سسرال سے آگے : نازنین فردوس
بچے پتا نہیں کتنے تھے ۔ ہم نے دو بار گنتی کی اور دونوں بار ایک مزید بچہ کہیں سے آ نمودار ہوتا اور ہم گنتی ہی بھول جاتے۔
آخر میں تنگ آکر ہم نے ان بچوں کو گننا ہی چھوڑ دیا۔ ہوں گے آٹھ دس۔۔۔۔
ہماری ساس نے کھانا نکا لنے کا حکم دیا اور ہم انہیں ہو نق بن کر دیکھنے لگے ۔ جو سالن بنا تھا وہ اتنے لو گوں کے لیے نا کافی لگ رہا تھا مگر ساس صاحبہ نے خود ہی کچن میں آکر یہ مسئلہ یوں حل کیا کہ سالن میں سرخ مرچ اوپر سے ڈال دی ،کچھ ہری مرچیں کاٹ کر ڈال دیں۔ اور خود باہر چلی گئیں۔افف لگتا ساس صاحبہ نے بھی ثمرہ بخاری کوپڑھا ہوا ہے۔
اور جب دسترخوان بچھا تو مہمان کھانے سے زیادہ پانی پی رہے تھے ۔ اور جب کھانا ختم ہوا تو ہم نے دیکھا۔ سالن ابھی بھی جتنا تھا اتنا ہی تھا۔شاید وہ ہماری ساس کے ہاتھوں کی برکت تھی۔
اور ہم ساس کی اس جنگی اور ہنگامی حکمت عملی کے قائل ہو گے اور عش عش کر اٹھے۔
٭…٭…٭
اس شام ہم کھانا کھا کر اپنے کمرے میں آئے تو بیڈ کے قریب ٹیبل پر قلاقند کا پیکٹ رکھا دیکھا اور ہم حیران رہ گئے کہ یہ کہاں سے آیا ۔ دل تو چاہا کہ کھول کر کھالیں مگر شرم مانع آئی اور یہ بھی خیال تھا کہ کہیں ہماری ساس نے منگوا کر نا رکھا ہو ۔ یہ سوچ کر ہم وہ پیکٹ لے کر اپنی ساس کے کمرے میں گئے۔ جہاں سارے جیٹھ اور ہمارے میاں بھی بیٹھے بات چیت کر رہے تھے ۔ ساس صاحبہ پلنگ پر اپنے پورے رعب و دبدبہ کے ساتھ بیٹھی تھیں۔
’’ امی جی یہ قلاقند آپ نے منگوایا تھا۔ ‘‘ ہم نے وہ پیکٹ ان کی طرف بڑھایا اور اپنے میاں کو دیکھنے لگے جو عجیب عجیب اشارے کر رہے تھے.
’’اوہ۔۔۔ ‘‘ ہماری ساس نے وہ پیکٹ جھٹ پکڑ لیا۔
’’ نہیں۔ میں نے نہیں منگوایا تھا ۔ شاید اشعر لے آیا ہو۔ ” انہوں نے اشعر کو خشمگیں نظروں سے گھورا جو اب سر جھکاگئے تھے جبکہ جیٹھ حضرات چہروں پر دبی دبی مسکراہٹ لیے ہمارے میاں کو دیکھ رہے تھے جو اب کسی سے نظریں ملانے کو تیار ہی نہیں تھے۔
’’ اشعر۔۔۔‘‘ اس سے پہلے کہ ہماری ساس کچھ کہتیں۔
’’ میں اب چلتا ہوں امی صبح جلد جانا ہے ۔‘‘ ہمارے میاں ہمیں کھینچ کر لے جاتے ہوئے بو لے تھے۔
’’ کیا ہوا۔ ارے۔۔۔‘‘ اپنے کمرے میں آتے ہی ہم کہہ اٹھے۔
’’ وہ قلاقند میں لایا تھا ہم دونوں کے لیئے۔‘‘
’’ آپ لائے تھے تو وہاں کیوں رکھا تھا کمرے میں۔‘‘ ہم نے انہیں حیرانی سے دیکھا۔
’’ کم تھا اس لئے سب کو نہیں بتایا تھا چھپا کر لا کر رکھا تھا اور آپ نے سب کے سامنے شرمندہ ہی کر دیا۔‘‘انہوں نے سر پیٹا۔
’’اوہ۔‘‘ ہم نے ٹھنڈی سانس بھری۔ اس آہ میں قلاقند نہ کھانے کا دکھ بھی شامل تھا۔
ہمیں کیا پتاتھا کہ چوری سے لا کر رکھا ہو ا قلاقند ہمار ے لیے ہی تھا ۔ ہماری اپنی فیملی چھوٹی سی تھی ۔ ہمارے خاندان کے لوگ دوسرے شہر میں رہتے تھے تو آنا جانا بھی نہیں تھا بس کبھی کبھی چچا وغیرہ آجاتے تھے ۔ اور ابو نے کبھی اس طرح کے شارٹ کٹ استعمال نہیں کیے تھے ۔تو ہمیں ایک بھری پری فیملی کی نظروں سے بچا کر کوئی چیز لانا اور پھر اسے اکیلے ہضم کرنا ، ہماری جیسی خاتون کے لیے توایک ننجا تکنیک ہی لگی تھی۔
اس طرح ہم ایک بھرے پرے سسرال میں آکر وہ کچھ سیکھ رہے تھے جو ہم کسی درسی کتب سے کبھی سیکھ نہیں سکتے تھے۔
اس دن اشعر اپنے ہنی مون کا پلان بنا رہے تھے اور ہم نے دیکھا وہ سب اپنے اپنے پلان بنانے لگ پڑے تھے ۔ دو نندوں نے اسی وقت اپنا پلان قطعی کر لیا کہ ہمارے ساتھ ان لوگوں نے بھی آنا ہے ۔ اور دو جیٹھوں نے اپنی اپنی ٹانگیں ا ڑائیں کہ یہاں نہیں وہاں جائیں گے ۔ کافی دیر بحث مباحثے ہوتے رہے اور ہم سب کو لڑتے دیکھ رہے تھے۔ اور ہمارا گھر بگ باس کے گھرکا نمونہ پیش کر رہا تھا ۔
آخر کار ہمارے گھر کی بگ باس یعنی ہماری ساس نے قطعی فیصلہ صادر کیا کہ جانا تو بس شمالی علاقہ جات ہی ہے ۔ چاہے گرمیاں ہوں یا سردیاں اور وہ خود بھی ہمارے ساتھ چلیں گی ۔ سسر صاحب کہاں پیچھے رہتے ۔ انہوں نے بھی ساتھ آنے کا اعلان کیا ورنہ ان کی جانب سے جنگ کی دھمکی تھی جس پر سب نے بادل نا خواستہ رضامندی دی ۔ ہم دونوں میاں بیوی سر ہلاتے اپنے کمرے میں آگئے تھے۔
’’ یہ سب لوگ کیوں آرہے ہیں ۔‘‘ ہم نے جھلا کر اپنے میاں کو دیکھا۔
’’ہنی مون منانے۔ ‘‘ وہ شرمندہ سے ہوکر بولے۔
’’ ہم دونوں کے ساتھ؟ ‘‘ہم نے آنکھیں نکالیں۔
’’ سب کئی دنوں سے پلان کر رہے تھے کہ ہماری شادی کے بعد گھومنے جائیں گے تو۔۔۔‘‘ وہ دبے دبے لہجے میں بولے۔
’’اور تو اور ابا جی بھی آرہے ہیں۔۔۔‘‘ ہم نے دہائی دی۔
’’ ان کے ساتھ تو بس بھاگا دوڑی والی کیفیت ہی رہے گی ۔ وقت سے زیادہ تیز رفتار تو وہ خود ہیں۔ ‘‘ہم رونے پر آگئے ۔
’’ کوئی بات نہیں ۔ ایک اور ہنی مون ہم اکیلے منا ئیں گے۔ ‘‘ ان کا خوشامدی لہجہ۔
’’ ہاں ۔ اور اکیلے مطلب بالکل اکیلے جائیں گے ہم جیسے کنگنا گئی تھی ۔ ‘‘ہم نے دھمکی دی تھی اور خود اٹھ گئے۔
اس طرح ایک بھرے پرے خاندان کے ساتھ ہنی مون منا کر جب واپس آئے تو اتنا ہی سمجھ میں آیا کہ سسرال کے آگے ،پیچھے سسرال ہی ہو تا ہے اور کچھ نہیں۔
٭…٭…٭