منجانب : اسماء عباسی
شہر کی شاہراہوں پر پڑتی دوپہر کی چلچلاتی دھوپ کے باوجود وہاں کے ہجوم میں کوئی کمی نہ آئی تھی۔ لوگوں کو شاید موسم کی تپش سے کوئی غرض نہ تھی یا شاید انکے پاس اور کوئی چارا نہ تھا۔ پھر اس مہنگائی کے دور میں کیا کسی کے پاس دھوپ چھٹنے تک کا انتظار کرنے کا وقت تھا ؟ یہ دھوپ، یہ کٹھن تو اب لوگوں کی زندگی کا حصہ بن چکی تھیں ۔ اس میں سست پڑنے والے یقیناً پیچھے رہنے والے تھے جو کہ کسی کو منظور نہ تھا ۔
اسی گہما گہمی کی زندگی سے دو سیڑھیاں اوپر چڑھ کر آؤ اور شیشے کا دروازہ کھول کر اندر جھانکو تو الگ ہی دنیا کو بیٹھے، اپنے مہنگے مہنگے کھانے سامنے رکھے خوش گپیوں میں مشغول پاؤ گے۔
وہاں کی زندگی میں ٹھہراؤ سا تھا ۔ ایسے جیسے لوگ اپنے سارے دکھ، غم، پریشانیاں اس دروازے کے پار چھوڑ کر اندر آئے تھے۔
تبھی کسی نے کاؤنٹر ٹاپ انگلیوں کی مدد سے بجا کر وہاں موجود عملے کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
’’یس میم؟‘‘ اس لڑکے نے مؤدبانہ انداز میں سامنے کھڑی لڑکی سے پوچھا ۔ جو ہلکے نیلے رنگ کے کرتے کے ساتھ اسی رنگ کے دوپٹے کو گلے میں ڈالے، کچھ تیکھے انداز سے اسے دیکھ رہی تھی۔
’’آپ کو کیا آرڈر کیا تھا؟‘‘لہجہ تیکھا مگر ہموار تھا۔
’’آپ مجھے رسید دکھا سکتی ہیں؟ ‘‘ مصلحانہ انداز میں کہا ۔ اس بار اس لڑکی کی بجائے ساتھ موجود لڑکی نے وہ رسید کاونٹر پر رکھی تھی۔
اس لڑکے نے رسید دیکھی۔ غلطی کا احساس ہوا۔
”سوری میم۔ کچھ منٹ میں آپکا آرڈر آپکے ٹیبل پر آجائے گا۔”
”ذرا ان چیزوں کا خیال رکھا کریں۔ آپکی وجہ سے پہلے ہی بہت وقت ضائع ہوچکا ہے ۔ ” وہ لڑکی بول رہی تھی جبکہ دوسری لڑکی نے اسکے بازو پر ہاتھ رکھ کر اسے روکا۔
ورکر ابھی بھی سوری کہہ رہا تھا جبکہ وہ دونوں واپس مڑ گئیں۔
”یار! کیوں ہائپر ہو رہی ہو، جانے دو۔ ایسے ہی موڈ خراب کر رہی ہو اپنا ۔” اپنی نشست پر بیٹھتے ہوئے دوسری لڑکی نے سمجھانا چاہا ۔
”موڈ تو خراب ہی ہوگا یار۔ پچھلے آدھے گھنٹے سے ہمیں کہہ رہے ہیں آپ کاآرڈر آرہا ہے اور آیا بھی تو یہ… آدھے گھنٹے میں ہمیں واپس آفس پہنچنا ہے اور یہاں کھانے کا کوئی دور دور تک امکان نہیں ۔ میں ذرا انکو ایکسپوز کرتی ہوں سوشل میڈیا پر پھر انھیں پتہ چلے گا۔ ” وہ لڑکی شاید اتنی آسانی سے معاف کرنے والی نہ تھی۔
”ہاں پچھلی بار تم نے جو کمپلین کی تھی اسکے بہانے ہمیں فری کھانے کو ملا تھا ۔ اس بار بھی ایسا کچھ ہو جائے تو مزہ آجائے ۔” دوسری لڑکی مزے سے ہنسی۔
”یار بات فری کھانے کی نہیں ہے۔ بلکہ اپنے کام سے مخلصی کی ہے ۔ جو ہمارے ہاں کے لوگوں میں کم سے کم تر ہو گئی ہے۔”
”یار ہم خود بھی کہیں نا کہیں غلطی کر جاتے ہیں ۔ انسان ہیں۔ اتنا تو اگلے کو فری ہینڈ دینا چاہیے۔”
”بالکل سب غلطی کرتے ہیں مگر اسے اون بھی تو کریں ناں۔ ”
”وہ بھی تو اون کر رہا تھا۔ معافی مانگ رہا تھا۔”
”معافی مانگنے اور اون کرنے میں فرق ہے۔ اون کرنے کا مطلب ہے کہ اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا ہے اور اس بار ہمیں ہمارا آرڈر جلد از جلد دے گا۔” وہ ابھی بات کر ہی رہی تھی کہ ایک ویٹر ٹرے لئے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آتا دکھا۔
وہ دیکھ چکی تھی۔ تبھی خاموشی سے دیکھنے لگی کہ آیا وہ انہی کے ٹیبل کی طرف آرہا ہے یا نہیں۔ دوسری لڑکی نے بھی گردن موڑ کر اسی طرف دیکھا۔
”دیکھتے ہیں وہ جھوٹی معافی مانگ رہا تھا یا واقعی غلطی اون کی تھی۔” اس لڑکی نے گردن واپس موڑ کر پہلی لڑکی کو دھیرے سے کہا۔
ویٹر کے قدم ان کے ٹیبل کی طرف ہی تھے ۔ جو چند لمحوں بعد ان کے قریب آکر رکے۔
”ہمارے عملے کی طرف سے معذرت کے طور پر یہ ڈرنک آپ کے لئے فری ہیں ۔” ٹرے ٹیبل پر رکھ کر اس نے مؤدبانہ انداز میں اطلاع دی۔
اس لڑکی کو ہلکی سی شرمندگی ہوئی ۔ وہ یوں ہی بڑی بڑی باتیں کر گئی تھی۔ ویٹر واپس چلا گیا تو سامنے بیٹھی لڑکی نے ہنس کر اسے دیکھا۔
”تو مس ارحہ۔ کیا آپ اپنی بات سے پلٹ رہی ہیں ؟ ”مائدہ نے ٹیبل پر جھک کر شرارت سے پوچھا۔
’’یار مائدہ مجھے اب برا لگ رہا ہے۔ایسے ہی زیادہ بول گئی ہوں۔‘‘
”اٹس اوکے ۔ جاتے ہوئے تھینک یو بول دینا۔ اب جلدی سے کھاؤ واپس بھی جانا ہے۔”انھوں نے ہلکی پھلکی باتوں کے درمیان جلدی جلدی کھانا کھایا۔ کچھ تصاویر لیں۔ گھڑی پر دیکھا تو بریک ختم ہونے میں پندرہ منٹ رہ گئے تھے۔
”میں ذرا ریسٹ روم سے ہو کر آتی ہوں تم پلیز جلدی سے گاڑی کرواؤ۔” ارحہ کہہ کر اٹھنے لگی ۔
”میرا پیکج نہیں ہے یار ۔” اسکی بات پر ارحہ نے جلدی سے موبائل کا لاک کھول کر اسے تھمایا اور تیزی سے آگے بڑھی ۔ وہ ہمیشہ ہی بریک سے لیٹ ہوجاتی تھیں ۔ آج پھر سے وہ اپنے باس کی بے عزتی نہیں سن سکتی تھیں۔
٭٭…٭٭
دن ختم ہو کر رات اور پھر اگلے دن میں تبدیل ہوا تو آفس میں ورکرز کی آمدرورفت شروع ہوگئی تھی۔تبھی ارحہ بھی اپنی منزل پر پہنچ کر لفٹ سے برآمد ہوئی تو خوبصورت سا جامنی رنگ کا سوٹ زیب تن کیا ہوا تھا۔
راہداری میں کچھ لوگوں کو سلام دعا کرتی جب اپنے کیبن پہنچی تبھی مائدہ کو موبائل اٹھائے بھاگ کر آتے دیکھا۔
”تم یقین نہیں کرو گی کہ میں ابھی کیا پڑھ کر آرہی ہوں۔”
”باس نے پھر کسی کو میسج پر ٹرمینیٹ کر دیا ہے کیا؟” لاپرواہی سے پوچھا۔
”وہ لڑکا ڈیزروو کرتا تھا،ارحہ… اسکی حرکتیں ایسی تھیں کہ اسے ایسے ہی نکالا جائے۔” مائدہ شاید برا مان گئی تھی۔
”پھر تو اپنے لیے سٹینڈ لینے والے ہر شخص کو نکال دینا چاہیے۔”
”سٹینڈ لینے کا طریقہ ہوتا ہے یار ۔ خود کو بچانے کے لئے وہ کسی کو تو گندا نہ کرتا۔ ” مائدہ کے لہجے سے لگ رہا تھا کہ اسے ارحہ کی بات بری لگ رہی ہے۔
”اچھا دفعہ کرو اسے ۔ تم بتاؤ کیا کہنے آئی تھی؟” ارحہ نے محسوس کیا کہ وہ ناراض ہوگئی تھی۔ پھر کچھ ہی لمحوں میں اس نے وہ ناراضگی پس پشت ڈالی اور موبائل اسکی طرف بڑھایا۔
اسے مائدہ کی یہی بات اچھی لگتی تھی وہ زیادہ دیر ناراض نہیں رہتی تھی ۔ بھول جاتی تھی، درگزر کر دیتی تھی۔
”تمہیں یاد ہے کل کیا ہوا تھا ہمارے ساتھ؟ ”
”کل؟” پھر اسے ریسٹورنٹ والی بات یاد آئی۔
”اچھا وہ۔ اس کا ابھی کیا ذکر؟”
”یہ دیکھو۔ کسی نے اس ریسٹورنٹ کے خلاف پوسٹ ڈالی ہے… اور تو اور اس نے وہ وہ باتیں کی ہیں جو ہم نے فیس کی تھیں ۔ ایک ہی دن میں دو واقعات، اتنا بڑا اتفاق۔” مائدہ کی آنکھیں اور کھلیں۔
”اتنا بڑا واقعہ بھی نہیں تھا۔ یہ تو روزانہ کی بنا پر ہوتے ہوں گے ، ہم جیسے لوگ خاموش رہ جاتے ہیں۔ مگر ہر کوئی خاموش نہیں رہتا۔”
”ہم سے تو انھوں نے سہی سے معذرت بھی کر لی تھی ۔ ہمیں کیا ضرورت اس کے بعد بھی کسی کو ایکسپوز کرنے کی۔”
”اس سے بھی یقیناً معذرت کی ہوگی مگر ہر کوئی معذرت قبول نہیں کرتا۔ ہم اچھے ہیں جو کچھ نہیں کہتے۔” ارحہ کی بات پر وہ دونوں ہنس دیں۔
مائدہ کے جانے کے بعد اس نے اپنے موبائل سے سوشل میڈیا کھولا اور وہی پوسٹ دیکھی۔
مائدہ سہی کہہ رہی تھی واقعی اس پوسٹ اور انکے ساتھ ہونے والے واقعے میں بہت زیادہ مماثلت تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے ان کے ساتھ ہونے والے تجربے کو لکھا ہو۔
”خیر دنیا میں ایسے اتفاقات ہوتے ہیں۔” ارحہ نے کندھے جھٹک کر سکرین کے اوپر بنے گولوں میں موجود لوگوں کی ”سٹوریز” دیکھنا شروع کیں۔
انہی میں ایک مائدہ کی بھی تھی۔ کوئی’ کارپوریٹ سلیوز'(Corporate Slaves) کے متعلق میم(meme) تھی جس میں اس نے اپنی کسی کالج کی دوست کو ٹیگ کیا ہوا تھا۔ ارحہ کو پڑھ کر ہنسی آئی۔ شکر کہ ان دونوں نے اپنے اکاؤنٹس میں آفس کے کسی شخص کو ایڈ نہ کیا تھا ورنہ انھیں بھی میسج پر فارغ کر دیا جاتا۔ ارحہ ایک بار پھر ہنسی۔
٭٭…٭٭
”یہ پوسٹ میں ایک ریسٹورنٹ کے خلاف کر رہی ہوں۔ جنھیں اپنے کسٹمرز کو انتظار کرانے کا بہت شوق ہے ۔ میں اور میری دوست نے لوگوں سے اچھے ریویوز سننے کے بعد انکا کھانا کھانے کا سوچا مگر مایوسی تو تب ہوئی جب انھوں نے ہمیں آدھے گھنٹے سے زیادہ بٹھائے رکھا۔ اور جب…”
موبائل کی سکرین پر انگلیاں بہت سرعت سے چل رہی تھیں۔
٭٭…٭٭
”کل کا کیا پلان ہے؟” آفس کا دروازہ کھول کر وہ دونوں باہر نکل رہی تھیں جب ارحہ نے پوچھا۔
” گھر میں کچھ کام ہیں۔ امی کے ساتھ جانا ہے۔ پھر سوچ رہی ہوں اپنی دوست سے مل لوں ۔ کافی عرصے سے ملاقات نہیں ہوئی۔”اسکی بات پر ارحہ کو کچھ سوچ کر ہنسی آئی۔
”یہ جو تم پوسٹس لگا رہی ہو۔ ایک آدھ باس کو بھی بھیج دینا۔ انھیں بھی پتا چلے تمہاری کیا رائے ہے بے وجہ کی میٹنگز کو لے کر۔”
”ہاں تاکہ وہ میری اس افس میں آخری میٹنگ ہو۔” وہ دونوں ہنس دیں۔
”کس بات پر ہنسا جا رہا ہے۔ ”آفس کی ایک لڑکی ان کی طرف آرہی تھی جسے دونوں نے ہنس کر اس میم کے بارے میں بتایا تھا۔
٭٭…٭٭
گاڑی سے اتر کر اس نے قدم آگے بڑھائے۔ وہ ایک پانچ منزلہ بلڈنگ تھی۔ جس کے تیسرے فلور پر اسکا اپارٹمنٹ تھا۔ سیڑھیاں چڑھ کر جب وہ اپنے گھر کے دروازے پر پہنچی تو چہرے پر ویرانی چھائی ہوئی تھی۔ پرس ٹٹول کر چابیاں نکالیں ۔ دروازہ کھولا تو گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ ٹھنڈی سانس اندر کھینچ کر اس نے دروازہ اپنے پیچھے بند کیا۔ اور لائٹس آن کئے بغیر وہ اندر کی طرف بڑھ گئی ۔ اسے روشنی سے کوئی غرض نہ تھی۔
اکیلا پن اور تنہائیوں سے اس کی خوب بنتی تھی۔
٭٭…٭٭
”ارحہ میڈم؟” دروازہ ناک کر کے ایک ورکر نے اندر جھانکا۔
” آپ کو باس بلا رہے ہیں۔”
”اللہ خیر۔ انکا موڈ کیسا ہے؟”
”نہیں پتا جی۔ پچھلی بار آپ کو کہا تھا کہ وہ اچھے موڈ میں ہیں اور آپ نے مجھے آکر سنائی تھیں۔”
”ہاں کیوں کہ وہ تب اچھے موڈ میں نہیں تھے اور مجھے سننے کو ملی تھیں۔” ارحہ نے اٹھتے ہوئے کہا۔
”مجھے کیا پتہ تھا کہ آپ سے بات کرنے کے بعد انکا موڈ خراب…” ارحہ کو گھورتا پا کر اس کی زبان رکی۔
”جو شخص اپنے باس کا موڈ نہیں پہچان سکتا وہ ایک ناکام انسان ہوتا ہے باقر ، یہ بات یاد رکھنا۔ ”وہ کہہ کر دروازے سے باہر نکل گئی ۔ باقر نے ہاتھ جھلا کر جیسے ناک سے مکھی اڑائی۔ ارحہ کو وہ ویسے بھی سیریس نہیں لیتا تھا۔
قریب سے گزرتی مائدہ نے اسے روکا۔
”باقر بھائی! خیریت ہے۔ ارحہ باس کے آفس جا رہی ہے۔” مائدہ کی نظر باس کے آفس کے پیچھے گم ہوتی ارحہ کی طرف تھی۔
”باس نے بلایا ہے انھیں۔”
”موڈ کیسا تھا ان کا ؟” اس نے بھی وہی سوال کیا مگر کچھ پریشانی کے ساتھ۔
”ٹھیک نہیں تھا ۔ غصے میں لگ رہے تھے۔” اس بار باقر نے سیدھا جواب دیا کیونکہ مائدہ کم از کم ارحہ کی طرح کاٹ کھانے کو نہیں دوڑتی تھی۔ وہ دونوں قریباً دو سال سے یہاں کام کر رہی تھیں ۔ دونوں نے تقریباً ساتھ ہی جوائن کیا تھا ۔ دونوں میں بنتی بھی بہت تھی مگر دونوں کی شخصیات بہت منفرد تھیں۔
بات کرنے کا طریقہ صرف مائدہ کو آتا تھا ۔ یہ بات باقر بہت آسانی سے کہہ سکتا تھا۔
مگر باقر کی اطلاع پر مائدہ کچھ پریشان دکھنے لگی تھی ۔ باس کا موڈ خراب ہونے کا مطلب آپ عزت افزائی کے لئے تیار ہو جاؤ۔
٭٭…٭٭
”السلام علیکم سر!” سلام کر کے جب وہ کرسی پر بیٹھی تو باس نے لیپ ٹاپ سے سر اٹھا کر ایک نظر اسے دیکھا۔
”جی مس ارحہ! کام کیسا جا رہا ہے؟” باس نے اسکا نام غلط لیا تھا۔
”سر۔!میرا نام اِرحہ ہے ۔ الف کے نیچے زیر۔ آپ نے زبر…”
”یقیناً کام اچھا جا رہا ہوگا ۔” پچاس سالہ باس نے اس کی بات کو خاطر میں نہ لایا تھا ۔ وہ برہم بھی لگ رہے تھے۔
”جی سر۔ اللہ کا شکر ہے۔” ارحہ ان کے موڈ کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔
”فیصل سے کوئی رابطہ ہے آپکا؟”
”نہیں سر۔ خیریت ہے؟” فیصل ان کا وہی کولیگ تھا جسے میسج کر کے فائر کیا گیا تھا۔
”کوئی رابطہ کرنے کی کوشش کی ہو اس نے؟” وہ اب ٹیک لگائے کوہنیاں دونوں ہینڈل پر رکھے ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پیوست کئے اس سے پوچھ رہے تھے۔
”نہیں سر۔ جب سے وہ یہاں سے نکالا گیا ہے نہ اس نے کوئی رابطہ کیا ہے نہ ہی میں نے رابطہ رکھنے کی کوشش کی ہے۔ سب ٹھیک ہے؟ ”وہ پریشانی سے پوچھ رہی تھی۔ ضرور کچھ ہوا تھا۔
”دیکھیں مس ارحہ…” اس بار انھوں نے نام سہی لیا تھا۔
”آپ ہماری بہت قابل اور محنتی ایمپلائی ہیں مگر ہمیں اپنے ایمپلائی سے ایمانداری بھی چاہیے ہوتی ہے ۔ ہمیں پتا چلا ہے کہ آپ فیصل سے رابطے میں ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ آپ انکے ساتھ مل کر کمپنی کے بارے میں نا مناسب الفاظ بھی استعمال…”
”سر! یہ آپ سے کس نے کہا؟ ” وہ شاک کے عالم میں ان کا منہ دیکھنے لگی۔
Zabardast ❤
Good starting with moral ending 👌
I love your writing style because it’s engaging and beautiful 😍
Marvelous start… 🙂
Marvelous start… 🙂