ناولٹ

دکھ کی سانجھ: فہمیدہ فرید خان

’’بھابھی۔‘‘
ثمین اپنی نند کی اسی پکار منتظر تھی سو فوراً متوجہ ہوئی۔ کیوں کہ جامعہ سے واپسی پر وہ اس کے آس پاس منڈلا رہی تھی۔ حمنہ بے دھڑک بات کہہ دینے کی عادی تھی۔ اسے جب بھی کوئی بات ماں باپ یا بھائی تک پہنچانا مقصود ہوتی، ثمین کا کندھا استعمال کرتی تھی جو اچھی بھابھی اور بہو کا کردار نبھانے میں پوری طرح کامیاب تھی۔ اس بار وہ ہچکچا رہی تھی تو صورت حال یقیناََ گمبھیر تھی۔ ثمین نے از خود اس سے پوچھنا مناسب نہ سمجھا۔ جلد یا بدیر وہ بتا ہی دیتی۔ ان کے درمیان روایتی نند بھاوج والی چپقلش مفقود تھی۔ وہ دیکھ رہی تھی حمنہ کچھ کہنے نہ کہنے کی کشمکش میں کبھی انگلیاں چٹخاتی، کبھی کنپٹی سہلاتی اور کبھی ٹہلنے لگتی مگر تابکے… شام کی چائے بناتے ہوئے بالآخر اس نے ہمت مجتمع کر کے ثمین کو پکار ہی لیا۔
’’خیریت، کیا بات ہے حمنہ؟‘‘
’’ بھابھی مجھے آپ سے ایک بات کرنا ہے۔‘‘
’’ہاں ضرور میں خالہ خالو کو چائے دے آؤں پھر بات کرتے ہیں۔‘‘
اس نے حمنہ کا کندھا تھپتھپا کر سینی اٹھا لی۔
وہ لوٹی تو حمنہ چائے سامنے رکھے اس کی منتظر تھی۔
’’ہاں اب بولو معاملہ کیا ہے؟‘‘
ثمین نے اپنی پیالی سرکائی۔
’’بھابھی میں نے آپ کو صبیر ہاشوانی کا بتایا تھا نا جو جامعہ میں میرا سینئر تھا۔ اب وہ فارغ التحصیل ہو کر اپنا خاندانی کاروبار سنبھال رہا ہے۔‘‘
ثمین حمنہ کی بات مکمل ہونے کی منتظر تھی۔
’’وہ اپنی ممی کو ہمارے گھر بھیجنا چاہتا ہے۔‘‘
حمنہ نے میز کی سطح کھرچتے ہوئے بتایا۔
’’تو اس میں کیا مسئلہ ہے۔ آ جائیں اس کی ممی۔‘‘
’’اس کی ممی ذرا اور سے مزاج کی ہیں۔ اگر انہیں گھر والوں سے خاطر خواہ پذیرائی نہ ملی تو برا مان جائیں گی۔‘‘
’’میرا نہیں خیال کہ مہمان سے کوئی منہ بنا کر ملے گا تاہم گھر والوں کو ان کی آمد کا علم ہونا چاہیئے۔‘‘
’’پھر آپ امی بابا اور بھائی کو بتا دیں گی؟‘‘
’’ہاں ضرور، کیوں نہیں۔ کب آئیں گی صبیر کی ممی؟‘‘
’’جب ہماری طرف سے ہاں ہو گی۔‘‘
حمنہ بے دھیانی سے کہہ گئی۔ جس پر ثمین پر ہنسی کا دورہ پڑ گیا۔ اس نے اسے پیار سے چپت لگائی۔
’’پہلے ہاں نہیں ہوتی بیوقوف لڑکی، پہلے رشتہ آتا ہے۔‘‘
حمنہ خفیف سی ہو گئی۔
’’میرا مطلب تھا گھر بلانے کے لیے انہیں جب امی بابا کی طرف سے مثبت اشارہ ملے گا، تب آئیں گی۔‘‘
’’ہممم… اکیلی آئیں گی؟ صبیر کے ابو کہاں ہوتے ہیں؟‘‘
ثمین نے بنیادی معلومات لینے کی ٹھانی۔ اسے ساس سسر اور شوہر کو مطمئن کرنا تھا۔
’’صبیر بتا رہا تھا یہ تعارفی ملاقات ہو گی اس لیے صرف سجیلہ ہاشوانی آئیں گی۔ باقاعدہ رشتہ ڈالنے اس کے ڈیڈ بھی آئیں گے۔‘‘
’’ویسے یہ لوگ صدر الدین ہاشوانی کے رشتہ دار ہیں؟‘‘
ثمین نے کافی دیر سے ذہن میں کلبلاتا سوال پوچھ لیا۔
’’وہ کون ہیں؟‘‘
حمنہ نے تعجب سے پوچھا۔
’’پی سی ہوٹل کی چین کے مالک۔‘‘
ثمین کے بتانے پر وہ ہکا بکا ہوئی۔
’’ایں… مجھے نہیں علم لیکن ایسا ہو جائے تو کتنا مزہ آئے۔ میں بھی شو مار لیا کروں گی۔‘‘
’’ہاں خوب مزہ کرنا۔ ویسے ایک بات ہے سب امیر آپس میں رشتہ دار لگتے ہیں۔ آپس میں رشتہ داریاں گانٹھ بھی لیتے ہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں مایا کو مایا ملے کر کر لمبے ہاتھ… دولت مندوں کے رشتہ دار بھی کھمبیوں کی طرح اگتے ہیں، چاہے ان کے فرشتوں کو بھی علم نہ ہو۔‘‘
ثمین مسکرائی تھی۔
’’درست کہہ رہی ہیں آپ… پھر کب بلانا ہے ان کو؟‘‘
تائید کرتے ہی وہ دوبارہ اپنے مدعا پر آ گئی۔
ثمین نے اسے بغور دیکھا۔
’’ہتھیلی پر سرسوں کیوں جمانا چاہتی ہو؟ صبیر سے شادی کے لیے ایسی بے صبری… ذرا اس کے نام کی لاج ہی رکھ لو۔ میں امی بابا اور حمدان سے بات کر کے بتاؤں گی۔‘‘
اسے نام کے حوالے سے چھیڑ کر اس نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
’’بھابھی وہ کون سا اپنے نام کا پرتو ہے۔ خود بھی اتاؤلا ہو رہا ہے رشتہ جوڑنے کے لیے۔‘‘
حمنہ ہنس دی تھی۔
’’صحیح جا رہے ہو تم دونوں۔ کرتے ہیں کوئی بندوبست تم لوگوں کو کسی کھونٹے سے باندھنے کا۔‘‘
حمنہ گلابی گلابی ہو گئی۔
ثمین نے دل ہی دل میں اسے ہمیشہ خوش رہنے کی دعا دی۔
’’اچھا سنو صفتین بازار جانے کا کہہ رہی ہے۔ اسے کچھ چیزیں لینی ہیں۔“
”تو چلے چلیں گے۔ کب جانا ہے اس نے؟“
”تمہیں تو معلوم ہے وہ اپنے معمول کے مطابق چلتی ہے ورنہ بازار جانے میں کون سا ہل جوتنا پڑتا ہے۔‘‘
’’کوئی نہیں بھابھی، مجھے صفی کی یہ عادت بہت پسند ہے۔ وہ بہت منظم ہے ماشاءاللہ۔ خیر کل چلتے ہیں، میں جامعہ سے جلدی آ جاؤں گی ۔ مجھے بھی نئے کپڑے لینے ہیں۔ مال پر جائیں گے تاکہ صفی کے لیے بھی آسانی رہے۔ اس کی سب چیزیں وہیں مل جائیں گی۔ لفٹ میں مزے سے اوپر نیچے ہوتے رہیں گے۔‘‘
حمنہ نے پروگرام سیٹ کیا۔
’’ٹھیک ہے میں اسے بتا دوں گی کل تیار رہے۔‘‘
ثمین نے برتن دھونے کے لیے اکٹھے کرتے ہوئے متفق ہونے کا عندیہ دیا۔
٭…٭…٭
صبیر ہاشوانی کی ممی تمام مراحل سے گزر کر بالآخر سکندر سعید کی بیٹھک میں براجمان تھیں۔ پر تمکنت و پر وقار سی سجیلہ نزاکت، خوبصورتی اور نخوت کا حسین امتزاج تھیں۔ سہج سہج بولنے کے دوران وہ ارد گرد تنقیدی نگاہیں دوڑا رہی تھیں۔ چھوٹی سی بیٹھک جدید طرز کے فرنیچر اور نفیس سجاوٹ کی وجہ سے نگاہ کو بھلی لگ رہی تھی۔ سجیلہ ہاشوانی نہ چاہتے ہوئے بھی مکینوں کے ذوق کو پورے نمبر دینے پر مجبور ہو گئیں۔
حمنہ سکندر بیٹھک میں داخل ہوئی تو ان کی توجہ اس کی جانب مبذول ہو گئی۔ کامنی سی حمنہ کو دیکھ کر انہیں بیٹے کے انتخاب پر غرور ہوا۔
(میرا بیٹا میری طرح حسن پرست ہے۔) اس سوچ نے ان کے چہرے پر ذرا کی ذرا مسکراہٹ کا عکس اترا۔ انہوں نے اپنی متوقع بہو کو ساتھ بٹھا لیا۔ مختصر گفتگو کے بعد حمنہ کی جانب سے طمانیت کے احساس کے زیرِ اثر وہ اب سکینہ بیگم کی طرف متوجہ تھیں۔
’’کتنے لوگ ہیں آپ کے گھر میں؟‘‘
’’ہم میاں بیوی، میرا بیٹا، بیٹی اور بہو ہے الحمدللہ۔‘‘
”یہ آپ کی بہو ہے؟“
انہوں نے ثمین کی طرف مبہم سا اشارہ کیا۔
’’جی اللہ رکھے یہ میری بہو ہے اور یہ ثمین کی امی ہیں۔‘‘
سکینہ بیگم نے لگے ہاتھوں اندر داخل ہوتی اپنی بہن رقیہ بیگم کا تعارف بھی کروا دیا جنہیں سجیلہ ہاشوانی سے ملوانے کے لیے بلایا تھا۔
’’خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔‘‘
سجیلہ ہاشوانی سپاٹ لہجے میں رسمی سا جملہ بول کر فارغ ہو گئیں۔ پھر قدرے توقف سے گوہر فشانی کی۔
’’مجھے اپنے بیٹے کے لیے چھوٹا کنبہ ہی چاہیئے تھا۔ مجھے زیادہ بھیڑ بھاڑ سے الجھن ہوتی ہے۔ میرے اتنے بڑے بنگلے میں بیٹے اور میرے علاوہ صرف ملازمین ہیں۔ صبیر اپنے کام میں مصروف رہتا ہے، میں اپنی سرگرمیوں میں مشغول۔ شاید اسی لیے مجھے اکیلے پن کی عادت ہو گئی ہے۔‘‘
انہوں کھل کر بتا دیا۔
’’ہم بہنوں کے گھر ساتھ ساتھ ہیں۔ پہلے سب بچے مل کر اودھم مچائے رکھتے تھے۔ اب بڑے ہو گئے ہیں۔ کوئی نہ کوئی مہمان بھی آیا رہتا ہے اس لیے ہم عادی ہیں شور و غوغا میں رہنے کے۔ اللہ ثمین کی گود ہری کرے تو مزید رونق لگ جائے گی۔‘‘
’’کتنا عرصہ ہوا ہے شادی کو؟‘‘
’’اکتوبر میں تین سال ہو جائیں گے ان شاءاللہ۔‘‘
’’تین سال… آپ کے بیٹے کی شادی کو تین سال ہو گئے اور ابھی تک اس کے بچے نہیں ہیں۔‘‘
سجیلہ ہاشوانی کے لہجے میں انہونا سا استعجاب تھا ‘گویا تیس سال ہو گئے ہوں۔
سکینہ بیگم کو گفتگو آگے بڑھانے میں تامل ہوا۔ حالاں کہ وہ موقع محل کے حساب سے بے تکان بول سکتی تھیں۔
’’میں نے ابھی سے سوچا ہوا ہے کم ازکم پہلا پوتا جلدی ہو۔ بچے کی پیدائش سے پتہ چل جاتا ہے کہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ پھر آگے جتنے مرضی پیدا کر لو۔‘‘
وہ یوں کہہ رہی تھیں جیسے یہ کام ان کی مرضی و منشا سے طے پانا ہو۔
ثمین کے چہرے پر کئی رنگ آ کر گزر گئے۔ سکینہ بیگم سجیلہ ہاشوانی کی منطق پر سخت کبیدہ خاطر ہوئیں۔ تاہم انہوں نے سبھاؤ سے جواب دیا۔
’’بس اللہ کے حکم کی دیر ہے۔‘‘
سجیلہ ہاشوانی ہنکارا بھر کر خاموش ہو رہیں۔
حمنہ موضوعِ گفتگو پر منہ کھولے ایک ایک کی شکل دیکھ رہی تھی۔
٭…٭…٭
وقتِ رخصت وہ نشست گاہ سے گزریں۔ صوفے پر دو لڑکیاں بیٹھی تھیں۔ ایک لڑکی نے فوراً کھڑے ہو کر سلام کیا جبکہ دوسری نے بیٹھے بیٹھے ہی یہ رسم نمٹا دی۔
(کیسا خیرہ کن حسن ہے اس لڑکی کا، گویا ہاتھ لگانے سے میلی ہو جائے گی۔ اسے دیکھ کر کشتوں کے پشتے لگ جاتے ہوں گے۔ شاید اسی لیے مغرور ہے، اپنی جگہ سے ہلی تک نہیں۔ خیر خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آ ہی جاتی ہے۔ صبیر اسے دیکھے تو حمنہ کو بھول جائے۔) سجیلہ ہاشوانی اپنی فطرت کے عین مطابق اس پر نظر جمائے سوچے گئیں۔ وہ ان کی نگاہوں سے خائف ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگی۔
’’یہ بھی آپ کی کیا لگتی ہے رقیہ؟‘‘
انہیں آخر کار رقیہ بیگم کو مخاطب کرنے کا خیال آ گیا تھا۔ یہ یقیناً رعبِ حسن کا کرشمہ تھا۔
’’جی یہ میری بیٹی ہے صفتین۔ دوسری سحرین ہے۔‘‘
’’آپ اسے تمیز سکھا دیتیں۔ بڑوں کو کھڑے ہو کر سلام کرنے سے عزت نہیں گھٹ جاتی۔ اتنا طنطنہ کس کام کا… خالی خولی صورت کو آج کل کون پوچھتا ہے۔‘‘
عجیب لٹھ مار سا انداز تھا۔
’’میری بیٹی معذور ہے… لیکن بدتمیز ہرگز نہیں ہے۔‘‘
رقیہ بیگم کی آواز لرز گئی تھی۔
صفتین نے ہاتھ کے اشارے سے ماں کو جذباتی ہونے سے منع کیا۔ ریموٹ کنٹرول اٹھا کر کونے میں پڑی وہیل چیئر قریب کر کے اس پر بیٹھی اور سجیلہ ہاشوانی کے سامنے لے جا کر ہاتھ مصافحہ کے لیے آگے بڑھا دیا۔
’’السلام علیکم! میں صفتین الہدیٰ ہوں۔ معذرت میں کھڑی نہیں ہو سکتی ورنہ آپ کی خدمت میں کورنش ضرور بجا لاتی۔ مہمانوں کی تکریم فرض ہے۔ ماں باپ کی تربیت ہماری گھٹی میں پڑی ہے۔ یقین کیجئے ہم اتنے بے لگام کبھی نہیں رہے کہ ان کے حکم سے سرتابی کر جائیں۔‘‘
صفتین نے ازلی خود اعتمادی اور صراحت سے بات مکمل کی۔
سجیلہ ہاشوانی تھوڑا گڑبڑا گئیں۔
’’مجھے معلوم نہیں تھا لیکن معذوروں کو آج کل گھروں میں کون رکھتا ہے؟ اتنے ادارے آخر اسی لیے کھلے ہیں؟‘‘
انہوں نے شانے جھٹک کر کہا۔
’’کیا مطلب ہے آپ کا؟ ہم اپنے بچوں کو اٹھا کر باہر پھینک دیں؟ ہم سے بہتر ان کی دیکھ بھال کوئی نہیں کر سکتا۔‘‘
ثمین نے تڑپ کر صفتین کو اپنی بانہوں میں لیا۔
’’ارے نہیں بھیجنا تو مت بھیجو مگر حقیقت کو تسلیم کرو پھر… سکینہ مجھے لگتاہے آپ کی بہو اسی وجہ سے بچہ نہیں پیدا کرنا چاہ رہی کہیں بچہ اس کی بہن جیسا نہ ہو۔ کیوں میں ٹھیک کہہ رہی ہوں نا؟‘‘
سجیلہ ہاشوانی نے سفاکیت سے ایسے تجزیہ پیش کیا جیسے ثمین اپنے راز و نیاز انہی سے کرتی رہی ہو۔
ثمین نے ششدر ہو کر انہیں دیکھا۔ اس کے کانوں میں جیسے کسی نے پگھلا ہوا سیسہ انڈیل دیا تھا۔ یہ پہلو اس کے سان و گمان میں بھی نہیں تھا۔
’’میرے اللہ۔‘‘
وہ چہرہ ہاتھوں میں چھپائے صوفے پر گر گئی تھی۔
’’ایسا نہیں ہے۔ ہم اللہ پر توکل کرنے والے لوگ ہیں۔ صفتین کے بعد باجی کے تین بچے ہیں اور تینوں صحت مند ہیں الحمدللہ۔‘‘
سکینہ بیگم نے ان کی حد بندی کی سعی کی۔
’’نہ مانیں بھئی مرضی ہے آپ کی۔ ویسے میرے خیال میں اس طرح کی مخلوق کو تکلیف سے نجات دلوا دینی چاہیئے۔‘‘
حقارت بھرے انداز میں وہ یوں بات کر رہی تھیں جیسے کتے بلی کی بات کر رہی ہوں۔ سب کو گھورتے دیکھ کر ان کا انداز یکایک مدافعانہ ہو گیا۔
’’یہ میں نہیں کہہ رہی، شاید ہٹلر نے ایسا بولا تھا۔‘‘
’’مادام ہمیں کسی آمریت پسند اور تسلط پسند شخص کے افکار سے کیا لینا دینا۔ آپ فرنگی تہذیب سے اتنی ہی متاثر ہیں تو ذرا ان سہولیات پر نگاہ کر لیں جو وہ معذور افراد کو دے رہے ہیں۔ ان اقدامات کو دیکھ لیں جو معذروں کی بہتری کے لیے اٹھا رہے ہیں۔ یہ جدید ترین وہیل چیئر دیکھ رہی ہیں آپ۔ یہ میرے چچا نے فرنگیوں کے دیس سے بھجوائی ہے۔ جنہوں نے میرے بارے میں جان کر اس پر کوئی محصول نہیں لگنے دیا۔ حالاں کہ میں اس ملک کی شہری بھی نہیں ہوں۔ افسوس ہماری قوم میں اس مکھی کی طرح تاریک پہلو دیکھنے کی عادتِ بد سرایت کر چکی ہے، جو گند پر ہی بیٹھتی ہے۔ ہم نے کوئی مثبت مثال دیکھنی ہے نہ اپنانی ہے۔ آپ نے قول بھی یاد رکھا تو ہٹلر جیسے سفاک اور ظالم انسان کا۔‘‘
وہ صفتین الہدیٰ تھی۔ مجال تھی جواب دینے سے چوک جاتی یا کسی سے دب جاتی۔
’’رقیہ آپ تو کہہ رہی تھیں آپ کی بیٹی بدتمیز نہیں ہے۔‘‘
سجیلہ بیگم سے جواب نہ بن پڑا تو رقیہ بیگم کو نشانہ بنا لیا۔ گو کہ جواب بہت تھے لیکن وہ خاموش رہیں۔
’’مجھے اس لڑکی کی معذوری سے کوئی سروکار نہیں۔ آپ کی مشکل دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا۔ پھر آگے ہمارا واسطہ پڑتا ہی رہے گا۔ کیوں کہ مجھے یقین ہے جواب ہاں میں ہی ہو گا۔‘‘
عجیب رعونت بھرا لہجہ تھا ان کا۔
’’واہ واہ کیا سانپ جیسی فطرت پائی ہے آپ نے۔ کیسے کینچلی بدلی ہے آپ نے۔‘‘
صفتین کی بصیرت پر کسی کو شبہ نہیں تھا۔
’’لڑکی میرے منہ نہ لگو۔ چٹکیوں میں مسل کر رکھ دوں گی۔‘‘
’’اس کے بعد آپ اپنے پوتوں کا منہ دیکھنے کے لیے زندہ نہیں رہیں گی۔ چار کڑیل جوان بھائی ہیں میرے۔ آپ جاتی ہیں ہیں یا دھکے دے کر نکلواؤں۔‘‘
صفتین کے جارحانہ لہجے پر انہوں نے ایک پر خار نگاہ پھینکی اور ٹک ٹک کرتیں رخصت ہو گئیں۔
٭…٭…٭
’’کیا ان کی بات کا وہی مطلب تھا جو میں سمجھی ہوں؟‘‘
سب سے پہلے ثمین نے جھرجھری لی۔
سب نے نظریں چرا لیں۔ کسی کو بھی یقین نہیں آیا تھا کہ کوئی فرعونیت کی اس انتہا تک بھی جا سکتا ہے۔
’’صفی مجھے معاف کر دو۔ یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے۔‘‘
حمنہ ہاتھ جوڑ کر صفتین کی وہیل چیئر کے پاس گر گئی۔ روتے روتے اس کی ہچکیاں بندھ گئی تھیں۔
’’پاگل ہو، اس میں تمہارا کیا دوش… کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنی شقی القلب نکلیں گی۔‘‘
حمنہ شکستگی چھپا نہ سکی۔
’’ارے ارے یہاں کیا ہو رہا ہے؟ کہیں ہماری بلی کے لیے سچ مچ کسی باگڑ بلے کا رشتہ تو نہیں آ گیا۔‘‘
حمدان نے اندر داخل ہوتے ہوئے ماحول پر چھائی سنگینی محسوس کر لی تھی تبھی ہلکا پھلکا انداز اختیار کیا۔ اسے سجیلہ ہاشوانی کی آمد کا بہ خوبی علم تھا مگر باقاعدہ سلسلہ جنبانی شروع ہونے تک مردوں نے الگ تھلگ رہنے کو ترجیح دی تھی۔ گھر والے رشتہ آنے پر جتنے پر جوش تھے، اب اسی قدر پژمردہ نظر آ رہے تھے۔
’’کچھ نہیں ہوا۔ جاؤ حمنہ بھائی کو پانی لا کر دو۔‘‘
سکینہ بیگم نے آنکھوں آنکھوں میں سب کو سختی سے تنبیہہ کی۔
حمدان ان کے جواب سے مطمئن نہیں ہوا۔
’’تم بتاؤ صفی کیا ہوا ہے؟‘‘
اس نے روئے سخن صفتین کی جانب کیا۔ اسے معلوم تھا وہ بہت صاف گو ہے، بلا کم و کاست بتا دے گی۔
’’کچھ نہیں ہوا بھائی۔ سب کو یونہی معمولی باتوں پر جذباتی ہونے کی عادت ہے۔‘‘
اس نے خالہ کی ہدایت کے بموجب سرسری انداز اختیار کیا۔
’’نہیں ہے یہ معمولی بات… وہ عورت تمہیں صاف صاف مارنے کی دھمکی دے گئی ہے صفی اور تم اسے معمولی بات کہہ رہی ہو۔‘‘
کب سے ضبط کرتی ثمین پھٹ پڑی۔ اس کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔
’’کیا فضول بات کر رہی ہو ثمین… ہماری صفی کو کوئی کیوں مارے گا۔‘‘
حمدان نے بیوی کو پھٹکار کر بے اختیار صفتین کا سر اپنے شانے سے لگایا تھا۔
ثمین نے زار و قطار روتے ہوئے ساری بات شوہر کے گوش گزار کی۔
صفتین سے انہیں بے انتہا انسیت تھی۔ وہ دونوں خاندانوں کی ہتھیلی کا چھالا تھی۔ اس کی معذوری کے باعث ان کی کوشش رہتی تھی اس کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے۔ اسے خود اعتمادی سے جینے کا حق دیا۔ تعلیم و تربیت سے روشناس کروایا تھا۔ حمدان کو دھچکہ لگا۔ اس کی کنپٹی کی رگ اشتعال سے پھڑکنے لگی اور آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔

1 2اگلا صفحہ

Related Articles

3 Comments

  1. لاحول ولاقوتہ
    اتنے شقی القلب لوگ۔۔ پڑھ کر جھرجھری آگئی۔باقی حمنہ کو موٹے موٹے آنسو بہانے کی بجائے شکر منانا چاہئیے تھا کہ ان جلاد صفت لوگوں سے جان چھوٹ گئی۔
    بہت بہترین لکھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page