دکھ کی سانجھ: فہمیدہ فرید خان
’’ایسی کی تیسی اس خرانٹ عورت کی۔ اسے گھر میں گھسنے ہی نہیں دینا تھا۔‘‘
’’بیٹا کسی کا کردار اس کے ماتھے پر نہیں لکھا ہوتا۔‘‘
سکینہ بیگم نے اسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔
’’اب پتہ چل گیا ہے نا۔ آئندہ اس عورت سے رابطہ کرنے کی غلطی مت کیجئے گا امی۔‘‘
’’وہ رابطہ تو کریں گی۔‘‘
رقیہ بیگم نے دبی زبان سے کہا۔
’’میری طرف سے صاف جواب ہے۔ ہماری بچیاں اتنی ارزاں نہیں کہ کوئی رشتہ مانگنے آئے اور ان کی زندگی موت کا پروانہ دے جائے۔ پوچھنا تھا ان سے، بی بی تم ہوتی کون ہو یہ بکواس کرنے والی… تمہیں کسی کی زندگی سے کھیلنے کا حق کس نے دیا؟ تم نعوذ باللہ خدا تو نہیں ہو۔‘‘
حمدان کا غصہ کسی صورت کم نہ ہوتے دیکھ کر سکینہ بیگم نے پانی کا گلاس اس کی طرف بڑھایا۔
’’کم ظرفوں کی سطح پر اترنا ہمارا شیوہ نہیں۔ اتنا غصہ اچھا نہیں ہوتا۔‘‘
’’انہیں فون کر کے معاملہ ختم کریں امی۔۔۔ حمنہ تم اس لڑکے سے کوئی رابطہ نہیں رکھو گی، سمجھ گئیں۔‘‘
’’جی بھائی۔‘‘
حمنہ اسے طیش میں دیکھ کر ڈر گئی تھی۔
’’ہمارے لیے صفی کیا ہے یہ کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں۔ جن کو اس کی معذوری سے مسئلہ ہے، بھاڑ میں جائیں۔‘‘
وہ صفتین کا سر تھپک کر بولا تھا۔
٭…٭…٭
’’حمنہ سکندر، تم مجھ سے چھپ کیوں رہی ہو؟ آج تمہیں میری بات سننا ہو گی۔‘‘
کئی دن کی لکن میٹی کے بعد بالآخر صبیر ہاشوانی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔
حمنہ خود اس معاملے کو کنارے لگانا چاہتی تھی۔ نوٹس رکھ کر کھردرے لہجے میں بولی۔
’’کہو کیا کہنا چاہتے ہو۔‘‘
’’ممی نے اس دن غلط نہیں کہا تھا۔ جسے جواز بنا کر تم لوگوں نے رشتے سے انکار کر ڈالا۔‘‘
اس نے محتاط انداز میں بات شروع کی۔
حمنہ جلتے توے پر جا بیٹھی۔
’’کیااااا… انہوں نے صفتین کو مارنے کا منصوبہ پیش کیا اور تم اس کو درست ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہو؟ میں حیران ہوں تمہاری ممی پہلی ہی ملاقات میں اس حد تک گر گئیں۔‘‘
’’کیا بتاؤں۔۔۔ ممی کو عیب دار چیزیں پسند نہیں آتیں۔ پھر وہ لڑکی تم لوگوں کے لیے بوجھ ہی ہے۔‘‘
’’باسسسس… اللہ کی ذات کے سوا کاملیت کسی کو زیبا نہیں… صفتین کوئی گری پڑی چیز نہیں ہے، جیتی جاگتی انسان ہے۔ وہ کسی پر بوجھ نہیں ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں اس جیسا خود انحصار اور منظم انسان آج تک نہیں دیکھا۔ حتٰی کہ ہمارے بھی کئی کام نمٹا دیتی ہے۔‘‘
حمنہ کو از حد برا لگا تھا۔
’’مجھے امید تھی تم مان جاؤ گی۔ لیکن ہماری شادی کے بعد ممی جب اسے دیکھیں گی، انہیں اذیت ہو گی۔‘‘
’’میرے والدین اس رشتے سے انکار کر چکے ہیں۔ یہ باب اب بند ہو چکا ہے۔ اس موضوع پر مزید کوئی بات نہیں ہو گی۔ میں لعنت بھیجتی ہوں اس رشتہ داری پر جس میں تقدس اور احترام نہ ہو۔ مجھے اس چھوٹی سوچ پر افسوس ہے… اپنی ممی کی ایک بے معنی سی خود ساختہ تکلیف پر آپ زندگی سے بھرپور وجود کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتے ہیں۔ کل کو آپ کی اولاد ایسی ہوئی تو پھر کیا کریں گے؟ قتل کر دیں گے اسے بھی؟‘‘
حمنہ کی آواز غصے سے پھٹ رہی تھی۔
’’مجھے بد دعا مت دو حمنہ… لیکن ہاں مار دوں گا میں اسے، جان سے مار دوں گا۔‘‘
وہ ہذیانی ہو گیا۔
حمنہ دنگ رہ گئی۔
’’تمہیں پتہ ہے ممی نے یہی کیا تھا۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی تھی۔‘‘
حمنہ نے منہ پر ہاتھ رکھ کر چیخ روکی۔
’’میری ایک پھپھو معذور تھیں۔ ممی کے ایک ٹیکے نے ان کا قصہ تمام کر دیا۔ ان کا بدن نیلا پڑ گیا تھا۔ ممی نے واویلا مچا کر ان کی جلدی تدفین کروا دی تھی۔‘‘
’’کتنی چالاک عورت ہیں نا تمہاری ممی۔ کسی کو سوچنے کا موقع ملتا، پوسٹ مارٹم ہوتا تو سارا پول کھل جاتا۔‘‘
حمنہ کے لہجے میں استہزاء تھا۔
’’چالاک نہیں، عقل مند۔ خیر پھر میری بہن پیدا ہوئی۔ گل گوتھنی سی گلابی گڑیا سی حبہ۔ خود سے دس سال چھوٹی بہن مجھے بہت پیاری تھی۔ چھ ماہ بعد اچانک اس کی گردن ڈھلک گئی۔ اس کی معذوری کا انکشاف ہونے پر ممی نے رونا دھونا مچانے کے بجائے عملی قدم اٹھایا۔ اس بار ان کی قسمت خراب تھی۔ ڈیڈ حبہ کا مردہ جسم اٹھا کر اسپتال بھاگے تھے۔ گھر واپسی پر ممی سے ان کا شدید جھگڑا ہوا۔ ممی نے ڈیڈ کی گوشمالی پر غصے میں اپنا بھانڈہ خود پھوڑ دیا۔ دادی صدمے سے پتھرا گئیں۔
’’صمصام ہاشوانی صاحب، یہ میں تھی جس نے آپ کو ہلکا پھلکا کر دیا۔ ورنہ اس وقت شہنی کے ساتھ حبہ کا بوجھ بھی ڈھو رہے ہوتے۔‘‘
وہ اس انکشاف کے بعد ڈھے گئے۔
’’سجیلہ تمہیں ذرا سا بھی خوف نہیں آیا۔ شہنی نے تمہارا کیا بگاڑا تھا؟ وہ تمہاری ذمہ داری کبھی بھی نہیں تھی۔ چلو شہنی میری بہن تھی۔ تم جیسی آزاد خیال عورتوں کے لیے نند بری ہے، وہ تھی بھی معذور۔۔۔ حبہ تو تمہارا اپنا خون تھی… اسے بھی تم نے نہ بخشا… تم عورت ہو یا ڈائن۔‘‘
ڈیڈ کی آواز گھٹ گئی۔
’’بس، صمصام صاحب بس… میں اپنے ارد گرد کسی نامکمل انسان کو نہیں دیکھ سکتی۔‘‘
’’تم خود کامل ہو سیاہ دل عورت؟ قیامت سے پہلے قیامت ڈھا دی… اللہ، میں کس منہ سے سامنا کروں گا آپ کا روزِ قیامت… اللہ، میری شہنی، میرے جگر کا ٹکڑا حبہ…‘‘
’’اس دن میں نے ڈیڈ کو زندگی میں پہلی اور آخری بار پھوٹ ھوٹ کر روتے دیکھا۔ حبہ کی تدفین کے بعد وہ دادی کو لے کر کہیں چلے گئے اور پھر کبھی نہ لوٹے۔‘‘
’’تمہاری ممی نے اچھا نہیں کیا صبیر۔‘‘
صدمے سے شل حمنہ کے حلق سے الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر برآمد ہوئے تھے۔
’’ممی نے بالکل درست کیا تھا حمنہ… ہمیں کیا حق پہنچتا ہے ایک بے کار وجود کو اذیت میں ڈالے رکھنے کا… اب وہ دونوں اچھی جگہ ہوں گی، خوش ہوں گی۔‘‘
حمنہ وہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی۔ ہمت مجتمع کر کے بالآخر وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
صبیر نے اس کے دوپٹے کا کونہ کھینچا۔
’’ممی کوغلط مت سمجھو حمنہ… کون سا یہ کام دنیا میں پہلی بار ہوا ہے جو تم ایسا ردعمل دے رہی ہو۔ ہمارے ارد گرد کتنی ہی مثالیں موجود ہیں۔ تمہیں شعبہ اسلامیات کے ڈاکٹر حمود قدوائی یاد ہیں؟ انہوں نے اپنی بیٹی کو اپنے ہاتھوں سے زہر دیا تھا۔ وہ بھی معذور تھی بے چاری… دنیا سے جانے تک وہ روتا تھا کہ مجھ سے ظلم ہو گیا… ہمارے گاؤں کی دائی نے بھی اپنی بیٹی سے اسی طرح گلوخلاصی پائی۔ ابھی بھی عیش کرتی پھرتی ہے۔‘‘
صبیر اسے مطمئن کرنے کے لیے تاویلیں گھڑ رہا تھا۔ جانے اس کا ضمیر کہاں جا سویا تھا۔
حمنہ نے جھٹکے سے دوپٹہ چھڑوایا اور پر پل پڑی۔
’’گھٹیا آدمی، تم اسے گلو خلاصی کہتے ہو… یہ قتل ہے، قتلِ عمد… تمہاری ممی قاتل ہیں اور تم قاتل کی پشت پناہی کرنے والے بے رحم انسان۔ ان کے غلط اقدام بلکہ صریح گناہ کو درست ثابت کرنے کے لیے توجیہات دے رہے ہو۔ ایک انسانی جان کی وقعت تمہارے نزدیک تنکے جتنی بھی نہیں۔ الٹا اس ظالم جلاد عورت کا دفاع کر رہے ہو… شرم آنی چاہیئے تمہیں خود کو انسان کہتے ہوئے۔‘‘
غصے کی زیادتی سے اس کی آواز رندھ گئی۔ اس بدن مرتعش تھا۔ اسے لگا آج وہ نہ بولی تو اس کا دل پھٹ جائے گا۔
’’حمنہ تمہیں یہ کہنے کا حق کسی نے نہیں دیا۔‘‘
’’تم کون ہوتے ہو مجھے مشورہ دینے والے… دوسروں کی زندگی چھیننے کا اختیار تمہارے پاس کیسے آ گیا؟ تمہارے اس خوبرو اور وجیہہ چہرے کے پیچھے ایک مکروہ انسان چھپا ہے۔ تم بھیڑ کی کھال میں بھیڑیا ہو۔ تمہاری ممی ایک خون آشام بلا ہیں۔ تم سمجھتے ہو اپنی وجاہت اور دولت کے بل بوتے پر جو چاہو گے کر گزرو گے اور تمہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہو گا۔ اللہ پوچھے گا تم سے اور ضرور پوچھے گا۔‘‘
کتابیں، بیگ اور نوٹس اٹھا کر وہ لرزیدہ قدموں سے یوں چلی جیسے پہاڑوں جتنا بوجھ ڈھو رہی ہو۔ صبیر چلا چلا کر کچھ بولے جا رہا تھا۔ وہ سنی ان سنی کر کے جامعہ سے نکل گئی۔ گھر پہنچتے ہی وہ بے سدھ ہو کر گر گئی۔
٭…٭…٭
’’توبہ جان نکال کر رکھ دی تم نے لڑکی… اتنا تیز بخار تھا۔ ابھی بھی پیشانی جل رہی ہے۔‘‘
ثمین نے یخنی کا پیالہ میز پر رکھ کر اس کا ماتھا چھوا۔ حمنہ خالی خالی نظروں سے بھابھی کو دیکھ کر رہ گئی۔
’’حمنہ کیا ہوا تھا میری جان؟ کچھ بولو تو سہی۔‘‘
’’میں صفی کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ ان لوگوں نے صفی کے بارے بات کی، میں کئی راتوں تک سو نہیں پائی تھی۔ کیا کسی کو جیتے جی مار دینا اتنا ہے آسان ہوتا ہے بھابھی۔‘‘
اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ ثمین اس کے ہاتھ سہلانے لگی۔
’’ایک عام انسان متحرک رہنا چاہتا ہے۔ بیٹھے ہوؤں کے ساتھ کوئی زیادہ دیر نہیں بیٹھ سکتا۔ اس لیے وہ ذمہ داری سے جان چھڑوانا چاہتا ہے۔‘‘
’’لیکن صفتین کی زندگی جامد تو نہیں ہے۔ وہ ہمہ وقت حرکت میں رہتی ہے۔‘‘
اس کی نگاہوں کے سامنے صفتین کے کئی روپ ابھرنے لگے۔
وہیل چیئر گول گول گھماتی ہوئی…
لفٹ میں خوشی سے چلاتی ہوئی…
باورچی خانے کھانوں پر رنگ برنگے تجربے کرتی ہوئی…
کیاریوں میں اپنے لگائے پودوں کو پانی دیتی ہوئی…
عشقِ پیچاں کی بیل کے نیچے بیٹھ کر ناول پڑھتی ہوئی…
پسندیدہ ٹیم کے میچ جیتنے پر چمکتی آنکھوں سے نعرے لگاتی ہوئی…
لکھنے والی میز کے ساتھ وہیل چیئر جھلا جھلا کر گنگناتی ہوئی…
کالونی کی سنسان سڑک پر ون ویلنگ کرتی ہوئی…
اس کے چہرے پر یہ سوچتے ہوئے بے ساختہ مسکراہٹ پھیل گئی۔ نم آنکھوں کے ساتھ مسکراہٹ کا عجب تال میل تھا۔
’’یاد ہے بھابھی وہ باہر نکل کر ون ویلنگ کرتی ہے۔ یہ سحرین کا ہی حوصلہ ہے جو وہ اسے قابو کرتی ہے۔ پہلی بار تو ہمارا دم حلق میں اٹک گیا تھا۔ آپ کی ڈانٹ اور میری گھوریوں پر وہ کیسے قل قل ہنستی رہی تھی۔ ’’اللہ اللہ کیسی ڈرپوک لڑکیاں ہو۔ حمزہ (بھائی) بہت خوش ہوتا ہے۔ اسی نے مجھے ون ویلنگ سکھائی ہے۔‘‘
’’یہ بھی کوئی بھولنے والی بات ہے۔‘‘
’’پھر آپ ایسا کیوں کہہ رہی ہیں۔‘‘
’’صفی جیسے لوگوں کے ساتھ زندگی ایک مخصوص دائرے تک محدود ہو جاتی ہے۔ وہ ہماری طرح ہر کام نہیں کر سکتی۔ بہت جگہوں پر اسے سہاروں کی ضرورت پڑتی ہے۔ ذرا تصور کرو، اس کی خود کار وہیل چیئر نہ ہو تو اسے اٹھانا، بٹھانا اور حوائج ضروریہ سے فارغ کروانا کتنا مشکل ہو گا۔ ہم کتنا بھی اس کا ساتھ دینے کی کوشش کر لیں، بالآخر ایک مقام پر ہم بے بس ہو جاتے ہیں… اس کا مستقل ساتھ صرف ایک ہی ہستی دے سکتی ہے اور وہ ہے ماں۔‘‘
’’صبیر کی ممی ماں نہیں ہیں؟ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنی اولاد کو مار دیا۔‘‘
’’کچھ لوگوں کے دلوں پر مہر لگ جاتی ہے۔ یوں سمجھو اللہ ان کی شقی القلبی پر ان کو معاف نہیں کرنا چاہتا۔ ان کی رسی دراز ہوتی ہے مگر ان کے لیے درد ناک عذاب منتظر ہے۔‘‘
’’لیکن بھابھی صبیر کہتا ہے کچھ نہیں ہو گا۔ اس کی ممی کو کوئی غم نہیں چھو سکتا۔ کیا واقعی بھابھی مکافاتِ عمل نہیں ہوتا؟‘‘
ثمین نے متحیر ہو کر اسے دیکھا۔ (انہیں تو انکار کر دیا گیا تھا۔)
’’وہ تمہیں کہاں ملا؟‘‘
’’جامعہ آیا تھا آج… بتائیں نا بھابھی، جزا و سزا کا تصور کیوں دیا گیا ہے ہمیں جب لوگ اللہ کے فیصلوں کو چٹکی میں مسل دیتے ہیں۔‘‘
ثمین نے بات بدلنے کے لیے پیالہ اٹھا کر اس کے سامنے کیا۔
’’پہلے جلدی سے اچھی ہو جاؤ پھر بات کریں۔ لو یخنی پیو۔‘‘
’’میرا ابھی دل نہیں چاہ رہا بھابھی۔‘‘
اس نے ہاتھ سے چمچ پیچھے کیا۔
’’حمنہ برے کام کی سزا جلد یا بدیر ضرور ملتی ہے۔ اللہ خوب انصاف کرنے والا ہے۔‘‘
ثمین کو کچھ تو کہنا تھا۔
’’وہ کفریہ کلمات کہہ رہا تھا، پھر بھی اسے کچھ نہیں ہوا۔ اس کی ممی نے دو دو قتل کیے، انہیں بھی کچھ نہیں ہوا۔ وہ ابھی تک خوش باش ہیں، صحت مند اور امیر ہیں۔ انہیں واقعی کچھ نہیں ہوا۔‘‘
ثمین کو چپ لگ گئی۔ اس کی باتیں بے ربط مگر سچی تھیں۔
’’میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی، مہذب پن کا ناٹک کرنے لوگوں کے چہرے سے یوں نقاب اترے گا۔ میری زندگی سے ساری خوش امیدی، سارے رنگ اڑ گئے۔ میں تہی دامن رہ گئی ہوں بھابھی۔‘‘
وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
اس پر کئی عذاب ایک ساتھ اترے تھے۔
پرت در پرت نقاب پہنے انسان سے ملنے کا دکھ…
محبت سراب ہونے کا دکھ…
اعتماد، بھروسہ، مان ٹوٹ جانے کا دکھ…
رشتوں کا اعتبار لٹ جانے کا دکھ…
معصوم صورت قاتلوں کے ہاتھوں دھوکہ کھانے کا دکھ…
وہ جتنا ماتم کرتی، کم تھا…
٭
بہت خوب… ♥
شکریہ
لاحول ولاقوتہ
اتنے شقی القلب لوگ۔۔ پڑھ کر جھرجھری آگئی۔باقی حمنہ کو موٹے موٹے آنسو بہانے کی بجائے شکر منانا چاہئیے تھا کہ ان جلاد صفت لوگوں سے جان چھوٹ گئی۔
بہت بہترین لکھا۔