منجانب : اسماء عباسی

”میں نے آج تک کمپنی کے خلاف کوئی بات نہیں کی نہ آگے کروں گی ۔ مجھے علم ہے فیصل کیوں نکالا گیا تھا ۔ میں اس بات سے بھی واقف ہوں کہ ایک کمپنی آپ سے صرف کام نہیں چاہتی بلکہ آپ کی لوئیلٹی(loyalty) بھی چاہتی ہے اور میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی کہ کبھی ایسا کچھ کروں ۔” اس کے چہرے سے لگ رہا تھا جیسے وہ ایسے کسی الزام کے لیے تیار نہ تھی ۔ باس اسے پچھلے دو سالوں سے جانتے تھے ۔ اور ابھی وہ جس انداز میں کہہ رہی تھی وہ محسوس کر رہے تھے کہ وہ جھوٹ نہیں بول رہی مگر وہ یہ بھی جانتے تھے کہ یہاں انکے سامنے بیٹھ کر خود کو بچانے کے لئے لوگ قرآن تک کی قسم اٹھا سکتے تھے۔ ارحہ تو کھوکھلے دعوے کر رہی تھی۔
”بحرحال۔ آپکو یہاں بلانے کا مقصد یہی تھا کہ آئندہ ہمیں آپکی فیصل سے بات کرنے کی اطلاع ملی تو شاید ہمیں کوئی سخت قدم اٹھانا پڑے گا۔ جس کے میں بالکل بھی حق میں نہیں ہوں۔”
”سر!میں قسم اٹھا کر کہہ سکتی ہوں ۔ میرا فیصل سے کوئی رابطہ نہیں ہے ۔ آپ بیشک قرآن…” اس بار وہ روہانسی ہوئی تھی۔
٭٭…٭٭
اپنے کیبن میں آکر اس نے دروازہ بند کیا اور تیزی سے کرسی پر بیٹھی۔ کہنیاں ٹیبل پر ٹکائیں اور سر تھام لیا۔
ہاتھوں میں ابھی بھی کپکپاہٹ تھی۔
”باس کیا کہہ رہے تھے؟ سب ٹھیک ہے، ارحہ؟ کیا ہوا؟” مائدہ نے جلدی سے دروازہ بند کیا اور اس تک پہنچی۔
”یہی ایک چیز مجھے اس کمپنی کی بری لگتی ہے کہ دوسروں کو ذلیل کرانے کے لیے یہاں کوئی بھی باس کے سامنے کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔” اس نے سر اٹھایا اور دھیمے انداز میں کہتے ہوئے جیسے پھٹ پڑی تھی۔
”ہوا کیا ہے یار؟ تم اب مجھے پریشان کر رہی ہو۔ ”
”کسی نے باس کے سامنے بکواس کی ہے کہ میں فیصل سے رابطہ کر کے کمپنی کے خلاف باتیں کرتی ہوں۔ ”
”اف اللہ یہ بندہ یہاں سے چلا گیا مگر اسکا ذکر نہیں گیا ۔ اور باس کو کس نے کہا یہ سب؟ ”مائدہ الگ پریشان ہو گئی تھی۔
”مجھے کیا پتہ۔ میں نے پوچھا ہے مگر نہیں بتا رہے۔ بس وارننگ دے دی ہے کہ اگلی بار بات کی تو سخت قدم اٹھائیں گے۔” ایک دفعہ پھر سر پکڑ لیا۔
”یار تو تم جب بات ہی نہیں کرتی تو تمہارے خلاف کوئی فیصلہ کیوں کریں گے۔”
ارحہ خاموشی سے پاؤں جھلانے لگی۔ وہ سٹریس میں ایسے ہی ہلنے لگتی تھی۔
”تم کہو تو میں بات کروں باس سے… ”
”نہیں۔ تم کوئی بات مت کرنا۔ وہ غلط مطلب نکالیں گے اس کا بھی، پھر میرے ساتھ تم بھی مشکل میں پڑ جاؤ گی۔” ارحہ اب بھی پاؤں جھلا رہی تھی۔ جیسے کسی سوچ میں ہو۔
”میری فکر نہ کرو۔ اتنا تو کر ہی سکتی ہوں تمہارے لئے یار ۔ اور یہ پاؤں جھلانا بند کرو۔ مجھے ڈسٹریکٹ کر رہی ہو۔” اس کی بات پر ارحہ نے پاؤں روکا مگر سوچیں اب بھی ذہن میں گردش کر رہی تھیں۔
”ویسے تمہارا کوئی رابطہ ہے فیصل سے؟” مائدہ کے سوال پر وہ جھٹکے سے اسکی طرف مڑی۔
”تمہارا دماغ خراب ہے میں کیوں کرنے لگی اس سے کوئی رابطہ ۔ ” وہ بھڑک کر بولی تو مائدہ خاموش رہ گئی ۔ وہ ضرورت سے زیادہ بھڑک گئی تھی۔
تبھی ٹیبل پر رکھا موبائل بج اٹھا ۔ اس سے پہلے کے مائدہ کی نظر پڑتی ارحہ نے تیزی سے اسے الٹا کیا تھا۔
٭٭…٭٭
”باس کو پتہ چل گیا ہے۔ اب کچھ دن کے لیے کوئی میسج یا رابطہ نہ کرنا ورنہ مسئلہ ہو جائے گا۔” اپنے اپارٹمنٹ کے اندھیرے کمرے میں بیٹھے اس نے میسج ٹائپ کر کے فیصل کو بھیجا تھا۔ اور سکرین بند کر دی۔ اپارٹمنٹ یکدم تاریک ہوگیا تھا۔
اندھیرا نہ ہوتا تو شاید جھلتا ہوا پاؤں بھی دِکھ جاتا؟
٭٭…٭٭
روشنی ہر سو پھیل چکی تھی اور اس وقت کمپنی کی طرف سے ہونے والے ایونٹ کی تیاریاں عروج پر تھیں۔ہر کوئی روزمرہ سے زیادہ فریش اور تیار لگ رہا تھا۔
یہ ایک بین الاقوامی سطح کا ایونٹ تھا جس کے لئے سب ہی اکسائٹڈ تھے۔
”ارحہ آج پیاری لگ رہی ہے۔ ”اپنے ساتھ کھڑی ایک لڑکی کے تبصرے پر مائدہ نے سر اٹھا کر دور کسی سے باتیں کرتی ارحہ کو دیکھا ۔ جو خوبصورت سی سیاہ میکسی میں واقعی پیاری لگ رہی تھی۔
”ارحہ پر سیاہ رنگ بہت سوٹ کرتا ہے۔ بلکہ ڈارک رنگ سارے ہی سوٹ کرتے ہیں۔ میں نے کہا ہے اسے کہ ایسے رنگ ہی پہنا کرومگر میری کہاں سنتی ہے۔” مائدہ نے ہنس کر کہا۔ نظر ارحہ پر پڑی جو اب انہی کی طرف آرہی تھی۔
”کیا چل رہا ہے؟” ان دونوں کو اپنی طرف دیکھتا پا کر وہ پوچھنے لگی۔
”کھانے کا کیا سین ہے؟ کچھ دیں گے یا نہیں؟” مائدہ نے پوچھا۔
”کچھ وقت لگے گا۔ فریحہ تمہارے ساتھ پکس نہیں لیں یار ۔” کہہ کر ارحہ نے موبائل سے تینوں کی سیلفیز لیں اور سوشل میڈیا پر بھی لگائیں۔ان دونوں کو ٹیگ کیا۔
”عینی پوچھ رہی ہے یہ درمیان والی ارحہ ہے کیا؟” مائدہ موبائل پر جھکے ہنس کر کہہ رہی تھی۔
”عینی وہی تمہاری دوست؟” ارحہ نے پوچھا۔
”ارے بھائی۔ ارحہ لگ بھی تو اتنی پیاری رہی ہے۔ پوچھنا تو بنتا ہے۔”
”ارے آپ بھی بہت پیاری لگ رہی ہیں، فریحہ…” اسکے کہنے کے انداز پر فریحہ اور مائدہ ہنس دیں۔۔
٭٭…٭٭
ایونٹ سے فارغ ہونے تک رات کے سات بج چکے تھے۔اب صرف آفس کے لوگ رہ گئے تھے۔
”تمہارا کیا پلان ہے؟” ارحہ کے آنے پر مائدہ نے موبائل سے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
”بھائی آرہا ہے پک کرنے تو گھر جاؤں گی۔”
”بھائی کو تھوڑی دیربعد بلا لینا یار ۔ سب ڈنر کے لئے جا رہے ہیں۔” وہ اسکے ساتھ والی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولی۔
”یار امی انتظار کر رہی ہیں۔ کل سے سب کہیں باہر جانے کا کہہ رہے تھے۔ میں نے کہا تھا آج میں آؤں گی تو چلتے ہیں۔میرا خود بہت دل تھا تم لوگوں کے ساتھ جاؤں مگر سب میرا ہی انتظار کر رہے ہونگے۔” مائدہ نے دکھ سے کہا۔
”چلو کوئی نہیں۔ فیملی پہلے آتی ہے۔ ہم تو جاتے رہتے ہیں پھر کبھی سہی۔”
”مجھے اب برا لگ رہا ہے۔ کہو تو امی کو منع کر دیتی ہوں۔”
”ارے پاگل ہو۔ ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا فیملی کے ساتھ وقت گزارنا۔”
”یار۔ ہم بہت کلوز ہیں ایک دوسرے سے۔ ہمارے ہفتے میں دو تین چکر باہر کے ضرور لگتے ہیں۔ نہ لگیں تو گھر پر ضرور کچھ منگوا لیتے ہیں۔ امی نہیں کھاتیں مگر وہ ہمارے ساتھ ضرور جاتی ہیں ۔ بھائی تو خیر ہر وقت تیار رہتے ہیں۔” مائدہ نے خوش ہو کر اسے اپنے گھر والوں کے بارے میں بتایا جبکہ ارحہ محض مسکرا کر اسے دیکھتی رہی تھی شاید اسکے پاس شئیر کرنے کو کچھ خاص تھا ہی نہیں۔
٭٭…٭٭
آفس کے فلور پر اتر کر ارحہ اعتماد سے آگے بڑھ رہی تھی۔ چہرے پر نرم سی مسکراہٹ سجائے وہ نئے دن اور اسکے ساتھ آنے والے چیلنجز کے لیے پوری طرح تیار لگ رہی تھی۔
’’اسلام علیکم! ‘‘قریب سے گزرتے ایمپلائی کو سلام کیا۔ایک اور گزر رہا تھا… اسے بھی کیا۔ ایک کو محض مسکرا کر سر کے خم سے کیا۔پھر کسی احساس کے تحت اسکی مسکراہٹ ڈھلی۔ سلام زبان کی حدود تک ہی رہ گیا۔ قدم بھی کچھ سست پڑے تھے۔اس نے اطراف کا تنقیدی جائزہ لیا تو کچھ کھٹکا تھا۔لوگ اسے دیکھ رہے تھے۔ بہت غور سے… ارحہ نے سرگوشیاں بھی محسوس کی تھیں۔
کچھ ہوا تھا کیا؟ اسکا دل دھڑکا۔ دور سے باقر آتا دکھا۔
آج کل اسکی آمد ارحہ کو ڈرا دیتی تھی ۔ ابھی بھی وہ اسی کی طرف آرہا تھا۔
ارحہ نے ایک بار پھر لوگوں کی سرگوشیاں اور تجسس بھری نگاہیں محسوس کیں۔باقر قریب آچکا تھا۔
”آپکو باس بلا رہے ہیں۔”
ارحہ پوچھنا چاہتی تھی کہ ان کا موڈ کیسا ہے۔ مگر آج کچھ بدلا ہوا تھا۔ وہ کچھ بھی نہیں پوچھ پا رہی تھی۔
وہ شاید سست روی سے آگے بڑھتی مگر چونکہ لوگوں کی نظریں اسے چبھ رہی تھیں تبھی وہ تیزی سے آگے بڑھی تھی۔
دروازہ ناک کر کے اندر داخل ہوئی۔
باس اپنے آفس میں ٹہل رہے تھے۔
غصے سے…
”سر! آپ نے بلایا؟ ”اس سے پہلے وہ ایک بھی قدم آگے اٹھاتی۔ باس نے ٹیبل سے کچھ اٹھا کر اسکی طرف اچھالا۔
”میں اس آفس میں ہر غلطی برداشت کر لوں گا ۔ ہر بیوقوفی برداشت کر لوں گا مگر میری پیٹھ پیچھے جا کر میری کہی بات کا پاس نہ رکھنا میں کبھی برداشت نہیں کرونگا۔” ارحہ نے اپنے پاؤں کے قریب پڑی ان تصاویر کو دیکھا۔
”میں نے تمہیں کہا بھی تھا کہ مجھے اگر علم ہوا تم اس لڑکے سے رابطے میں ہو تو میں اس بات کا بھی خیال نہیں کرونگا کہ تم ہماری کتنی قابل ایمپلائی ہو۔ ”ارحہ نے جھک کر ان تصاویر کو اٹھایا۔
”کل تم فیصل سے ملی ہو۔ جبکہ میں نے کہا تھا کہ اس کمپنی کے ساتھ جب تک منسلک ہو تب تک تم اس سے نہیں ملو گی۔ کوئی رابطہ نہیں کرو گی۔”
ارحہ نے ایک ایک تصویر دیکھی۔ اسکی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی تھی۔ ہاتھوں میں کپکپاہٹ الگ تھی۔ وہ جیسے گرنے کو ہوگئی تھی۔
”جو شخص ایک اتنی سی بات سمجھنے سے قاصر ہے اسکی ہماری کمپنی میں کوئی جگہ نہیں ہے۔” باس کی بات پر ارحہ نے بے یقینی سے سراٹھا کر انھیں دیکھا۔
”آپ جا سکتی ہیں۔ مس ارحہ بدر۔ ”کہہ کر وہ اپنی سیٹ کی طرف بڑھ گئے۔
”سر! یہ میں نہیں ہوں۔ ”وہ بولی تو اپنی آواز انجان لگی۔ گلا کھنگار کر ایک بار پھر کہا۔
”سر! یہ میری تصاویر نہیں ہیں۔ اس میں… ”اس نے ایک بار پھر تصاویر دیکھیں۔
” میری پیٹھ…” زبان پھسلی۔
” اس لڑکی کی پیٹھ دِکھ رہی ہے ۔ یہ میری تصاویر نہیں ہیں۔ کیسے ہو سکتی ہیں؟ میں فیصل سے ملی ہی نہیں ہوں۔ یہ میں کیسے ہو سکتی ہوں؟” اسے اپنا دفاع کرنے کے لئے الفاظ نہیں مل رہے تھے۔
”اچھا تو اس میں آپکا چہرہ نہیں دکھ رہا تو آپ باآسانی یہ کہہ سکتی ہیں کہ یہ آپ نہیں ہیں؟ محترمہ۔ یہ کل کی تصاویر ہیں۔ اور یہ آپ ہی ہیں۔”
ارحہ نے دیکھا۔ وہ سیاہ میکسی، وہ سیاہ ہیل، وہ دن کی تصویر نہیں تھی رات کی تھی مگر مصنوعی روشنیوں میں اسکی پیٹھ باآسانی دیکھی جا سکتی تھی۔
”سر! کوئی مجھے ٹریپ کر رہا ہے۔” ضبط کے باوجود آنسو چہرے پر لڑھک گئے تھے۔
” یہ میں نہیں ہوں۔ آپ اس تصویر کو دیکھ کر کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ میں ہوں، بلکہ… ”اس نے آنسو پونچھے۔
” مجھے بتائیں یہ تصاویر آپ کو کس نے بھیجی ہیں۔ میں خود اس سے بات کروں گی۔ میں پوچھوں گی کہ یہ میں کیسے ہوسکتی ہوں۔ پلیز سر…” وہ کسی کے سامنے اتنی منتیں نہیں کرتی تھی ۔ آج کرنی پڑ رہی ہیں۔
اسکے جواب میں باس نے ریسیور اٹھایا۔
”مس ارحہ بدر کا ٹرمینیشن لیٹر تیار کرواؤ۔”
”سر…” وہ بول تک نہ سکی تھی۔ یہ ہو کیا رہا تھا؟ یہ ہو کیوں رہا تھا؟
”سر! آپ جانتے ہیں میں بھی فیصل کو اس کی ان حرکات کے باعث نکالنے کے حق میں تھی۔ پھر کیوں میں اس سے ملوں گی۔”
”شاید آپ دکھاوے کے لئے اسکے خلاف گئی تھیں تاکہ کوئی آپ پر انگلی نہ اٹھائے ۔ یا آپ کچھ اور سوچ کر یہ سب کر رہی تھیں۔ خیر اس سب سے غرض نہیں ہے۔ آپ جا سکتی ہیں۔ ”
ارحہ نے بہت غصے سے ان کو دیکھا ۔ کوئی گالی بھی دینا چاہی مگر بہت ضبط کیا دروازہ کھول کر باہر نکلی اور زور سے اپنے پیچھے اسے بند کیا۔ اطراف میں موجود لوگوں نے چونک کر اسے دیکھا۔ جو کیبن جا کر اپنی چیزیں نکالنے لگی۔
”ارحہ یہ سب کیا ہے یار؟ سب کیا کہہ رہے ہیں؟” مائدہ رو دینے کو تھی۔
”سب کو وہ مل گیا ہے جس کے لیے انھوں نے سب کیا ہے۔”
”سب جانتے تھے میری پروموشن ہو جائے گی۔ سب سے میری ترقی ہضم نہیں ہوئی ۔ اب خوش ہو جائیں…” وہ ڈرارسے چیزیں نکالتے ہوئے بولی۔ آنسو نا چاہتے ہوئے بھی بہہ رہے تھے۔
”سب کہہ رہے ہیں کہ تم فیصل کی وجہ سے نکالی جا رہی ہو۔۔۔” مائدہ کی بات پر اسکے ہاتھ رکے۔
”اب مجھے سمجھ آرہی ہے کہ فیصل کیوں نکالا گیا ہے۔ وہ بھی آفس پالیٹکس کی بھینٹ چڑھا ہے۔” وہ جیسے خود سے ہم کلام ہوئی تھی۔
”ارحہ میں تم سے کچھ پوچھ رہی ہوں۔ کیا تم فیصل سے رابطے میں ہو؟” مائدہ کی سوئی اب بھی وہیں اٹکی ہوئی تھی۔
”کیوں؟ اس سے رابطے میں رہنا گناہ ہے؟ یہ کونسا اندھا قانون ہے کہ آپکی کمپنی کسی سے رابطہ منقطع کرنے کا کہے اور آپ انکھیں بند کر کے ان سے رابطہ ختم کر دو؟بھاڑ میں جائیں ایسی کمپنی اور ایسے لوگ۔”
”ایسے کیسے جا رہی ہو یار۔” مائدہ نے اسے بازو سے پکڑ کر روکا۔ اور روتے ہوئے اسکے گلے لگ گئی۔۔
”اب مجھے بھی یہاں سے اور یہاں کے لوگوں سے خوف آرہا ہے یار۔ تمہارے بغیر میں کیا کروں گی۔ پلیز باس سے تحمل سے بات کرو۔ وہ سمجھ جائیں گے۔ انھیں تمہارا پتہ ہے ۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ تم کتنی قابل ہو۔ اتنی سی بات پر وہ اتنا بڑا فیصلہ نہیں لے سکتے یار۔ پلیز اس طرح مت جاؤ۔” مائدہ اب ہچکیوں سے رو رہی تھی۔ اسے اپنے لئے اداس دیکھ کر ارحہ کا دل نرم پڑا۔
”میں اس وقت اتنی تذلیل کے بعد یہاں نہیں رک سکتی مائدہ۔ تم فری ہو پھر مل کر تسلی سے بات کرتے ہیں۔”
٭٭…٭٭
وہ آج پھر اسی ریسٹورنٹ کی بالائی منزل پر اسی جگہ بیٹھے تھے۔ آج دونوں کے چہرے اترے ہوئے تھے ۔ آج کسی کو بھی کھانا آنے کی جلدی نہ تھی۔
مایوسی ہی اتنی تھی کہ اور کسی چیز کا ہوش ہی نہ تھا۔ مائدہ نے ایک تکان زدہ سانس بحال کی۔
”میرا دل کر رہا تھا سب کے منہ توڑ دوں۔ اتنی افواہیں اور فضول باتیں کیں ہیں سب نے تمہارے جانے کے بعد کہ بتا نہیں سکتی۔ ”
”میرا دل کر رہا ہے میں بھی چھوڑ دوں یہ جاب۔ بھاڑ میں جائیں سب۔ اتنی سی بات پر کوئی کسی کو کیسے نکال سکتا ہے یار…” آنکھیں ایک بار پھر نم ہوئیں۔
”تمہیں کوئی ضرورت نہیں ہے جاب چھوڑنے کی۔ اور تم وہاں رہ کر انھیں ثابت کرو کہ تم یا میں ان لوگوں سے ڈرتے نہیں ہیں ۔ ہم کام کرنے آتے ہیں ایمانداری سے اور آخر تک ایماندار ہی رہتے ہیں۔۔” ارحہ کا دل پھٹنے کو تھا مگر نا جانے کیوں ضبط کئیے ہوئے تھی۔
”مگر فیصل والی حرکت بہت بری تھی یار۔ اتنی بڑی دشمنی ؟ یہ لوگ تو کچھ بھی کرنے سے گریز نہیں کریں گے اگر تم مل بھی رہی تھی تب بھی کسی کا کیا جاتا تھا۔”
”میں نہیں مل رہی تھی اس سے، مائدہ…” ارحہ نے اپنی بات پر زور ڈالا ۔ مائدہ خاموش ہوئی پھر سر ہلایا۔
”اب کیا کرو گی؟” وہ پریشانی سے آگے ہوئی۔
”کیا کروں گی۔گھر جا کر خوب سارا روؤں گی پھردیکھوں گی آگے کیا کرنا ہے۔” وہ مسکرا بھی نہ سکی۔
”پلیز اکیلے مت رہنا۔ عینی ایک بار بتا رہی تھی کہ ایسے موقعوں پر کسی کلوز پرسن کے ساتھ رہنا ضروری ہے۔”
”عینی بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے اور میں اپنی سب سے کلوز پرسن ہوں ۔ اس لئے میں ٹھیک رہوں گی ۔” وہ ہولے سے مسکرائی۔
”ارحہ! میں مذاق نہیں کر رہی۔”
”میں بھی مذاق نہیں کر رہی ۔ ویسے میں تمہاری عینی کو بھی مس کروں گی۔”مائدہ ہنسی۔
”عینی کو بولوں گی تمہیں فولو کرے۔ ہم تینوں کو دوست بننا چاہیے ۔” اسکی اس آفر پر ارحہ دل کھول کر مسکرائی۔
قریباً ایک گھنٹے بعد وہ دونوں ریسٹورنٹ سے باہر نکلی تھیں ۔ ارحہ نے موبائل پر دیکھ کر گاڑی کا نمبر نوٹ کیا۔ گاڑی سامنے ہی کھڑی تھی۔
”تمہارے بھائی کو کتنا وقت لگے گا؟” پھر وہ مائدہ کی طرف مڑی۔
’’بس آنے ہی لگا ہوگا۔‘‘ اس نے اطراف میں نظر دوڑائی۔
”کال کر لو…”
”میں کرتی ہوں۔ تمہاری گاڑی کہاں ہے؟ ”
”یہ کھڑی ہے۔” ارحہ نے اشارہ کیا۔
” تمہارا بھائی آجائے تو میں چلوں۔”
”یار! میرا دل پھٹنے کو ہے۔ اچانک سب ہوگیا ۔ سب کیسے ہوگا۔ مجھے کل اکیلے آفس جانے سے بھی خوف آرہا ہے۔” اسکی انکھیں ایک دفعہ پھر بھیگیں۔۔ ارحہ نے اسے گلے لگایا۔
”سب ٹھیک ہوگا ۔ اس طرح روتی رہو گی تو ان لوگوں سے کیسے لڑو گی ؟ ” خود سے الگ کر کے ارحہ نے پوچھا مگر اسے کوئی حوصلہ نہ ہوا تھا۔ وہ تو بس آنے والے وقت کو سوچ کر زرد ہو رہی تھی۔
”اپنا خیال رکھنا، ارحہ…”
”تم بھی…” مائدہ نے مسکرا کر اطراف میں دیکھا۔
”وہ… طلحہ آگیا ہے۔” اس نے دور کھڑی بائک پر بیٹھے لڑکے کی طرف اشارہ کیا۔
”چلو جاؤ۔ دھوپ میں کھڑا ہوا ہے بیچارہ۔” ایک آخری دفعہ مل کر ارحہ گاڑی میں جا بیٹھی ۔ مائدہ بہت دکھ سے اسے دیکھتی رہی۔
پھر مڑ کر بائک کی طرف بڑھنے لگی۔ بائک ریسٹورنٹ سے کچھ دور کھڑی تھی اور اسے چل کر وہاں تک جانا تھا۔دوپہر کی کڑک دھوپ میں واقعی زیادہ دیر کھڑا نہیں رہا جا سکتا تھا۔ اس وقت ویسے بھی سڑک پر اور کوئی نہ تھا کہ دھوپ میں نکلنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔مائدہ بائک تک پہنچی۔ اس لڑکے نے موبائل سے ایک نظر اٹھا کر اسے دیکھا جو چل کر اسی طرف آرہی تھی اور پھر موبائل پر جھک گیا۔ جبکہ مائدہ اسکے قریب سے چل کر آگے بہت آگے بڑھ آئی۔
چہرے پر خوشی اور ہونٹوں پر بجتی دھن ۔ یہ کچھ دیر پہلے والی اداس اور دکھی مائدہ سے یکسر مختلف تھی۔اس کڑک دھوپ نے بہت دور تک اسے بے یقینی سے جاتے دیکھا تھا۔رات کی سیاہی میں اپارٹمنٹ کا دروازہ کھول کر جب مائدہ نے قدم اند رکھا تو ہمیشہ کی طرح اسے خاموش اور ویران پایا۔
” میری امی انتظار کر رہی ہونگی۔ ”
آج بھی اس نے لائٹس آن نہ کی تھیں کہ ضرورت نہ تھی۔
”یار! ہم بہت کلوز ہیں ایک دوسرے کے… ہمارے ہفتے میں دو تین چکر باہر کے ضرور لگتے ہیں۔”مائدہ نے اندھیرے میں پڑے صوفے پر آلتی پالتی مار کر بیٹھتے ہوئے سوشل میڈیا کھولا۔
وہاں ایک اکاؤنٹ کھلا ہوا تھا۔
٭٭…٭٭
باس کی سیکرٹری نے ٹیبل پر پڑی ارحہ کی اس تصویر کو اٹھا کر دیکھا۔ یہ واحد تصویر تھی جو وہاں رہ گئی تھی۔ باقی تصاویر وہ ساتھ لے گئی تھی۔ اس میں بھی اسکی پیٹھ تھی ۔ ہاں فیصل پوری طرح واضح تھا ۔ اس نے اسے لفافے میں ڈالا۔ غالباً اسی لفافے میں وہ تصاویر موصول ہوئی تھیں۔ اس نے وہ لفافہ ٹیبل پر رکھا تو نام واضح ہوا۔
منجانب : حور
٭٭…٭٭
مائدہ نے اکاؤنٹ والے دائرے پر کلک کیا تو تصویر کے ساتھ نام واضح ہوا۔
حورالعین…
اندھیرے میں اسکا مسکراتا چہرہ واضح ہو رہا تھا۔۔
”عینی پوچھ رہی ہے کی یہ درمیان والی ارحہ ہے؟”
مائدہ نے انباکس کھولا اور میسج لکھا۔
”ہیلو مائدہ ۔ دن کیسا رہا؟ ارحہ کیسی ہے؟” کمرے میں اسکے گنگنانے کی آواز ابھری۔
اس نے جلدی سے اکاؤنٹ سوئچ کیا۔
اس بار مائدہ شہباز کا اکاؤنٹ کھلا تھا۔
میسج موصول ہوا۔
اس نے جواب لکھنا شروع کیا۔
”دن اچھا نہیں تھا۔ ارحہ کو نکال دیا گیا ہے ۔ اس کی وجہ سے پورا دن مجھے رونا پڑا ۔ اب سر دکھ رہا ہے۔ تمہیں پتا ہے نا میرا سر دکھتا ہے تو میرا دن کتنا برا گزرتا ہے۔ ” اس بار وہ گنگنا نہیں رہی تھی۔ تیزی سے اکاؤنٹ سوئچ کیا۔ حورالعین کے اکاونٹ پر میسج موصول ہوا۔
”چلو۔ کم از کم ارحہ تو راستے سے ہٹی ۔ سر درد کل تک ٹھیک ہو جانا ہے اور تمہاری زندگی میں بھی سب ٹھیک ہوجائیگا۔” اکاؤنٹ ایک بار پھر سوئچ ہوا۔ ایک بار پھر مائدہ شہباز کا اکاؤنٹ کھلا تھا۔
”صرف تم مجھے سمجھ سکتی ہو، عینی۔ تم جانتی ہو۔ مجھے کیا چیز خوشی دے سکتی ہے۔” وہ مسکرا رہی تھی۔
”آخر دوست ہوں۔ کب کام آؤں گی؟ اچھا تم کہہ رہی تھی کہ ساری تفصیل بتاؤ گی۔ اب بتاؤ یہ سب کیسے کیا؟ ”
اس بار اس نے پہلے سے زیادہ اکسائٹڈ ہو کر اکاؤنٹ سوئچ کیا اور مائدہ شہباز کا اکاؤنٹ کھولا۔
میسج آچکا تھا اس کی ’’فرضی دوست ‘‘ کا اور اب وہ مزے سے آڈیو ریکارڈ کرنے لگی تھی۔
”اچھا ہوا کچھ یوں کہ اس دن ارحہ نے مجھے اپنا موبائل دیا۔ گاڑی کروانے کے لئے…”
”میرا پیکج نہیں ہے یار…”
”بہت بڑی بیوقوفی کی تھی اس نے ۔ خیر میرا تو تمہیں پتہ ہے۔ دوسروں کے انباکس میں گھسنا میرا پسندیدہ مشغلہ ہے مگر مجھے شاک تو تب لگا جب باس کا ایک میسج اس کے انباکس میں دیکھا، پروموشن کا میسج ۔تب ارحہ وہاں نہ تھی اگر ہوتی تو شاید میرے اندر ہونے والی ٹوٹ پھوٹ بہت آسانی سے دیکھ لیتی ۔ ایسی ٹوٹ پھوٹ دیکھ کر وہ کم از کم مجھ سے محتاط ہو جاتی مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔ اس وقت میں نے ایک بار پھر عہد کیا تھا کہ ارحہ کو بھی اپنے رستے سے ہٹائوں گی ۔ ویسے ہی جیسے فیصل کو ہٹایا تھا اور اسی غصے کو تھوڑا ٹھنڈا کرنے کے لئے سب سے پہلے میں نے وہ پوسٹ کی… اس ریسٹورنٹ کو ذلیل کرنے کے لئے… ہاں اس میں ارحہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا مگر میں خود پرسکون ہوگئی تھی۔ مجھے وہ سب کرنا تھا جس سے ارحہ کی زندگی میں خلل پڑے اور سب سے بڑی خلل تو تب پڑتی جب اسے باس کے خلاف لا کھڑا کیا جاتا اور اسکے لیے مجھے فیصل کی مدد چاہیے تھی۔ جو یہ مان گیا تھا کہ پروموشن لینے کی لالچ میں ارحہ نے اسے فائر کرایا تھا اور یہی غلط فہمی مجھے ارحہ کے خلاف استعمال کرنی تھی۔
اس کے لئے میں ارحہ کے جیسی سیاہ میکسی پہن کر اپنی ہی تصاویر بھی بنا سکتی تھی۔ بس ارحہ آفس چھوڑ جائے ، پھر میرا چانس بن سکتا ہے ۔
اب دیکھنا عینی کہ تمہاری دوست کتنی ترقی کرے گی ۔ ارحہ کا کیا ہے… کہیں بھی جاب کر سکتی ہے ۔ اسکی فکر نہیں ہے۔دیکھا نہیں ہے کتنے اچھے کپڑے پہنتی ہے ۔ ہر وقت آؤٹنگ کے لیے تیار رہتی ہے ۔ یقینا گھر والے امیر ہونگے ، گاڑی ہے… جاب نہ بھی کرے تو بھی رہ سکتی ہے۔ اسکے لیے افسوس بھی ہے مگر افسوس تو اپنے لئے بھی ہے نا مجھے … دیکھو اب میں سب کے لئے افسوس کرتی رہی تو خود کے لیے کب سوچوں گی؟ اسے کیا خبر میرا کوئی بھائی نہیں ہے جو مجھے لینے آتا ہے اور اسے کیا خبر میرے گھر آنے پر کوئی میرا استقبال نہیں کرتا… میں ہوں اور میری تنہائیاں ہیں لیکن تم تو سب جانتی ہو عینی…!
اچھا سنو ! ارحہ کہہ رہی تھی تم بھی اسے فالو کرو ۔ کر لینا۔ تم بھی اسکی دوست بن جانا۔ وہ پریشان ہوگی۔ ویسے تو وہ خود ہی رو دھو کر ٹھیک ہو جائے گی مگر تم بھی کبھی کبھار پوچھ لینا۔ اچھا چلتی ہوں ، مجھے بہت نیند آرہی ہے۔ کل بات ہوگی… ”اس نے جمائی لے کر آڈیو سینڈ کی۔
اکاؤنٹ سوئچ کیا۔ حورالعین کا اکاؤنٹ کھولا۔ اپنی ہی بھیجی ہوئی پورے پندرہ منٹ کی آڈیو سنی اور پوری دلچسپی سے سن کر اس پر تبصرہ بھی کیا ۔ پھر ارحہ کو ریکویسٹ بھیجی۔
ایک دو سٹوریز لگا کر مائدہ والے اکاؤنٹ کو ٹیگ کیا اور اگلے دو گھنٹے یوں ہی لیٹے سکرولنگ کرتی رہی تھی۔
کمرے میں پھیلے اندھیرے میں کوئی کمی نہ آئی تھی بلکہ وقت کے ساتھ اور گھپ ہورہا تھا۔
٭٭…٭٭
اگلے دن آفس پہنچ کر جو پہلا دھچکا اسے لگا تھا وہ فریحہ کی پروموشن کا تھا۔
٭٭…٭٭
Zabardast ❤
Good starting with moral ending 👌
I love your writing style because it’s engaging and beautiful 😍
Marvelous start… 🙂
Marvelous start… 🙂