افسانے

تیرے نام : محمد فرقان

’’شکور…..ارے شکور…. کہاں ہو بھئی؟‘‘
وہ زینوں سے لاؤنج تک کا سفر طے کر کے لان میں آ گئی مگر اسے ابھی تک شکور نہیں ملا تھا ۔ عقب میں آہٹ کی آواز سنائی دی تو وہ پلٹی ۔ شکور کیاریوں میں پانی کا پائپ پھینک کے اس کی جانب دوڑا آرہا تھا۔
’’شکور کہاں گم ہو جاتے ہو…پچھلے پندرہ منٹ سے میں تمھیں سارے گھر میں ڈھونڈ رہی ہوں۔‘‘اس نے چہرے پر مصنوعی خفگی لاتے ہوئے کہا۔
’’بی بی جی! وہ پودوں کو پانی دے رہا تھا…ارقم صاحب کا حکم تھا کہ آخری قطار میں لگے پودوں کو لازم طور پر پانی دینا ہے۔‘‘وہ قدرے جھجک کر مگر مؤدب ہو کے بولا۔
’’اچھا…تم اپنے نمبر سے ارقم کو کال کر ۔شام کے چھے بج چکے ہیں اور وہ ابھی تک نہیں آیا، میں نے اسے کہا بھی تھا کہ جلدی آجانا…ٹریفک میں پھنس گیا ہو گا۔‘‘
وہ سہ پہر سے اس کا نمبر ڈائل کر رہی تھی۔ مگر وہ لگ کے نہیں دے رہا تھا ۔ اسے طرح طرح کے خدشات نے آ گھیرا تو وہ شکور سے بولی۔
شکور نے کال کی تو وہی مشینی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔
’’آپ کے مطلوبہ نمبر سے اس وقت جواب موصول نہیں ہو رہا، برائے مہربانی کچھ دیر بعد کوشش کریں۔‘‘
’’بی بی جی! نمبر بند جا رہا ہے۔‘‘ شکور نے کہا۔
وہ جانتی تھی کہ اس کے کام کی نوعیت کے باعث وہ موبائل آف کر دیتا تھا مگر آج…..
آج بھی…..
آج تو ان دونوں کی زندگی کا اتنا اہم اور خوب صورت دن تھا اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس خوش رنگ دن کا اختتام نا خوش گوار سا ہو۔
سب سے بڑی بات جو اسے کوفت اور پریشانی میں مبتلا کر رہی تھی، وہ یہ تھی کہ اس نے تو ارقم کو یاددہانی بھی کرائی تھی۔ کہ آج شام کو وہ آ جائے۔ پھر…..
کیا اتنا خوب صورت دن ارقم کی مصروفیات کی نذر ہو جائے گا۔ رشتوں سے کچھ نہیں چاہیے ہوتا مگر وقت۔
وہ کچن میں چلی آئی۔ اوون سے بیکڈ کیک نکالا اور ٹوپنگ کرنے لگی۔ اس نے کتنی محبت سے یہ کیک بنایا تھا، یہ صرف وہی جانتی تھی۔سرخ کریم سے سجا ہوا ریڈ ویلوٹ کیک (Red Velvet Cake) جس پر وہ ونیلا ٹوپنگ سے لکھ رہی تھی….. ہیپی فرسٹ ویڈنگ اینی ورسری……. اس سے نیچے دو چاکلیٹ دل بنے ہوئے تھے اور پھر….. ارقم اینڈ ایمل۔
کیک کو کینڈی اور بنٹیوں سے آراستہ کر کے اس نے فریز میں رکھ دیا ۔ اور خود نک سک سے تیار ہو کے اس کا انتظار کرنے لگی۔ یہ سوچے بنا کہ انتظار انتظار ہی رہتا ہے۔ کبھی ختم نہیں ہوتا۔
٭…٭…٭
’’انتظار انتظار ہی رہتا ہے، کبھی ختم نہیں ہوتا ۔ کوئی ایک چیز ہمیں مل جائے تو ہم دوسری کا انتظار شروع کر دیتے ہیں ۔ انتظار کبھی ہمیں نہیں چھوڑتا اور ہم کبھی انتظار کرنا نہیں چھوڑتے۔‘‘
پروڈیوسر نے مندرجہ بالا ڈائیلاگ اپنے فہم سے بالاتر سمجھتے ہوئے اسے تھمایا تو اس نے خود بول کے ایکٹ کیا اور ڈرامے کے ہیرو کو ہدایات جاری کیں ۔ ہیرو ارقم کے انداز میں ہی ڈائیلاگ بولا تو ساری ٹیم ہی اس کی قابلیت کی معترف ہو گئی۔
’’ارقم، میں تمھیں دوبارہ مشورہ دے رہا ہوں کہ تم ایکٹر بن جاؤں ۔ ینگ ہو، ہینڈسم ہو ۔ میری مانو تو میں تمھیں اگلے پروجیکٹ میں کاسٹ کر لوں ۔‘‘ اسے مخلصانہ مشورہ دے کر پروڈیوسر نے اس سے تائید چاہی ۔ ٹی بریک میں وہ سب میز کے گرد کرسیوں پر براجمان تھے ۔ اسپاٹ بوائے ڈرامے کی ساری ٹیم کو چائے اور بسکٹ پیش کر رہا تھا۔
’’نہیں، مجھے لگتا ہے میں مس فٹ رہوں گا ۔ میں اپنی فیلڈ میں بہت آگے جانا چاہتا ہوں۔‘‘ ارقم مسکرا کے بولا۔
’’اس قسط کے دوچار سین ہی رہتے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ وہ کر لیتے ہیں… پھر آپ سب لوگ فری ہوں گے۔‘‘ ڈراما پروڈیوسر نے اپنے لہجے کو ممکنہ حد تک پر سکون رکھا جبکہ ہیرو اور ہیروئن ناک بھوںکوں چڑھا کے رہ گئے ۔ اگلے تین گھنٹوں کے بعد قسط کے سارے سین مکمل ہو چکے تھے۔ پروڈیوسر سب سے الوداعی کلمات کہتے ہوئے ارقم کی طرف متوجہ ہوا۔
’’صبح ہم ’’میرے ساتھی‘‘ کے ون لائنر ڈسکس کر لیں گے۔ ‘‘وہ اثبات میں سر ہلاتا ہوا پارکنگ ایریا سے سلور رنگ کی ’’اکارڈ‘‘ مین گیٹ سے باہر نکالنے لگا۔
چند ثانیوں بعد اس کی کار فراٹے بھرتے ہوئے پرآسائش اور عالی شان گھر میں داخل ہوئی ۔ پورچ میں کار کھڑی کر کے وہ شکور کو’’کھانا لگاؤ‘‘کا حکم دیتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا ۔ جب شکور کے جواب نے اسے ورط حیرت میں ڈال دیا۔
’’صاحب جی! وہ بی بی جی نے کہا تھا کہ آج کھانا نہیں پکانا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’یہ تو نہیں بتایا بی بی جی نے….‘‘
ارقم چپ چاپ بلیزر کے بٹن کھولتے ہوئے کمرے کی جانب بڑھ رہا تھا اور جوں ہی اس نے دروازہ وا کیا ۔اس کے لب بے بسی سے خود بخود ایک دوسرے میں پیوست ہو گئے ۔ پندرہ فروری کے دن کو وہ کیسے بھول سکتا تھا ۔ آج ان کی شادی کی پہلی سال گرہ تھی ۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا ان کی محبت میں ایسا موڑ بھی آئے گا کہ وہ یہ دن بھول جائے گا ۔ کمرہ رنگ برنگے پھولوں سے سجا ہوا تھا مگر ایمل ندارد تھی ۔ اس نے وارڈروب اور واش روم میں دیکھا، وہ وہاں بھی نہیں تھی۔
پھر وہ کمرے سے منسلک ایک ہال میں داخل ہوا تو تاسف آمیز مسکراہٹ نے اس کے لبوں کا احاطہ کر لیا ۔ آنکھوں میں آنسوؤں کا سمندر ہلکورے لینے لگا۔
ایمل کرسی پہ بیٹھی تھی اور اس کا سر نیند کے خمار کے باعث میز پر جھکا ہوا تھا ۔ میز کے کناروں پہ لگی موٹی موٹی موم بتیاں ہولے سے ٹمٹما رہی تھیں اور ان کا موم پگھل کر بہہ رہا تھا ۔ میز کے وسط میں ریڈ ویلوٹ کیک…جس پر ونیلا کریم سے لکھا تھا۔ ہیپی فرسٹ ویڈنگ اینی ورسری، ارقم اینڈ ایمل ۔ کیک کے پاس دو سرخ گلاب پڑے تھے۔
اسے ایمل پر بے تحاشا پیار آیا ۔ وہ اس کے قریب گیا ۔ وہ نک سک سے تیار تھی اور بالوں کی چند لٹیں اس کے رخ پر بکھری ہوئی تھیں۔ ہاتھوں میں بھر بھر چوڑیاں…..
’’ایمل نے ان گھڑیوں کو یاد گار بنانے کے لیے کتنا اہتمام کیا اور میں …… میں اہتمام کیا کرتا، مجھے تو آج کی ڈیٹ بھی یاد نہ تھی۔‘‘ ارقم نے دل ہی دل میں خود کو کوسا ۔ اس نے آگے بڑھ کر ایمل کی بکھری لٹوں کودھیرے سے کان کے پیچھے اڑس دیا ۔ اب وہ اسی جگاتا تو جانے وہ کیسا ردعمل دیتی ؟ یہی سوچ کے کچھ دیر کمرے میں ٹہلنے کے بعد بیڈ پہ لیٹ کیا اور بے چینی سے کروٹیں بدلنے لگا۔
وہ جانتا تھا کہ نیند کی دیوی آج کی رات اس سے روٹھ چکی تھی۔
٭…٭…٭
آنکھوں پر ایک بوجھ سا تھا جس کی وجہ سے سارے بدن پر کسل مندی طاری تھی ۔ اس نے انگڑائی لیتے ہوئے آنکھوں کے دریچے کھولے اور نظر سیدھا گھڑی سے جا ٹکرائی ۔ آٹھ بج چکے تھے ۔ وہ معمول سے لیٹ تھا ۔ وہ’’ہم ٹی وی‘‘ کا مشہور زمانہ ڈراما نگار تھا ۔ حال ہی میں اس کا ڈراما ’’بھیگا آنچل ‘‘آن ایئر تھا ۔ اور مقبو لیت کے سارے ریکارڈ توڑ رہا تھا ۔ اسے اب ٹیلی فلمز اور سوپس کی بھی آفرز آرہی تھیں اور خوب رو ہونے کے باعث ایکٹنگ اور مارننگ شوز میں بھی ۔ اس نے اپنے ڈراموں میں لازوال کردار لکھے تھے۔
پوری رات وہ جاگتا رہا تھا، نیند آتی بھی تو کیسے؟ وہ ’’وہ‘‘بھول گیا تھا جو اسے کبھی نہیں بھولنا چاہیے تھا۔
لکھنے کا نشہ بھی تو ایسا ہے ۔ جب انسان لکھنے بیٹھ جاتا ہے تو دنیا و مافیہا سے بیگانہ ہوجاتا ہے ۔ راہوں کا پتا نہ منزل کی خبر…..بس لکھتا چلا جاتا ہے۔
ارقم نے بیڈ کے دائیں جانب دیکھا ۔ بستر کی چادر بے شکن تھی ۔ رات کو اپنی بے پروائی کا اسے بہت قلق اور ملال تھا ۔ وہ اٹھ کر کمرے سے متصل ہال میں چلا گیا۔ سارے پھول، موم بتیاں اور کیک ڈسٹ بن میں پڑے تھے ۔ وہ اداسی سے واش روم میں گھس گیا۔
جب شاور لے کے باہر آیا تو اس کے کسرتی جسم پر کالی جینز اور سفید بنیان تھی ۔ اس نے بازوؤں اور گردن کے قرب و جوار میں باڈی سپرے چھڑکا اور شرٹ پہن کے باہر نکل آیا ۔ اس کے جوتوں کا رخ ڈائننگ ہال کی طرف تھا ۔ شکور کھانا لگا رہا تھا۔ ایمل اس کے مقابل کرسی پہ آ کے بیٹھ گئی ۔ اس کی آنکھیں شدت جذبات سے سرخ ہو رہی تھیں اور گال لالی سے دہک رہے تھے۔
’’ایمل،میں کل دیر سے آیا ، آئم ریئلی سوری ۔ یار کل میرے ذہن سے ہی نکل گیا تھا۔‘‘ ارقم نے اطمینان سے بات کا آغاز کیا ۔ وہ ٹھس بیٹھی رہی۔
’’دراصل میں کام میں بہت مصروف ہو گیا تھا ۔ پروڈیوسر نے آ نے ہی نہیں دیا ۔ اور تمھیں تو پتا ہے اس وقت میرا فون بھی بند ہوتا ہے…یار اب ناراضی چھوڑ دو۔‘‘ اس نے ایمل کے ہاتھ کو چھونا چاہا تو اس نے ہاتھ جھٹ سے پیچھے سرکا لیا اور اس کی اکھیوں سے ایک آنسو ڈھلک گیا ۔ ارقم اس کے ساتھ والی کرسی پہ بیٹھ گیا اور اسے شانوں سے تھامنا چاہا تو ایمل نے ہاتھ کے اشارے سے اسے دور رہنے کا کہا۔
’’ایمل مجھے معاف کردو ۔ میں تم سے صدق دل سے معافی مانگ رہا ہوں۔ پلیز مجھے معاف کردو ۔ اور خفگی ختم کردو۔ آئندہ جیسا تم چاہو گی …بالکل ویسا ہوگا ۔ کم آن یار۔‘‘ شکور ناشتا چن کے چلا گیا تو اس نے بے تکلفانہ لب و لہجے میں کہا ۔ مگر وہ ہنوز کانٹے سے توس کھاتی رہی ۔ دوچار نوالے کھا کر وہ اوپری منزل پر اپنے کمرے میں چلی گئی ۔ ارقم نے اسے روکا مگر وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھتی ہوئی چلی گئی۔
ارقم اٹھا اور اس کے پیچھے ہو لیا ۔ ڈور نائب گھما اس نے اندر جھانکا تو وہ دروازے کی اور پیٹھ کیے سر جھکائے بیڈ کے کنارے پر بیٹھی ہوئی تھی ۔ وہ اس کے سامنے گیا اور بغور اسے دیکھا ۔ اس کی آنکھوں سے آنسو گر گر کے ہتھیلیاں بھگو رہے تھے ۔ ارقم دوزانو ہو کے اس کے سامنے بیٹھ گیا اور ملتجی لہجے میں بولا۔
’’تمھیں پتا ہے نا کہ تم میرے لیے کتنی امپارٹنٹ ہو، تمھارے بغیر تو میں کچھ بھی نہیں۔‘‘ اس کے کہنے پر ایمل نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’پھر مجھ سے ناراض کیوں ہو؟ پلیز یار! مجھے معاف کردو…تمھیں یاد ہے جب تم مجھ سے کہتی تھیں کہ ہماری محبت ابدی ہے ۔ یہ خدا کی طرف سے ودیعت کردہ ہے۔‘‘اس نے شہد ٹپکاتے لہجے میں کہا تو وہ کھل کے مسکرائی اور اس نے ہاتھ کی پشت سے گال رگڑ ڈالے ۔ وہ بیڈ کے کنارے اس کے برابر میں بیٹھ گیا۔
’’کل کا دن کتنا عظیم اور خوش رنگ تھا ۔ میں نے پورا دن نہیں، صرف چند پل مانگے تھے اور تم مجھے وہ بھی نہ دے سکے۔‘‘ وہ ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ سجا کے بولی۔ آواز میں ذرا سی خفگی تھی۔
’’اچھا جو کچھ ہوا، بھول جاؤ…اب کے بعد ایسا نہیں ہو گا ۔ اور آج ہم باہر ڈنر کریں گے۔‘‘ اس نے ایمل کی ہتھیلی پر پیار سے دباؤ ڈالا اور پھر اس کے کان میں سرگوشی کی تو دونوں چہک اٹھے۔
٭…٭…٭
ان کی شادی کو ایک سال ہو گیا تھا۔ شادی کے شروع کے دنوں میں ارقم نے پروڈکشن ہاؤس سے ایک مہینے کی چھٹیاں لے لیں ۔ بندہ زندگی معمول کی ڈگر پر لوٹی تو اس نے ایمل کو اپنے کام کی نوعیت سمجھائی ۔ کبھی وہ گھر پہ ہی ہوتا اور سارا دن لکھتا رہتا ۔ اور اگر پروڈکشن ہاؤس جاتا تو ایمل کو اس کے میکے چھوڑ آتا اور واپسی پہ پک کر لیتا ۔ مگر پچھلے ایک ہفتے سے اس کا میکہ امریکا شفٹ ہو گیا تھا ۔ اور یہ دن بھی ارقم کی مصروفیت کے تھے کہ اب وہ کئی دوسرے نجی ٹی وی چینلز کے ساتھ ڈرامے اور ٹیلی فلمیں لکھ رہا تھا ۔ صبح کا گیا، رات کو لوٹتا اس سے ایمل کو بہت کوفت ہوتی۔
کل ارقم کے دیر سے آنے نے اسے خاصی ٹھیس پہنچائی تھی ۔ آج بھی اس نے باہر ڈنر کرنے کا وعدہ کیا تھا اور یہ کہ وہ نو بجے تک واپس آ جائے گا مگر…اس وقت رات کے بارہ ہونے کو تھے اور ایمل بے چینی سے لان میں ٹہل رہی تھی۔وہ سوچنے لگی کہ اس کی زیست میں انتظار کرنا ہی لکھا ہے ۔ انتظار…جو بڑا جاں گسل ہوتا ہے۔
٭…٭…٭
پروڈیوسر سے پلاٹ ڈسکس کیا تو ارقم کے دل میں لڈو پھوٹنے لگے کیوں کہ اگلا ڈراما اس نے گھر بیٹھ کے ہی لکھنا تھا ۔ پونے نو بجے تک وہ ذیلی سڑکوں سے ہوتا ہوا مین روڈ تک پہنچا تو اس کے اوسان خطا ہو گئے کہ ٹریفک بلاک تھی اور وہ لائن میں لگ گیا ۔
قریباً ڈیڑھ گھنٹا وہ کار میں بیٹھا جھنجھلاتا رہا ۔ اس دوران میں دائیں بائیں کی دوچار گاڑیوں سے لوگوں نے اسے دیکھ لیا اور اس کے ساتھ تصویریں کھینچوانے لگے ۔ جب انتظار حد سے سوا ہوا تو اس نے کار لاک کی وہیں پہ چھوڑ کر فٹ پاتھ پہ تیز تیز بھاگنے لگا ۔ اسے کسی چیز کی پروا نہیں تھی۔
اور لوگوں کے ہاتھ تو ایک چٹکلہ لگ گیا تھا ۔ بہت سے لوگوں نے اس کی ویڈیوز بنا لیں ۔ ٹک ٹاک کے کیمرے کے دروازے کھل گئے ۔اس کے کئی مداحوں نے روک کر سیلفیز بنائیں ۔ ایک کھڑکی توڑ رش تھا جو اس کے آس پاس لگ گیا تھا ۔ کیمروں کی کھٹا کھٹ سے خود کو بمشکل بچاتا وہ بارہ بجے گھر پہنچا تو اس نے ایمل کو لان میں ٹہلتے پایا ۔ وہ سبکی سے آگے بڑھا۔
’’ایمل! میں بروقت نکل آیا تھا مگر ٹریفک…‘‘
’’ہاں… بناؤ… بناؤ کوئی بہانہ… تراشو کوئی حیلہ…آج میں تمھاری کوئی بات نہیں سنوں گی ۔مانا کہ تم کام میں مصروف رہتے ہو مگر ایسی بھی کیا مصروفیت ۔ بہتر تھا کہ تم قلم کاغذ سے ہی شادی کر لیتے ۔ تم رائٹرز لوگ اپنی کہانیوں میں ہیروز کو جتنا رومانٹک دکھاتے ہو، خود اپنی لائف میں اتنے ہی بورنگ ہوتے ہو۔‘‘ وہ لال بھبھوکا چہرے کے سنگ بولی۔
’’ایمل پلیز مجھے معاف کردو۔‘‘ ارقم اس کی طرف بڑھا تو اس نے اسے ایک فاصلے پہ روک دیا۔
’’ تمھیں اس تیسری جان کا واسطہ جو ہماری زندگی میں خوشیوں کی نوید بن کر آنے والی ہے۔‘‘ ارقم کی آواز میں گھل گئی۔
’’جو ابھی اس دنیا میں ہے، اس سے تو تم نے عہد و پیمان باندھ کے توڑ دیے اور جو ابھی اس دنیا میں نہیں آیا….. تم مجھے اس کی امید دلا رہے ہو۔‘‘ جنوری کی ساری سردی اس کے لہجے میں سمٹ آئی تو وہ بے رخ سے سر موڑ کے بولی۔
’’ایمل مجھے معاف کردو ۔ ٹریفک بلاک تھی اور میں کار وہیں چھوڑ کے پیدل آیا ہوں، ٹرائی ٹو انڈرسٹینڈ یار۔‘‘ وہ ایمل کو اعتماد میں لینے کے لیے اس کے نام کی گردان کر رہا تھا ۔ لیکن وہ تھی کہ اپنے مؤقف پر اڑی ہوئی تھی ۔ وہ مزید کچھ سنے اور سمجھے بنا کمرے میں چلی گئی ۔ ارقم بھاگم بھاگ اس کے پیچھے لپکا اور کمرے میں جا کر اسے سمجھانے کی سعی کی تو وہ بے اعتنائی سے لحاف اوڑھ کر لیٹ گئی۔
ارقم اسے بے بسی سے تکتا رہ گیا۔
اسے اب یاد آ رہا تھا کہ ایمل نے شادی کے اوائل روز میں ایک دن اس سے کہا تھا کہ محبت سمجھوتوں کے انبار مانگتی ہے۔
اور اسے اب سمجھ آ رہی تھی کہ واقعی محبت وہ آسمان ہے کہ جس پر جب تک سمجھوتوں کا چاند نہ چمکے ، یہ خود بھی تاریک رہتا ہے اور دوسروں کی دنیا بھی اندھیر کر دیتا ہے۔
ساری رات آنکھوں میں کاٹ کر جب وہ صبح اٹھا تو کمرے کے دروازے کی اندرونی سائیڈ پر ایک کاغذ چسپاں تھا جس پر یہ عبارت لکھی تھی ۔
’’جو وقت نہیں دیتے، محبت خاک دیں گے۔‘‘
ارقم کے حلق میں گولہ سا پھنس گیا۔ اس نے اضطراب کے عالم میںاپنے عقب میں دیکھا جہاں ایمل ابھی تک پلکیں موندے لیٹی تھی۔
٭…٭…٭
’’جی ویورز…جو چہرا اس وقت مجھے نظر آ رہا ہے، وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ان کے قلم میں وہ طاقت ہے کہ یہ حالات کے دھارے کو جدھر چاہیں موڑ دیں ۔ میرے ساتھ ہیں اس وقت پاکستانی ڈراما انڈسٹری کے بہت ہی منجھے ہوئے رائیٹر ’’ارقم رضا‘‘ جی، تو ارقم رضا کیسے حال چال ہیں آپ کے۔‘‘
لکس سٹائل ایوارڈز کے ریڈ کارپٹ پر انٹرویور نے اس کی انٹری کو چار چاند لگائے۔
’’جی اللہ کا شکر ہے…الحمدللہ۔‘‘اپنے گھریلو حالات کو یاسر مخفی رکھتے ہوئے اس نے چہرے پر شوبز والی مصنوعی بشاشت طاری کرتے ہوئے جواب دیا۔
’’ارقم آپ لکس سٹائل ایوارڈ میں ٹی وی رائیٹر کے طور پر نام زد ہوئے ہیں…تو اس حوالے سے کیسی فیلنگز ہیں؟‘‘
I’m excited but nervous too
’’ہماری نیک خواہشات آپ کے ساتھ ہیں۔‘‘
ارقم مسکرا کے آگے بڑھ گیا ۔ اور پھر کچھ ہی دیر بعد شو کا باقاعدہ آغاز ہو گیا ۔ اور اس سمے اس کی حیرت اور خوشی کی انتہا نہ رہی جب ہوسٹ نے اس کا نام پکارا اور ایوارڈ وصولنے کی دعوت دی۔
’’بیسٹ ٹی وی رائیٹر کا ایوارڈ جاتا ہے ارقم رضا کو ’’بھیگا آنچل‘‘ کے لیے۔‘‘
وہ سرشاری کے عالم میں سٹیج پر گیا اور ایوارڈ وصول کرنے کے بعد مائیک میں کہنے لگا۔
’’آئی سے ویری تھینکس ٹو گاڈ آل مائیٹی اینڈ…میں اپنے اس ایوارڈ کا کریڈٹ اپنی بیوی کو دیتا ہوں ۔ دراصل وہ اس ایوارڈ کی حق دار ہے۔ میں رات گئے لکھوں یا نور کے تڑکے، وہ کبھی معترض نہیں ہوئی ۔ اور میں اس شو کے ذریعے…‘‘سارے حاضرین کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔
’’اور میں اس شو کے ذریعے اس سے معافی مانگنا چاہتا ہوں کہ یہ ایوارڈ لینے کے لیے میں دن رات کی پروا کیے بغیر لکھتا تھا اور بے پناہ لکھتا تھا۔ وہ اکثر مجھ سے پوچھتی تھی کہ رات کے اس پہر تم کہاں سے آ رہے ہو؟‘‘
ارقم وہ کچھ کہہ رہا تھا، جو اسے ایسے موقع پر نہیں کہنا چاہیے تھا مگر محبت ہے نا…
دیوانے کرتے ہیں اور دیوانے ہی اس کی رمزیں جانتے ہیں۔۔
’’تو میں آج اسے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں اس ایوارڈ کے لیے دن رات محنت کر رہا تھا۔ یہ ایوارڈ….. میری پیاری بیوی ایمل رضا کے نام۔‘‘
جذب سے بول کے وہ اپنی نشست کی جانب بڑھا تو ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔
٭…٭…٭
آج ایمل کو ہر سوال کا جواب مل گیا تھا۔
لیکن پھر بھی…وقت پہلی ترجیح ہے۔
رشتے مادی چیزوں کا نہیں بلکہ وقت کا تقاضا کرتے ہیں ۔ دو پل مل بیٹھ کے وقت بتانے کا تقاضا کرتے ہیں ۔ اور یہ بات بھی اپنی جگہ مسلمہ حقیقت رکھتی ہے کہ جن رشتوں سے ہمیں وقت نہیں مل پاتا، ہم ان سے محبت کی کیا توقع رکھیں۔ارقم خوش و خرم سا گھر آیا تو ایمل بھی ساری ناراضی اور رنجشیں بھول کے اس کے گلے لگ گئی ۔ وہ اس کے سینے میں منہ چھپا کے رودی۔
’’میں جان گیا ہوں کہ رشتے وقت مانگتے ہیں ۔ تمھیں اب وقت بھی ملے گا اور میری بھرپور چاہت بھی ۔ یہ ایوارڈ، میری زندگی اور میری محبتیں…سب کچھ تمھارے نام۔‘‘ ارقم نے ایوارڈ ایمل کے حوالے کیا تو اس کے دل میں خوشی اور فرحت کا شادیانہ بج اٹھا۔
کچھ پل ان کے نام بھی کرنے چاہئیں جو ہمارے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔

٭٭٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page