صنم ۔ حفیظہ لعل دین
ماگھ کا مہینہ نیلے خالی آسمان تلے چھایا ہوا تھا۔ ہوائیں اپنے ہونے کا احساس ہر ذی روح کو دلا رہی تھیں۔ اسی نیلی چھتری تلے حورم نے بڑی دقت سے جوتا اتارا اور درگاہ کے دروازے کے ساتھ لگ کر کھڑی ہو گئی۔ سامنے سبز گنبد نظر آ رہا تھا۔ جس پر کبوتر بیٹھے تھے مگر کچھ کبوتر اسی گنبد کے اوپر چکر کاٹ رہے تھے۔ اُس کے قدم اُسی گُنبد کے سامنے رک گئے تھے۔ اُس نے مزار کے اردگرد دیکھا ۔ وہاں زائرین کی تعداد حد سے سوا تھی۔ کہیں کوئی جھوم رہا تھا تو کوئی التجائی نظروں سے ہر چہرہ دیکھ رہا تھا کہ کوئی اسے بھیک دے یا کچھ دے جائے جس سے پیٹ کی آگ بجھ سکے ۔ بائیں طرف قوال بیٹھے’’ اس شانِ کرم کا کیا کہنا‘‘ سبھی کو سنا رہے تھے۔
اس نے نظر گھمائی ۔ تو اسے مزار سے قدرے داہنی طرف دھریک کے درخت تلے ایک جھرمٹ نظر آیا۔ اس نے مزار کی طرف نہیں جانا تھا اور نہ ہی ان قوالوں کی طرف بلکہ اُس نے اُس جھرمٹ کی طرف جانا تھا کیونکہ اُسی جھرمٹ میں وہ تھا ۔ وہی جس کے ساتھ کی قسم اس نے روحوں والے دن کھائی تھی ۔
اب اس کے قدم اسی جھرمٹ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ جلدی جلدی سے۔
اور وہ پھر بلآخر جھرمٹ کے پاس جا پہنچی۔ وہ اس کے سامنے ہی آنکھیں کھولے، ساکت پتلیوں کے ساتھ کھڑا تھا۔
وہ کھڑی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
٭٭…٭٭
” اپنا تعارف کرواؤ…” موسمِ بہار ہر سو چھایا ہوا تھا ۔ ایڈمن بلاک کے سامنے ہی بچھے لان میں ہر پھول جوانی کی مست لہر میں جھوم رہا تھا۔ اُسی پارک کے کونے میں جہاں ایڈمن بلاک ختم ہو رہا تھا وہیں کلاس میں اُس سے پروفیسر نے سوال پوچھا تھا ۔ سارے کرو ‘ کو اسی میں دلچسپی تھی کہ وہ کون ہے! کیا نام ہے! کہاں سے آیا ہے!
دلچسپی کیوں تھی!
وہ اس وجہ سے تھی کہ اس جیسا اس کلاس میں اور کوئی بھی نہیں تھا۔ کلی جیسی رنگت، سرو قامت، بھرپور جسم ، اور تیکھے نقوش۔
وہ لڑکا لڑکیوں کے ساتھ ساتھ لڑکوں میں بھی فیمس ہو چکا تھا ۔
”سر میرا نام اشعل کلثوم ہے اور میں اوکاڑہ کا رہنے والا ہوں ۔” سوت کاتنے والیاں اتنے جوکھم نہیں اٹھاتیں ہونگی جتنے اُس نے یہ بات کہہ کر اٹھائے تھے ۔ اس کے جواب نے ساری کلاس کو حیرت میں ڈال دیا تھا ۔ سب تعجب سے اس کے جواب کو سن رہے تھے اور اسے دیکھ رہے تھے کہ یہ کیا کہہ رہا ہے ۔ اُن سب کے ذہن میں اِس سوال کے جواب میں کروشیا آیا تھا کہ جواب آئے گا اور دھاگا آرام سے آسانی سے کُھلتا جائے گا۔
”اشعل کلثوم…!” پروفیسر نے استعجابیہ انداز میں پوچھا۔
” جی سر۔” اس کا سر ابھی تک اٹھا ہوا تھا مگر اندر ہی اندر وہ سفیدے کی ڈالیوں کی طرح جھکا ہوا تھا ۔ کیونکہ یہ سوال ہونا ضروری تھا اسی لئے وہ اس سارے مرحلے کی تیاری کر کے آیا تھا۔
”تمھارے ابو کا نام کیا ہے ۔” سر اب اس سوال کی طرف آئے جس کے جواب نے سب کی آنکھوں میں موجود انتظار کو ختم کرنا تھا ۔ کروشیہ کھلنے کی باری آئی تھی۔
” ابو کے بارے میں اماں کی زبان یہی کہتی تھی کہ مجھے علم تو ہے مگر تمھیں نہیں بتانا ۔ تم یہ بھی نہ سوچو کہ وقت آئے گا اور میں تمھیں بتا دوں گی۔ مائیں اگر ٹھان لیں تو وہ کچھ بھی نہیں بتاتیں ۔ اسی وجہ سے انھوں نے میرا نام اشعل کلثوم رکھ دیا ۔” اس نے آرام سے جواب دیا مگر سب کی آنکھیں ابھی بھی کوئی اور جواب سننا چاہ رہی تھیں ۔ کلاس کا کروشیہ الجھ گیا تھا۔
خیر انھیں مایوسی ہو گئی تھی۔
پروفیسر نے بھی پھر بات کو بڑھانے کی بجائے موڑ کر اگلے طالب علم کے تعارف کے ساتھ نئی بات شروع کر دی تھی۔
وہ بیٹھ گیا تھا۔ ایک لڑکے کے ساتھ جس کا نام نجف تھا۔
یہ اس کا کالج میں پہلا دن تھا۔
٭٭…٭٭
تین لیکچر لینے کے بعد وہ گھر کی سمت نکل آیا تھا مگر نکلنے سے پہلے اس نے لیکچرز کو رجسٹر پر نوٹ کرنے کے لیے اور ساتھ ہی ساتھ نئے نوٹ بنانے کے لیے ایک جگہ کا انتخاب کیا ۔ ایل بلاک کے سامنے، گیندے کے پھولوں کی کیاریوں کے پاس ۔ وہاں دھوپ بھی آ رہی تھی اور سکون سے وہ کام بھی کر سکتا تھا۔ تبھی وہ آیا تھا۔ اس کا کلاس فیلو‘ نجف۔
”کیا کر رہے ہو اشعل۔” اس نے ازسر راہ پوچھا ۔ پھر اس کے ساتھ ہی بیٹھ گیا۔
”پروفیسر خالد جاوید مترو کے لیکچر کو دوبارہ دیکھ رہا تھا ۔ انھوں نے کل ٹیسٹ لینا ہے اس وجہ سے ۔” اس نے بال پوائنٹ کو روکا سر اٹھا کر اسے جواب دیا اور واپس سر جھکا کر لکھنے لگ گیا۔
” ایک بات بولوں۔ اگر مائینڈ نہ کرو تو۔” نجف نے بھی ایک کتاب کھول لی تھی۔
”مائینڈ کرنے والی حس ختم ہو گئی ہے نجف ۔ خیر تم بولو۔ ” اس نے سانس بھر کر کہا تھا۔
” تمھیں یہ سب نہیں بتانا چاہیے تھا کلاس میں ۔ نہ جانے کیسے کیسے دماغ ہیں ۔ کیا کیا سوچیں گے سب ۔ تم صرف اشعل بتا دیتے تو ٹھیک تھا ۔ ” اشعل نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
” بس یار۔ کہہ دیا اب تو ۔ خیر چھوڑو اس بات کو۔ کچھ کھانے چلیں۔!” بات موڑ دی گئی تھی۔
”میرا لیکچر ہے آج ۔ تمھارا تو پرسوں ہے ناں۔ اس وجہ سے یہاں بیٹھا ہوں۔”
” حس کیوں ختم ہوئی ہے…!” نجف ابھی ٹلنے والا نہیں تھا۔
” ماؤں کے پاس آپ کے لیے جواب نہ ہوں تو اسی طرح ہوتا ہے نجف۔ حس ختم ہو جاتی ہے۔”
” تم نے خاندان میں بھی نہیں پوچھا کسی سے۔”
”پوچھا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ تم کسی سید کی اولاد ہو۔ اور وہ سید کون ہے۔ یہ صرف تمھاری ماں کو پتہ ہے۔۔”
وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
” یہ گناہ ہے اشعل…”
” کس کے حصے میں آ رہا ہے اسے یہ گناہ مبارک۔ ” وہ کالج کے مرکزی گیٹ کی طرف چل دیا۔
سردیاں شروع تھیں اسی وجہ سے وہ آج لونگ کوٹ لے کر آیا تھا۔ جو کہ اس نے گیٹ پہ جمع کروا دیا تھا۔ وہ پہن کر اس نے بائیک نکالی اور مین دوڑ پہ رواں دواں ہو گیا۔ بے نظیر روڑ پہ پھاٹک بند ہونے کی وجہ سے اس نے بائیک روکی۔ قریب سے ایک منظر ابھرا۔ آہ وہ تلخ منظر۔ جو اس سمے اسے نظر نہیں آنا چاہیے تھا ۔ وہی منظر دیکھ کر اس کی آنکھیں سرخ ہوئیں۔ کالج کا غصہ اور پھر یہ منظر۔ وہ آپے سے باہر ہو گیا۔ اس نے بائیک دوڑائی اور سیدھی بریک پورچ میں لگائی ۔ دروازہ چونکہ کھلا تھا۔ تو پورچ میں بائیک کھڑی کر کے اس نے کندھے سے بیگ کو اتارا بڑی بیدردی سے اپنے ابا کے کمرے کے دروازے پہ دے مارا ۔ اور یہ پہلی بار نہیں ہوا تھا۔ یہ تو ہوتا ہی رہتا تھا جو بھی اس کے بارے میں کہتا تھا۔ باپ کا پوچھتا تو وہ آپے سے باہر ہو جاتا۔
دھاڑ کی آواز سے اس کی بڑی بہن فاطمہ اور امی کلثوم حواس باختگی کے ساتھ باہر پورچ میں آئیں۔۔
٭٭…٭٭
”آپ کو یہاں نہیں آنا چاہیے تھا”
”محبت سوچ کو باندھ لیتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ جہاں محبوب ہو وہیں جاؤ…”
”آپ جو کر رہی ہیں۔ وہ ٹھیک نہیں ہیں۔۔”
آپ اپنا کام کریں۔ میں اپنا کرتی ہوں۔”
حورم اور وہ مجمعے سے الگ کھڑے تھے۔ اُسی دربار کے احاطے میں۔
اب وہ مرد اس مجمعے کی طرف چلا گیا جب کہ وہ لڑکی وہیں کھڑی اسے دیکھتی رہی۔
٭٭…٭٭
مگر اشعل اپنے باپ کے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا۔
کلثوم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ وہ کمرے کی طرف بھاگ کھڑی ہوئیں۔ اور خود کو اپنے شوہر کے سامنے جا کھڑا کیا۔ اشعل جو باتیں سنانے آیا تھا۔ ڈھال بنی کلثوم کو دیکھا اور وہ بے بس ہو گیا تھا۔
٭٭…٭٭
اس کی سوچ سیم اور تھور زدہ زمین کی طرح ہو گئی تھی۔ تھکاوٹ سے اس نے اپنی کمر کو بیڈ کی ٹوہ سے لگایا۔ اور آنکھیں موند لیں۔
”پانی پی لیں بھائی۔” فاطمہ اسٹیل کا گلاس لئے اس کے سامنے کھڑی ہو گئی۔
اس نے خاموشی سے آنکھیں کھولیں۔ اور پانی غٹاغٹ پی گیا۔
”آپ کو اب یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ آپ ان کے بیٹے ہیں۔” فاطمہ نے اطمینان سے کہا تھا۔
” یہ بھی آپ کی ہی ضد تھی کہ میں نے اپنے نام کے ساتھ امی کا نام لگانا ہے۔ ابو کا نہیں۔ امی نے یہ بھی مان لیا۔ مگر پھر آپ کا بڑھتا تشدد۔ اس نے امی کو اس قدر خوف زدہ کر دیا کہ وہ باقاعدہ پہرہ دینے لگ گئیں ۔ انھیں ابو سے محبت ہے بھائی۔ اور محبت کا مطلب وہی سمجھتے ہیں جن کے دلوں نے نفرت کو دور سے بھی نہ دیکھا ہو۔”
وہ فاطمہ کا منہ دیکھ رہا تھا۔
” فالج زدہ چہرے سے وہ ہر بار آپ کا پوچھتے۔” بات کاٹ دی گئی تھی۔