سسرال سے آگے : نازنین فردوس
’’ہمیں شادی نہیں کرنی، بالکل بھی نہیں۔ ‘‘ ہم اپنی بہن کی اس تجویز پر چلا اٹھے ۔ جس کے بقول لڑکی کی اصل زندگی شادی کے بعد شروع ہو تی ہے ۔ اور ہر لڑکی کی زندگی کا محور شادی ،شوہر، بچے اور سسرال ہی ہوتا ہے اور سسرال کے آگے کچھ نہیں۔
’’خدا کا خوف کریں آپی۔زندگی میں شادی اور سسرال کے آگے بھی کچھ ہو تا ہے ۔ ‘‘ ہم نے انہیں شرمندہ کرنا چاہا۔
’’ ہاں ہوتا ہے اور وہ بھاڑ ہوتا ہے جہاں تم جیسی لڑکیوں کو چلے جانا چاہیے۔ ‘‘
’’آخر تمہارا مسئلہ کیا ہے۔ ‘‘
’’ مسئلہ تو یہ ہے کہ یہ سسرال کم فوج زیادہ لگ رہی ہے ۔ اور فوج کا مطلب ایک جرنیل قسم کی ساس ، کرنل نما سسر اور نندو ں کی بریگیڈ ہو ۔ اور اس محاذ میں ان سب کی مدد کو تایا ذاد ، چچاذاد جیسے سسرالی رشتہ ہمیشہ موجود رہتے ہیں جو ہنگامی صورت حال کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ۔ اور ہمیں نہتے سپاہی کی طرح ان سب سے مقابلہ کرنے کے لیے میدان جنگ میں بھیجنے کی تیاری کی جا رہی ہے ۔ اور اور۔۔۔۔‘‘
’’ بس بس ۔۔۔ میری نہتی فوجی بہن ۔ تم نے تو ایسا نقشہ کھینچ مارا کہ جی چاہتا ہے تمہیں پوری تیاری کے ساتھ مع اسلحہ جات کے سسرال نامی میدان جنگ میں بھیج دوں تاکہ تم بالکل پسپاء نہ اختیار کرو بلکہ فاتح بن کر لوٹو ۔‘‘ آپی نے بھی بالکل ہمارے انداز میں جواب دیا ۔
’’ مصالحہ جات؟ ‘‘ ہماری اردو ہمیشہ پریشان کرتی تھی۔
’’اسلحہ جات یعنی ہتھیار۔‘‘ آپی نے سر پر ہاتھ مارا (اپنے)
’’اب جو بھی ہو۔ ہمیں اتنا پتا ہے ہمیں شادی نہیں کرنی۔ ‘‘
’’یعنی تم جنگ سے پہلے ہی ہتھیار ڈال رہی ہو۔‘‘ آپی نے ہمیں شرم دلانی چاہی۔
’’نہیں ۔ ہم نقص امن کے خدشہ کے پیش نظر صلح کا جھنڈا لہرانا چاہتے ہیں ۔ ‘‘ ہم نے کمال اطمینان سے کہا تھا اور آپی کسی بھی بحث سے بچنے کے لیے کمرے سے ہی واک آؤٹ کر گئیں تھیں ۔
ہمارے لیے شادی کرنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا لیکن سسرال ۔۔۔وہ مسئلہ بن سکتا تھا یہ ہمیں پتا تھا ۔ اس لیے ہم کسی بڑے خاندان کی بہو بن کر نہیں جانا چاہتے تھے اور ہم یہی بات سب سے کہہ رہے تھے۔
’’چھوٹی فیملی ہو، ہیپی فیملی ہو۔‘‘ ہمارا مطالبہ تھا جو امی اور آپی کو سخت ناگوار گزراتھا۔
’’ ہاں گنتی کے چار، تاکہ لوگ دیکھ کر کہیں کہ خاندان نام کی کوی چیز ہی نہیں۔ ‘‘
’’ اور آپ جو ہمارے لیے سوچ بیٹھی ہیں وہ تو فوج کی پوری پلٹن لگ رہی ہے۔‘‘
’’ہاں تو کیا ہوا، فوج مطلب رعب و دبدبہ ۔‘‘ آپی نے معنی خیزی سے کہا تھا ۔ امی نے ان کا ساتھ دیا تھا۔
’’ہاں اور نہیں تو کیا ایک بڑے خاندان کی اہمیت تم کیا جانو ۔ اچھے برے وقت میں یہ بڑے خاندان کتنے سود مند ہو تے ہیں تمہیں کیا معلوم ۔ ‘‘ اور سچ میں ہمیں معلوم نہیں تھا۔ اور ہم خاموش ہوگئے تھے۔ اور ہماری یہ خاموشی شادی تک لے گئی تھی۔
نا چاہتے ہوئے بھی ہم اس بڑی فیملی میں داخل ہو چکے تھے۔
شادی کے دو ہفتہ تو بس سب ’’ اچھا اچھا ، ہرا ہرا‘‘ ہی نظر آ رہا تھا ۔ لیکن” ہرا ہرا نیلا نیلا‘‘ نظر آنا اس وقت شروع ہوا۔ جب ہم لنچ بنا رہے تھےتو ہماری ساس نے سسر صاحب کےلیے لنچ کا حکم دیے دیا۔
’’ ہم نے ’’ جی امی۔‘‘ کہا اور لنچ بنانے میں جت گئے۔
چاول تیار تھے ، سالن گرم ہو رہا تھا ۔ ہم نے پلیٹ لی اور چاول کی ڈش ٹیبل پر رکھ کر سالن لانے چلے گئے۔ سالن ابھی گرم نہیں ہوا تھا ۔ بس دو منٹ لگے ہوں گے ۔ جب سالن لے کر سسر صاحب کو دینے گئی تو ان کا لنچ ہو چکا تھا ۔ اور وہ اب لیٹ رہے تھے۔
’’ابا! ہم سالن لائے ہیں ۔ آپ نے چاول کس کے ساتھ کھا لئے۔‘‘ ہم کچھ حیرانی سے بولے۔
’’اوہ۔ اتنی دیر سے سالن لاتے ہیں ۔ میں نے تو ایسے ہی کھا لیے ، مجھے کھا نے کی جلدی ہوتی ہے ۔ ‘‘ انہوں نے اطمینان سے کہا تھا۔
’’جلدی ۔‘‘ ہم نے ان کی پلیٹ دیکھی جسے وہ کھا کر رکھ چکے تھے۔
’’اتنی جلدی ہو تی ہے کہ سالن لانے سے پہلے ہی چاول کھالئے ۔ الٰہی خیر۔۔۔ ‘‘ ہم بھاگم بھاگ اپنے میاں کے پاس پہنچے ۔ انہوں نے سنا اور ہنس کر کہا۔
’’ہاں وہ ایسا ہی کرتے ہیں ۔ کل پہلے سالن رکھنا اور پھر چاول ۔وہ وقت کے پابند ہیں اور وقت کے ساتھ چلنے پر یقین رکھتے ہیں اور کبھی کبھی وقت سے پہلے ہی بھاگنا عقلمندی سمجھتے ہیں ۔ وہ ریلوے میں تھے ۔ پتا تو ہے نا تمہیں۔ ‘‘
’’اگر چاول سے پہلے سالن رکھا اور انہوں نے سالن یونہی پی لیا تو۔۔۔ ‘‘ ہمارے منہ سے نکلا جس پر وہ گھور کر بولے۔
’’ابا ہیں کوئی سالن پینے والے ڈریکولا نہیں۔‘‘ لو جی ہم نے کونسا غلط بات کی ؟
’’چلیں جی بات ختم ۔‘‘ اور ہم دوسرے دن کی حکمت عملی سوچنے لگے جس سے وہ نہ روکھے چاول کھا سکیں اور نہ سالن پی سکیں۔
٭…٭…٭
ہمارے سسرال میں چار جیٹھ اور پانچ جیٹھانیاں تھیں۔ بھئی پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ ایک جیٹھ نے یونہی شوق میں دو شادیاں کر رکھی تھیں ۔ اور پانچ نندیں ، اور انکے ڈھیرو ں بچے ۔ ڈھیروں یوں کہ ہمیں ابھی تک یہ بالکل بھی یاد نہیں ہوا تھا کہ کس کو کتنے بچے ہیں اور لڑکیاں لڑکے کتنے ہیں اور ہر ہفتہ وہ لوگ اپنی ماں کی خیر خیریت کے لیے ضرور آ جاتے تھے ۔ اور ہماری خیریت مشکوک ہو جاتی تھی ۔ وہ الگ بات تھی۔
یوں ایک مہینہ ہو تے ہوتے سسرال اور ساس نے ہمارے سارے چودہ طبق روشن کر دیے تھے۔
اس دن صبح صبح مہمان آگئے ۔ وہ ہمیں مہمان لگے تھے لیکن مہمان ، اپنے آپ کو مہمان سمجھ ہی نہیں رہے تھے۔ پورے گھر میں یوں دندنا رہے تھے کہ اللہ پناہ۔
’’ یہ اتنے سارے لوگ کون ہیں اور ان سب کے لیے کھانا بھی پکانا پڑے گا ۔‘‘ ہم تو ان مہمانوں کو دیکھ کر بے ہوش ہو تے ہوتے بچے تھے۔ ہمارے پوچھنے پر پتا چلا یہ ہماری ساس کے خالہ ذاد بہن کے بیٹے بہویں وغیرہ تھیں اور ان کے ساتھ بچے۔