افسانے

خوش فہم آنکھیں : ماریہ کامران

لالہ موسیٰ شہر کے وسط میں بڑے سے کچے صحن والا یہ گھر ایک کمہارن کا ہے ۔ کالی چادر میں جس کا چہرہ چودویں کے چاند کی مانند چمکتا تھا اور دودھیا کلائیوں میں پڑی کالی چوڑیوں پر نگاہ ٹھہر ٹھہر جاتی تھی ۔ اپنے باپ کی پہلی بیوی کی وہ پہلی اور آخری اولاد تھی ۔ اس کی ماں کے انتقال کے بعد لال دین کمہار نے دوسری شادی یاسمین سے کی تھی ۔
پے در پے پانچ بچے تھے جن کے پیچھے ہلکان ہوتی یاسمین کو لمحے کی فرصت نہ تھی۔ صحن کے ایک جانب مٹی کے برتنوں کا ڈھیر لگا تھا ، دوسرے جانب برلگی ہوئی مٹی گندھی ہوئی پڑی تھی ، چھوٹی سی مہربانوں بھاگ بھاگ کے باپ کے ساتھ کام کرتی تھی ۔ گڑیا کھلونےسے کھیلنے والی عمر مٹی سے کھیلتے گزری تھی ۔ شہر سے برتن بیچ کر آتے ہوئے لالوکمہار کو تیز رفتار ویگن نےٹکر مار دی، زندگی تو بچ گئی مگر ایک ٹانگ سے محروم ہو گیا ، ہاتھ کی ہڈی میں آنے والا معمولی فریکچر مناسب علاج نہ ہونے کے باعث کبھی ٹھیک نہ ہو سکا ۔ چھوٹی سی مہربانو پر بڑی ذمہ داریاں آپڑی تھیں ، کچی عمر سے چک گھماتے گھماتے وہ کب پکی کمہارن بن گئی پتہ ہی نہیں چلا … کالی چوڑیوں والے سفید ہاتھ بڑی نزاکت سے برتن بناتے تھے۔
رات ساری حبس زدہ گزری تھی صبح ہوتے ہی بادل گھر گھر آئے تھے ۔ اودھے بادلوں نے آسمان کو گھیرا اور ساون نے وہ جل تھل کیا کہ بس… کچی مٹی اور پانی کا چولی دامن کا ساتھ ہونے کے باوجود کچے برتن اور بارش کا کوئی جوڑ نہیں ۔ مہربانو نےسارے برتن صحن سے اٹھا کر اندر رکھی پیٹی پرچن دیئے تھے اور وہ خود صحن میں دونوں ہاتھ پھیلائے گول گول گھوم رہی تھی ۔ آس پاس پھیلی مٹی ،کیچڑ اور چھوٹے بھائی بہنوں کے شوروغل سے دور ، وہ تخیل کے پردے پر ابھرتی دو گھورسیاہ آنکھوں میں کھوئی ہوئی تھی ۔ خواب دیکھنے کی عمر تھی ، قوس قزاح کے رنگوں سے مزین خواب، بہاروں میں کھلنے والے خوشنما پھولوں جیسے خواب ،خواب جو لمحوں میں صحراسے نخلستان میں پہنچا دیتے ہیں ۔ بےرنگ زندگی میں رنگ کب آئےتھے بھلا …جب برتنوں کو ٹھیلے پرلادے وہ علاقے کے مین بازار جا رہی تھی ۔ بازار کے مرکزی دروازے کے پاس بنی سرکاری عمارت میں کچھ نئے مہمان ٹھہرے تھے اور انہی میں سے ایک وہ تھا بالکونی میں کھڑا چائے کا مگ تھامے۔
’’سنو!‘‘ وہ اچانک اسے پکار بیٹھا تھا۔
’’جی۔‘‘ سر اٹھا کر مہربانو نے اسے پہلی بار دیکھا تھا وہ جادوئی آنکھوں والا تھا ،گھورسیاہ بولتی انکھیں، کچھ کہتی آنکھیں …
قیامت خیز ہیں آنکھیں تمہاری
تم آخر خواب کس کے دیکھتے ہو
’’پانی کا گڑھا مل جائے گا۔‘‘ اس نے سوالیہ نگاہیں مہربانو کے چہرے پر ٹکا دی تھیں ۔ مہربانو نے بے اختیار اپنی کالی اوڑھنی سر پر درست کی تھی۔
’’جی مل جائے گا۔‘‘
’’تم ٹھہرو میں نیچے آتا ہوں۔ ‘‘ وہ اسے چند منٹ انتظار کرا کے اب اس کے سامنے موجود تھا۔
’’واہ بھئی یہ تو بہت خوبصورت ہے ۔‘‘ اس نے اشتیاق سے لال رنگ کی دھاریوں والا گڑھا اٹھایا تھا۔
’’یہ مجھے چاہیے… قیمت؟؟‘‘ وہ پھر سوالیہ نگاہیں جمائے کھڑا تھا ۔ وہ قیمت بتا کر اب نظریں جھکائے کھڑی تھی ۔ اس نے رقم اس کی طرف بڑھائی جو گھڑے کی اصل قیمت سے زیادہ تھی۔
’’صاحب یہ رقم زیادہ ہے ۔‘‘ وہ ہاتھ بڑھانے میں ہچکچا رہی تھی۔
’’رکھ لو بہت زیادہ نہیں ہے۔‘‘ وہ پیسے تھما کر گھڑا اٹھا کر چل دیا تھا مہربانو آگے بڑھ گئی تھی ۔ مصروف سا دن گزار نے کے بعد رات ہونے تک اس کے ذہن سے گھڑے خریدنے والا مہو ہو چکا تھا۔
٭…٭…٭
محض چند دن بعد ہی وہ پھر سے برتنوں کو بیچنے مین بازار کی دکان کی جانب جا رہی تھی ۔ اچانک ہی کوئی اس کے ہم قدم ہوا تھا ۔ مہربانو نے مڑ کر دیکھا ، وہ دھوپ کا کالا چشمہ لگائے اس کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔
’’تمہارے گھر میں کوئی مرد نہیں ہے ؟؟‘‘ دوستانہ لہجہ، وہ ٹھہر گئی تھی ۔
اپنی ساری کتھا سنا کر جب وہ خاموش ہوئی ، تو اس نے کہا بھی تو کیا۔
’’تم بہت خوبصورت ہو ۔ ‘‘ وہ اس وقت تیز چمکیلی دھوپ میں کھڑی تھی مگر اسے لگا کہ لمحوں میں کوئی مہربان بادل اس کے سر پرآن ٹھہرا ہے ۔ اب دھوپ کہاں تھی بھلا، چھاؤں ہی چھاؤں تھی چاروں او ر… دل نے چپکے سے خواہش کی تھی کہ اس لمحے وہ ان گھور سیاہ آنکھوں میں دیکھے ، قبولیت کی گھڑی تھی شاید اس نے آنکھوں سے کالا چشمہ اتارا تھا اور مہربانوکی حیران آنکھوں میں جھانکا تھا۔
’’ہاں بہت زیادہ خوبصورت ہو، کسی نے پہلے نہیں بتایا کیا؟ ‘‘ گھمبیر لہجہ ،مسکراتی آنکھیں، بے اختیارمہربانو کا سر نفی میں ہلا تھا۔
’’پوچھو جا کر آئینے سے۔ ‘‘ وہ چشمہ واپس آنکھوں پر لگا کر اپنی راہ چل دیا تھا اور وہ دوڑ پڑی تھی ۔ اندھا دھند،رنگوں کے پیچھے ،خوشیوں کے پیچھے، خوش رنگ خوابوں کا ایک صفحہ ہاتھ آیا تھا وہ پوری کتاب پڑھ لینے کی خواہش مند تھی۔
‏ اب اکثر وہ سرکاری عمارت کی اس بالکونی کے سامنے رک جاتی تھی ۔ کبھی وہ بالکونی میں کھڑا مسکرا دیتا اور کبھی ہم قدم ہو جاتا ۔ باتیں کرتے کرتے مہربانو کی مطلوبہ دکان آ جاتی اور وہ اپنی راہ چل دیتا ۔ وہ ایسا ہی ایک دن تھا جب اس نےاچانک مہربانو کی کلائی تھامی تھی۔
’’صرف کالی چوڑیاں ہی کیوں ؟ ‘‘ یہ پہلی جسارت تھی وہ اس کی کلائی تھامے سوال آنکھوں میں لیے کھڑا تھا ۔ وہ جھجھک سی گئی تھی ۔ دھیرے سے اپنا لرزتا ہوا ہاتھ چھڑایا تھا ۔
’’مجھے کالا رنگ پسند ہے۔ ‘‘ مہربانوں نے دھیمے سے اپنی کالی چوڑیوں کو چھیڑا تھا ۔
’’مگر چوڑیاں تو سترنگی بھی جچتی ہیں۔‘‘
وہی عام سا لہجہ کچھ نہ کہہ کر بھی سب کچھ کہتی آنکھیں…
پھر مہربانوکی کلائیاں بھی سترنگی چوڑیوں سے سج گئی تھیں…
‏ وہ بڑ لگا کر مٹی گوندھ رہی تھی جب اس کے کانوں میں یاسمین کی آواز آئی تھی۔
’’مہر کے ابا ! آپا نے پھر پیغام بھجوایا ہے مدثر کے لیے ، کب سے مہربانوں کا ہاتھ مانگ رہی ہیں ۔ اچھا محنتی لڑکا ہے تم نہ جانے کیا سوچ رہے ہو اب کہ آپا نے صاف کہہ دیا ہے کہ ہاں کروا کے ہی دم لیں گی۔‘‘
’’ہاں ہاں لڑکا بھی محنتی ہے اور تیری آپا بھی اچھی عورت ہے ، گھر بار بھی مناسب ہے سوچ رہا ہوں کہ… ‘‘
لال دین کی بات ابھی ادھوری ہی تھی جب مہربانوں نے جھنجھلا کر مٹی پھینکی اور اٹھ کر کمرے کی چوکھٹ میں آ کھڑی ہوئی۔
’’ابا مجھے نہیں کرنی اس مدثر سے شادی۔ ‘‘ وہ روٹھے روٹھے لہجے میں بولی ۔ شکایتی نظر سے یاسمین کو دیکھا ، یاسمین سوتیلی ماں تھی، بات اچھے کے لیے بھی کرتی تو برائی ہی آتی اس پر ۔
’’مدثر اچھا لڑکا ہے ۔ ‘‘ یاسمین نے نرم لہجے میں بولا۔
’’ہوگا ، مجھے نہیں لگتا اچھا ۔ میں نہیں کروں گی اس نے شادی۔ ‘‘ وہ بد لحاظی سے بولتی وہاں سے ہٹ گئی تھی۔
’’چھوڑ،سمجھ جائے گی ابھی نہ سمجھ ہے ،کم عمر ہے ،میں سمجھاؤں گا اسے۔‘‘ لال دین نے یاسمین کو تسلی دی تھی ۔ مدثر کی آنکھوں میں مہربانو کے لیے واضح محبت کے رنگ ہوتے تھے مگر مہربانو نے حقیقت سے نگاہ چرانا سیکھ لیا تھا ۔کہاں مدثر قدرے گہری رنگت اور بوٹا سا قد، کہاں وہ بولتی آنکھوں والا…
٭…٭…٭
وہ مہینہ بھر کے لیے چھٹیوں پر کیا گیا مہربانو کے لیے وقت کاٹنا مشکل ہو گیا ۔ وہ ازحد بے چین تھی اب کہ اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ آئے گا تو وہ اسے ضرور بتائے گی کہ گھر والے مدثر سے اس کی شادی کا سوچ رہے ہیں یہ سن کر وہ ضرور کوئی پیش قدمی کرے گا۔
مہینہ ہونے کو تھا مہربانو اپنی ترنگ میں چلی جا رہی تھی دور سے ہی وہ اسے بالکونی میں کھڑا نظر اگیا تھا ۔قریب پہنچنے پر وہ ٹھٹک کر رک گئی تھی۔ اس کے ساتھ ایک نو عمر لڑکی تھی جس نے اس کے بازو کو تھام رکھا تھا ،اس لڑکی کی پراشتیاق نگاہیں اب مہربانو کے مٹی کے برتنوں پر تھی۔
’’ارے سنو رک جاؤ ذرا۔‘‘ وہ آواز نہ بھی دیتی تب بھی مہربانو کے قدم اس جگہ ٹھہرنے کے عادی تھے ۔ کچھ دیر بعد وہ مہربانوکے ٹھیلے پر موجود ایک ایک برتن کو دلچسپی سے دیکھ رہی تھی ۔ وہ عین اس کے پیچھے دونوں ہاتھ جیبوں میں ڈالے کھڑا تھا ۔ اس لڑکی کے ظاہری سراپے سے صاف ظاہر تھا کہ وہ ایک نوبیاہتا دلہن ہے، اس کے ہاتھوں پر مہندی کے مٹے مٹے سے نقش و نگار تھے ۔ چوڑیوں سے بھری کلائیاں اور تمام تر سولہ سنگھار…
’’سنو !یہ مجھے چاہیے ۔‘‘ لڑکی اٹھلا کہ بولی تھی، وہ مسکرایا تھا ایک ہاتھ سینے پر رکھ کر ذرا سا سر کو خم دیا تھا۔
’’جو حکم۔‘‘ مہربانو حیرت زدہ سی اس کے چہرے اور آنکھوں کو دیکھ رہی تھی جہاں آج صرف اجنبیت تھی ۔ اس کی بیوی نے اپنی من پسند چیزیں خرید لیں تو رقم ادا کر کے وہ اپنی بیوی کا ہاتھ تھام کر عمارت کی سیڑھیاں عبور کر گیا۔
اپنے ہی خوابوں کی ٹوٹی کرچیوں نے مہربانوں کی آنکھیں زخمی کر دی تھیں … خوابوں کے ڈگر پر سر پٹ بھاگتے ،وہ حقیقت کے گڑھے میں اوندھے منہ گری تھی۔
٭…٭…٭
اجنبی نے اپنا وقت رنگین کیا تھا اور مہربانو نے اپنے خواب … اور خواب دیکھنے والی آنکھیں بھلا کی خوش فہم ہوتی ہیں۔
چوڑیوں کی کرچیاں صحن کے کونے میں بکھری پڑی تھیں ۔ وہ لکڑی سے چک گھماتی جاتی گول گھومتی چک پر اس کے ہاتھ مہارت سے چل رہے تھے ۔ منظر دھندلایا تو کمہارن نے اپنی ’’خوش فہم آنکھوں‘‘ کو بے دردی سے رگڑ ڈالا۔
آج اس نے یاسمین کو مدثر کے لیئے ہاں کا عندیہ دے دیا تھا۔
٭…٭…٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page