افسانے

بیدک الخیر: سنیعہ مرزا

وہ منہ ہاتھ دھو کر کچن میں برتن جھانکنے میں مصروف تھی ۔
پہلے روٹی کی تلاش میں ہاٹ پاٹ کھولا تو وہ خالی ۔ سالن کے لیئے برتن کا ڈھکن اٹھایا تو وہ خالی ۔ چائے کے لیئے دودھ دیکھا فرج میں تو وہ بھی خالی ۔
غصے سے برتن پٹختی واپس کمرے میں آگئی۔
’’تم آج سکول نہیں گئی ؟‘‘ بوڑھی ماں نے کمرے کے دروازے میں آکر پو چھا ۔
’’سکول جاکر بھی میں کونسا پیزا ، بر گر کھالیتی ہوں ۔ پورامہینہ دھکے کھا کر بھی تو دال روٹی ہی ملتی ہے ۔ بہتر ہے رنگ رنگ کے لوگو ں کے منہ لگنے سے بہتر ہے کہ میں گھر میں سکون سے رہوں ۔‘‘
’’کیا؟نوکری چھوڑرہی ہو ؟ ‘‘ ماں پریشان ہو گئی۔
’’ چھوڑ رہی کیا ؟ چھوڑ دی۔ نہیں جاؤں گی میں اب وہاں آٹھ ،دس ہزار کے لیئے ۔ اتنا پڑھ لکھ کر میں آٹھ ،دس ہزار کمائوں ۔ صبح نیند حرام کر کے بھوکی جاؤں۔ وہاں پہ ایک ٹانگ پہ کھڑی ہوکر رنگ برنگے بچوں کو پڑھاؤں ، دماغ خرچ کروں اور ملتا کیا ہے؟ آٹھ ،دس ہزار سے زندگی کا سکون نہیں مل سکتا تو پھر اتنی ذلت کیوں ؟نہیں جائوں گی اب میں وہاں ۔‘‘ وہ پاؤں پٹخ کر چلاتی ہوئی ٹی وی آن کر کے لیٹ گئی ۔
’’ دیکھ بھائی تو تیرا خرچ اٹھاتا نہیں سارا ۔ چلو جتنا بھی اٹھاتا ہے ۔ کم از کم تیری تنخواہ سے جتنا بھی آتا ہے وہ تیری شادی کے لیئے ہی کچھ نہ کچھ بنا نے کے کام آجا ئے گا ۔ نوکری مت چھوڑ ۔‘‘ ماں نے آخری صدا لگائی ۔
’’ زندگی میں ایک شادی ہی آخری کام نہیں رہ گیا کرنے کو ۔‘‘ وہ پھر چلائی ۔
’’تو کیا کروگی ؟‘‘
’’یہ میرا مسئلہ ہے۔ آپ جائیں اور جاکر کام کریں گھر کا ۔ نو کری چھوڑ نے کا مطلب یہ نہیں کہ گھر میں میرا سکون حرام کر دیں آپ۔‘‘ اس نے ٹی وی کا والیم اونچا کیا اور دلچسپی سے مارننگ شومیں ناچتی گاتی ماڈلز کو دیکھنے لگی۔
ماں تاسف سے باہر آگئی تھی ۔
٭…٭
’’بس یار۔ میں نے سوچ لیا ہے ۔ ایک یہی راستہ ہے جو میری زندگی کے مسائل کا حل ہے ۔‘‘
بادل گہرے ہورہے تھے ۔ شام سہانی ہورہی تھی ۔ فریال منڈیر سے لگی فائزہ سے دکھ سکھ شیئر کرنے میں مصروف تھی ۔
’’مگر یہ راستہ ٹھیک نہیں۔ تم پا گل ہو۔ ‘‘ وہ اسے ڈانٹنے لگی۔
’’نہ ہو میری بلا سے ۔ پوری دنیا میں سب لوگ ٹھیک راستہ ہی تو نہیں اپنا رہے اور کون سا میں اس کام پہلی لڑکی بن کر قدم رکھ رہی ہوں ۔ ایک دنیا ہے جو یہ سب کر رہی ہے اور عیش کر رہی ہے ۔میرا بچپن سے شوق تھا میں بھی ایکٹنگ کروں۔‘‘ اس نے فائلر سے ناخن تراشتے ہوئے کہا۔
’’ تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے ۔ ادر دیکھ کر پائوں پھیلانے چاہئیں ۔‘‘
’’ اب چادر کی پر واہ نہیں ۔ بہت دھکے کھالیے ، بہت سن لی لوگوں کی ہتک آمیز باتیں ۔ ذلت یوں بھی تھی یوں ہی سہی … بے قدری ویسے بھی ہے ایسے بھی سہی۔ ‘‘ اس نے کھلے آسمان کو دیکھ کر سردآہ بھری۔
’’ارے ، یہ زندگی جنت ہے جنت پگلی !‘‘ فائزہ مسلسل تنبیہ کر رہی تھی ۔
’’اگر یہ جنت ہے تو مجھے ایسی جنت نہیں چاہیئے۔ ‘‘ اس نے فائزہ کی آنکھوں میں دیکھا ۔
’’تجھے پتہ ہے جنت ٹھکرانے والے کو کیا کہتے ہیں ؟‘‘
’’ابلیس …‘‘وہ گہرا سانس لیے بولی ۔
’’میں ابلیس ہوں ۔ لہٰذا تم میری فکر نہ کرو ۔ گڈ بائے پھر ملیں گے۔ ‘‘فریال لاپرواہی سے کہہ کر سیڑھیاں اتر کر نیچے اپنے کمرے میں آگئی تھی ۔
فائزہ کتنی دیر اس کی باتوں سے خوفزد منڈیر سے لگی رہی ۔
٭…٭
’’اب پھر پیسوں کی ضرورت کیوں پڑگئی ؟ ابھی کل ہی تو دو ہزار لیئے تھے ۔‘‘ عظام بھی ماں پر چلا رہا تھا ۔
’’بیٹا، وہ تو آٹے اور کچن کے راشن میں صرف ہو گئے ۔ فریال کا جو تا اور کپڑے لینا تھے اس لیئے مانگ رہی ہوں ۔ وہ کل بھی ضد کر رہی تھی مگر کل میرے تمام پیسے گھر کا سامان لانے میں خرچ ہو گئے۔ ‘‘ماں نے گھٹے گھٹے لہجے میں کہا ۔
’’میرے پاس اتنی عیاشیوں کے لیئے پیسے نہیں ہیں ۔ گھر کا خرچ اٹھا سکتا ہوں بس اگر زیادہ عیاشی کا شوق ہے تو میں اپنی بیوی کو لے کر الگ ہو جاتا ہوں پھر اس آٹے دال کی فکر بھی خود ہو گی تو عیاشیاں یا دنہیں آئیں گی ، ہونہہ… ‘‘وہ ماں کے روبرو چلانے لگا ۔
’’اچھا بیٹا ، تو غصہ نہ کر اگر نہیں ہیں پیسے تو رہنے دے کوئی ضروری تو نہیں ہیں تو جا کا م پہ ۔‘‘وہ جھگڑے کے ڈر سے ٹالنے لگی ۔
’’جا کام پہ …صبح صبح ہی چخ چخ شروع۔ ‘‘وہ پائوں سے کرسی کو ٹھو کر لگا کر دروازہ پٹختا چلا گیا ۔
’’کوئی ضرورت نہیں آئندہ میرے لیئے اس سے کوئی پیسے مانگنے کی ۔‘‘ فریال کمرے سے نکل آئی تھی ۔
’’اب تو بھی مجھے ہی سنا نا ۔‘‘ماں کا غصہ اس پہ نکلنے کو تھا ۔
’’میں کچھ نہیں سنا رہی۔ بس آئندہ میری کسی چیز کے لیئے اس سے کچھ مت مانگنا۔‘‘ وہ حتمی انداز میں کہہ کر بال برش کرنے لگی ۔
’’نوکری تو نے چھوڑ دی تو پھر تیری ضرورت کون پوری کرے گا؟‘‘
’’میں رشیدہ سے کچھ پیسے مانگوں گی آج اور تجھے سوٹ لے دوں گی ۔میرے ساتھ چلنا ‘‘ وہ اس کے تنے ہوئے چہرے کو نارمل کرنے کے لیئے پچکارنے لگی۔
’’کوئی ضرورت نہیں کسی رشیدہ حمیدہ سے قرض لینے کی ۔ پہلے جو اتنے لے لے کر خرچ کیئے ہیں وہ تو اتار ے نہیں کب تک ہاتھ پھیلاتی رہو گی ؟ مجھے نہیں چاہیئے کچھ بھی ۔‘‘ وہ کہتی ہو ئی برش صحن میں پٹخ کر کمرے میں آگئی ۔
الماری سے ایک پرانا بیگ نکالا تھا اور اس میں کپڑے ڈالنے لگی۔
کچھ کپڑے جوتے میک اپ کا جو بچا کچا سامان موجود تھا وہ سب اس میں ڈالا ۔ الماری کا درازکھولا اس میں سے اپنی ایک سونے کی انگوٹھی ڈھونڈی
اور امی کے پرانے دو کنگن ۔کتنی دیر وہ ان کنگنوں کو دیکھتی رہی ۔ آخر کار اس نے بیگ میں ڈالے۔ یہ سوچتے ہوئے کہ یہ ماں نے اس کی شادی کے لیئے رکھے ہیں لہٰذا ان پر اسکا ہی حق ہے ۔
’’ سنو!میں ذرا سبزی لینے بازار تک جا رہی ہوں ۔ گھر کا دھیان رکھنا تیری بھابھی تو ابھی تک سو رہی ہے ۔ دروازہ بند کر لو۔‘‘ کہہ کر وہ چلی گئی ۔
اس نے ان کے جاتے کی تسلی کی اور پھر سے کمرے میں آگئی ۔
چار پائی کے قریب پڑے میز پر موجود کتابوں کے قریب پڑی فائل کھولی اور اپنی ڈگریوں کو نکالا۔میٹرک، ایف اے،بی۔اے اور ایم ۔اے …تمام ڈگریاں نکال کروہ انہیں دیکھنے لگی ۔ سب سے اچھے گریڈز اس نے ایم ۔اے میں لیئے تھے ۔ اسلامیات میں ماسٹرز اس نے بہت محنت سے کیا تھا ۔ ایک سردآہ خارج کر کے وہ تمام کاغذوں کو لیئے کچن سے ماچس لے کر چھت پہ آگئی۔
انہیں سیدھی کر کے اس نے اوپر نیچے اپنی تمام اسناد اور ڈگریاں رکھی ۔ اور دیا سلائی جلا کر آگ لگا دی تھی پھر قریب چارپائی پر بیٹھ کر شعلوں کو دیکھنے لگی ۔ پیلی دھوپ اور پیلی آگ دونوں ایک دوسرے میں پناہ تلاش کر رہی تھیں ۔
’’ارے یہ کیا جلا رہی ہو ؟‘‘فائزہ نے اپنی چھت سے جھانکا۔
’’اب پھر تم نصیحتوں کی پٹاری نہ کھول لینا۔‘‘
’’مگر یہ ہے کیا ؟ شہریار کے خط ؟‘‘فائزہ نے آگ کو گھور تے ہوئے کہا ۔
’’شیریار نے کبھی مجھے خط نہیں لکھا تھا ۔ آج کے دور میں خط نہیں ہوتے ۔‘‘وہ چلتی ہوئی اس کے قریب آگئی ۔
’’او ہو ۔ میں تو محاورہ کہہ گئی۔‘‘
’’تو تم ابھی تک شہریار کو بھولی نہیں ؟‘‘فریال نے تیوریاں چڑھا کر کہا ۔
’’نہیں ، وہ بھولنے والی چیز تھی ؟‘‘ فائزہ نے ابھی بھی آگ کو گھورنا بند نہیں کیا تھا ۔ آگ بجھ گئی تو فریال پائوں میں پہنے جوتے سے جلے ہوئے پرزوں کو مل مل کر راکھ بنانے لگی ۔
’’مجھے بھول گیا تو تمہیں کیوںیاد ہے ؟‘‘ فریال نے اسے گھورا ۔
’’تم تو پاگل ہو۔ مجھے پتہ ہے کہ تم بھی اسے بھولی نہیں ہو ۔ بس بھولنا چاہتی ہو جو ایسا کہہ رہی ہو ۔ بے وفائی ایسی چیز ہے کہ وہی شخص جسے ہم ہمیشہ یاد رکھنا چاہتے ہیں بے وفائی اسے ہمیشہ بھولنے پر مجبور کرتی ہے۔ ‘‘
’’اچھا ؟‘‘ فریال نے اس کی بات کو طنز میں اڑایا ۔
’’اس کے وجود نے دیا کیا جو یاد رکھوں ۔اپنی سوچوں میں اسے جگہ کیوں دوں ؟ جو چلا جاتا ہے اسے بھول جانا چاہیئے ۔ مجھے بھی بھول جانا ۔اوکے ‘‘ فریال کہہ کر نیچے اتر آئی ۔
’’کیوں؟تم کہاں جا رہی ہو ؟‘‘وہ پکارنے لگی مگر فریال غائب تھی ۔
٭…٭
’’اچھا! تو آپ ہیں فریال ہیں ۔‘‘مظہر صاحب نے سر تا پا اس کا جائزہ لیا۔
وہ کراچی آگئی تھی۔ کنگن اور اپنی انگوٹھی بیچ کر اس نے اک فلیٹ کرائے پر لیا اور مختلف ماڈلنگ ایجنسیز کے دھکے کھاتے ہوئے وہ یہاں تک پہنچی تھی۔
’’جی ، میں فریال ہوں۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے بیٹھیں ۔ ‘‘ انہوں نے اسے دیکھتے ہوئے بیٹھنے کا کہا ۔
’’شکریہ… ‘‘وہ بیٹھ گئی ۔
’’کیا لیں گی آپ ؟ چائے یا کافی ؟‘‘
وہ سوچنے لگی کافی اس نے زندگی میں کبھی نہیں پی تھی لہٰذااسی کی حامی بھر لی ۔ مظہر صاحب نے فون پر ملازم کو آڈر دے کر پھر سے توجہ اس پر مرکوز کی ۔
٭…٭
’’مس فریال ! یہ سب کام کا حصہ ہے ۔ اس کے بغیر چانس ملنا مشکل ہے ۔ آپ کو کچھ ایسے Pose دینا ہوں گے جو آپ کے کیریئر میں سنگ میل ثابت ہوں گے۔ ‘‘ مظہر صاحب نے وضاحت کی ۔
’’ابھی آ پ کی پیمنٹ کتنی ہو گی؟‘‘ اس نے چند لمحے سوچتے ہوئے کہا ۔
’’ دیکھیں فریال ابھی آپ کے کیریئر کا آغاز ہے ۔ آپ کو اسٹبلیش ہونے میں وقت لگے گا ۔ یہ تو مقدر کی بات ہے کچھ ہیروئنز راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جاتی ہیں کچھ کو سالوں لگ جاتے ہیں ۔لیکن یہ سب محنت پر منحصر ہے ۔ ترقی کرنے والی ہیروئنز ہر قسم کے شاٹس قبول کرتی ہیں ۔‘‘ مظہر صاحب اس کا برین میک اپ کر رہے تھے۔
’’مگر پیمنٹ کتنی ہوگی؟ ‘‘ وہ ابھی بھی اسی نقطے پر سوچ رہی تھی ۔
’’ابھی ایڈوانس میں آپ کو دس ہزار ملے گا۔ ‘‘ مظہر صاحب نے منہ بسورتے ہوئے کہا ۔
’’بس دس ہزار ؟‘‘ وہ چونکی ۔
’’ارے نہیں ٹوٹل پیمنٹ ایک لاکھ ہو گی۔ ‘‘ مظہر صاحب نے اس کی دلچسپی کو جج کیا ۔
’’ایک لاکھ ؟‘‘ فریال کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔
٭…٭
آج اسکا فو ٹو سیشن تھا ۔ ایم ۔اے اسلامیات کے دورا ن پڑھی جانے والی تمام احادیث وتفا سیر و آیات کو اس نے گھر ہی چھوڑ دیا تھا ۔
امی کے بکے کنگن سے حاصل کردہ پیسوں سے وہ فی الحال وقت پاس کر رہی تھی مگر مزید خرچ کے لیئے اسے رقم کی ضرورت کسی بھی وقت پڑ سکتی تھی ۔
اور یہ مظہر صاحب والا پروجیکٹ سوچ کر تو اس کی راتوں کی نیندیں اڑگئی تھیں ۔ ایک لاکھ تو اس کی ماں نے بھی پورا کبھی زندگی میں نہ دیکھا تھا ۔
وہ اپنے تمام خواب مجتمع کرتی رہی تھی ۔ جس دن سے اس نے پروجیکٹ سائن کیا تھا ۔ اور خود کو خوش قسمت سمجھتی تھی کی تمام تر خوف کے باوجود اسے محنت سے کام مل ہی گیا تھا ۔
٭…٭
اپنے وجود کو چست لباس میں آئینے میں دیکھ کر وہ حیران رہ گئی تھی ۔ وہ اتنی خوبصورت تھی اس نے کبھی اپنا یہ روپ تو پہلے دیکھا ہی نہ تھا ۔
مظہر صاحب کی ڈاریکشن میں اس نے تمام فوٹو شوٹ کروائے تھے بلا جھجک و اعتراض۔
اسے انتظار تھا تو بس ایک لاکھ کا ۔
مظہر صاحب نے لنچ آورز میں اسے دس ہزار کا چیک دیا تھا ۔جسے اس نے ایک لاکھ کا بیسواں حصہ سمجھتے ہوئے خوشدلی سے قبول کیا تھا ۔
٭…٭
پانچ ہزار خرچ ہو چکا تھا ۔ امی کے بیچے ہوئے کڑے سے حاصل ہونے والی رقم میں سے بھی چند ہزار تھے جو باقی تھے ۔
اس نے ایک ہفتہ کے انتظار کے بعد مظہر صاحب کا نمبر ملایا ۔ وہ فون نہیں اٹھا رہے تھے ۔ کافی ٹرائی کے بعد فون اٹینڈ ہوا تھا ۔
’’ جی میں ان کا سیکرٹری ہوں ۔ مظہر صاحب شوٹنگ کے لیئے آسٹریلیا گئے ہیں ۔کچھ دنوں کے بعد رابطہ کریں ۔‘‘
اس کے استفسار پر جواب آیا تھا ۔ وہ فون بند کر کے موبائل پر اپنے Shots دیکھنے لگی ۔
کچھ دیر بعد پھر سے کال کر کے اس نے مظہر صاحب کے سیکرٹری سے کچھ اور کمپینز کے کونٹیکٹ لیئے تھے ۔ باقی کمپینز کو اس نے اپنی ویڈیوز اور تصاویر ارسال کی تھیں ۔
٭…٭
دو ماہ ہو گئے تھے مظہر صاحب کی غیر دستیابی نے اسے پریشان کر رکھا تھا ۔
ان کا آفس بھی نامعلوم مقام پر منتقل ہو چکا تھا ۔ اور نمبر بھی مسلسل بند جا رہا تھا ۔
خوف اور خرچ کے ختم ہو جانے کی فکر کھائے جارہی تھی ۔
٭…٭
’’ہیلو فائزہ کیسی ہو ؟‘‘
’’شکر ہے تم نے میرا فون تو اٹھا یا ۔ کہاں چلی گئی ہو ؟ تمہیں پتہ ہے تمہارے گھر والے کتنے پریشان ہیں ۔ تمہارا بھائی تمہاری امی تو گھر سے نکلنا چھوڑ گئے ہیں ۔ لوگ انہیں تمہارے بارے میں پوچھتے ہیں تو وہ شرم کے مارے گھر سے نہیں نکلتے۔ ‘‘
’’میں نے یہ سب بکواس سننے کے لیئے فون اٹینڈ نہیں کیا ۔‘‘ فریال نے غصے میں جواب دیا ۔
’’لیکن تم ہو کہاں ؟ٹھیک تو ہو؟ ‘‘فائزہ پریشان تھی ۔
’’ ہاں بالکل ٹھیک ہوں اور کراچی ہوں ۔ سنو کسی کو میرے بارے میں کچھ مت بتانا۔ ‘‘
وہ اسے اپنے متعلق بتانے لگی تھی کہ وہ کراچی کہا ں اور کیوں رہ رہی تھی ۔
’’ فریال خدا کے لیئے ۔ یہ تم کہا ں پہنچ گئی ہو۔ تمہیں ذرا شرم بھی ہے کہ تم کر کیا رہی ہو۔ تمہارے گھر والے پہلے ہی کسی کو منہ دکھا نے لائق نہیں رہے ۔ انہیں پتہ چلا تو وہ تو جیتے جی مر جائیں گے ۔‘‘
’’ مرنے دو انہیں ۔ ‘‘وہ بدتمیزی سے بولی۔
’’اگر میری خواہشات کو پورا کرتے ہوئے مرتے ہیں تو اس طرح مر جائیں تو بھی کیا ہے ۔ مر جائیں ، میں نے تو مرنا بھی چھوڑ دیا ہے ۔ اب میں جیتی ہوں بس ، نوٹوں میں کھیلتی ہوں ۔ وہ ٹھنڈے سالن ، وہ سوکھی روٹی ، وہ مانگے ہوئے کپڑے … سب ختم ہو گیا ہے ۔ عیش ہیں اب اپنے تو ، فائزہ کی بچی !‘‘وہ بہت خوش تھی ۔
’’کچھ شرم کرو گندی عورتوں کی طرح جسم کا سودا کرکے کمائے ہوئے پیسے پر فخر کرتی ہو۔‘‘
’’یہ میری محنت کا معاوضہ ہوتا ہے ۔ تم اسے کچھ بھی سمجھو ۔ میری زندگی اب پرسکون ہے ۔ ٹکے ٹکے پر ترسنا نہیں پڑتا دھکے نہیں کھانے پڑتے ۔ عزت ہے نام ہے پیسہ ہے ۔‘‘
’’فریال …‘‘ فائزہ یہی کہہ سکی ۔
٭…٭
’’جی سر! انہوں نے میری ویڈیوز سے بہت پیسہ کمایا اور پھر غائب ہو گئے ۔ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ میرے ساتھ اتنا بڑا دھوکہ کررہے تھے اور بھی جتنے لوگوں کو ویڈیوز بھجوائیں۔ وہ مجھے سائن تو کر لیتے تھے مگر نہ پیسے دیتے تھے نہ کام لیتے تھے ۔ آڈیشن اور چند فوٹوشوٹ لے کر رابطہ کر ناہی بھول جاتے تھے۔‘‘
یہ اسد فاروق تھے جن سے وہ مخاطب تھی۔ انہوں نے اس کو ایک رول کی آفر کی تھی اور وہ خوشی سے فوراََ ان سے ملنے چلی آئی۔
’’بس ایسا تو اس فیلڈ میں عام ہے ۔ خاص طورپر آپ جیسی عام لڑکیاں جو یہاں کی چالاکیوں سے ناواقف ہیں ، انکے ساتھ ہی ایسے فراڈ ز کیے جاتے ہیں ۔‘‘
’’آپ نے بر وقت میری مدددکی ، ورنہ میرے پاس تو فلیٹ کا کرایہ بھی نہ تھا ۔‘‘وہ اسد صاحب کی ممنون ہو رہی تھی۔
’’جی میں نے آپ کی مدد نہیں کی آپ نے میری مدد کی ہے ۔ جس ہیروئن کو میں نے سائن کیا تھا وہ عین وقت پر ڈیٹس دے کر فارن چلی گئیں۔ وہاں انہیں اچھی آفرز مل گئیں ۔ وہ تو آپ بالکل ان کی ہم شکل تھیں ۔ باقی میک اپ سے گیٹ اپ بھی Same ہو گیا تو میری پچھلی شوٹنگ ضائع ہو نے سے بچ گئی اور آپ کی مدد بھی ہو گئی ۔ آپ کو اپنی محنت کے پیسے مل گئے۔‘‘انہوں نے وضاحت دی اور چائے کا کپ اٹھایا ۔
’’یہ رہا آپ کا چیک … ‘‘ اسد صاحب نے چائے کا سپ لیتے ہوئے چیک بڑھایا تھا ۔ فریال نے بے تابی سے چیک تھاما ۔
’’سر میں نے زندگی میں تین لاکھ کبھی خرچ نہیں کیئے ، کبھی کمائے نہیں ۔ سمجھ نہیں آرہا کہ انکا کیا کروں ۔ ‘‘ وہ بہت خوش تھی اپنی خوشی چھپانہ سکی۔
’’اچھا ۔ فیملی بیک گراؤنڈ کیا ہے آپ کا ؟‘‘ اسد صاحب نے دلچسپی لی۔
’’میں لاہور کے ایک گاؤں سے آئی ہوں سر!میرے باپ کی وفات کے بعد زندگی بہت تلخی میں گزری ہے ۔ میرے بھائی کے پاس خرچ نہیں تھا میرے لیئے اور میری تعلیم نے مجھے کچھ دیا نہیں P h.d ہولڈرز دھکے کھارہے ہیں خودکشیاں کرتے ہیں تو میری تعلیم تو بھر بے سود تھی ۔ دھکے کھانے اور خودکشی سے مرنے سے بہتر تھا کہ میں اپنا کیرئر بنا لیتی سومیں کراچی آگئی۔‘‘ چیک کو دیکھتی ہوئی وہ خوشی میں دیوانہ وار بولتی چلی گئی ۔
’’مس فریال یہ سب آپ ہر ایک کو مت بتایئے گا ۔ لوگ اس بیک گراؤنڈ کو بہت Cheap جانتے ہیں ۔ یہ آپکے کیریئر کو نقصان پہنچائے گا ‘‘ اسد صاحب نے اس کومشورے سے نوازا۔
’’مگر یہ تو میں نے مظہر صاحب کو بھی بتایا تھا ۔ انہیں مجھ سے ہمدردی تھی بہت۔ ‘‘ وہ چیک کو بیگ میں ڈالتے ہوئے بولی۔
’’اور آپ نے انکی ہمدردی کا نتیجہ بھی تو دیکھا۔‘‘
وہ چپ رہی ۔
’’مس فریال !یہ مطلب کا زمانہ ہے ۔ یہاں پر بندہ اپنی منزل پر پہنچنے کی جلدی میں ہر کوئی سفر میں ہے ، اور سب ہاتھ آنے والامال وزر لوٹ کر جلدی پہنچنے کے چکر میں ہیں ۔ حلال ،حرام … صحیح ،غلط… حق ،ظلم …سب Concepts پرانے ہو چکے ہیں احتیاط کیجئے گا۔‘‘ اسد صاحب کا مخلصانہ مشورہ اسے چند لمحوں کے لیئے سنجیدہ کر گیا۔
’’آپ چپ کیوں ہو گئیں ؟ آپکی چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے۔‘‘
انہوں نے خاموشی تو ڑکر اسے گاؤں کے ماضی سے باہر نکالا تھا۔
٭…٭
’’فریال ! تمہاری فلم کے پوسٹر پورے شہر میں لگے ہوئے ہیں ۔ امی آج تمہارے گھر گئی تھی اور تمہاری امی بتا رہی تھی کہ تمہارا بھائی بہت غصے میں ہے اور تمہیں تلا ش کر رہا ہے۔ پولیس والے اس کی بات نہیں سنتے۔وہ کہتے ہیں کہ تم اپنی مرضی سے جا کر انڈسٹری میں کام کر رہی ہو۔‘‘ فائزہ اسے بتا رہی تھی۔
’’ آنے دوغصے ۔ مرد کو اگر کچھ اور کرنا نہ آئے تو وہ غصہ کرنے لگ جاتا ہے۔ اور کر ے گا بھی کیا وہ؟بیوی بھگا کر لایا… میں نے تو غصہ نہیں کیا اس کی زندگی تھی جیسے مرضی جیئے ۔ یہ میری زندگی ہے میں جیسے مرضی جیوں۔چھوڑو تم بتاؤ میری فلم دیکھنے گئی؟‘‘وہ موڑ خوشگوار کرتے ہوئے بولی ۔
’’نہیں بابا۔ ہمارے پورے گاؤں میں کبھی کوئی جوان لڑکی سینما گئی ہے کیا؟‘‘ وہ خفگی سے بولی۔
’’لیکن انڈسٹری میں تو آئی ہے نا۔ فریال شاہ… ‘‘وہ فخر سے بولی ۔
’’فریال شاہ؟یہ تم شاہ کب سے ہو گئی ؟ تم تو فریال کوثر تھی۔ ‘‘ فائزہ کو حیرت ہوئی۔
’’میں نے یونیق سا نام منتخب کرنا تھا ۔ اسد صاحب کے مشورے پر فریال شاہ رکھ لیا اور یہ نام ہٹ بھی ہو گیا۔‘‘ اس نے وضاحت دی۔
’’اگر تمہارے بھائی نے تمہیں ڈھونڈ لیا تو؟‘‘ فائزہ نے ہمیشہ کی طرح اسے ڈرانا شروع کیا ۔ یہ خوف فائزہ کے اندر اب بھی تھا ۔
مگر فریال بہت آگے نکل آئی تھی ۔
’’کر لیں گے بھائی کا علاج بھی ۔ پیسے میں بہت طاقت ہے مائی ڈیئر!‘‘
وہ بولتی رہی اور فائزہ سنتی رہی اور ساتھ دل ہی دل میں استغفراللہ بھی کہتی رہی کہ فریال ہر حد پھلانگ چکی تھی ۔
٭…٭

1 2اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page