سستی بھگانے کا آزمودہ ٹوٹکہ : ماریہ نواز

سستی کیوں ہوتی ہے؟
جب ہم جانتے ہیں کہ کوئی کام اہم ہے، تو ہم اسے ٹالنے یا جان چھڑانے کے کوشش کیوں کرتے ہیں؟ اگر آپ نیورو سائنس کی کچھ نئی ریسرچز پر غور کریں تو اپنی تساہل پسندی پر آپ کی ندامت کافی کم ہو جائے گی۔ کیونکہ ان کے بقول انسانی دماغ کی ساخت ایسی ہے کہ یہ کم از کم مزاحمت کا راستہ چننا چاہتا ہے۔ دوسروں لفظوں میں زیادہ کام نہیں کرنا چاہتا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ آپ نے اگر یہ مان بھی لیا تو اپنے باس کوکیسے سمجھائیں گے ؟ خود پر منحصر لوگوں کا کیا کریں گے ؟ گھر آنے والوں رشتے داروں کو ریسرچ پیپر کی کاپی بھی تھما دیں تو وہ آپ کے گھر کی بےترتیبی پر چچ کرنے سے باز نہیں آئیں گے۔
پس اس نا سمجھ دنیا کو نہیں سمجھایا جا سکتا، سو بہتری اسی میں ہے کہ نگوڑے دماغ کو سمجھا لیا جائے کہ بھائی تھوڑا حوصلہ،کام اتنا بھی مشکل نہیں۔ اب یہ سمجھانے کا جو سب سے آسان نسخہ راقمہ گوگل کہ بحر بیکراں سے نکال پائی ہے وہ ہے ۔
:Ten minutes rule
جو بھی کام آپ کو کرنا چاہئیے،مگر آپ کرنا نہیں چاہتے یا اس کے لیے ہمت مجتمع نہیں کر پارہے ،اس کو دس منٹ دیجیئے ۔ خود کو بتائیے کہ میں صرف اگلے دس منٹ تک یہ کام کروں گا ، جتنا بھی ہوسکا۔ کلاس میں آج جس موضوع پر لیکچر ہوا،بس دس منٹ اسے پڑھنا ہے کتاب سے۔ تہہ کر کے رکھنے والےکپڑوں کا ڈھیر لگا ہے ، دس منٹ میں جتنے تہہ ہو سکتے ہیں وہ ابھی کر لینے ہیں۔ جو پریزنٹیشن دینی ہے اگلے ہفتے اس پر کام دس منٹ ابھی کام کرنا ہے۔
چلیے آپ کو بتاتے ہیں کہ یہ ٹوٹکہ کیوں اور کیسے کام کرتا ہے۔ ہمیں کام کرنے کے لیے موٹیویشن (تحریک )کی ضرورت ہوتی ہےیا دماغ کی بائیو کیمسٹری کے مطابق ایک کیمیائی مادہ ڈوپامین کی۔ کام جس قدر طویل، خشک اور مشکل ہو گا اتنی ہی زیادہ موٹیویشن اور ڈوپامین کی ہمیں ضرورت ہوگی اسے شروع کرنے کے لیے۔ اگر ہم کام کی مجموعی طوالت اور پیچیدگی سے نظر بچا کر اسے صرف دس منٹ تک محدود کر دیں تو اسے شروع کرنا آسان ہو جائے گا۔ بہت کچھ نا سہی کچھ تو ہو ہی جائے گا دس منٹ میں اور کچھ ہونا کچھ بھی نا ہونے سے تو بہتر ہی ہے! کیا خیال ہے ؟
یہاں آپ کے لیے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ یہ “کچھ” آپ کی توقعات سے کہیں زیادہ بھی ثابت ہو سکتا ہے ۔ کیسے ؟ اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔
جب آپ نے ایک محدود وقت کا ٹائمر سیٹ کیا ہوا ہے تو گزرتے وقت کا احساس آپ کو معمول سے کہیں زیادہ ہے. دھیان بھٹکنے کا احتمال کم اور کام کی رفتار تیز ہونے کا امکان زیادہ ہے. لہذا کارکردگی /یونٹ ٹائم زیادہ ہوگی۔
ہمارے اندر کسی بھی کام کو کرنے کی تحریک یا موٹیویشن کا براہراست تعلق اس کام سے ملنے والے “انعام “ سے ہے۔ جتنا زیادہ اور جلد ہمیں انعام ملے گا اتناہی اس کام کو ہم کرنا چاہیں گے۔ “انعام” ہمارے دماغ کے اندر ڈوپامین کا اخراج کراتا ہے، جو ہمیں مزید کام کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ کام کے کسی حد تک ہو جانے کو بھی دماغ ایک “انعام “ کے طور پر دیکھ سکتا ہے ۔ گندے برتنوں کا بھرا سنک خالی ہوتا دیکھنا بھی آپ کوموٹیویشن دے سکتا ہے کہ پانچ منٹ اور لگاؤ اور “کم مکاؤ”۔ دو پیجز جو آپ لکھ پائےہیں، انھے دیکھ کر آپ کے دماغ میں ڈوپامین کا اخراج ہوسکتا ہے جو آپ کو مزید لکھنے کی تحریک دے سکتا ہے۔ آپ نے شاید کبھی زندگی میں آپ اس تجربے سے گزرے بھی ہوں، کہ ایک کام جو آپ کرنے کی ہمت محسوس نہیں کر رہے تھے یا دل نہیں چاہ رہا تھا کرنے کو، ایک بار شروع کر دیا تو ہو ہی گیا۔
ایسے مواقع پر دماغ کا یہی “انعامی سلسلہ” یا سائنسی لفظوں میں کہیں تو dopaminergic mesolimbic pathway ایکشن میں آ جاتا ہے۔
لہٰذا ممکن ہے آپکی کی کارکردگی دس منٹ تک محدود نا رہے۔
اس دس منٹ رول میں سے “منٹ” کو آپ حسب ذائقہ اور حسب توفیق کسٹمائز بھی کر سکتے ہیں۔ کام کی نوعیت کے مطابق بھی اور اس وقت اپنے اندر موجود کام کرنے کی صلاحیت کے مطابق بھی ۔ مثلا آپ بہت تھکے ہوئے ہیں، نیند سے بے حال ہیں، کوئی اور بہت دلچسپ یا مرغوب چیز آپ کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے ، آپ دس منٹ کو پانچ منٹ کر لی جیے۔ کام کی نوعیت ایسی ہے کہ دس منٹ میں کچھ بھی نہیں ہو پائے گا ۔ آپ وقت تھوڑا سا بڑھا دیجیئے ۔ راقمہ نے اس دورانیے میں پانچ منٹ سے تیس منٹ تک کے تغیر کی گنجائش رکھی ہے۔ آپ اپنے حساب سے دیکھ لی جئے۔ بہتر ہے کہ دن کی ترتیب اس طرح ہو کہ جن کاموں کے لیے لمبا دورانیہ درکار ہو انھیں سو کراٹھنے کے بعد پہلے آٹھ گھنٹوں میں کر لیا جائے۔
اس چھوٹے سے ٹوٹکے سے نا آپ بدلیں گے نا زندگی، مگر آپ میں اور آپ کی زندگی میں شاید کچھ چیزیں بہتر ضرور ہو جائیں۔ آزمائش شرط ہے۔