مہندی سے لکھ دو: محمد طاہر رفیق
”ارے آپا اس ابھاگن کو تو ہٹاؤ اس جگہ سے۔ آپ تو اتنی جہان دیدہ ہیں آپ کو تو سب پتہ ہے کہ کسی ابھاگن کا ایسی خوشی والی جگہ پر موجود ہونا، خوشیوں کو دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے۔”کوثر نے منہ کے برے بر ے زاویے بناتے ہوئے نجمہ آپا کو متوجہ کیا۔
” ارے کوثری اب میں بھی بھلا کیا کروں ۔ ہانیہ کی تایا زاد ہے اس کو کیسے نہ بلاتی اور نہ بلا کر لوگوں کی باتیں سنتی ۔ اب کچھ باتیں تو بندہ خود بھی تو سمجھ جاتا ہے ، نہیں تو ان کی اماں ہی کچھ خیال کر لیتیں ۔ آگئیں میری بچی کی خوشیوں پر نحوست کی مار مارنے۔”نجمہ آپا نے ہاتھ لہرا کر جواب دیا۔
آمنہ جو بر آمدے میں ستون کے سائے میں کھڑی تھی اماں کو شکوہ کناں نظروں سے دیکھا اور پلکیں جھپک جھپک کر آنسوؤں کو روکنے کی ناکام کوشش کرنے لگی ۔ آمنہ نے اماں کے آنچل کا پلو کھینچ کر دھندلی آنکھوں سے باہر کی طرف اشارہ کیا ۔ ابھی وہ دروازے تک بھی نہ پہنچی تھیں کہ اسی اثنا میں شور شرابے اور چیخوں کے ساتھ بھگدڑ بھی مچ گئی۔
” دلہن کی مایوں والی سیج کو آگ لگ گئی ہے۔آمنہ تیزی سے ہانیہ کی مایوں والی سیج کی طرف دوڑی۔
گھر میں اس وقت گھر کا کوئی سمجھدار مرد موجود نہ تھا کیونکہ چچا کے ڈر کی وجہ سے مردوں کے بیٹھنے کے لیے ساتھ والے گھر میں انتظام کیا گیا
تھا۔شاید روشنی کی لڑیوں سے آگ لگی تھی اور اب ہانیہ اپنے کپڑوں سے آگ بجھانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی اور چاچی کو تو خود دمے کا دورہ پڑا ہوا تھا۔ایسے میں آمنہ آگے بڑھ کر جلتی ہوئی سیج پر پہنچی اور جان پر کھیل کر ہانیہ کو آگ کے شعلوں کا رزق بننے سے بچا لیا۔
جونہی آمنہ نے ہانیہ کو صحن کی طرف دھکیلا تو خود اس کے کپڑوں اور بالوں کو آگ لگی ہوئی تھی وہ آگ اور دھواں بھری فضا میں کھانستی ہوئی غش کھا کر اوندھے منہ گر پڑی اور اس کی سفید ہتھیلیاں مہندی سے سجے تھال میں لگنے سے مہندی سے لتھڑ گئیں۔
٭٭…٭٭
جاتی گرمیوں کے دن تھے ۔ موسم میں اب اتنی تپش نہ رہی تھی ۔ لیکن گھر والے اب بھی دن کو تھوڑی دیر کو قیلولہ کے بہانے سوتے ضرور تھے۔دادی اماں نے سر پر لگانے کے لیے مہندی گھولی اور تخت کے نیچے سر کا کر گھڑی بھر کو آنکھ لگانے کو تخت پر ہی سو گئیں۔سات سالہ آمنہ تو کب سے موقع کے انتظار میں تھی کہ کب دادی اماں کی آنکھ لگے اور کب وہ مہندی پر اپنا ہاتھ صاف کرے۔ وہ دبے پاؤں گربہ پائی سے چلتی ہوئی برآمدے میں بچھے دادی اماں کے تخت کے پاس آئی اور آگے ہو کر اطمینان کیا کہ دادی گہری نیند سورہی ہیں ۔ اس نے ایک ہاتھ سے اپنے پھولے پھولے فراک کو سنبھالا اور دوسرے ہاتھ سے تخت کے نیچے رکھے ہوئے تھال سے مہندی اٹھائی ۔ لیکن جونہی وہ سیدھی ہوئی کھٹکے سے دادی اماں کی آنکھ کھل گئی۔
’’ ارے کوئی پکڑو ۔ چورنی، کیا چرا رہی ہو؟”دادی اماں نے اپنی ہنسی روکتے ہوئے ذرا سختی سے کہا۔
”دادی اماں! کچھ نہیں میری گیند تخت کے نیچے چلی گئی تھی وہی اٹھانے آئی تھی۔”آمنہ نے مہندی والے ہاتھ کو کمر کے پیچھے چھپاتے ہوئے جواب دیا۔
” اچھا! پھر ملی وہ گیند؟ دکھاؤ تو ذرا۔” دادی نے اسے مزید کریدا اور تفتیش کے لئے پولیس والا انداز اپنایا۔
ننھی آمنہ کا تو اتنے سے ہی سانس خشک ہو گیا۔
” اور یہ ہاتھ میں کیا چھپا رہی ہو؟”دادی نے ایک اور تفتیشی سوال پو چھا۔
آمنہ نے ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے دادی کو دیکھا اور مہندی والی ہتھیلی آگے کر دی۔
” اب تو تم پر جرمانہ ہوگا اور خوب سخت سزا دی جائے گی ۔ جو یوں چوری چھپے مہندی چراتی ہو۔”دادی نے آمنہ کے چہرے پر مختلف رنگ بدلتے دیکھے۔
آمنہ نے تفہیمی نظروں سے دادی کو دیکھا۔ جیسے پوچھ رہی ہو کہ کیا سزا مقرر کی آپ نے۔دادی اماں سے بھی مزید اداکاری نہ ہو سکی اور انہوں نے آمنہ کو اپنے قریب کر لیا اور کہا کہ پہلے میرے دونوں گال چومو اور پھراوپر تخت پر آ جائو۔آمنہ نے چٹ پٹ دادی اماں کے گال چومے اور پھرتی سے تخت کے اوپر آگئی۔دادی اماں نے اس کی گلابی گلابی ہتھیلیوں پر مہندی سے چاند اور ستارے بنا د یے ۔مہندی لگوا کر آمنہ کو ایسے لگ رہا تھا جیسے اسے ہفت اقلیم کی دولت مل گئی ۔ اس کے چہرے پر خوشی کی روشنی پھوٹتی دیکھ کر دادی اماں نے فورا اس کی نظر اتاری۔
” اچھا یہ بتاؤ تم مہندی چوری چھپے کیوں لے رہی تھیں میں نے تم کو کبھی منع تو نہیں کیا۔”وہ جانے کے لیے ابھی اٹھی ہی تھی کہ دادی اماں نے پوچھا۔
” دادی اماں! آپ تو منع نہیں کرتیں لیکن امی جان خفا ہوتی ہیں ۔ انہیں اس طرح ہر دوسرے روز میرا مہندی لگانابا لکل اچھا نہیں لگتا ۔ وہ کہتی ہیں روز روز مہندی لگانے سے بچوں پر جن اور پریاں عاشق ہو جاتے ہیں اور پھر ان کو اٹھا کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔”آمنہ جنوں پریوں کا ذکر کرتے ہوئے دن میں بھی خوفزدہ ہو گئی۔
کچھ نہیں ہوتا میری بچی ۔ اب جب بھی دل کرے مہندی لگوانے کا تو مجھے بتا دیا کرنا ۔ تمھاری ماں تو ایسے ہی سنی سنائی باتیں کرتی ہے۔”دادی اماں نے آمنہ کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔۔
٭٭…٭٭
اب تو شاید یہ آمنہ کو بھی معلوم نہ ہو کہ کیسے اور کب اس کے دل میں مہندی کی محبت جاگی ۔ ہوش سنبھالتے ہی کسی کے مہندی لگے ہاتھوں کو دیکھ کر ہمکنا شروع کر دیتی تھی۔ گھر کی باقی لڑکیاں تو صرف شادی بیاہ یا عید شب رات پر ہی مہندی لگاتی تھیں جبکہ آمنہ کا دل کرتا کہ ہر وقت اس کی گلابی ہتھیلیاں مہندی کے سرخ رنگ سے رچی رہیں۔
پہلے پہل تو اس کی دادی اماں اور امی جان اس سب کو اس کا بچپنا سمجھتی تھیں لیکن جب لڑکپن اور نوجوانی میں بھی مہندی کے لیے ایسا جنون ان کو حیرت اور وسوسوں میں مبتلا کر دیتا۔ اسی لیے اس کی امی نے اسے سختی سے منع کر دیا تھا کہ اب وہ صرف کسی کزن کی شادی بیاہ یا عید پر ہی مہندی لگا سکتی ہے۔ جب وہ روٹھی ہوئی شکایتی نظروں سے دادی اور امی کو گھورتی تو ان کے پاس اس کو سنانے کو ایک سو ایک قصے کہانیاں موجود ہوتیں۔
٭٭…٭٭
آمنہ نے بچپن سے لڑکپن تک آتے آتے ہر طرح کے مہندی کے ڈیزائن بنانے میں مہارت حاصل کر لی تھی ۔ اسی وجہ سے خاندان کی ہر منگنی اور شادی میں اسے ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا ۔ وہ بھی لڑکیوں کے ہاتھوں پر رنگ برنگے بیل بوٹے بنا کر اپنے دل کی پیاس بجھا لیتی تھی ۔ لیکن اماں اس کو ہر وقت مہندی نہیں لگانے دیتی تھیں بس خاص خاص تقریبات کے لیے ہی اجازت دیتی تھیں۔
دادی اماں نے محفل میلاد کا پروگرام منعقد کیا تھا ۔ آمنہ سفید براق کپڑوں میں بہت پیاری لگ رہی تھی ۔پھپھو نے جب اپنے بھتیجے مصطفی کو چوری چوری آمنہ کو تکتے اور بہانے بہانے سے گھر کے اندر آتے جاتے دیکھا تو ان کے دل میں کھد بد شروع ہوگئی۔
پھپھو نے فورا سے پیشتر خیالوں کا بیج بویا اور لمحوں کے وقفے سے خوابوں کی فصل کاٹنی بھی شروع کر دی۔سب سے پہلے تو انہوں نے مصطفی کو دو چار کھری کھری سنانے کا سوچا۔جب اگلی بار مصطفی واقعی کسی کام سے گھر کے اندر آیا تو پھپھو نے آواز دے کے قریب بلا لیا۔
” جی پھپھو! کوئی کام تھا کیا؟”مصطفی نے سعادت مندی سے ان کے قریب آ کے پوچھا۔
” نہیں بیٹا کام تو کوئی خاص نہیں تھا لیکن میں بہت دیر سے دیکھ رہی ہوں کہ تم بہانے بہانے گھر کے اندر آتے جاتے ہو اور پھر بڑے کمرے کی طرف جھانکنا شروع کر دیتے ہو۔”پھپھو نے ادھر ادھر دیکھ کر لہجے کو پہلے دھیما کیا اور پھر آواز کے سر اونچے کر دیے تا کہ دو چار عورتیں اور بھی سن لیں۔وہ تو شکر ہوا کہ سب کا دھیان نعتوں کی خوبصورت طرز پر تھا۔
” نہیں پھپھو ایسی کوئی بات نہیں آپ کو کوئی مغالطہ ہوا ہو گا۔”مصطفی نے ایسے نظر چرائی جیسے چوری کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہو۔
” ارے میاں مغالطے کی بھی خوب کہی ۔ میں نے یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کیے اڑتی چڑیا کے پر گن لیتی ہوں۔”پھپھو نے ادھر ادھر دیکھا اور تان پھر وہیں سے جوڑی۔
” ارے مصطفی ! مغالطے میں تو تم ہو کہ کسی کو کوئی خبر نہ ہو گی ا ور تم سب کی ناک کے نیچے کھیل کھیلتے رہو گے ۔ باعزت گھرانے کی لڑکیاں آئی بیٹھی ہیں کچھ توشرم لحاظ کر لو ۔ یا اپنی اماں کی طرح تمھارے بھی دیدوں کا پانی مر گیا اور شرم و حیا بیچ کھائی ہے؟”پھپھوکا بس نہیں چل رہا تھا کہ بیچ چوراہے پر اعلان کرواتیں اور ساتھ ہی د و چار ہاتھ بھی جڑ دیتیں۔مصطفی تو مارے شرم کے زمین میں گڑا جا رہا تھا ۔ اس نے جلدی سے گھر کا دروازہ پار کیا اور کانوں کو ہاتھ لگایا کہ اللہ کریم پھپھو کے غیض و غضب سے بچائے۔
٭٭…٭٭