Azadi Kay Is Safar Main : Komal Sadiq
آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر ان کے صبیح ملائم رخساروں پر بہنے لگے اور ہچکیوں میں شدت آگئی ۔ بلال کا پریکٹیکل کا پیریڈ نہ ہو سکا تو وہ جلدی گھر آگیا ۔ سائیکل گیٹ کے پاس کھڑی کر کے وہ آگے آیا تو مکمل خاموشی تھی ۔ اچانک اس کے کانوں میں کسی کے رونے کی آواز آئی ۔ وہ آواز کی سمت لپکا اور لائبریری کے دروازے پر رک گیا ۔
امی دیوان پر بیٹھے ہاتھ میں ایک تصویر پکڑے زاروقطار رو رہی تھی ۔ اس کا دل مٹھی میں آگیا ۔ ایک قدم آگے بڑھایا مگر پھر پلٹ کر نکلتا چلا گیا ۔ اس نے سائیکل نکالی اور اس راستے پر ڈال لی جدھر میجر عامر آسودہ خاک تھے ۔ سنگ مرمر کی قبر جس پر پھولوں کی پتیاں اور سرہانے سبز ہلالی پرچم لہرا رہا تھا ۔ وہ نیچے بیٹھا اور سر قبر پر رکھ دیا ۔ ایک ٹھنڈک سی اس کے رگ و پے میں اتر گئی ۔میجر عامر کے ساتھ ہی صبیحہ کی قبر تھی۔
’’ لگتا ہے آج میاں جی آئے تھے فاتحہ پڑھنے ۔ ‘‘ وہ بہن بھائی انہیں میاں جی کہتے تھے ۔ جب بلال پیدا ہوا تو عامر نے انہیں بہت چھیڑا کہ میں چھوٹا ہو کر باپ بن گیا ہوں میرے بچے تجھے میاں جی کہا کریں گے اور وہ بہت چڑتا تھا ۔ مگر عامر کے جانے کے بعد انہوں نے بچوں سے میاں جی ہی کہلوایا ۔ جی بھر کر رو لینے کے بعد اس نے والدین کی قبور پر فاتحہ پڑھی اور لوٹ آیا ۔ وہ بے مقصد اِدھر اُدھر پھرتا رہا ۔ شام ڈھلے جب وہ گھر پہنچا تو امی بے قراری سے اس کا انتظار کر رہی تھی۔
’’ اتنی دیر لگا دی بیٹا! میں انتظار کر رہی تھی ۔ دل ہول رہا تھا میرا ۔‘‘
’’سوری امی جی! آج ماجد کے ساتھ ان کے گھر چلا گیا تو دیر ہوگئی ۔ ‘‘ اس نے ماں کے ہاتھ پر بوسہ دیتے ہوئے کہا۔
’’ اچھا! میں اور نبیہ بازار جا رہی ہیں ۔ پروفیسر صاحب بھی آتے ہی ہوں گے گھر ہی رہنا اب۔‘‘
’’اچھا ٹھیک ہے۔‘‘ وہ نبیہ کو لینے اندر چلی گئی اور وہ برآمدے میں ایک طرف رکھے لکڑی کے جھولے میں بیٹھ گیا ۔ جلد ہی وہ بازار کے لیے نکل گئیں ۔ ان کے جانے کے کچھ دیر بعد پروفیسر صاحب آ گئے۔
’’السلام علیکم!‘‘
’’وعلیکم السلام میاں جی!‘‘
’’یہ تم اداس بلبل بنے کیوں بیٹھے ہو وہ بنگالی حسینہ اور چہکتی مینا کدھر ہیں۔‘‘
’’ میاں جی! بازار گئی ہیں دونوں ۔ ‘‘ وہ ان کے پیچھے پیچھے ان کی خواب گاہ میں آگیا ۔
انہوں نے صوفے پر بیٹھ کر جوتے اتارے،اس نے سلیپر لا کر پاس رکھے۔
’’بلال! کوئی کام ہے بیٹا؟‘‘
’’کام نہیں ہے بس ایک ضروری بات کرنی ہے ۔ ‘‘ وہ ان کے پاس بیٹھ گیا اور ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
’’میاں جی! امی خود کو ہمارے سامنے مضبوط ظاہر کرتی ہیں مگر مضبوط نہیں ہیں ۔ اندر سے بہت نازک ہیں ۔ آج میں جلدی آ گیا تھا وہ اپنے والدین کی تصویر دیکھ کر رو رہی تھی ۔ میں دبے پائوں واپس چلا گیا کہ رو لیں ان کا کتھارسس ہو جائے۔‘‘
’’ بیٹا! میں جانتا ہوں میں خود اس کرب سے گزرا ہوں ۔ میں کوشش کرتا ہوں ان کی دلجوئی کرنے کی مگر کوئی نہ کوئی وجہ نکل آتی ہے۔‘‘
’’آپ ایسا کریں ۔ انہیں ڈھاکا لے جائیں کیا پتا اپنے پیاروں کی قبروں پر جا کر انہیں سکون مل جائے ۔ اب تو ویزا بھی آسانی سے لگ جاتا ہے۔‘‘
’’ تم چھوٹے تھے تب اس لیے نہیں جانتے کہ اس دلخراش سانحہ کے وقت ہندوؤں کے ورغلانے پر کس طرح مسلمانوں نے مسلمانوں کے گلے کاٹے ۔ پاکستان کے وفادار اور بہادر مسلمانوں کو چن چن کر مارا گیا، گھر جلائے گئے اور خواتین کو بے آبرو کیا گیا ۔ 47ء کی تاریخ دہرائی گئی ۔ کس نے ان کے پیاروں کو دفنایا ہو گا اور کہاں قبریں ہوں گی۔‘‘انہوں نے عینک اتار کر آنکھیں صاف کرتے ہوئے کہا۔
’’پھر بھی آپ انہیں ایک بار لے جائیں ۔ میں انہیں روتا نہیں دیکھ سکتا ۔ امی بس ہنستی ہوئی اچھی لگتی ہیں ۔ ‘‘ اس کے بعد پروفیسر صاحب نے چپکے چپکے معلومات اکٹھی کرنا شروع کر دی ۔ ان کے ایک کولیگ کے توسط سے وہاں انسانی حقوق کی وزارت سے رابطہ ہو گیا ۔ ضیا احمد کے خاندان کا پتا نہ چل سکا مگر ان کے ایک بیج میٹ کا پتا چل گیا جو آج کل ڈھاکا ہی تھے ۔
پروفیسر صاحب نے جب انہیں بتایا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی ۔ جلد ہی ویزا لگ گیا ۔ ایک دوپہر بچے ان کو خدا حافظ کرنے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے مسافر لاؤنج میں موجود تھے ۔ ان کی واپسی تک انہیں اپنے ننھیال رہنا تھا ۔
وہ دونوں لاہور سے کراچی پہنچے اور وہاں سے جب ڈھاکا اترے تو رات شہر کو اپنی گود میں لے کر تھپک رہی تھی ۔ خلیج بنگال سے آنے والی ہواؤں سے فضاء َفرحت بخش تھی ۔ مٹیالا سا چاند اور بجھے بجھے تارے بنگال کی بیٹی کو خوش آمدید کہہ رہے تھے ۔ جلد ہی وہ ہوٹل پہنچ گئے ۔ اگلی صبح انہیں متعلقہ شخص سے ملنے جانا تھا ۔ بدرالدجیٰ صاحب ضیا احمد کے ساتھ ہی تھے مگر وہ اندر سے جئے بنگلہ کے حق میں تھے ۔ جلد ہی وہ دھان منڈی میں ان کے گھر پہنچ گئے ۔ انہوں نے ان کاپرتپاک استقبال کیا ۔ نیناں آنٹی کے گلے لگ کر وہ رو دی ۔ آنٹی نے اس کے آنسو صاف کئے اور سب ڈرائنگ روم میں آ کر بیٹھ گئے ۔
’’انکل! بتائیں نا میرے پیاروں کے ساتھ کیا ہوا ؟ ‘‘ وہ سراپا التجا تھی۔
’’بس بٹو! ضیا صاحب پاکستان جانے کے لیے تیار تھے سامان بھی باندھ لیا تھا اور ٹکٹ بھی آگئے تھے مگر 10دسمبر کی رات بڑا سخت کرفیو لگ گیا اور پھر سب محصور ہو کر رہ گئے ۔ میں نے سمجھایا کہ چھت سے جھنڈا اتار لیں بعد میں چلے جانا پاکستان مگر وہ نہ مانے ۔ مکتی کے لوگوں نے ان کے گھر پر سفید نشان لگا دیا اور ٹھیک دو روز بعد آگ لگا دی گئی ۔ اگلی شام میں جب چھپتا چھپاتا وہاں گیا تو جلا ہوا گھر اور سوختہ لاشیں تھیں ۔ ضیا صاحب کے مجھ پر بڑے احسان تھے اس لیے رات ہوتے ہی میں نے نوکر کی مدد سے سب لاشوں کو اٹھایا اور ایک ہی قبر میں دفنا دیا ۔ ‘‘ وہ اتنا بتا کر خاموش ہو گئے ۔
شاہدہ کا وجود ہچکیوں سے لرز رہا تھا ۔ باقیوں کے بھی آنسو چمک رہے تھے ۔ پھر وہ ان کی معیت میں اس قبرستان آئی جہاں اس کے پیارے تھے ۔ ان کی نشاندہی پر وہ ایک ڈھیری پر بیٹھ گئی اور ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے ۔ پروفیسر صاحب نے آگے بڑھ کر اسے تھاما۔
’’ شاہدہ دعا کرو ۔ رو مت تمہارے آنسو انہیں تڑپا رہے ہوں گے ۔ ‘‘ اس نے برستی آنکھوں سے اماں، ابا جاوید، جنید اور صائمہ کی اجتماعی قبر پر فاتحہ پڑھی اور لوٹ آئی ۔ اسی رات ان کی پاکستان کے لیے واپسی کی پرواز تھی۔دلِ بے قرار کو قرار آنے لگا تھا۔
٭…٭…٭
بیسویں صدی کی آخری دہائی تک ان کی سینچی ہوئی فصل تیار ہو چکی تھی ۔ بلال نے سول انجینئرنگ کے بعد کچھ سال ایک فرم میں نوکری کی پھر میجر عامر کی جمع ہونے والی پنشن اور میاں جی کے سرمائے سے اس نے اپنی فرم قائم کر لی ۔ نبیہ نے فیشن ڈیزائنگ کی ڈگری لی تو اسے اس کے حصے کا پیسہ دے دیا گیا جس سے اس نے بوتیک کھول لی ۔ دونوں بچے اپنے اپنے شعبوں میں کامیابی سے آگے بڑھ رہے تھے ۔ دونوں کی شادیاں ان کی مرضی سے کرنے کے بعد دونوں میاں بیوی ہلکے پھلکے ہو گئے ۔ اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں دونوں نے ریٹائرمنٹ لے لی اور اب بلال اور نبیہ کے بچوں کے علاوہ پروفیسر صاحب کا وقت’’آغوش‘‘ اور شاہدہ کا وقت ادبی سرگرمیوں میں گزرتا۔
٭…٭…٭
’’آغوش ٹرسٹ‘‘ جس کی بنیاد انہوں نے پروفیسر جمالی اور دوسرے رفقاء کے ساتھ مل کر رکھی تھی ۔ رفتہ رفتہ بانی اراکین کے راہی ملک عدم ہونے کے بعد ساری ذمہ داری پروفیسر اسلم نذیر پر آگئی ۔2010ء کا سال ان کی زندگی کا یاد گار سال تھا۔’’آغوش‘‘کو قائم ہوئے 50سال بیت گئے ۔ یہ’’آغوش‘‘ کی گولڈن جوبلی تھی۔
’’آغوش ٹرسٹ‘‘ کے زیر اہتمام قائم کئے گئے سکولوں کی تعداد20 سے تجاوز کر چکی تھی جن کا دائرہ کار پنجاب کے پسماندہ علاقوں میں بھی پھیل چکا تھا ۔ اس کا کڑھائی سلائی سنٹر اب ایک بڑے ادارے میں بدل چکا تھا اور مزید چھوٹے علاقوں میں 5سنٹر قائم کیے جا چکے تھے۔ نبیہ عامر اپنی بوتیک کے ساتھ اس ادارے کے دستکاری مراکز بھی چلا رہی تھی ۔ ڈاکٹر فاریہ بلال جو ریحان کی بیٹی اور بلال کی بیوی تھی، یہ رشتہ بچوں کے ساتھ ساتھ ریحان اور اسلم صاحب کی خواہش پر خاندان کو جوڑنے کے لیے جوڑا گیا تھا ۔ فاریہ میاں جی کے ساتھ مل کر ٹرسٹ کے باقی معاملات دیکھتی تھی ۔ اس نے پسماندہ علاقوں میں زچہ بچہ سنٹر بھی قائم کیے ۔
گولڈن جوبلی پر ٹرسٹ کی مرکزی عمارت کے احاطے میں ایک بڑی تقریب کا انعقاد کیا گیا ۔ جس میں شہر کی معروف سیاسی،سماجی، ادبی اور کاروباری شخصیات کو مدعو کیا گیا ۔ اس کے علاوہ وہ لوگ بھی بڑی تعداد میں مدعو تھے جن کی زندگیاں اس ٹرسٹ نے تبدیل کی تھی ۔ نبیہ نے تین روزہ ورکشاپ کا اہتمام کیا اور دستکاری مرکز کی ہنر مند خواتین کے فن پاروں کی نمائش کی گئی ۔ ریحان اور نوشابہ بھی اس تقریب کے لیے خصوصی طور پر پہنچے تھے ۔ اس تقریب میں میاں جی نے خصوصی اعلان بھی کرنا تھا ۔
ٹرسٹ کے نوجوان رکن مبشر احمد نے نظامت کے فرائض سنبھالے ۔ تلاوتِ قرآن پاک کے بعد ٹرسٹ کے 50 سالوں کے سفر پر ایک دستاویزی فلم دکھائی گئی ، جو ان کی پوتی زونا بلال نے تیار کی تھی ۔ زونا ’’باتیں میاں جی ‘‘کی کے نام سے ان کا یو ٹیوب چینل بھی چلا رہی تھی ۔ تقریب کے آخر میں جب پروفیسر صاحب کو خیالات کے اظہار کے لیے بلایا گیا تو حاضرین نے کھڑے ہو کر داد دی۔
’’ میرے عزیز ہم وطنو! پیارے پاکستانیو! میں اپنے ربّ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے ۔ جس نے مجھ ناچیز سے اتنا بڑا کام لیا ۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ 14اگست 1947 کو میں بھی کسی گولی کا نشانہ بن سکتا تھا ، جیسے میری بستی کے باقی لوگ بنے ۔ میں بھی کسی نیزے میں پرویا جاتا ، جیسے امام صاحب کے بیٹے کو نیزے میں پروئے ایک بلوائی نعرے لگاتا اس کھیت کے سامنے سے گزرا تھا جہاں میں چھپا ہوا تھا ۔ میں بھی راوی کی بپھری لہروں کا شکار بن سکتا تھا ان ہزاروں لاشوں کی طرح جب پاکستان آتے راوی کے اندر میں نے تیرتے دیکھی تھی ۔ لیکن میرے رب نے بحفاظت مجھے ماسٹر عبدالشکور تک پہنچا دیا شاید وہ مجھ سے یہی کام لینا چاہتا تھا ۔ جوں جوں میرے کندھوں پر قربانیوں کا بوجھ بڑھتا گیا میرا اللہ مجھے نوازتا چلا گیا ۔ 1960ء میں جب پروفیسر جمالی ، رفیق احمد اور ملک بشیر کے ساتھ اس ادارے کی بنیاد رکھی تو سوائے نیک نیتی، عزم حوصلے اور قلیل سرمائے کے علاوہ کچھ بھی ہمارے پلے نہ تھا ۔ اللہ پر توکل کرتے ہوئے ہم آگے بڑھتے گئے اور وہ راہ کھولتا چلا گیا ۔ تب سے آج تک جو بھی میری ٹیم رہی اللہ کو حاضر ناظر جان کر تمام فنڈز ضرورت مندوں پر خرچ کئے گئے ۔ آج بھی میری کوئی جائیداد اور زرعی زمین نہیں ، میرا اثاثہ صرف علم اور انسانیت کی خدمت ہے ۔ ‘‘ وہ ذرا سا رکے تو ہال تالیوں سے گونج اٹھا ۔
اگلی نشستوں پر براجمان ان کے پیاروں کی آنکھیں بھیگ گئی۔
’’میرے ہم وطنو! آج 50سال مکمل ہونے پر میں اپنی ٹیم اور تعاون کرنے والی شخصیات کی خواہش پر’’میرا روزگار‘‘ سکیم کا آغاز کر رہے ہیں ۔ جس کے تحت نہ صرف مستحق ہنر مند افراد کو سود سے پاک قرضہ دیا جائے گا بلکہ کاروبار جمنے تک ان کی رہنمائی اور منڈیوں تک رسائی یقینی بنائی جائے گی ۔ گو کہ اب میں بوڑھا ہو گیا ہوں مگر اس کی نگرانی میں خود کروں گا ۔ اللہ ہمیں کامیاب کرے ۔ اللہ آپ سب کا حامی و ناصر ہو ۔ ‘‘ لوگوں نے زوردار تالیوں سے کھڑے ہو کر داد دی۔
٭…٭…٭
آج کل سالگرہ کی تیاریاں زور و شور پر تھیں ۔ پاکستان آرٹس کونسل کے زیر اہتمام ایک بڑی تقریب میں وہ مدعو تھے ۔ 14اگست کا سورج سج دھج کر نکلا تھا ۔ پروفیسر صاحب کا دراز قد اب ذرا سا جھک گیا تھا ۔ سفید براق بالوں کی طرح داڑھی بھی سفید تھی ۔ آنکھوں پر چشمے اور ہاتھ میں لاٹھی کا اضافہ ہو چکا تھا ۔عمر عزیز کی 85 بہاریں دیکھنے کے باوجود وہ چست اور صحت مند تھے۔انہوں نے پوتے پوتیوں کے ساتھ شکور منزل کی چھت سے ابھرتے سورج کو دیکھا اور بوڑھے ہاتھوں سے پرچم لہرا دیا۔نگاہوں میں گورداسپور کے گائوں حسن پور کا وہ اونچی ماڑی والا گھر اور اس پر لہراتا پرچم نگاہوں کے سامنے آگیا ۔
انہوں نے ٹھنڈی سانس لی اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے ۔ وقتِ مقررہ سے پہلے وہ تقریب میں پہنچ گئے ۔ تقریب شروع ہوئی تو نوجوان نسل کا جوش و خروش دیدنی تھا ۔ تقریب کے آخر میں جب میزبان نے ان کا نام پکارا تو ہال تالیوں سے گونج اٹھا ۔ وہ بڑے وقار سے چلتے ہوئے ڈائس تک آئے۔ما ئیک کو سیٹ کیا اور جیسے ہی’’میرے ہم وطنو ! ‘‘کہا ہر طرف سناٹا چھا گیا لوگ انہیں سننے کے لیے ہمہ تن گوش تھے۔
’’ میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گا ۔ بس چند باتیں آپ کے گوش گزار کرنی ہیں ۔ میرے نوجوانو! میرے بچو! میں نے اپنی آنکھوں سے پاکستان بنتے دیکھا اس کے ساتھ75سالوں کا سفر طے کیا ۔ میں اس کے ہر عہد کا گواہ اور اس کی تاریخ کے ایک ایک پل کا شاہد ہوں ۔ میرا شمار ان لاکھوں لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اس سرزمین نے ان بے سرو ساماں لوگوں کو بے سہارا نہیں چھوڑا ۔ خالی ہاتھ آنے والوں کو تونگر بنا دیا جو کٹ کٹا کر کڑی محنت کے بعد پاکستان پہنچے ۔ اسی لیے پاکستان کو انہوں نے مقّدم رکھا ، اس ملک کے ہر شعبے کی ترقی میں مہاجرین کا بڑا کردار ہے ۔ اس مقدس کو تونگر بنا دیا ۔ یہ دھرتی خود پہ نثار ہونے والوں کو نوازتی ہے ۔ میری ساری زندگی کا نچوڑ یہی ہے کہ آزادی سب سے بڑی نعمت ہے اس کی قدر کرو ۔ اس کے دوام کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دو ۔ اب جب میں بھارت میں مسلمانوں کی حالت دیکھتا ہوں تو شکر ادا کرتا ہوں کہ پورے خاندان کی لاشوں کا بوجھ ہی سہی، ننگے پاؤں بے سرو سامانی کی حالت میں ہجرت سہی لیکن آزادی اور وقار سے گزرے یہ 75 سال ان دکھوں کے مداوے سے بڑھ کر ہیں ۔ میرے بچو! اس کی بنیادوں میں لاکھوں لوگوں کا لہو شامل ہے ۔ ان کے ڈھانچوں سے اس کی عمارت کھڑی کی گئی اور لاکھوں مائوں ، بیٹیوں کے تار تار آنچلوں سے اس پر چھت ڈالی گئی تب پاکستان بنا ۔ اب یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ اس کی بقا، وقار اور آزادی کے لیے دل و جان سے کام کرنا ہے ۔ اپنے وطن کی تاریخ سے قلب و ذہن منور کرو اور اس ملک کو روح میں بسا کر جیو۔اپنی بنیاد اور شناخت پر فخر کرو۔اللہ سب کا حامی وناصر ہو۔ پاکستان!‘‘
اور ہال زندہ باد سے گونج اٹھا۔
٭٭