افسانے

بھنورہ: منعم ملک

محبت کے پنجے بہت نوکیلے ہوتے ہیں،یہ آپ کے عین قلب کے مقام پر اس طرح گہرائی میں پیوست ہوجاتے ہیں کہ پھر نہ نکالنا ممکن رہتا ہے اور نہ نکالے جانے کی خواہش… ایک درد کی کیفیت سرور بن جاتی ہے ، کسک نس نس میں ہلکورے لیتی ہے ۔اور انسان اس کی لت میں ڈوبتاجاتا ہے، ڈوبتا جاتا ہے…
تخلیق بلڈنگ کے سامنے لیٹی سیڑھیوں میں سے آخری سیڑھی پر میں بیٹھی ہوئی ہوں اور میرے سامنے بہار کی نرم ہوا پر پیلے پھول لہرا رہے ہیں…میں شزا محمود…!!
کہتے ہیں کہ پیلے پھول نفرت کی علامت ہیں۔میں سوچ رہی ہوں پیلا زرد رنگ نفرت کا نہیں افسوس کا رنگ ہے۔
ترحم کا نشان…ترس و افسوس کا بیان،وہ افسوس جو اس سمے میرے چہرے پر پھیلا ہوا ہے۔ اور میرا چہرے کا رنگ بھی بالکل پیلا زرد ہورہا ہے۔ ٹھیک ان پیلے پھولوں کی طرح…
تو پیلا رنگ میرے لیے افسوس کا رنگ ہے۔ جیسے مجھے خود سے افسوس ہورہا ہے۔ خود پر ترس آرہا ہے…!!
محبت نے میرے قلب پر اس وقت پنجے گاڑھنا شروع کیے جب میں ان فضاؤں سے آشنا نہ ہوپائی تھی۔ یہ یونیورسٹی کے نئے نئے دن تھے۔ اور میں پہلی بار اپنے ماحول سے نکل کر، ایک مخصوص خول سے نکل کر ان آزاد فضائوں کا حصہ بنی تھی۔وہ فضائیں جو حیران کن ہیں ، اور سحر انگیز…
’’ میرا نام شزا محمود ہے…اور میں ان سب سے مختلف ہوں۔‘‘
میں نے اپنا دوپٹہ کستے ہوئے ایک لائن میں اپنا تعارف دیا تھا ۔ہاں میں تھی ان سے مختلف …اس ماحول سے مختلف، کچھ ان لوگوں سے مختلف، میرے چاروں طرف سے دبی دبی ہنسی اُڑی تھی ۔ میں غیر آرام دہ نہیں ہوئی … ان کا حیران ہونا جائز تھا۔ جیسے میرا حیران ہونا…
وہ مجھے جانتی تھوڑا تھیں۔
یہ ایک طلسماتی دنیا تھی۔خوبصورت ادائیں، حسین چہرے، آزاد قہقہے، رنگ و بو کے سلسلے، ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر گھومتے جوڑے، ست رنگوں میں لپٹے سنہرے لوگ…جو اتنے شفاف لگتے تھے مانو مٹی انہیں چھونے سے ڈرتی ہو۔
’’اسے ابھی ہماری ہوا نہیں لگی۔یہ بھی انہی رنگوں میں ڈھل جائے گی۔‘‘میرے گروپ کی ایک لڑکی نے کہا تھااور بے تحاشا قہقہے اُمڈے۔میں بھی ہنس دی تھی۔
مجھے یہ بے فکر اور لاپروا انداز بھاتے تھے لیکن میں ان کی گوسپ اور طریقوں سے بے نیاز تھی۔میں یہ تو نہیں کرنے والی تھی جو یہ سب پورے اعتماد سے کر لیتی تھیں اور سب نارمل تھا…
یہ میری سوچ تھی۔ تب تک جب تک ایک خوشبودار جھونکا میرے پار نہیں اُتر گیا۔
ہم لوگ کلاس بنک کرکے کیفے میں ہنگامہ کررہے تھے ۔ان سب کے درمیان کسی کی برتھ ڈے ڈسکس ہورہی تھی۔میں غیر دلچسپی سے ادھر اُدھر دیکھ رہی تھی کہ میرے پاس انہیں مشورہ دینے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ وہ سب مجھ سے ذیادہ ایکسپرٹ تھیں۔اتنے میں ماریہ نے اچانک میری کُہنی پکڑی تھی۔
’’تمہیں بھی اس کے لیے کچھ لینا چاہئے ۔ آخر تم بھی ہمارا حصہ ہو؟‘‘ اس کے ایکدم مخاطب کرنے پر میں فوری جواب نہیں دے سکی۔
’’ نہیں ماریہ! میں اسے جانتی تک نہیں اور اجنبیوں کو تحفہ دینا مجھے پسند نہیں۔‘‘میں نے اسی بے نیازی سے کہا تھا۔ماریہ کی آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں۔
’’تم…تم شناور شاہ کو اجنبی کہہ رہی ہو…شناور شاہ کو؟‘‘
’’ہاں! شناور شاہ…یا جو بھی…‘‘
میں نے عجیب نگاہوں سے اس کے تاثرات ملاحظہ کیے۔ وہ میرے لیے کیونکر اہم ہوسکتا تھا جسے میں نے دیکھا تک نہ تھا؟ماریہ نے چند پل حیرت میں ڈوبتے رہنے کے بعد ایک زور دار قہقہہ لگایا تھا۔پھر اس نے ٹیبل بجا کر سب کو متوجہ کیا اور یہ دلچسپ قصہ سب کے گوش گزار کیا تھا۔
’’یہ ابھی اسے جانتی نہیں اس لیے کہہ رہی ہے۔وہ یونیورسٹی بھی تو نہیں آرہا، ورنہ شزا محمود تم جان جاتیں۔‘‘
’’یا پھر جان سے جاتیں۔‘‘ علیشہ نے ٹکڑا لگایا اور ساتھ قہقہہ بھی…
’’شناور شاہ پورے ڈیپارٹمنٹ کی لڑکیوں کی آنکھ کا تارا ہے۔چاکلیٹی ہیرو…جانتی ہو لڑکیاں اس کے آس پاس چلنے کے خواب دیکھتی ہیں۔‘‘ماریہ نے آنکھ مارتے ہوئے میری الجھن دور کرکے بتایا تھا۔ میں نے کوئی خاص تاثر نہیں دیا…میں یہاں اکثر ایسا ہی ہوتا دیکھ رہی تھی۔
’’امیر کبیر، نئے سے نئے ماڈل کی گاڑی میں بیٹھ کر آنے والا۔لڑکیاں کچھ محبت میں کچھ لالچ میں اس سے دوستی بڑھانا چاہتی ہیں کہ شاید کسی کا نصیب جاگ جائے۔‘‘ماریہ نے آہ بھر کر کہا۔ مجھے بے حد حیرانی ہوئی۔ وہ سب کی سب ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتی تھیں۔اگرچہ میں اس مہنگی یونیورسٹی میں سکالرشپ حاصل کرکے پہنچی تھی مگر ان میں سے کسی کو بھی لالچ میں آکر ایسے شخص کی طرف بڑھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ماریہ شاید میری آنکھوں میں تحریر یہ کیفیت پڑھ کر بول اُٹھی تھی۔
’’کم آن یار!اتنا ہیندسم انسان آپ کے ساتھ ہو نا، تو دنیا کی جو نظریں آپ پر اُٹھتی ہیں۔ اس کا نشہ ہی الگ…‘‘
وہ شرارت سے جھول گئی تھی۔پھر عادتاََ ہنستی گئی…میں بھی اس کی شرارت پر ہنس پڑی تھی۔
’’تمہیں ملواؤں گی۔‘‘اس نے چپکے سے کان میں کہا جیسے میرے اندر اشتیا ق جاگا ہوگا۔ حالانکہ وہ مجھے بیوقوف لگ رہی تھیں۔پھر آنے والے دنوں میں، میں نے اس شخص کا اتنا ذکر سن لیا کہ میں او ب ہی گئی تھی۔دو ہفتوں بعد ، جس روز اس کی سالگرہ تھی۔ اس روز اس کی آمد کا بتایا جارہا تھا۔
میں اس روز معمول کے مطابق یونیورسٹی کے لیے تیار ہوکر آئی تھی۔ان سب کے ساتھ رہتے ہوئے مجھے بھی خود کو مین ٹین رکھنا آگیا تھا۔مگر وہ دن میرے لیے بے حد غیر معمولی بن گیا۔معمول کے جیسا کچھ بھی نہیں تھا اس میں…کیونکہ…اس میں وہ شخص پہلی بار آیا تھا۔
ماریہ اور عشنا کے مشورے کے باوجود میں نے اس کے لیے کوئی گفٹ نہیں لیا تھا۔مانا کہ شناور شاہ میرے کلاس فیلوز کے لیے چہیتا تھا…مگر وہ ایک اپر کلاس سے بیلونگ کرنے والا شخص تھا۔ اور میرا فیملی سٹیٹس مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتا تھا کہ میں اس کے شایان شان کوئی گفٹ دیتی۔ اور دیتی بھی کیوں؟…صرف ایک Batchmate اور ڈیپارٹمنٹ فیلو ہونے کے ناتے؟
میں کلاس خالی پاکر عشنا کے میسیج پر کامن روم پہنچی تھی۔ کامن روم میں شناور شاہ کے لیے ایک کارنر میں کیک کاٹنے کے لیے ٹیبل سجائی گئی تھی۔اس سب میں شناور کی دوست اریبہ (ماریہ کے الفاظ میں گرل فرینڈ) پیش پیش تھی ۔ جس کے ساتھ وہ سب سے ذیادہ نظر آتا تھا۔میں دروازہ دھکیل کر اندر داخل ہورہی تھی جب نظر اُٹھنے پر میں نے اسے ہنستا دیکھا۔
اس کی ناک پر چاکلیٹ کیک کا ٹکڑا لگا تھا اور وہ ہنس رہا تھا۔وہ شناور شاہ…جس کے بال انتہائی براؤن تھے۔
اور…میرے آس پاس شور تھم گیا۔ میں اک قدم آگے نہ بڑھا سکی۔جیسے کسی نے پھونک مار دی ہو، میرے ساکت جسم پر…
کسی نے پنجے اتار دیے ہوں میرے خاموش دل میں…اور روشنی سی پھینکی ہو جاگتی آنکھوں پر…
میرے سامنے دھندلے منظر میں سلوموشن میں ہاتھ ہل ہل کر مجھے اپنے قریب بلارہے تھے۔ اور…سکتہ ٹوٹ گیا۔
’’ہماری نئی دوست سے ملو۔ یہ ہے شزا محمود…!‘‘ ماریہ نے کندھوں سے جکڑ کر مجھے اس کے مقابل کیا تھا۔ ایسے کہ وہ مسکراتی آنکھوں سے مجھے دیکھنے لگا۔
’’تم دونوں کا اس سمسٹر ایک سبجیکٹ بھی سیم ہے۔‘‘ وہ جیسے رشک سے بولی۔ شناور شاہ نے سر کو جنبش دیتے ہوئے ہاتھ آگے بڑھایا تھا۔
’’ہیلو…‘‘ اس کی شخصیت کی طرح اس کا لہجہ بھی…مجھے ماریہ کی بات یاد آئی۔
’’لڑکیاں کچھ محبت میں کچھ لالچ میں…‘‘
لیکن میں جان گئی تھی۔یہ اس کی شخصیت ہی تھی جو مقناطیسی تھی۔وہ سارے پل، وہ سارے لمحے، جس میں ، میں انہیں بیوقوف کہتی تھی وہ مجھ پر بھاری گزر رہے تھے۔ اور میں شرمسار سی ہورہی تھی۔
’’یہ ہاتھ نہیں ملاتی۔‘‘ مجھے بت بنا دیکھ کر ماریہ نے شناور کے بڑھے ہاتھ کو واپس لوٹایا تھا۔ بہت محظوظ ہوکر…شناور شاہ بھی برا ماننے کی بجائے کھل کر ہنس دیا تھا۔
’’اوکے دیٹس فائن! مل کر اچھا لگا۔‘‘ اگلے پل وہ اپنی محفل میں گھل مل گیا تھا ، یوں کہ مجھ پر دوسری نظر بھی ڈالنا یاد نہ رہا۔اور میں یہ رسمی جملہ کہنے سے بھی قاصر تھی کہ مجھے اس سے مل کر کیسا لگا ہے؟
شناور شاہ ہم سے ایک سمسٹر سینیئر تھا۔ لیکن وہ ایک سبجیکٹ ریپیٹ کررہا تھاجس سے اس کی ایک کلاس میرے ساتھ ہوتی تھی۔اس کے باوجود جونیئر سیکشن سے لے کر سینیئر تک اس شخص سے بخوبی واقف تھے۔اس کی سالگرہ کی چھوٹی سی سیلیبریشن کے دوران میں سارا وقت اس سے نظریں نہ ہٹا پائی تھی۔میرے دل میں اس کے لیے کچھ نہیں تھا پھر بھی اسے دیکھتے رہنا اچھا لگ رہا تھا۔
میرے دل میں ملال بہتا رہا کہ میں اس کے لیے کچھ لے کر کیوں نہیں آئی۔ اس کی خاص دوست اریبہ پورے غرور سے اس کا بازو تھام کر کھڑی تھی۔ اور مجھے وہ اس کے مقابل کچھ بھی نہیں لگ رہی تھی۔
میں اس وقت چونکی جب دل پر لگے پنجوں میں ہلچل محسوس ہوئی۔نجانے وہ اپنی جگہ مضبوط کررہے تھے یا گہرائی میں اُتر رہے تھے۔کس چیز کے پنجے؟
گھر آکر میرا سارا وقت اسی کو سوچتے گزرا تھا۔ بار بار وہ پہلی نظر میں ہنستا چہرہ…برائون بالوں میں چلتی انگلیاں، میں سوچتی رہی کہ مجھے اس کو کیا گفٹ دینا چاہیئے۔ اور کیا اسے یاد بھی رہے گا کہ کسی شزا محمود نے کتنی چاہ سے اسے یہ تحفہ دیا تھا۔ یقینا نہیں!!
کتنی جلدی میں یہ فراموش کر بیٹھی تھی کہ وہ صرف ایک Batchmate ہی تو تھا۔تاہم میں تحفہ لے کر حاضر تھی۔
’’ایم سوری اس دن جلدی میں، میں آپ کے لیے کوئی تحفہ نہ لاسکی۔ یہ میری طرف سے۔‘‘
’’اوہ سو سویٹ!‘‘ وہ پہلے چونکا تھا۔ جیسے یہ غیر متوقع ہو۔مجھے اس کی کیفیت نے لطف دیا۔پھر اس نے ہاتھ بڑھا کر وہ گفٹ تھام لیا۔
’’اس کی ضرورت نہیں تھی۔پر تم واقعی اچھی لڑکی ہو۔‘‘ اس نے گفٹ دیکھے بغیر ایک طرف رکھ دیا تھا۔ مگر اس کی نرم مسکراہٹ سے ساری بے چینی ہوا ہوئی۔ میں مسحور ہوئی تھی۔ دل سے کوئی پھانس نکلی…شاید مجھے اس سے یہی سننا تھا۔ دل میں دھنسے پنجوں پر رم جھم برسات ہوگئی تھی۔
یوں چپکے چپکے اسے دیکھنا میری عادت بنتی گئی…یہ جانتے ہوئے بھی کہ عادتیں پختہ ہوجاتی ہیں۔چلتے پھرتے ہیلو ہائے ہونے لگی…کبھی کبھی دو سے ذیادہ باتیں۔ اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی رہتا تھا، ورنہ ذیادہ تر اریبہ…جو اس کے ساتھ گھومتی پھرتی، تحفے تحائف لیتی۔ مجھے لگتا ماریہ لالچ والی بات ٹھیک ہی کرتی تھی ۔ نجانے کیوں مجھے اس پر بے طرح غصہ آتا ۔دل کی باتیں میں کھل کر کسی سے شیئر بھی تو نہیں کرسکتی تھی۔
’’ ماریہ سنو!‘‘
’’ہوں۔‘‘
’’شناور شاہ کی ہنسی کتنی پیاری ہے۔ بالکل سشانت سنگھ جیسی…‘‘
’’واقعی؟‘‘ ماریہ نے قلم روکا۔
’’ہاں نا! شفاف کھلی کھلی، زندہ اور زندگی سے بھرپور۔‘‘
’’سشانت سنگھ جیسی نہیں…اس سے کچھ ذیادہ۔‘‘
ماریہ نے تائید کی تھی۔ ماریہ پر بے حد پیار آیا۔ اس کی تعریف کتنی اچھی لگی تھی۔ قدرت کو بھی جانے کیا منظور تھا کہ ایک دن وہ میرے ساتھ والی سیٹ پر آ بیٹھا۔ میں سُن ہی ہوکر رہ گئی تھی۔اس کے لباس سے اُٹھتی خوشبوئیں سانسوں کا راستہ روک رہی تھیں۔
’’شزا یار! مجھے آپ کے ’’کمیونیکیشن سکلز‘‘ کے نوٹس چاہیئں ۔ آپ کی اس سبجیکٹ میں پوری کلاس سے ذیادہ پروگریس ہے۔‘‘اس نے تعریفی انداز میں کہا اور میری گردن اُونچی ہوتی گئی۔ کیا یہ شخص جان پائے گا کہ اس سبجیکٹ میں سب سے اچھی لڑکی اس سے اپنے دل کی بات ’’کمیونیکیٹ‘‘ نہیں کرپاتی؟
’’آپ ان نوٹس کی پکس لے سکتے ہیں۔کاپی بھی کروا سکتے ہیں اور اگر…‘‘
’’آف کورس اگر کچھ سمجھ نہ آیا تو آپ سے پوچھوں گا۔ میرے پاس آپ کا نمبر ہے؟‘‘ اس سوال پر میرا سر خودبخود نفی میں ہل گیا۔ وہ اٹھ کر چلا گیا تو مجھے سمجھ آیا دل کا خالی پن…اس روز یہ بھی انکشاف ہوا کہ شناور شاہ کے لیے میرا دل کیا چاہتا ہے۔بے خبری میں محبت اپنے پنجے دل کی گہرائی میں اُتار چکی ہے، اور اس انسان کی لمحہ بھر کی گفتگو میرے لیے مسیحائی کا فریضہ سرانجام دیتی ہے۔ اس کے جاتے ہی میری دوستوں کا جھنڈمیرے گرد جمع ہوگیا تھا۔
’’شناور شاہ تمہارے پاس۔ کیا کہہ رہا تھا…؟‘‘ میں نے اس تجسس پر پہلی بار قہقہہ لگایا تھا۔ ان کی بے تابی عروج پر، اور میں نے شانے اچکا دیے۔ ایکدم سہی میں سب کی نظروں کا مرکز بن گئی تھی۔ اور اس سے اگلی صبح ایک غیر متوقع خبر میری منتظر تھی۔یوں جیسے میری مراد بر آنی ہو…
شناور شاہ اور اریبہ کا بریک اپ…!!
کئی لمحے اس خبر نے مجھے گنگ کردیا۔ دل میں اُمید کی کونپل پھوٹی جس پر شناور شاہ کا نام لکھا تھا۔ میں دعا میں اللہ سے اسے مانگنے لگی۔ اریبہ کے اس کی زندگی سے نکلنے پر شناور شاہ کو کوئی فرق نہ پڑا۔ وہ اسی طرح ہنستا مسکراتا تھا۔یہ دیکھ کر میرا سکون کئی گنا بڑھ جاتا کہ اس کا اریبہ سے محبت کا کوئی تعلق نہیں تھا۔
میں آہستہ آہستہ ہر موقع پر اسے گفٹس دینے لگی۔ہر اہم دن کی تلاش میں رہتی ۔میں اسے احساس دلانا چاہتی تھی کہ وہ مجھے یاد رکھے۔ وہ جو ہمیشہ تحفہ لینے کے بعد شکریہ ادا کرتا اور پھر وہی بے نیاز انداز…وہ بے نیازی جو مجھے بھاتی تھی۔
’’تم چیزیں بہت اچھی طرح سمجھ لیتی ہو۔‘‘ ایک روز مجھ سے فارمل ای میل کی ٹیکنیکس سمجھتے ہوئے اس نے بے تکلفی سے کہا تو میری ہارٹ بیٹ مس ہوئی۔
’’یہ آپ بھی سمجھ سکتے ہیں۔ سمجھنا چاہیں تو…‘‘ چاہ کر بھی اسے تم نہ کہہ سکی۔ اس کی لاپروائی پر چوٹ کی۔
’’تم ہو نا۔‘‘ وہ ہلکا سا ہنسا۔ وہ ہنسی جو مجھے مبہوت کرتی تھی۔ ’’پھر فکر کیسی۔ میں تمہارا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ تم بہت مختلف ہو۔‘‘
’’مختلف؟‘‘ میں چونکی۔ ’’ہاں! بہت اچھی…ذہین…بہت کوآپریٹیو۔‘‘
اس کے لہجے میں کچھ خاص نہ تھا۔ پر میرے لیے اس کی ہر بات خاص تھی۔ جوں جوں دن بیتتے گئے میں اس کی سمت اور کھنچتی گئی۔اس نے ا ب تک میرے تحائف کے جواب میں مجھے کسی خاص دن پر کبھی تحفہ نہیں دیا تھا۔ مجھے کبھی سپیشل فیل نہیں کرایا تھا۔ یہ بات کبھی کبھی اداس کرتی…میں پھر بھی اپنے عمل کو روکنے سے قاصر تھی۔
وہ ایک خاص انسان تھا۔ جسے شاید ادراک نہیں تھا۔ اسے کبھی کسی نے سچی محبت دی ہی نہیں…وہ کسی کوبھی اپنی زندگی میں شامل کرلیتا تھا۔ اس کی اہمیت کا احساس میں اسے دلانا چاہتی تھی۔ اور میں جانتی تھی…
جیسے ہرمرتبہ موسم کے بدلنے پر بہار کا آنا طے ہوتا ہے۔
اسی طرح اس کا میری طرف مائل ہونا بھی حتمی تھا۔

1 2اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے