افسانے

قصہ ایک دوپہر کا: عائشہ آصف

بلند و بالا درختوں کے بیچ ’’پولو گراؤنڈ‘‘جیسے نظر آتے ہموار گھاس کے قطعے پر وہ تنہا کھڑی تھی۔
ایسا چمکتا سنہرا دن۔
درختوں سے جیسے چاندی چھلک رہی تھی ۔ جس کی چمک سے آنکھیں خیرا ہوئی جا رہی تھیں۔ آنکھوں کے آگے ہاتھ کا چھجا بنائے اس نے اردگرد دیکھا ۔ گہرے سبز گراؤنڈ اور گھنے درختوں کے سوا اسے کچھ نظر نہیں آیا ۔ اس نے اپنے پہلو ٹٹولے ۔کمر کے ساتھ چمڑے کا ایک بیگ لٹک رہا تھا جسے کندھے سے اتار کے وہ وہیں زمین پر بیٹھ گئی۔
اس نے بیگ کھولا۔اندر چند کپڑوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ ہلکے گرے اور سفید رنگ کے سوٹ۔ یہ کپڑے اس کی الماری میں پہلے تو موجود نہیں تھے۔وہ حیران ہوئی۔
’’میں کہاں ہوں؟‘‘ اس نے اندازہ لگانے کی کوشش کی۔
’’میں کہاں سے آئی ہو؟‘‘ ناکامی پر اگلا سوال سوچا۔
’’اسلام آباد؟‘‘ وہ اسلام آباد سے آئی ہے۔
ذہن میں جھماکہ ہوا۔ وہ تیزی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔کیا یہ اسلام آباد کا کوئی علاقہ تھا ؟
پر سوچ نظروں سے اردگرد دیکھتی وہ ایک طرف چل دی ۔ درختوں کے جھنڈ کے پار اسے کالے پتھروں سے بنی ایک طویل دیوار نظر آئی ۔اس دیوار کے پار کیا تھا ، اسے تجسس ہوا۔ روئی کے گالوں جیسے سفید ملائم بادل اس کے چہرے سے ٹکرا رہے تھے جن کو ایک ہاتھ سے جھٹکتی وہ آگے بڑھنے لگی۔ ہر طرف ایک دھندلکا سا تھا جو بصارت کو متاثر کر رہا تھا۔ قدم قدم چلتی وہ دیوار کی طرف بڑھی۔ اس کے پاؤں جیسے نرم روئی پر چل رہے تھے ۔ کچھ حیران ہوتے ہوئے اس نے اپنے پیروں کی طرف دیکھا ۔ جوتوں سے آزاد اس کے پاؤں جیسے ہوا پر دھرے تھے۔وہ دھک سے رہ گئی۔ پاؤں کو جھٹکتے وہ انہیں محسوس کرنے کی کوشش کر نی لگی۔ ایک پاؤں ہوا میں اٹھانے کی وجہ سے وہ توازن برقرار نہ رکھ سکی اور لڑکھڑا کر گر پڑی۔
’’آہ…‘‘
درد کے احساس سے اس نے چلانا چاہا مگر اسے کچھ محسوس نہ ہوا ۔ کچھ سرا سیمہ ہو کر نگاہ اٹھائی تو سامنے کا منظر ہی بدل چکا تھا۔
نئے نظر آتے منظر میں وہ ایک طویل سڑک کے کنارے پڑی تھی ۔ جس کے داہنے ہاتھ ایک راستہ سفید گنبد نما عمارت پر ختم ہو رہا تھا ۔ وہ سرعت سے اٹھی اور تقریبا بھاگتے ہوئے اس عمارت تک پہنچی ۔ سفید عمارت ملگجے اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ پلٹ کر دیکھا ۔ جہاں سے وہ آئی تھی وہ راستہ بھی دھندلا دکھائی دے رہا تھا ۔ ایک عجیب سی پُر اسراریت تھی ۔ گھٹی گھٹی سانسیں لیتی وہ شدید خوف میں گری چاروں طرف دیکھ رہی تھی ۔
’’جگہ چاہیے رہنے کو؟‘‘ بھدی نسوانی آواز پر وہ دہل گئی۔
ایک موٹی بھدی خاتون کینہ توز نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کا دل پسلیاں توڑ کر باہر آنے کو بے تاب تھا۔
’’نئی آئی ہو؟‘‘ موٹی عورت نے اسے خاموش دیکھ کر دوبارہ پوچھا۔
بدقت تمام سر ہاں میں ہلایا۔ وہ اس وقت کہاں تھی؟ وہ سمجھ نہ پا رہی تھی۔
’’وہاں چلی جا۔‘‘ خاتون نے ایک طرف اشارہ کیا۔
گردن گھما کر دیکھا ۔ وہاں نیم اندھیرے میں بہت سارے گدھے بچھے ہوئے تھے ۔ جن کے اوپر بچھی میلی چادروں پہ بہت سے نسوانی وجود آرام فرما تھے ۔ انہی میں سے ایک خالی گدے کی طرف اس خاتون نے اشارہ کیا تھا۔ گردن پہ ہاتھ پھیر کے اس نے سانس لینے کی سعی کی جو سینے میں اٹکا جا رہا تھا۔
’’کیوں جگہ پسند نہیں آئی؟ ‘‘
خاتون کی آواز پر وہاں موجود تمام وجود چبھتی ہوئی نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگے۔
’’ جا آگے چلی جا ، بہت ساری جگہیں ہیں ۔ جہا ں تیرا نصیب ۔ ‘‘ ہاتھ جھلا کر اس موٹی خاتون نے بیزاری سے کہا۔
شدید خوف میں گری وہ الٹے قدموں بھاگتی ہوئی عمارت سے نکلی۔ باہر سے سفید نظر آتی عمارت کے اندر کتنی سڑاند تھی اسیکراہیت آئی۔
’’اب کس طرف جاؤں ؟‘‘ سر پہ اسکارف درست کرتے وہ سوچنے لگی۔
’’یہ اسکارف میں نے کب خریدا؟‘‘ چاندی جیسے سفید اسکارف کا ریشم بہت خوبصورت تھا ۔ سر پہ ہاتھ پھیرتے وہ سوچ رہی تھی۔
سفید بادلوں کی دیوار کے پار اب اسے پانی کا چشمہ نظر آیا تھا۔
’’مجھے پیاس لگی ہے؟‘‘ لمحہ بھر رک کے اس نے سوچا مگر اسے کچھ محسوس نہ ہوا۔سر جھٹک کر وہ چشمے کی اور چل دی۔
سر سبز میدان میں چشمے کے قریب ایک لڑکی اسی کی طرح کا سفید اسکارف اوڑھے ، زمیں پر آلتی پالتی مارے سفید کاغذ پر مور کے پنکھ کی طرح نظر آتے قلم کے ساتھ کچھ لکھ رہی تھی ۔ وہ عین اس کے سر پہ جا رکی تو لڑکی نے سر اٹھایا۔ زندگی کی رمق سے آزاد سفید چہرہ اور بے رونق آنکھیں دیکھ کر اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی۔
’’نئی آئی ہو؟‘‘اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتی اس لڑکی نے بھی اس خاتون کی طرح کا سوال کیا۔
’’ہاں۔‘‘ اس نے بولنے کی کو شش کی مگر الفاظ حلق میں میں دب کر رہ گئے اور وہ صرف سر ہلا سکی۔
’’میرا امتحان ہے آج اس کی تیاری کر رہی ہوں ۔ ‘‘ اس کی سوالیہ نظریں رجسٹر پر محسوس کر کے لڑکی نے کہا۔
’’امتحان؟‘‘ بمشکل حلق سے آواز نکلی۔
’’کیوں تمہارا نہیں ہے؟‘‘
’’میرا؟‘‘ اس نے سوچنا چاہا۔
’’تمہارا پاس کہاں ہے؟‘‘
’’پاس؟ ‘‘
’’کارڈ یا پاس کچھ بھی۔‘‘
’’وہ کہاں سے ملتا ہے؟‘‘
’’وہ ادھر سے۔‘‘ ایک طرف اشارہ کر کے وہ سر جھکا ئے دوبارہ لکھنے لگی۔
نگاہ اٹھاتے ہی وہ چونک گئی سامنے وہی کالے پتھروں سے بنی دیوار تھی جس کا وہ تعاقب کر رہی تھی۔
’’تم وہاں جاؤ ۔ پہلی کھڑکی سے تمہارا پاس بنے گا ۔ پاس لے کر چوکیدار کے پاس جانا ۔ آگے وہ تمہیں بتا دے گا کہ کہاں جانا ہے۔ ‘‘اپنا رجسٹر اٹھائے وہ چل دی۔
’’سنو یہ جگہ کونسی ہے مجھے یہ تو بتا دو۔‘‘ پیچھے سے وہ اسے آواز دیتی رہ گئی مگر وہ سفید بادلوں میں کھو چکی تھی۔
سب کچھ بہت عجیب تھا۔ سر جھٹک کر وہ اس دیوار کی طرف چل دی ۔ کالے پتھروں سے بنی اس اونچی دیوار کے پار کیا تھا اسے کچھ اندازہ نہیں تھا ۔ دیوار کے درمیان میں نظر آتی کھڑکی کا ہولے سے شیشہ بجایا۔
’’کیا کام ہے؟‘‘ اندر سے مبہم سے مردانہ ہیولے کی جھلک نظر آئی۔
’’مجھے پاس بنوانا ہے؟‘‘ تھوک نگلتے ہوئے وہ کچھ اٹک کر بولی۔
نہ جانے ذرا سی آواز نکالنے کے لیے اتنا زور کیوں لگانا پڑ رہا تھا۔
’’نام؟‘‘
’’نام؟‘‘ وہ سوچنے لگی۔
’’ارسہ۔‘‘ یکدم یاد آیا۔
’’والدہ کا نام؟‘‘
’’صفیہ۔‘‘ وہ کچھ حیران ہوتے ہوئے ذہن پہ زور دیتے بولی۔
’’یہ لو اور دوسرے کاؤنٹر پہ چلی جاؤ۔‘‘
ہاتھ میں پکڑے چاندی کے ورق جیسے چمکتے پتے نما کاغذ کو دیکھتی تعجب کا شکار تھی۔
’’یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا تھا؟‘‘
دوسری کھڑکی بھی پہلی کھڑکی کی طرح ملگجے اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی۔
وہ ہاتھ میں پکڑے چاندی کے ورق جیسے کاغذ کو کاؤنٹر پہ رکھے انتظار کرنے لگی۔
’’یہ لو اور اس دروازے سے اندر چلی جاؤ۔‘‘
کھڑکی میں موجود چھوٹے سے سوراخ سے ایک گہرے سبز رنگ کا کارڈ باہر آیا۔کارڈ دیکھ کر وہ بھونچکا رہ گئی۔ کارڈ پر اس کے نام کے ساتھ اس کی تصویر بھی موجود تھی۔
’’ یہ …یہ تصویر کہاں سے آئی؟‘‘
’’میری تو کسی نے تصویر نہیں بنائی تھی۔‘‘وہ ذرا زور سے بولی۔
حیرت در حیرت تھی۔ وہ کہاں ہے؟
’’بی بی سوال کی اجازت نہیں یہاں صرف اعمال کی جواب دہی ہوگی۔‘‘ مردانہ زوردار آواز پر وہ سرا سیمہ ہو گئی۔
کچھ غلط تھا اس کے اعصاب جواب دینے لگے ۔ لڑکھڑاتے قدموں سے وہ کالے پتھروں سے بنی دیوار کے ساتھ ساتھ چلنے لگی ۔ گیٹ پر موجود چوکیدار کو پاس دکھایا ۔ اس نے اندر جانے کا اشارہ کیا ۔ ارسہ نے غور سے چوکیدار کا چہرہ دیکھنا چاہا مگر ایک دھند کی چادر تھی جو چاروں طرف چھائی ہوئی تھی ۔ کچھ بھی واضح نہ تھاوہ بلیک دیوار کے اندر نسب جالی دار دروازے کی طرف بڑھی۔
پہلی سیڑھی پر قدم رکھا برف جیسی ٹھنڈی سفید ماربل سے بنی سیڑھی ۔ شدید ٹھنڈک کا احساس اس کے پاؤں سے سیدھا سر تک گیا تھا وہ کانپ کر رہ گئی ۔ یہ واحد چیز تھی جو اس نے اب تک محسوس کی تھی ۔ کپکپاتے ہوئے سیڑھیاں چڑھ کر وہ اندر داخل ہوئی ۔ آگے ایک طویل سفید ماربل سے بنا صحن تھا جس کے پار چند بند دروازے نظر آرہے تھے ۔ وہ کھلے سے صحن کے بیچوں بیچ کھڑی تھی ۔ بڑے بڑے دروازوں کے پیچھے سے کچھ مبہم آوازیں آرہی تھیں ۔ اس نے اوپر آسمان کو دیکھنا چاہا سفید بادل بگولوں کی صورت اس کے سر پر اڑ رہے تھے۔
ہاتھ میں پکڑے پاس پر گرفت مضبوط کرتے وہ اردگرد دیکھنے لگی ۔ صحن کے داہنی طرف وضو خانہ سا بنا ہوا تھا ۔ اس کا مطلب وہ کسی مسجد کے اندر تھی ۔ کچھ سوچتے ہوئے وہ آگے بڑھنے لگی ، اچانک اس کے ذہن میں کوندھا سالپکا ۔ اس نے سرعت سے گردن گھما کر دیکھا ، ا ایک بزرگ وضو خانہ کی چوکی پر بیٹھے وضو کر رہے تھے ۔ چاندی کی طرح چمکتے نل کے اندر سے سفید موتی قطروں کی صورت نکل رہے تھے ۔ جن سے وہ بزرگ اپنا منہ دھو رہے تھے وضو کرنے کے بعد وہ چلتے ہوئے اس کی طرف آئے۔
’’ وضو کر لو تم بھی۔‘‘ لمحہ بھر کو اس کے قریب رک کر وہ بنا اس کی طرف دیکھے گویا ہوئے۔
بزرگ کی داڑھی سے پاؤں پانی لڑیوں کی صورت نیچے گر رہا تھا ۔ وہ اس کے سامنے سے گزرنے لگے ۔وہ ان کا چہرہ غور سے دیکھنے لگی ۔ وہ بزرگ جانے پہچانے لگ رہے تھے۔
وہ اس کے سسر تھے۔ ذہن میں جھماکہ ہوا تو وہ اندھا دھند اس طرف بھاگی جس طرف وہ بزرگ گئے تھے ۔ مگر وہ کسی دروازے کے پار گم ہو چکے تھے ۔ پاگلوں کی طرح بھاگتی وہ ہر دروازے کے قریب جا رہی تھی مگر جیسے ہی وہ دروازہ چھونے کی کوشش کرتی سفید بادل راہ میں حائل ہو جاتے اور وہ اندھوں کی طرح ہاتھ پیر چلانے لگتی۔
’’ ابا جی…‘‘ حلق کے بل وہ چلائی۔
خوف سے اس کا دل بند ہونے کے قریب تھا۔وہ کہاں تھی؟ وہ نہیں سمجھ پا رہی تھی ۔ وہ الٹے قدموں مسجد سے باہر بھاگی تھی۔ کالے پتھروں سے بنی دیوار کے ساتھ ساتھ بھاگتے ہوئے وہ دوبارہ سرسبز قطعے میں نکل آئی۔ گھٹنوں کے بل زمین پر گر کر وہ زارو قطار رونے لگی۔
’’کیوں رو رہی ہو ۔‘‘ نسوانی آواز پر وہ چونک گئی۔
سفید دوپٹے کے نیچے سے کھچڑی نما بال جھلک رہے تھے ۔ جھریوں سے بھرا چہرہ اور دانتوں سے خالی منہ وہ کوئی بھوڑھی خاتون تھیں۔
’’کیا تمہارا فیصلہ ہو گیا؟‘‘ اس کے قریب بیٹھتے ہوئے وہ بولی۔
’’ فیصلہ ، کیسا فیصلہ؟‘‘
اس کے آنسو تھم گئے۔
’’میں کہاں ہوں؟‘‘ بوڑھی خاتون کا آسرا پاتے ہی وہ جلدی سے بولی۔
’’تم وہاں ہو جہاں سے کوئی واپس نہیں جاتا۔‘‘
’’مطلب؟‘‘ وہ چونک گئی۔
بوڑ ھی عورت کے چہرے پر بلا کا سکون تھا۔
’’ مگر مجھے جانا ہے واپس ہر حال میں میں یہاں نہیں رہ سکتی مجھے گھر جانا ہے۔‘‘ بچوں جیسی ضد کے ساتھ وہ روتے ہوئے بولی۔
’’ تم یہاں آئی کیسے تھی؟‘‘
’’میں۔‘‘ چند لمحے رک کر سوچنا چاہا ۔
’’میں شاید اسلام آباد سے مری آئی تھی وہاں پہاڑ سے پیر پھسلا تو یہاں اس وادی میں آ گری ۔ مجھے بہت چھوٹیں آئی تھیں ۔‘‘اس نے بازو ہلا کر شدید تکلیف کو محسوس کرنا چاہا مگر اسے کچھ محسوس نہ ہوا۔
’’ اب تو آگئی ہو تو واپس کیوں جانا چاہتی ہو؟‘‘
’’میرا گھر ہے شوہر ہے بچے ہیں ، میں کیوں نہ جاؤں۔‘‘
’’بچے کتنے بچے ہیں تمہارے؟‘‘
’’ میرے تین بچے ہیں اور ایک تو بہت معصوم صرف تین مہینے کا ہے ۔ ‘‘ ایک دم وہ مامتا سے لبریز لہجے میں بولی مگر اگلا لمحہ قیامت کا تھاوہ گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’ میرا بچہ بہت چھوٹا ہے ۔ مجھے اسے دودھ پلانا ہے ۔ پلیز خدا کے لیے میری مدد کرو مجھے یہاں سے جانا ہے میرا بچہ بہت چھوٹا ہے۔‘‘
بوڑھی عورت کے قدموں میں بیٹھتے ہوئے وہ بلک رہی تھی ۔ وہ کبھی اٹھ کھڑی ہوتی ، کبھی بیٹھ جاتی کسی انہونی کے ڈر سے اس کا دل بند ہوا جا رہا تھا۔
’’ کیا میں یاداشت کھو چکی ہوں؟‘‘
’’ مگر مجھے سب کچھ تو یاد ہے۔ اپنا شوہر ، اپنا سسر ، بچے ، گھر ، امی کا نام … سب کچھ ۔‘‘ انگلیاں چٹکاتے ہوئے وہ ٹہل رہی تھی۔
’’تم یہاں کسی کو جانتی ہو؟‘‘ بڑھیا نے ترحم سے اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔
’’ میں؟‘‘ یکدم اسے بزرگ کا چہرہ یاد آیا۔
’’ہاں وہ میرے سسر تھے ۔ وہ یہیں تھے مگر انہوں نے مجھے نہیں پہچانا۔‘‘ ریتلی ٹھنڈی زمین پر چوکڑی بھرے دونوں ہاتھ گود میں دھرے وہ ہارے ہوئے انداز میں بیٹھی تھی۔
’’ تم انہیں ڈھونڈو۔‘‘ بڑھیا یہ کہہ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’ شاید وہ تمہاری مدد کر سکیں ۔‘‘
’’رکیں آپ کہاں جا رہی ہیں؟‘‘ بڑھیا کو جاتے دیکھ کر وہ لپک کر اٹھی تھی مگر سفید دودھیا بادل نے راستہ روک لیا ۔ ہاتھ سے بادلوں کو چھٹاتے وہ پاگلوں کی طرح بھاگی تھی ۔ بادل تو چھٹ گئے مگر وہ بڑھیا اسے کہیں نظر نہیں آئی۔ وہ وہیں زمین پر بیٹھ کر رونے لگی ۔ چمکتی ہوئی سیاہ تارکول کی سڑک اس کے سامنے تھی جو دور پہاڑوں پر غائب ہو رہی تھی اس کابلکتا وجود جیسے ساکن ہوا۔
’’ اگر میں سڑک پر سیدھا چلتی جائوں تو شاید مری کی اس وادی سے نکل جائے ۔‘‘ اس خیال نے جیسے اس کے اندر برقی رو بھردی۔
گھٹنے پر ہاتھ رکھ کر وہ لڑکھڑاتے ہوئے کھڑی ہوئی بے خیالی میں گھٹنوں سے گرد جھاڑنا چاہی مگر وہ مٹی جیسے عجیب تھی اس نے اپنے ہاتھ کو آنکھوں کے قریب کر کے دیکھا۔ چنبیلی کی مہک سے بھری بربری مٹی چاندی کی طرح چمک رہی تھی۔ اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی۔ اس نے ایسی مٹی تو کہیں نہیں دیکھی تھی۔پھر وہ کہاں ہے؟ یہ سوال اس کے جسم سے روح نکال لینے کے لیے کافی تھا۔ اس نے ارد گرد نظر دوڑائی۔ سڑک کے اردگرد نظر آتے درختوں میں ایک ہی چیز مشترک تھی ۔ اور وہ تھی ان کے وجود سے پھوٹتی خوشبو۔ تمام درختوں کے پتے گہرے سبز تھے مگر ان میں عجیب سی چاندی جھلکتی تھی ، جیسے تمام پیڑ برقی قمقموں سے روشن کیے گئے ہوں اور مٹی ایسی روشن جو سفید کپڑوں کو بھی بے داغ چھوڑ رہی تھی۔
اس کے جسم کارواں رواں کھڑا ہو چکا تھا ۔بمشکل خود کو گھسیٹتے ہوئے وہ سڑک تک آئی اور اس نے پہاڑ کی چوٹی کی طرف چلنا شروع کر دیا۔ وہ پہاڑوں کے پار کسی مین سڑک تک پہنچنا جا رہی تھی جس سے اسے واپس اسلام آباد جانے کا راستہ مل سکے۔ اس کا شوہر اس کے بچے یقینا بہت پریشان ہو رہے ہوں گے۔ بچوں کو یاد کرتے ہوئے وہ سسکنے لگی۔ وہ تمام لوگ جو اسے نظر آئے تھے وہ اب کہیں نہیں تھے ۔ اس کے پاؤں جیسے سڑک پر نہیں روئی پر چل رہے تھے نہ تھکاوٹ کا احساس نہ بھوک اسے کچھ بھی محسوس نہیں ہو رہا تھا۔اس نے اپنے پہلو ٹٹولے اس کا واحد بیگ جو اس کے پاس تھا اس میں چند کپڑوں کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔
ہلکے گرے سفید چاندی کی طرح چمکتے کپڑے۔وہ سخت حیران تھی کہ اگر وہ ٹور پر آئی تھی تو ایک رنگ کے کپڑے کیوں ساتھ لے کر آئی تھی اور اس کے علاوہ کچھ بھی موجود نہ تھا نہ موبائل نہ کرنسی نہ میک اپ کا سامان۔ ہو سکتا ہے وہ کسی دوسرے بیگ میں ہو جو اس کے شوہر کے پاس ہو۔ پہاڑ کی چوٹی سے گرنے کے بعد اسے یاد نہیں آرہا ہے۔ درد کے خیال سے اس نے سر کی چوٹ کو سہلانا چاہا مگر وہاں کوئی زخم موجود نہیں تھا حتی کہ درد کا احساس تک نہیں تھا۔
’’ کیا میں بے حس ہو چکی ہے؟‘‘ سنسناتا ہوا خیال دل کو بری طرح دھڑکا گیا۔
’’ کیا یادداشت کے ساتھ محسوس کرنے کی حس بھی میں کھو چکی ہوں؟‘‘
دور کہیں گھنٹی کی آواز کانوں میں گونج رہی تھی ۔ وہ جو تھک کر پتھر پر بیٹھ چکی تھی اس گھنٹی کے تعاقب میں اندھا دھند بھاگی تھی ۔ آنسوؤں نے دھند کی چادر تانی تو سامنے پڑے ہوئے پتھر کو دیکھ نہ سکی نتیجتا ٹھوکر لگنے سے اڑتے ہوئے سڑک سے نیچے کھائی میں جا گری ۔گھٹی گھٹی چیخ اس کی حلق سے برآمد ہوئی وہ جھٹکا کھا کر اٹھ بیٹھی۔
ڈور بیل کی آواز ہر طرف گونجی تھی ۔ لرزتے ہوئے جسم کو بمشکل سنبھال کر اس نے ارد گرد دیکھا ۔ وہ اپنے لاؤنج میں صوفے کے اوپر پڑی تھی اس کے ساتھ کاٹ میں اس کا تین مہینے کا بیٹا سویا ہوا تھا۔
گھنٹی دوبارہ بجی تو لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کے ساتھ وہ گیٹ تک گئی۔ اس کے دونوں بچے سکول سے آئے تھے ۔ گیٹ لیٹ کھلنے پر وہ ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اندر آئے مگر اس کے منتشر حواس دیکھ کر وہ بھی ٹھٹک گئے۔
’’ کیا ہوا آپ کو ممی؟‘‘ اس کا بڑا بیٹا پریشان سا پوچھ رہا تھا۔
’’ مما آپ ٹھیک ہیں؟‘‘ اس کی بیٹی اس کا ہاتھ تھامے پوچھ رہی تھی ۔ دونوں کو ساتھ لگائے وہ سسک پڑی ۔ وہ پریشانی سے ماں کا چہرہ دیکھنے لگے۔
بمشکل مسکراتے ہوئے وہ دونوں کو ساتھ لے کر اندر آئی ۔ دونوں بھاگتے ہوئے چھوٹے بھائی کی طرف آئے تھے جو ان کی آوازوں پر جاگ گیا تھا اور کاٹ میں لیٹا ہاتھ پاؤں مارتا کلکاریاں بھر رہا تھا۔
ممتا سے لبریز انداز میں اس نے اسے کاٹ سے نکالا۔
’’وہ سب خواب تھا جو میں نے ابھی دیکھا ۔ جس میں ان سب کو کھو چکی تھی یا مرنے کے بعد کی حقیقت۔‘‘
وہ کچھ نہیں جانتی تھی مگر اس نے کھو دینے کے کرب کو محسوس کیا تھا۔ اس نے ’’موت‘‘ کی بے بسی کو محسوس کیا تھا۔
بچے کو سینے سے لگائے اس کا وجودابھی تک لرز رہا تھا۔
٭…٭
’’ کیا سوچ رہی ہو؟‘‘
کپ کے کناروں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ گہری سوچ میں گم تھی جب اس کا شوہر اس کے پاس بیٹھتے ہوئے بولا۔
’’آج ٹی وی بھی بند ہے کہاں کھوئی ہوئی ہو؟‘‘ ریموٹ سے ٹی وی آن کرتے وہ چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے بولا۔
’’آج میں نے عجیب سا خواب دیکھا۔’‘‘ ٹی وی کی آواز اسے ناگوار گزر رہی تھی ۔ میوٹ کا بٹن دباتے وہ رخ شوہر کی طرح موڑتے ہوئے بولی۔
’’ کیسا خواب؟‘‘
’’ بہت عجیب جس میں، میں شاید عالم بالا میں موجود ہوں۔‘‘ اس کی آنکھیں بھرا گئیں۔
کپ رکھ کر وہ بھی سنجیدہ ہوا تھا۔
’’میں نے ابا جی(سسر) کو دیکھا ۔ وہ مجھے پہچان نہیں رہے تھے ۔ میں نے بچوں کو کھو دیا ، آپ کو کھو دیا ۔ میں تنہا تھی ، میں بھٹک گئی تھی ، سب کو ڈھونڈ رہی تھی ۔ میں بہت ڈر گئی تھی۔ میں نے موت کو محسوس کیا ۔‘‘ وہ ہچکیاں لیتے ہوئے بول رہی تھی۔
’’ڈر کیوں گئی تھی؟‘‘ اس کا ہاتھ تھپکتے ہوئے وہ بولا۔
’’ میں نے سب کو کھو دیا تھا۔‘‘
’’ یہ رشتے ناطے اس دنیا میں ہمارے جینے کی بنیاد ہیں وہاں نہیں۔‘‘ انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔
اس کے آنسو تھمے۔
’’ جب ہم اس دنیا میں آئے تھے ۔ ہمیں یہ سب رشتے ناطے بنے بنائے ملے تھے ، ہمیں بھٹکنا نہیں پڑا تو وہاں کیوں بھٹکیں گے ہم ۔‘‘
وہ حیران آنکھوں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
’’یہاں اِس دنیا کے اصولوں کے مطابق جی رہے ہیں ۔ وہاں اُس دنیا کے اصولوں کے مطابق جئیں گے ۔ جیسے ہمیں اس دنیا کا پیدا ہونے سے پہلے پتہ نہیں تھا ۔ ویسے مرنے سے پہلے ہم وہاں کا حال کیسے جان سکتے ہیں ۔‘‘اس کے الفاظ اسے ڈھارس دے رہے تھے۔
’’ ہمیں وہ کرنا ہے یہاں جو ہم کرنے آئے ہیں ۔ یعنی اپنے فرائض کی اچھی طرح ادائیگی ۔ جب یہاں سب اچھے سے کرو گی تو وہاں بھی سب اچھا ہی ہوتا جائے گا ۔ تم خوفزدہ ہوئی کیونکہ تم ابھی زندہ ہو ۔ مگر تم نے ابا جی کو خوفزدہ دیکھا؟‘‘
اس کا سر نفی میں ہلا۔
’’ وہاں عذاب ہوگا یا جنت ملے گی ۔حساب کتاب کیسے ہو گا ؟ یہ سب راز ہیں ۔ اور ان کے بارے میں سچ کہوں تو ہم جیسے لوگوں کی معلومات بھی ناقص ہیں ۔ ہمیں مومن ہونے کے ناطے ان چیزوں سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے ۔ ہمیں بس وہ کرنا چاہیے جس کے لیے ہم یہاں اس دنیا میں آئے ہیں ۔ اس لیے موت کے خوف کو سر پہ سوار نہ کرو وہ تو ہر حال میں آنی ہے۔‘‘
’’رہی آنے والی زندگی کی بات۔‘‘ لمحہ بھر رک کے وہ گویا ہوا۔
’’ ہمارے اللہ نے جب ہمارے لیے یہ دنیا خوبصورت بنائی ہے تو آخرت بھی بنائی ہوگی۔ انشا ء اللہ۔‘‘
’’ ٹھیک ہے؟‘‘ اس کا ہاتھ تھپتھپا کے بولا۔
اس کے نرم لفظوں سے اسے ڈھارس ملی تھی ۔ اس کا شوہر ٹی وی کی طرف متوجہ ہو چکا تھا ۔ وہ خاموشی سے باہر صحن میں نکل آئی ۔ دن بھر کا تھکا ہوا سورج ڈھلنے کے قریب تھا ۔ درختوں کے پتے بھی دن بھر کے تمازت سہنے کے بعد سر جھکائے سستانے لگے تھے ۔ ابھی شبنم کے نم قطرے انہیں بھگو دیں گے اور وہ نیند کی ٹھنڈی میٹھی وادی میں کھو جائیں گے۔
سورج بھی دن بھر کی مشقت کے بعد غروب ہو جائے گا ۔ پھر تاریکی چھا جائے گی ۔ دن اپنا فرض ادا کرچکا اب رات آئے گی ، میٹھی نیند کوکھ میں سمیٹے ‘ تھکے جسموں کو راحت دینے ۔ زندگی کی بھی کچھ ایسی ہی حقیقت ہے ۔ تمام عمر زندگی کے سردو گرم سہنے اور اپنے فرائض ادا کرنے کے بعد ہم سب موت کی آغوش میں کھو جائیں گے ۔ ہماری نیند مہربان ہوگی یا نہیں ۔ یہ تو اپنے اللہ پر یقین کی بات ہے اور وہ بے شک بہترین بدلہ دینے والا ہے۔
وہ طمانیت سے مسکرا دی تھی۔
٭٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page