سرد ہواؤں سے کمرے کی خستہ حال کھڑکی مسلسل بج رہی تھی اور اسکے دماغ میں ہتھوڑے کی طرح برس رہی تھی لیکن وہ سردی سے انجان رائٹنگ ٹیبل پہ کاغذوں کے پلندے کے ساتھ اپنا روز کا معمول دہرانے میں مصروف تھی۔یہ سب وہ کاغذ تھے جواس کے پیار کے ساتھی تھے جو اس کی تنہائی کے ساتھی تھے ۔ وہ الگ بات ہے کہ اب وہ کاغذ آنسوؤں کے نمکین پانی سے دھل دھل کا خستہ حال ہوچکے تھے لیکن بینش پاگلوں کی طرح آج بھی ان کاغذوں کو مقدس سمجھ کر ان کا خیال رکھتی تھی اور روزانہ رات کو گھنٹوں ان اوراق کو تکتے ہوئے گزار دیتی تھی ۔ آج بھی وہ یہ من پسند کام کرتے ہوئے ماضی میں جھانک رہی تھی جو اس کی زندگی کا حسین دور تھا بہار پھول کہکشاں چاند تارے کیا نہیں تھا ان خوابوں میں۔ماضی جو کبھی کبھار اک بھیانک خواب بن جاتا ہے اور کبھی کبھار اک حسین وادی جس میں انسان سیر کرتے ہوئے اپنا حال مستقبل تک فراموش کردیتا ہے ۔دانیال اور بینش دونوں کزن تھے اور انکا تعلق متوسط طبقے سے تھا۔دونوں اچھے دوست تھے بچپن سے سکول مدرسے ساتھ جاتے تھے بچپن لڑکپن میں کیسے بدل گیا اس بات کا احساس ہی نا ہوا۔وقت کے بدلتے موسموں نے بینش کے دل کی کیفیت بھی بدل دی۔اک دن کالج سے واپسی پہ وہ گھر آئی تو امی ابو کے کمرے سے باتیں کرنے کی آواز آرہی تھی وہ گزر کے جانے لگی مگر اپنا نام سن کر رک گئی ۔ اندر امی ابو سے بینش کے رشتے کے لیے بات کررہی تھیں ابو کا خیال تھا کہ دانیال گھر کا بچہ ہے ۔ وہ بینش کے لیے بہترین رشتہ ہے جبکہ امی کا خیال تھا کہ ان کا بھانجا ان کی بیٹی کے لیے بہتر رہے ۔ اس سے زیادہ وہ سن نہ سکی اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔ باقی سارا وقت وہ دانیال کو ہی سوچتی رہی۔اگلے دن کالج جانے سے پہلے ہمیشہ کی طرح دانیال اسے بلانے آیا وہ کمرے میں تیار ہو رہی تھی ۔ نکلنے سے پہلے اس نے خودکو آئینے میں اچھی طرح دیکھا ۔ حالانکہ اس سے پہلے وہ بس مست ملنگ ہی تھی لیکن اب اس کے دل کی کیفیت بدل چکی تھی ۔وہ یہی سب سوچتے ہوئے روم سے باہر نکل گئی اور آئینہ اس کی معصومیت پہ مسکرا دیا۔کالج زیادہ دور نہیں تھا اس لیے وہ دونوں پیدل ہی جاتے تھے ۔ دانیال ہمیشہ کی طرح اس سے روزمرہ کی باتیں کر رہا تھا لیکن بینش خاموش تھی سچ ہے کہ اگر کسی لڑکی کے دل پہ کسی مرد کا نام نقش ہوجائے تو وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بات نہیں کرپاتی ۔ اک شرم جھجک اس کا احاطہ کرلیتی ہے اور یہی اک عورت کی خوبصورتی ہے ۔دانیال حیران ہوا کہ آج بینش کو کیا ہو گیا ہے۔’’بینش کیا بات ہے گھر میں کوئی مسئلہ ہوا ہے کیا؟‘‘دانیال نے فکرمندی سے پوچھا۔’’نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں۔‘‘بینش نے گھبرا کر جواب دیا۔’’لیکن تم آج گم صم لگ رہی ہو۔‘‘ دانیال نے جو محسوس کیا وہ کہہ دیا ۔ وہ ایسا ہی تھا کوئی بات بھی دل میں نہیں رکھتا تھا ۔ اسکی یہی بات بینش کو سب سے اچھی لگتی تھی۔بینش سٹپٹا گئی کہ دانیال اس کی چوری نہ پکڑ لے۔’’ہاں بس ایسے ہی آج دل نہیں تھا آنے کو تو امی نے زبردستی بھیج دیا کالج ۔ ‘‘بینش نے بہانہ بنایا۔اسی دوران کالج آگیا اور وہ دونوں کلاس میں چلے گئے۔اس کے بعد ہر دن بینش کالج جاتے آتے اور کالج کے دوران بھی دانیال کو ہی دیکھنے لگی ۔ وہ اپنی اس حرکت پہ حیران بھی تھی فقط میرا نام اس کے ساتھ لیا گیا اور میں ایسی ہوگئی کیوں ؟ حالانکہ وہ بچپن سے ساتھ تھے پہلے تو کبھی ایسا محسوس نہیں ہوا تھا۔بینش کے لیے آج بہت خوشی کا دن تھا ۔ وہ کالج سے واپس آئی تو پتا چلا کہ تایا ابو نے اس کا رشتہ مانگا ہے دانیال کے لیے اور اس میں دانیال کی مرضی بھی شامل ہے ۔ یہ سب سن کر تو بینش کے پاؤں زمین پر نہیں لگ رہے تھے ۔ اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کی ساری دعائیں قبول ہو گئی ہوں ، زندگی حسین ہوگئی ہو۔کچھ دن بعد سادگی سے ان کی منگنی ہوگئی۔کالج میں فائنل امتحان ہونے والے تھے ۔ ابھی کچھ دن کالج جانا تھا اس دوران بینش اور دانیال روزمرہ کی باتیں کرتے ہوئے ہی جاتے تھے ۔ بینش کا دل کرتا کہ دانیال کچھ تو کہے اس رشتے کے حوالے سے مگر دانیال نے کبھی ایسا کوئی اشارہ تک نہ دیا ۔ کبھی کبھی بینش سوچتی کہ آج کے دور میں تو لڑکے لڑکیاں بنا کسی رشتے کے ہر وقت موبائل پہ اور آمنے سامنے باتیں کرتے ہیں مگر دانیال نے کبھی ایسا لفظ تک نہ کہا شاید دانیال زیادہ ہی مشرقی تھا۔کالج کے آخری دنوں میں بینش ہر وقت دانیال کا سر کھاتی کہ وہ اپنی لکھائی میں اس کے لیے کچھ نہ کچھ اس کے ڈائری میں لکھتا رہے ۔ دانیال پہلے پہل تو ٹالتا رہا لیکن جب بینش کا اصرار بڑھنے لگا تو روزانہ ڈائری پیج پہ کچھ نہ کچھ لکھ دیتا ۔ کبھی کوئی شعر کبھی گانا کبھی اسکا نام کبھی اپنا نام ۔ ان دس دنوں میں اس نے بینش کی ڈائری اپنی لکھائی سے بھر دی ۔ اسکی لکھائی تھی بھی بہت خوبصورت یا شاید بینش کو ہی لگتی تھی۔وقت کے ساتھ ساتھ بینش کی محبت دانیال کے لیے بڑھتی ہی رہی اور وہ ہر وقت اسی کو سوچتی رہتی ۔کبھی خواب و خیال میں اس کے ساتھ دنیا کی سیر کرتی ، کبھی اس کے ساتھ کھانا پکاتی ،اس کے کپڑے دھوتی ور اپنے گھر کی صفائی کرتی۔گھر والے خوش تھے کہ ان کی بیٹی خوش ہے اس بات سے دانیال کے ماں باپ بھی خوش تھے کہ ان کی بہو اتنی اچھی ہے۔وقت کا کام ہے گزرنا وہ گزر ہی جاتا ہے ۔ ان کے امتحان ختم ہوگئے ۔ بینش نے پڑھائی چھوڑ دی ۔ اس کا دل اب کسی کام میں نہیں لگتا تھا ۔ لیکن دانیال نے پڑھائی جاری رکھی اور یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔اور یہی سے بینش کی زندگی کا تاریک سفر شروع ہوا ۔ جس نے بینش کی زندگی کے سب خواب جلا کر بھسم کر دئیے ۔ خواب مر جائیں تو انسان بھی مرجاتا ہے ۔ خواب ہی تو انسان کو جینے کا راستہ دکھاتے ہیں یہ ہماری زندگی کو جاری رکھتے ہیں ۔خواب ٹوٹ جائیں تو زندگی جامد ہو جاتی ہے۔’’تمھیں پتا ہے تایا ابو نے دانیال بھائی کو بائیک لے کر دی ہے ۔ ‘‘بینش کے بھائی احمد نے کالج سے واپس آکر اسے بتایا۔’’اچھا یہ تو بہت خوشی کی بات ہے ۔ اچھا ہے اسے یونی آنے جانے میں آسانی ہو جائے گی۔‘‘بینش نے خوش ہو کر کہا۔وہ ابھی سے خود کو دانیال کے سنگ بائیک پر سفر کرتے ہوئے تصور کر رہی تھی ۔ اول روز کی طرح بینش کی دانیال کے لیے محبت تروتازہ تھی ۔وہ پاگل اس بات سے انجان تھی کہ دانیال کے دل میں موجود اس کی محبت کو دیمک لگ چکا ہے اور وہ محبت کسی شکستہ عمارت کی طرح زمیں بوس ہونے والی ہے۔تانیہ سے دانیال کی ملاقات یونی میں ہوئی تھی ۔ وہ اک باوقار اور امیر خاندان سے تعلق رکھتی تھی اس کی چال میں اک تمکنت تھی وہ خود اعتمادی کی دولت سے مالا مال تھی۔اک ہی کلاس میں ہونے کے باوجود وہ چوری چوری تانیہ کو دیکھتا رہتا ۔ تانیہ کے عکس کے پیچھے بینش کا چہرہ دھندلا پڑتا گیا ۔ تانیہ کو بھی اس بات کا بخوبی احساس تھا کہ دانیال اس میں دلچسپی لے رہا ہے مگر وہ اس آتش شوق کو مزید بھڑکانا چاہتی تھی ۔ آخر کب تک محبت پہ بند باندھا جاتا ۔ اک دن دانیال نے اس سے دوستی کا کہا تانیہ نے اس کی دوستی قبول کرلی۔یوں دوستی سے ہوتے ہوتے بات محبت اور عشق تک پہنچ گی۔دانیال کو زرا بھی احساس نہ ہوا کہ وہ بینش کے ساتھ کیا دھوکہ کررہا ہے ۔ کبھی جب اسے بینش کا خیال آتا تو وہ اسے اک بھول سمجھ کر سر جھٹک دیتا اور موبائل پہ تانیہ کے ساتھ مستقبل کے سپنے سجاتا رہتا۔دانیال کی پڑھائی مکمل ہوگئی تو اس کے ماں باپ نے اس کی شادی کا سوچا اور صلاح مشورہ کے لیے اسے پاس بیٹھایا ۔ لیکن وہ یہ سب سن کا بدک گیا اور صاف صاف انکار کردیا کہ وہ یہ شادی نہیں کرسکتا ۔ اس کے والدین یہ بات سن کر دنگ رہ گئے ۔ اس سے وجہ پوچھی گئی تو اس نے کہا کہ اسے تانیہ پسند ہے ۔ بینش سے منگنی اس کی بے وقوفی تھی وہ اس کو کبھی خوش نہیں رکھ پائے گا ۔ اس کے ماں باپ پریشان ہوئے کہ وہ اپنے بھائی کو کیا منہ دیکھائیں گے مگر دانیال کچھ بھی ماننے کو تیار نہیں تھا ۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر اس پہ پریشر ڈالا گیا تو وہ گھر چھوڑ دے گا اور تانیہ سے شادی کر کے اسکے گھر رہنا شروع کردے گا ۔ یہ سب سن کر اور دو چار ہفتے دانیال کو منانے کی ناکام کوشش کرنے کے بعد ان لوگوں نے اس کی بات تانیہ سے طے کردی اور بینش کے ماں باپ سے معذرت کرلی۔بینش کے ماں باپ نے ان سے قطع تعلق کرلیا اور دونوں خاندان الگ ہوگئے ۔ کچھ دن بعد دانیال کی شادی ہوگئی۔بینش پر یہ خبر بجلی بن کر گری ۔ بچپن سے جس کو چاہا جو ، دوست تھا کلاس فیلو کزن تھا ۔ وہ اک دم سب رشتوں سے ایسے مکرے گا یہ تو سوچا بھی نہیں تھا ۔ پہلے پہل تو اسے سکتہ ہوگیا پھر کافی دیر بعد وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئی ۔ اس کے ماں باپ اور بہن بھائی خود بہت بکھرے اور ٹوٹے ہوئے تھے ۔ اولاد کا دکھ بہت برا ہوتا ہے ۔ خدا کسی کو یہ دکھ نا دکھائے ۔بینش آہستہ آہستہ زندگی کی طرف لوٹ آئی ۔ دانیال کی شادی کو دو سال ہوچکے تھے ۔ وہ خوش تھا لیکن بینش کی زندگی سے دانیال ساری خوشیاں لے گیا تھا ۔خزاں کا موسم بینش کی زندگی میں ٹھہر گیا تھا ۔وہ ہر رات اس ڈائری کو کھولتی اور اس پہ دانیال کی لکھائی میں لکھے الفاظ پہ ہاتھ پھیرتی رہتی ۔ اگرچہ دانیال نے کبھی اظہار نہیں کیا تھا لیکن بینش کو لگتا تھا وہ بھی اسے چاہتا ہے ۔ اور انسان کی خوش فہمی جب ٹوٹتی ہے تو وہ انسان کو ہی توڑ دیتی ہے ۔ اس کے ماں باپ نے بہت کوشش کی کہ اس کی شادی کر دی جائے مگر وہ دانیال کی جگہ کسی اور کو نہیں دے سکتی تھی۔پچھلے کچھ دن سے اس کی امی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی انکی شوگر بڑھ گئی تھی ۔ وہ چاہتی تھیں کہ وہ اپنی زندگی میں ہی بینش کی خوشیاں دیکھ جائیں ۔ انکی بیماری اور بار بار کے اصرار پہ بینش نے ہامی بھرلی۔اس کے لیے خالہ کے بیٹے کا رشتہ آیا تھا جو بنک میں کام کرتا تھا ۔ عدنان خوش شکل اور خوش اخلاق انسان تھا ۔ رشتہ طے ہوگیا بینش کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا اس کی شادی جس سے مرضی ہو جائے ۔ عدنان نے اس سے بات کرنے کی کوشش کی تو اس نے انکار کردیا کہ وہ شادی سے پہلے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی۔وہ روزانہ شام کے وقت گھر کے نزدیک پارک میں جاتی تھی ۔ آج بھی وہ ڈوبتے سورج کو اداسی سے دیکھ رہی تھی کہ کوئی اس کے پاس آہستگی سے آکے بیٹھ گیا اس نے چونک کر دیکھا تو وہ عدنان تھا۔’’میں تم سے بات کرنا چاہتا تھا ۔ اس لیے خالہ سے پوچھ کر یہاں چلا آیا ۔ پلیز دومنٹ میری بات سن لوپھر چلی جانا۔‘‘اس نے ابھی بات کہنی شروع کی تھی اور بینش اٹھنے ہی لگی تو عدنان سے اسے روک لیا۔وہ خاموشی سے بیٹھ گئی۔''مجھے تمہاری منگنی کا پتا ہے اور یہ بھی پتا ہے کہ تمہارا دل ٹوٹا ہوا ہے ۔ میں زیادہ وعدے تو نہیں کرتا لیکن اتنا کہہ سکتا ہوں کہ تمہیں ہمیشہ خوش رکھوں گا ۔ تمہاری ہر خواہش جو پوری کرسکا کروں گا ۔ اور تمہارے ٹوٹے دل کو جوڑ دوں گا۔ مجھے فرق نہیں پڑتا کہ شادی سے پہلے کیا ہوا مگر میں چاہتا ہوں کہ شادی کے بعد تم میرے ساتھ خوش رہو۔ میں عام انسان ہوں لیکن کبھی ماضی کا طعنہ نہیں دوں گا ۔ تم اس بات کو دل سے نکال دو۔‘‘اس کی باتیں سن کر بینش کی آنکھیں نم ہوگئیں ۔ وہ سمجھتی رہی کہ اس کی زندگی میں خزاں ٹھہر گیا ہے مگر وہ پاگل یہ نہیں جانتی تھی کہ ہر خزاں کے اختتام پہ اک بہار منتظر ہوتی ہے۔اسے پتا تھا دانیال کا دیا زخم بھرنے میں وقت لگے گا مگر وہ عدنان کو ٹھکرا کر خدا کی ناشکری نہیں کرنا چاہتی تھی ۔ جس نے اسے وہ دیا جس کی وہ اصل حقدار ہے ۔ یہ سب سوچتے ہوئے وہ مسکرا رہی تھی اور اس کا دل خدا کے حضور سجدہ کررہا تھا ۔ بے شک وہی ہے جو ہمیں بہترین عطا کرتا ہے۔عدنان اور وہ مارچ کی اس شام کو ڈوبتے ہوئے دیکھ رہے تھے ۔ سورج کے رنگ افق پہ پھیل رہے تھے اور اک تاریک رات کے بعد اک روشن دن ان کا منتظر تھا۔ ٭…٭