’’ حسینہ تم جو کہہ رہی ہو وہ سب میرے لئے ناقابل فہم ہے ۔ آخر اجالا نے سلمان کے لئے انکار کیوں کیا ہے جبکہ وہ اس کے لئے مناسب تو کیا بہترین بر ہے ۔ پڑھا ، لکھا ، کاروباری اور شریف لڑکا ہے اور سب سے بڑھ کر اپنی برادری اورخاندان کا ہے ۔ کوئی ذات پات کا مسئلہ نہیں ، کوئی جھک جھک نہیں لیکن تمہاری بیٹی ہے کہ مان کر ہی نہیں دے رہی ۔ آخر تم نے اجالا کی کیا تربیت کی ہے ۔ میں تو سارا دن گھر سے باہر ہوتا تھا ، تم ماں تھیں لیکن مجھے کہنے دو کہ تم نے اس کی پرورش کی ذمہ داری ٹھیک سے نہیں نبھائی ۔ ‘‘مبین چوہدری نے پریشانی سے اپنی پیشانی تھام لی ۔’’ آپ بھی سب کا سب الزام میرے سر دھر دیں ۔ مانا کہ اکلوتی بیٹی ہے آپ نے بھی تو بچپن سے اس کی ہر جائز اور ناجائز خواہش پوری کی ہے ۔ دونوں بیٹوں کو آج تک آپ نے اتنا پیارنہیں دیا جتنی محبت آپ نے اجالا سے کی ہے ۔ اب جو بچی بچپن سے ہی ضدی رہی ہے کیا اتنی آسانی سے شادی کے لئے مان جائے گی اور وہ بھی اس لڑکے کے لئے جسے وہ ناپسند کرتی ہے ؟ ‘‘ حسینہ نے بھی اپنے دل کی بھڑاس نکالی ۔مبین چوہدری غصے سے کمرے میں ٹہل رہے تھے دونوں مٹھیاں بھینچ کر گویا اپنی ناراضی کا اظہار کر رہے تھے۔’’ چلو ٹھیک ہے ،میں بھی دیکھتا ہوں کہ وہ اس معاملے میں کیسے اپنی من مانی کرتی ہے ۔ غلطی میری ہی ہے جو اسے یونیورسٹی بھیج دیا ۔ ڈاکٹر بنانے کا سوچا اور یہ خیال کیا کہ یہ تعلیم مکمل کر کے نئے زمانے کا ساتھ دے لیکن نہیں یہ پڑھائی تو گویا میرے گلے کا ڈھول بن کر ہی رہ گئی ہے ۔ اس سے قبل کہ اس ڈھول کو بجانے کی نوبت آئے تمام قصے کو یہیں ختم کر دینا چاہیے ۔ یونیورسٹی نہ ہوئی رشتہ سنٹر ہو گیا کہ پڑھائی کرنے جائو اور ساتھ ہی اپنے لئے بر بھی تلاش کر کے لے آئو ۔ ‘‘اجالا دو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی ۔ والد مبین چوہدری زمیندار تھے ، ان کے خاندان میں برداری اور ذات پات سے باہر رشتہ کرنے کا بالکل بھی رواج نہیں تھا ۔ غصے کے بھی بہت تیز تھے ، گھر میں بڑے تھے تو کسی بھی معاملے میں ان کا فیصلہ حرف آخر ہوتا تھا ۔ آج تک کسی کی جرات نہ ہوئی تھی کہ ان کے سامنے آنکھ اٹھا کر بات بھی کر سکے ۔ بہن بھائیوں میں سے بھی سب کو ان کا حکم بلاچوں و چراں ماننے کی عادت تھی ۔اجالا کے اس انکار سے ان کی مردانہ انا پر کڑی ضرب لگی تھی ۔ انہیں سب سے زیادہ غصہ اس بات پر آیا تھا کہ آخر کس کی دلائی ہوئی شہ نے ان کی لاڈلی بیٹی کو اتنا بے خوف بنا دیا تھا کہ وہ ان کے بتائے ہوئے رشتے سے انکار کر رہی تھی ۔ ان کے دونوں بیٹے تو بہت فرماں بردار تھے تو پھر ان کی لاڈلی کیسے اتنی ہٹ دھرم ہو گئی تھی ۔ وہ یہی سوچ رہے تھے کہ شام کو ڈیرے سے واپسی پرگھر جاتے ہی اجالا کی خوب خبر لیں گے لیکن گھر پہنچتے ہی اپنی چھوٹی بہن نصرت کو دیکھتے ہی سارا غصہ گویا کافور ہو گیا ۔نصرت بھی اپنے یونیورسٹی فیلو سمیع کو پسند کرتی تھی ، سمیع کے گھر والے اس کا رشتہ لے کر آنا بھی چاہتے تھے لیکن مبین چوہدری نے نصرت کی پڑھائی ہی ختم کر کے گویا بات ہی ختم کر دی تھی ۔ حالانکہ سمیع اچھا اور خاندانی لڑکا تھا اس کے گھر والے بھی نصرت سے دلی لگائو رکھتے تھے لیکن معاشی اعتبار سے وہ مبین چوہدری کے پاسنگ نہیں تھے اور ذات کے بھی ملک تھے اس لئے انھیں انکار کر دیا گیا ۔ پھر نصرت کی شادی مبین کی مرضی سے ان کے دوست کے بھتیجے چوہدری خاور سے کر دی گئی ۔ یہ الگ بات کہ نصرت اور خاور میں کبھی ہم آہنگی نہ ہو پائی اور سسرال میں ہمیشہ نصرت کو سمیع کی پسندیدگی کے طعنے سننا پڑے ۔مبین بہن کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور آئو بھگت میں لگ گیا لیکن نصرت تو کچھ اور ہی کہنے آئی تھی ۔’’بھیا بھابھی بتا رہی ہیں کہ یونیورسٹی میں اجالا اپنے کلاس فیلو محب کو پسند کرتی ہے اور آپ اس کی شادی سلمان سے کرنا چاہ رہے ہیں ۔ بھیا اب وہ زمانہ نہیں کہ بچوں کے ساتھ زبردستی کی جائے اب اولاد کی مرضی کو بھی اولیت دینا چاہیے ورنہ بعد میں بہت سے ازدواجی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں ۔ ‘‘نصرت کے آئینہ دکھانے پر مبین اور بھی غصہ میں آگیا ۔’’ تم چھوٹی ہو کر مجھے عقل سکھانا چاہتی ہو ۔ مانا کہ تم سے بھی غلطی ہوئی لیکن وہ بروقت سدھار لی گئی ۔ میری بیٹی بھی اگر یہ غلطی کرے گی تو اس کے ساتھ بھی ویسا ہی ہو گا جیسا فیصلہ میں نے تمھارے لئے کیا کیونکہ میرے سامنے کسی پرندے کی بھی جرات نہیں کہ وہ پر بھی مار سکے ۔ تم دیکھنا اجالا میری بات مانے گی کیونکہ مجھے نہیں لگتا کہ محب اس کے لئے اچھا شوہر ثابت ہو گا ۔ ‘‘ ابھی مبین کی بات مکمل نہ ہوئی تو اجالا اندر داخل ہوئی اور اس نے کہا۔’’ آپ غلط کہہ رہے ہیں کہ میرے لئے محب اچھا لڑکا نہیں ۔ میں کوئی پرندہ نہیں جو آپ کے سامنے بول بھی نہیں سکتا ۔ میں عاقل و بالغ ہوں اپنی پسند کی شادی میرا حق ہے ۔ میں اپنا اچھا برا خوب سمجھ سکتی ہوں ۔ ‘‘’’ تم اپنے کمرے سے باہر کیوں آئیں بیٹا جب بڑے بات کر رہے ہوں ناں تو چھوٹوں کو درمیان میں نہیں بولنا چاہیے ۔ ‘‘حسینہ اجالا کو دیکھتے ہوئے پریشانی سے کہنے لگی ۔’’ میں اس منطق سے بالکل اتفاق نہیں کرتی کہ چھوٹوں کو اپنے حق کے لئے بولنا نہیں چاہیے ۔ ابا یہ میری زندگی ہے اور اسے گزارنے کا حق بھی میرا ہی ہونا چاہیے ۔ آخر آپ کب تک ہمیں انہیں فرسودہ روایات میں جکڑے رکھیں گے ۔ ‘‘ اجالا اٹل لہجے میں بولی ۔’’ اجالا میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میری بیٹی ہو کر تم میرا کہا نہیں مانو گی ۔ تم نے تو مجھے مایوس کر دیا ہے ۔ ‘‘ مبین چوہدری آج شکست خوردہ لگ رہے تھے ۔’’ہاں ابا میں بھی یہ سوچ نہیں سکتی تھی کہ میرے روشن خیال ابا مجھ پر اپنے فیصلے صادر کریں گے ۔ آج سے بارہ سال پہلے پھوپھو نصرت کے لئے بھی تو اتنا اچھا رشتہ آیا تھا لیکن آپ نے اسے مسترد کر دیا ۔ آپ نے تو اپنی مرضی کی جگہ پر انھیں بیاہ دیا لیکن افسوس پھوپھو نصرت کے آنسو آپ آج تک نہیں دیکھ پائے ۔ لیکن میں پھپھو کی طرح نہیں ہوں میں اپنے حق کے لئے لڑنا جانتی ہوں ۔ میں کوئی مٹی کی مورت نہیں جسے آپ جب چاہیں توڑ مروڑ کر اپنی پسند کی شکل میں ڈھال لیں ۔ مجھ پر فیصلہ صادر کرنے سے بہتر یہی ہے کہ آپ اپنی سوچ بدل کر نئے دور کے مطابق چلیں ۔ مجھے امید تو یہی ہے کہ کل شام محب کے گھر والوں کو آپ انکار نہیں کریں گے اور خوشی خوشی منگنی کی رسم ادا کر دیں گے اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہوں گی ۔ ‘‘ اجالا یہ سب کہہ کر ڈرائنگ روم سے چلی گئی ۔’’بھیا میں نے آپ کا مان رکھا تھا۔ آپ نے میری شادی جہاں چاہی وہاں کردی تھی۔ لیکن آپ کو لگتا میں خوش ہوں؟ پلیز میری بات کا مان رکھ کے اجالا جہاں چاہتی ہے وہاں اس کی شادی کردیں۔پسند کی شادی کرنا کوئی گناہ نہیں ہے اور اگر محب اچھا لڑکا ہے تو ہمیں کھلے دل سے اس کو قبول کرنا چاہئے ۔آپ جانتے ہیں آج کل لڑکے لڑکیاں ضد پر آجائیں تو گھر سے بھاگنے پر بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ ‘‘ نصرت نے مبین چوہدری کو سمجھانا چاہا تھا۔ مبین جو اجالا کی بات سن کر ابھی تک چپ تھے نصرت کی بات سن کر سر کو اثبات میں ہلا کر باہر نکل گئے۔مبین چوہدری کو آج معلوم ہو گیا تھا کہ ہر لڑکی نصرت نہیں جو ان کے غلط فیصلوں کو مان کر ان کا شملہ اونچا کردے بلکہ لڑکیاں اجالا جیسی بھی ہو سکتی ہیں ۔ جو اپنی پسند اور مرضی کو اولیت دے کر ان کے غلط فیصلوں کو رد بھی کر سکتی ہیں۔٭٭
ماشاءاللہ بہت خوب