افسانے

بیدک الخیر: سنیعہ مرزا

’’یہ چیک اور یہ سامان آخر کہا ں سے آیا؟‘‘ عظام بار بار دہرارہا تھا۔
’’پتہ نہیں ۔ڈاک کے ذریعے آیا ہے ۔کوریئروالا یہ سامان دے کر گیا ہے۔ ‘‘ اسکی ماں نے فرج ، اے سی اور باقی سامان کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
’’میں یہ چیک کیش کرواؤں ؟اصل بھی ہے یا نہیں۔‘‘ وہ چیک کو پڑھنے لگا۔
’’رہنے دو کہیں پھنس نہ جانا۔‘‘ ماں نے خدشے کا اظہار کیا ۔
’’ارے کچھ نہیں ہوتا۔جب سامان اصلی ہے تو چیک بھی اصلی ہو گا ۔‘‘عظام کی بیوی ماریہ نے انٹری دی ۔ وہ سوچنے لگا۔
٭…٭
’’فائزہ کے موبائل پر اس سے میری بات ہوئی ہے ۔ وہ ٹھیک ہے ، میرا اس سے ملنے کو بہت دل کر رہا ہے ۔ کہہ رہی تھی کہ اگر گھر کی ضرورت ہے تو وہ بھی خرید دے گی۔ ‘‘ امی نے خوشی کے عالم میں بتایا ۔
’’کیا؟دماغ تو خراب نہیں ہو گیا۔کوئی ضرورت نہیں ہے اس کی کمائی کی مجھے اور کسی کو بھی اس سے بات کی ہی کیوں ؟ منہ کالا کروا دیا ہے ، کہیں دکھانے لائق نہیں چھوڑا اور آپ خوشی منارہی ہیں ۔ ملنے کو دل کر رہا ہے، مہنگا اے سی ، فرج دیکھ کر دماغ خراب ہو گیا۔ یہ سب اس نے بھجوایا ہے اگر مجھے پتا ہوتا تو میں ایک روپیہ بھی خرچ نہ کرتا اس چیک سے۔ اب تو میرے پاس رقم بھی نہیں کہ اس کے منہ پر ماروں ۔‘‘وہ سر کھجانے لگا تھا ۔
’’اچھا اس نے غلطی کر لی تو کیا ہوا۔ ہمارا خیال بھی تو ہے ناکتناکچھ بھیجا ہے ۔‘‘ماں کی فطری ممتا غالب آگئی ۔
’’غلطی ؟یہ غلطی ہے؟ گھر سے بھاگ کر منہ کالا کروایا ہمارا۔ شہر جاکر دیکھو … ہر گلی پر موڑپر اسکی ننگی تصویریں ۔ لعنت ہے ایسی عورت پر جسے اپنے مرے باپ کی عزت کا پاس نہیں ۔ جسے گھر والوں کی عصمت کا لحاظ نہیں۔ ایک دفعہ آئے تو سہی یہاں ۔ بوٹی بوٹی کرکے کتوں کو کھلا دوں گا ۔ ‘‘ وہ چلا تا ہوا گھر سے نکل گیا تھا ۔
ماں صبر سے خاموش ہو گئی تھی۔
٭…٭
زندگی کے سفر کی منازل طے کرتے کرتے بہت آگے جا چکی تھی ۔ پیسہ اس کے روز وشب پر راج کرتا تھا ۔ اپنے گزرے ہوئے وقت کی تلا فی وہ مہنگی سے مہنگی چیز یں خرید کر کرتی تھی ۔ ایک آدھ فلم کے ہٹ ہو جا نے سے اسکے پائوں زمین پر نہیں لگ رہے تھے ۔ گھر وہ مسلسل خرچ بھجوانے لگی تھی ۔
اس نے پر جگہ مظہر صاحب کو بدنام کرنا شروع کردیا تھا ۔ چونکہ پہلی منزل پر ملنے والا دغا وہ بھلا نہ پائی تھی ۔ مظہر صاحب تک بھی اس کے بیانات کے چر چے تھے ۔جس پر اپنی خراب ہوتی ساکھ کی بحالی کے طور پر انہوں نے اس سے فوری رابطہ کیا تھا ۔
’’دیکھو لڑکی اگر تم نے اپنی زبان بندنہ کی تو میں تمہارا وہ حشر کروں گا کہ جتنی عوام تمہیں دیکھ کر واہ واہ کرتی ہے اس سے دگنی عوام تمہیں دیکھ کر توبہ توبہ کرے گی ۔‘‘
’’اچھا !کیا کریں گے آپ ؟‘‘ اس نے ہمیشہ کی طرح لاپرواہی سے ببل چباتے ہوئے کہا ۔
’’یہ تو تم پریکٹیکل دیکھو گی ۔‘‘ انہوں نے دانت پیس کر کہا ۔
’’آئی ایم بزی …پلیز ڈونٹ ڈسٹرب می ۔‘‘ کہتے ہوئے اس نے فون ڈس کنیکٹ کر دیا تھا ۔ اور لوکیشن پر موجود ڈائریکٹر سے سین سمجھنے لگی۔
٭…٭
’’ مجھے امید نہیں تھی کہ پیسے کے لیئے آپ اس قسم کی ویڈیوز بھی شوٹ کروا سکتی ہیں ۔ دیکھیں آپ کا ایک نام ہے ۔ اس نام کو لے کر ڈائریکٹرز،پروڈیوسرز آپ سے رابطے کرتے ہیں ۔ مہینوں dates کا انتظار کرتے ہیں۔ فلم کی ڈیمانڈ کی حد تک تو ٹھیک ہے مگریہ اس طرح کی وڈیوز۔‘‘اسد صاحب نے اسے ویڈیوز فارورڈ کرتے ہوئے کہا تھا ۔
جنہیں دیکھ کر وہ خود بھی حیران رہ گئی تھی ۔ یہ سب مظہر صاحب کا کیا دھرا تھا ۔ وہ اسکی ساکھ کو نقصان پہنچانے میں کسی حد تک کامیاب ہو گئے تھے ۔ اے آئی سے بنائی گئی وڈیوز تھی جس پر سچ کا گمان ہورہا تھا۔کچھ شوٹس اور وڈیوز (جو مظہر صاحب کے ساتھ کام کیا تھا) کی بنیاد پر اے آئی نے اس کی فحش وڈیوز بنا ڈالی تھیں۔
’’اوہ مائی گاڈ۔‘‘آج پہلی بار اسد صاحب کے سامنے اسکے چہرے پر بھی احساس شرمندگی تھا ۔
’’کیا یہ آپ ہو؟‘‘ اسد صاحب بے یقینی سے اس کا چہرہ دیکھ رہے تھے ۔ ویڈیوز میں موجود بہت سے لڑکے اس کے لیئے اجنبی تھے مگر ویڈیو میں لڑکی ایک ہی تھی وہ تھی فریال …
وہ فوری طور پر تمام شوٹس کینسل کرکے اپنے فلیٹ واپس آگئی تھی ۔
٭…٭
’’فائزہ !‘‘ آج بہت عرصے بعد اس نے خود فائزہ کو کال کی تھی ۔
’’کیسی ہو فریال ؟‘‘
’’ٹھیک ہوں تم سناؤ ۔ امی؟ عظام بھائی ؟بھابھی ؟ سب کیسے ہیں ؟‘‘ اس نے گم صم سے لہجے میں کہا ۔
’’سب ٹھیک ہیں زندگی جا ری وساری ہے۔ عیش کر رہے ہیں تمہارے خرچے پر۔‘‘
’’اچھا ! اور سناؤ … مجھے یاد کرتے ہیں وہ لوگ؟‘‘
’’خیریت آج تم یہ سب کیوں پوچھ رہی ہو ؟‘‘ فائزہ کو حیرت ہوئی اس نے کبھی ایسا کچھ پوچھا نہ تھا ۔
’’ہاں بس ایسے ہی … ‘‘ وہ پہلو بدل گئی ۔
’’تمہارا کام دھندہ کیسا جارہا ہے ؟‘‘ فائزہ نے پوچھا
’’دھندہ ؟‘‘ اس نے دہرایا ۔
’’ہاں بھئی ۔ ہے تو دھندہ ہی نا ۔ ‘‘ فائزہ سنجیدگی سے بولی ۔ وہ چپ ہو گئی ۔
’’اگر میں گھر آؤں ملنے تو مجھے مل لیں گے نا امی اور بھائی ؟‘‘ اس نے حد درجہ سنجیدگی سے کہا۔
’’تم ؟پتہ نہیں، ہاں لیکن تمہیں آنا ضرور چایئے ۔ تمہاری امی سے کل تمہاری بات کر وائوں گی ۔ وہ بتا سکتی ہیں کہ تمہیں گھر آنا چایئے یا نہیں ۔ ‘‘ فائزہ نے کچھ سوچتے ہوئے حقیقت پسندی سے کہا ۔
’’اوکے میں انتظار کروں گی۔ ‘‘ اس نے یاسیت سے کہہ کر فون رکھا۔
٭…٭
’’دیکھو اگر وہ شرمندہ ہے تو ہمیں بھی اسے معاف کردینا چاہیے ۔‘‘ امی نے سفارش کا سوچتے ہوئے بات کا آغاز کیا۔
’’کون ؟کون شرمندہ ہے ؟اس نے آپ سے ایسا کہا ؟‘‘عظام چلا رہا تھا ۔
وہ بہت غصے میں تھا ۔ابھی محلے والوں سے تازہ قصہ سن کر آرہا تھا فریال کا ۔
’’کہا نہیں مگر وہ گھر آنے کے لیئے اداس ہے تو اس کا یہی مطلب ہے ناکہ وہ شرمندہ ہے۔ اسے معاف کر دو۔ ‘‘ امی پھر منمنائی ۔
’’کیا؟ کیا معاف کردوں ؟کس بات پہ معاف کردوں ؟گھر سے بھاگ گئی ؟اس بات پہ؟آوارگی کر رہی ہے اس بات پہ ؟ یا اس بات پہ لوگ اس کے قصے سناتے ہیں مجھے ؟ابھی پر سوں ایک لڑکا مجھے انٹرنیٹ پہ اس کی ویڈیودیکھانے لے گیا تھا۔ زمین میں گڑھ گیا تھا میں، کس کس بات پہ معاف کردوں۔ کس کس بے غیرتی پہ درگزرکروں؟‘‘
وہ چلائے جارہا تھا ۔ امی چپ ہوچکی تھیں۔
لیکن رات کو وہ خود مان گیا اور واپس آنے کی اجازت دے دی۔
٭…٭
امی سے بات ہونے پر وہ بے حد خوش تھی کہ اسے گھر جانا ایک خواب لگ رہا تھا ۔ اتنا عرصہ اسے یہ سمجھنے کے لیئے کافی تھا کہ جنت وہ پیچھے چھوڑ آئی تھی ۔ وہ ابلیس تھی اور ابلیس اللہ سے معافی کا طلبگار تھا ۔ اس نے بہت کوشش سے وہی پرانا بیگ تلاشا تھا ۔ بازار سے عبایا خریداتھا ۔ اور سوچا تھا کہ یہاں کی ہر یاد یہاں ہی چھوڑ جائے گی ۔ وہ یہاں سے کچھ لے کر نہیں جائے گی ۔
آنسوتھے کہ تھم نہ رہے تھے ۔ اس کے دل پر مظہر صاحب کی حرکات کا جو بوجھ تھا وہ گاؤں واپس آمد کے پروانے نے سر کا دیا تھا ۔ اس بیگ میں اس نے کچھ رقم اور ضرورت کی چیزیں رکھی تھیں ۔ پتہ نہیں آگے کیا ہو نے والا تھا ۔
مگر وہ بہت مطمئن تھی کہ وہ اس نرخ سے نکلنے والی تھی اسے رات کے اندھیرے میں نکلنا تھا تاکہ میڈیا سے بچ سکے ۔ مکمل پردے میں وہ ایک لوکل بس پر سوار ہو چکی تھی ۔ اپنے تمام تر نمبرز اس نے بند کر دیئے تھے ۔
٭…٭
’’ارے یہ کیا ؟‘‘ امی کچن میں آئی تو عظام کو گوشت بنانے والی چھریاں ترتیب دیتے دیکھا تھا ۔ انکی دھار نہایت چمک رہی تھی ۔
عظام نے امی کو دیکھ کر وہ چھریاں اخبار میں لپیٹ دی ۔
’’یہ کیا کر رہے تھے بیٹا ؟‘‘ امی نے چونک کر پوچھا ۔
’’وہی جو مجھے کرناچاہیئے۔‘‘ اس نے سپاٹ لہجے میں کہا ۔
اور ماں کے قریب آکر ان کا ہاتھ اپنے سر پہ رکھا ۔
’’ کھائیں میری قسم کہ آپ اس خبیث کو کچھ نہیں بتائیں گی۔ ‘‘اس کی آنکھوں میں خون اتراہواتھا ۔
’’لیکن …تو یہ کر کیا رہا ہے ۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ ‘‘ ماں کے لہجے پر کپکپی طاری تھی ۔ وہ اس کے سفاک ارادے بھانپنے کی کو شش کرنے لگی ۔
’’سمجھ آجائے گا۔ اور یہ سب اس کمینی کو بھی پتہ چل جائے گا۔ مجھے اسکا خوف نہیں نہ قانون کا ۔ میں اسے ٹھکانے لگاکر خود کو قانون کے حوالے کردوں گا مگر اسے بتا دیا تووہ یہاں نہیں آئے گی کبھی بھی ۔ میری ماں ہو ، میرے مرے باپ کی عصمت کا لحاظ ہے تو چپ رہنا۔ ‘‘کہہ کر وہ تیزی سے کچن سے نکل گیا تھا ۔
ماں کپکپی کے عالم میں زمین پر ڈھے گئی تھی ۔
٭…٭
تھوڑی سی تبدیلیوں کے ساتھ وہی گھر تھا ۔ بس یہ تھا کہ یہاں تبدیلی آگئی تھی اس پیسے سے جو فریال نے کمایا تھا ۔
وہ امی سے ملی تھی ۔ بھابھی سے ، فائزہ اور اس کے گھر والے بھی اس سے ملنے آئے تھے ۔
سب نے اسے گرمجوشی سے اس استقبال کیا تھا ۔ مگر ادھر ادھر جا کر سب نے اس کے عبایا پر تبصرے کیے تھے ، میک اپ سے عاری چہرے پر تبصرے کیے تھے ۔
وہ خاموش تھی ۔ بس اس کی آنکھیں آنسوؤں کی زباں بول رہی تھی ۔
’’عظام بھائی کہاں ہیں ؟‘‘
’’وہ… وہ آجائے گا ۔ کام پر گیا ہے۔ ‘‘ امی نے اسکے استفسار پر بتایا تھا ۔
امی کے لبوں پہ بھی کچھ نہ تھا وہ روتی تھیں اور اسے دیکھے جاتی تھیں ۔
٭…٭
رات کا پچھلا پہر تھا ۔ عظام کا انتظا ر کر کے سب نے کھانا کھالیا تھا ۔ بھابھی سوچکی تھی ۔
فریال اپنے کمرے میں آئی تو اسکی آنکھیں اور چھلک پڑی ۔ گناہوں کا احساس اسے زمین میں گاڑھے دے رہا تھا ۔
وہ بے ساختہ اللہ کے حضور معافی اور ندامت کے آنسو لیئے سجدہ زیر ہو گئی تھی ۔
آنسو تھے کہ تھمتے نہ تھے۔
٭…٭
امی کو نیند آئی تھی نہ آنی تھی اور آ بھی کیسے سکتی تھی ۔ وہ جلے پائوں کی بلی کی طرح فریال کے کمرے کے باہر چکر کاٹ رہی تھیں ۔
اتنے میں عظام گھر کے دروازے سے اندر داخل ہوا تھا ۔
امی کا چہرہ فق ہو گیا تھا وہ ایک نظر ماں پر ڈال کر اپنے کمرے میں چلا گیا تھا ۔
کتنی دیر انتظار کر تے رہنے پر امی اپنے کمرے میں آگئی تھی ۔ مگر انکا دھیان عظام کے قدموں کی چاپ پر ہی تھا ۔
وہ وقت کی سولی پہ لٹکی تھیں کہ اب قیامت ٹوٹی کہ اب…
انکا دھیان چونکاتھا اور فریال کا کمرہ بند ہونے کی آواز سنائی دی تھی ۔ چپل پاؤں میں اڑستے ہوئے وہ باہر آنے لگی ۔ اتنے میں فریال کی چیخ سنائی دی تھی ۔
’’ہائے میرے اللہ !‘‘ وہ کانوں پہ ہاتھ دھرے لڑ کھڑا گئی ۔
٭…٭
’’یا اللہ مجھے معاف کردے ۔ میں اس لائق نہیں مگر مجھے معاف کردے ۔ میں بہت گمراہ ہو چکی تھی۔ گمراہی کی دلدل میں دھنستی چلی گئی اور جب مجھے ذراسا بھی احساس ہوا تو تونے راہ ہدایت کھول دیا ۔ تو ہے بھی تو اتنا رحیم ۔ وہ گناہ جن پر میں کبھی اٹھلاتی تھی ، فخر کر تی تھی ۔ آج وہی گناہ مجھے رلا رہے ہیں مالک! مجھے معاف کردے میں اس قابل تو نہیں مگر مجھے معاف کر دے ۔ میری غربت میری افلاس نے مجھے گمراہ کر دیا مالک ، مجھے معاف کردے۔ مجھے حلال پر قناعت دے دے مالک۔ ‘‘
وہ گڑگڑا کر رو رہی تھی ۔ محویت کا یہ عالم تھا کہ عظام کے اندر آنے کا بھی احساس نہ ہوا ۔
’’جو چلا گیا وہ آنہیں سکتا جو ہے ۔ وہ بہت تھوڑا ہے ۔اسے بچالے میرے مالک … بے شک تیرے ہاتھ میں میری جان ہے ۔ تو جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلت دے۔‘‘
اسکی گڑگڑاہٹ تووہ ملاحظہ کر ہی چکا تھا ۔ اس آخری جملے کو سن کر وہ لرز گیا تھا ۔ اور تیز دھار آلہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے جا گرا تھا ۔
آلہ گرنے کی آوازنے فریال کو چونکا یا تھا ۔ پہلے عظام کو اور پھر آلہ قتل کو زمین پر دیکھ کر فریال کی چیخ نکلی تھی اور پھر جیسے حلق سے آواز بند ہو گئی تھی وہ کچھ بول سکنے کے قابل نہیں رہی تھی ۔
وہ جائے نماز پر پڑی ہوئی جوں کی توں پتھر کی ہوگئی تھی ۔
کتنے لمحے خاموشی کی نظر ہوگئے تھے ۔ بے تحاشا خاموشی ،بے تحاشا چلاتی خاموشی ۔ اسکی خاموشی دیکھ کر عظام نے چاقو اٹھا یا اور قدم اسکی طرف پڑھائے تھے ۔ وہ جہاں سمٹی تھی وہیں مزید سہمتی چلی گئی تھی ۔
’’یہ لو…‘‘ عظام نے دونوں ہاتھوں میں چاقورکھ کر اسے پیش کیا تھا ۔
’’یہ …‘‘اسکے حلق سے پھنسا ہوا ’’یہ ‘‘ نکلا تھا ۔
’’ہاں ۔ یہ لو اور مجھے مار دو…چیردو، کاٹ دو۔‘‘وہ گڑگڑا یا تھا۔
’’مم……مگر کک …کک…کیوں ؟‘‘اپنے ہاتھ ہونٹوں پہ دھرے وہ وحشت سے کبھی چاقو کو دیکھتی کبھی عظام کی آنکھوں کو ۔وہ جانتی تھی اگلے کچھ لمحوں میں وہ نشان عبرت بنادی جائے گی ۔
مظہر صاحب کے کلمات سچ ہونے جا رہے تھے ۔ عوام اس پہ توبہ توبہ کرنے والی تھی ۔
’’کیوں کہ مجھ جیسے بھائی جو اپنی بہنوں کو آسودہ زندگی اور تحفظ نہ دے سکیں ۔ ان کو مارہی دینا چاہیئے ۔ مجھ جیسے بھائی دنیا میں نہ ہوں تو کوئی فریال کوثر ، فریال شاہ نہ بنے ۔ یہ میں ہی ہوں جس نے تمہیں یہاں تک پہنچایا اور اب اگر تم لوٹ آئی ہو … تم بنانے والے مالک کے آگے شرمندہ ہو ۔ معافی کا ٹھیکیدار بن کر میں آیا ہوں تمہیں مارنے ۔ اللہ نے تمہیں زندگی دی ہے اور حساب میں لینے آیا ہوں ۔ تمہارامالک وہ ہے ، روزی تمہیں وہ دیتا رہا اور حساب تم سے میں لینے آیا ہوں ۔ جوتمہیں روٹی کپڑا چھت بھی خوشی سے نہ دے سکتاتھا ۔ تمہارے اچھے برے کاحساب لینے آیا ہوں ۔ تمہاری باتوں نے میرا ضمیر جگایا ہے فریال میں تومرچکا تھا کب کا فریال۔ ‘‘وہ رورہا تھا ۔
زندگی میں پہلی بار اپنے بھائی کواس نے اپنے دکھ میں دکھی دیکھا تھا ۔
’’لو… اٹھائوخنجر ، مجھے ذبح کردو۔ اسی طرح جیسے میں تمہیں کرنے والاتھا۔‘‘فریال نے خنجراٹھایاتھا اسکی آنکھوں سے آنسوبہے اور اس نے خنجر کو غور سے دیکھتے ہوئے دور دیوارمیں پٹخ دیاتھا ۔
’’کوئی عورت ، کوئی بہن اتنی بے رحم نہیں بنائی اللہ نے کہ وہ اپنے سامنے اپنے بھائی کاخون اپنے ہاتھوں کردے۔ اگر تم مجھے معاف کر سکتے ہو تومیں تو پھرعورت ہوں۔ سراپاقربانی ہوں۔‘‘وہ اس کے قدموں میں گر گئی تھی ۔
اور عظام نے اسے کندھوں سے تھام کر اپنے کشادہ سینے میں پناہ دے دی تھی ۔امی دروازہ کھول کر سب باتیں سنتی اندرداخل ہوئیں۔
فریال عظام کے سینے میں منہ چھپائے بلک رہی تھی ۔
وہ اسکے بالوں کو ہتھیلی سے سہلارہا تھا ۔وہ اسکی پناہوں میں تھی ۔ جوہر طوفاںہرآندھی ہردردکے سامنے آہنی سلاخ تھا ۔
٭٭

پچھلا صفحہ 1 2

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page