے ابھی تو آمنہ پڑھ رہی ہے اور پھر اس کے ابو سے صلاح مشورہ کئے بغیر اتنا بڑا فیصلہ میں اکیلی نہیں کر سکتی ۔ آپ ہمیں سوچنے کا کچھ وقت تو دیں۔”یاسیمین بیگم نے بات سنبھالتے ہوئے کہا۔
” دیکھو دلہن !یہ باتیں وہاں سوچی جاتی ہیں جہاں رشتہ غیروں سے جوڑا جا رہا ہو۔میرا احمد تو آپ کی آنکھوں کے سامنے پلا بڑھا ہے ۔ ماشاءاللہ سے پڑھا لکھا ہے ‘لاکھوں میں ایک ہے ‘اپنا کھاتاکماتا ہے اور سب سے بڑی بات کے کسی قسم کا کوئی عیب نہیں ہے میرے شہزادے میں۔”پھپھو نے خیالوں ہی خیالوں میں اپنے بیٹے کی بلائیں لیں۔
آمنہ اور اس کی ماں تو اس وقت یہ سوچ رہی تھیں کہ واقعی آپ کے بیٹے میں کوئی عیب کوئی خامی نہیں ہے لیکن بیٹے کی اماں کے ساتھ گزارا کرنا بہت جان جوکھوں کا کام پھر وہی پھپھو جو پہلے گھر جانے کے لیے جلدی جلدی کا شور مچا رہی تھیں ٹھس ہو کے بیٹھ گئیں۔
آمنہ کے ابا وسیم جب مغرب کی نماز پڑھ کر مسجد سے لوٹے پھپھو نے بڑی بہن کا حق جتاتے ہوئے آمنہ کے لئے سوال ڈالا اور جواب کا انتظار کئے بغیر ہی بھائی کا شکریہ ادا کیا اورایک ہفتے بعد منگنی کی رسم کا بتا کر جانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئیں۔
اماں اور آمنہ پھپھو کو ٹالنے کے حیلے بہانے ہی سوچتی رہ گئیں اور پھپھو اپنے پلو سے خوشخبری باندھے گھر کو چل دیں۔
٭٭…٭٭
پھپھو کے جانے کے بعد یاسمین نے آمنہ کے ابا کو جتایا بھی کہ” ایسی بھی کیا جلدی تھی آپ کو جو یوں آپا کے ایک ہی بار کہنے پر اپنی بیٹی کو ان کے حوالے کر دیا” یاسمین بیگم پھپھو کے اتاولے پن سے طیش کھائے بیٹھیں تھیں۔
” ارے میں نے کب ہاں کی آپا کو ۔ انہوں نے خود ہی سوال ڈالا اور خود ہی منظوری بھی دے ڈالی ۔ میری رضامندی کا تو آپا نے انتظار ہی نہیں کیا۔” وسیم صاحب نے بیوی کی الجھن دور کی۔
” اچھا اب آپا نے ہفتے بعد منگنی کا جو بولا ہے اس کا کیا کریں۔” وسیم صاحب اصل مدعا کی طرف آئے۔
” میں تو دل سے اس رشتہ پر ہی راضی نہیں ہوں اور آپ منگنی کی بات کر رہے ہیں ۔ آپ تو آپا کی طبیعت کے بارے میں جانتے ہیں کتنی سخت ہیں ہر معاملے میں ۔ مجھے نہیں لگتا کہ ہماری سیدھی سادی آمنہ ان کے ساتھ گزارا کر لے گی۔”یاسمین بیگم نے ان کو اصل الجھن کے بارے میں آگاہ کیا۔
’’ہماری آمنہ صابر شاکر بچی ہے پھپھو کے گھر گزارا کر لے گی اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ احمد بہت اچھا ہے وہ ہماری آمنہ کو بہت خوش رکھے گا اور آپا صرف زبان کی ہی سخت ہیں دل کی بہت اچھی ہیں۔ تم اب منگنی کی تیاری کرو ۔ ”وسیم صاحب نے حتمی فیصلہ سنایا اور بات ختم کی۔
اگلی صبح پھپھو نے فون کر کے آنے والے اتوار کو آنے کا عندیہ دیا۔
آمنہ نے مصطفی کے حوالے سے دیکھے گئے نئے نویلے سپنوں کو دل کی پٹاری میں بند کیا اور والدین کی رضا میں راضی ہو گئی ۔ منگنی کا دن بھی آن پہنچا ۔ سب کے ہاتھوں پر مہندی سے کمال دکھانے والی ابھی تک بے رنگ ہاتھ لیے بیٹھی تھی۔ تبھی اماں کو خیال آیا تو اس کی دوست کو کال کر کے جلدی آنے اور مہندی لگانے کا کہا۔جب آمنہ کی دوست عفرا آگئی تو اماں نے اس سے کہا۔
” بیٹا آج آمنہ کے ہاتھوں پر اس کی مرضی کے بیل بوٹے بنائو ۔ آج میری طرف سے مہندی لگانے کی کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔”
مہندی سے لکھ دو ہاتھوں پہ سکھیو میرے سانوریا کا نام
جب عفرا نے مہندی والی کون تھامی تو کسی نے یہ گانا چلا دیا۔
” تو آمنہ بی بی آج ایسا کرتے تمھارے ہاتھوں پر بھی مہندی سے تمھارے ہونے والے سانوریاکا نام لکھ دیتی ہوں۔ مہندی کے بیل بوٹوں میں چھپا کر ۔ ”عفرا نے شرارت سے آمنہ کو چھیڑا۔
اتنے میں ابا حواس باختہ سے گھر کے اندر داخل ہوئے تو یاسمین بیگم نے پو چھا۔
”کیوں جی خیریت ہے آپ کا رنگ کیوں اڑا ہوا ہے؟”وسیم صاحب ڈھے جانے والے انداز میں برآمدے میں بچھے تخت پر بیٹھے اور کہا۔
’’آپا کا فون آیا تھا ۔ احمد کا موٹر سائیکل سے ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اور حالت کچھ اچھی نہیں ۔ تم لوگ دعا کرو۔ میں ہاسپٹل جاتا ہوں بلکہ تم بھی میرے ساتھ چلو۔ آپا کو ہماری ضرورت ہو گی ۔ ”عفرا کا تو ہاتھ کانپ گیا اور کون ہاتھ سے گر گئی۔
اماں نے آمنہ کی اڑی اڑی رنگت کو دیکھا اور دعا کرنے کی تاکید کرتے ہوئے وسیم صاحب کے پیچھے باہر کی طرف چل دیں اور آمنہ اپنے بے رنگ ہاتھوں کو دیکھتی رہ گئی ۔ رات گئے اماں نے اطلاع دی کہ احمد زخموں کی تاب نہ لا کر اللہ کو پیارا ہو گیا ہے ۔آمنہ کی مانگ سجنے سے پہلے ہی اجڑ گئی اور بے رنگ ہتھیلیاں اور بار پھر بے رنگ ہی رہ گئیں۔
پھپھو کے جس گھر میں خوشی کے قمقمے سجنے والے تھے اب وہاں سفید چاندنیاں بچھا دی گئیں ۔ آمنہ جب اماں کے ساتھ پھپھو کے گھر پہنچی تو انہوں نے اسے دیکھتے ہی گلے سے لگایا پھر دفعتاََ پیچھے کیا اور بین کرنے شروع کر دیے کہ ابھی تو نام بھی نہ لگا تھا کہ کسی ناگن کی طرح میرے بچے کو ڈس لیا ۔ واری صدقے ہونے والی پھپھو نے چند ہی لمحوں میں اس کا نام لے لے کر ایسے بین ڈالے کہ آمنہ کے لئے وہاں بیٹھنا دو بھر ہو گیا۔اس نے ایک آخری نظر احمد کے ساکت چہرے پر ڈالی اور چادر اوڑھ کر گھر سے باہر آگئی۔
پھر تو پھپھو نے اس سے اینٹ اور کتے والا بیر باندھ لیا۔ جہاں اس کو دیکھتیں یا اس کا ذکر سنتیں اس کی منحوسیت کی وہ وہ داستانیں سناتیں کہ سننے والا ہکا بکا رہ انہی باتوں کی وجہ سے اب آمنہ نے خود ہی کہیں آنا جانا بند کر دیا۔نماز کے بعد دعا مانگتے ہوئے اس کی بے رنگ ہتھیلیاں آنسووں سے تر ہو جاتیں اور وہ بنا دعا مانگے ہی اٹھ جاتی۔ اس کی بے رنگ ہتھیلیوں سے مہندی کے رنگ اس کی قسمت کی طرح روٹھ گئے۔ نت نئے مہندی کے ڈیزائن بنانے والی آمنہ کو اب مہندی کے نام سے الجھن ہونے لگتی ۔ وہی آمنہ جو اپنی گلابی ہتھیلیوں پر مہندی لگانے کے بہانے ڈھونڈ تی تھی ،اب مہندی کا ذکر آنے پر ہی نظریں چرانے لگتی۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page