ناولٹ

Azadi Kay Is Safar Main : Komal Sadiq

20ویں صدی کی چھٹی دہائی کے آخر میں اس نے سمجھا بجھا کر ریحان کو شادی کے لیے رضا مند کر لیا ۔ ڈاکٹر نوشابہ اس کی ہم جماعت تھی اور اچھے خاندان سے تعلق رکھتی تھی ۔ وہ گنگا رام ہسپتال میں اپنے فرائض سرانجام دے رہی تھی ۔ اس نے نوکری کے ساتھ ساتھ گھر کی طرف بھی حتی المقدور توجہ دی ۔ بلال اور نبیہ بھی اس سے مانوس ہو گئے کہ 1980ء میں ریحان کو پاکستانی حکومت کے توسط سے امریکہ کی ایک میڈیکل یونیورسٹی کا سکالر شپ مل گیا۔
’’بڑے بھیا ! میں انکار کر دیتا ہوں ۔ آپ اکیلے سب کیسے سنبھالیں گے ۔ ‘‘ اس بار جب ریحان لاہور آیا تو اس سے بات کی۔
’’میں اکیلا کدھر ہوں یار ! یہ بچے ہیں، صفیہ بی ہیں، چاچا نصیر ہیں اور آغوش ہے ۔ تُو جانے کی کر، اپنی اولاد کو بلند مقام پر دیکھنا ان کی خواہش تھی اور ان کی خواہش کا احترام ہم پر فرض ہے۔‘‘
’’ اچھا! ایک شرط پر ہم جائیں گے آپ شادی کے لیے حامی بھریں۔‘‘
’’ بالکل بڑے بھیا! آپ ہاں کریں، ہم یہ فریضہ ادا کر کے جائیں گے ۔ ‘‘ نوشابہ نے چائے کی پیالی انہیں پکراتے ہوئے کہا۔
’’اچھا ٹھیک ہے۔آپ لوگوں کی روانگی میں ایک ماہ رہتا ہے اتنے عرصہ میں نہیں ہو سکتی اگلے سال چھٹی پر آنا اور کروا دینا میری شادی۔‘‘ اور پھر ایک دن وہ دونوں بھی شکور منزل سے اڑان بھر گئے۔
٭…٭…٭
وہ اب شعبہ اردو گورنمنٹ کالج لاہور میں پروفیسر تھے۔
’’آغوش‘‘کا دائرہ وسیع ہو چکا تھا ۔ بلال اور نبیہ سکول جاتے تھے ۔ زندگی میں ٹھہراؤ آیا ہی تھا کہ 1971ء کے ہنگامے جاگ اٹھے ۔ اس کے زخموں پر کھرنڈ آتی اور ساتھ ہی پھر کوئی جنگ، کوئی سانحہ اس کے زخموں کو کھرچنے کے لیے آ جاتا ۔ مشرقی پاکستان کی خراب صورتحال کی خبریں مسلسل ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے عوام تک پہنچ رہی تھی کہ دسمبر میں مغربی پاکستان کی سرحدوں پر بھی جنگ چھڑ گئی ۔
شکر گڑھ جس نے راوی پار سے آئے ننھے مہاجر کو کشادہ دلی سے قبول کیا تھا براہ راست جنگ کی زد میں تھا ۔ انہوں نے گھر کی ذمہ داری صفیہ بی پر ڈالی، بچوں کو صبیحہ کے میکے چھوڑا اور ڈاکٹروں اور رضاکاروں کے ساتھ ادویات، راشن، خیمے اور کمبل لے کر شکرگڑھ روانہ ہوگئے ۔ وہ اپنی ٹیم لے کر وہاں پہنچے تو راوی کے ساتھ لگنے والے تمام گاؤں براہ راست انڈین فوج کے توپوں اور ٹینکوں کی زد میں تھے ۔ انہوں نے شکر گڑھ ہائی سکول مرکزی کیمپ لگایا ۔ مقامی رضاکاروں کے ساتھ مل کر ان کی ٹیمیں کنجرور، ہڑر خورد، ہڑرکلاں ، بارہ منگا، نیناں کوٹ، چک امرو اور باقی دیہاتوں کے دورے پر نکلتی ۔
نقل مکانی کرنے والوں اور زخمیوں کو محفوظ جگہ منتقل کیا جاتا ۔ نورکوٹ میں انہوں نے چھوٹا سا کیمپ لگا دیا، یہاں انہوں نے مڈل تک پڑھا تھا ۔ کوٹلی جٹاں جہاں ان کی رہائش تھا وہ بھی جنگ سے متاثر ہوا ۔ کچھ گائوں بھارتی قبضے میں گئے مگر جلد ہی پاک فوج نے دوبارہ چھین کر انہیں پیچھے دھکیل دیا ۔ ہڑرکلاں میں تباہ حال مکانات، نقل مکانی کے لیے بھاگتے لوگ اور زخمی، گولوں کی آوازوں سے بے قابو ہوتے مویشی اور برباد ہوتی فصل دیکھ کر ان کا خون کھول اٹھا ۔ ان کے وجود میں بجلی بھر گئی ۔ وہ دیوانہ وار سامنے کی طرف بھاگے جبکہ لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے لیے آنے والے فوجی جوانوں میں سے ایک نے انہیں دبوچ لیا۔
’’ جانے دو مجھے ۔ میرا دشمن مجھ سے گورداسپور لے کر بھی باز نہیں آیا اب شکرگڑھ لینے آیا ہے ۔ میں نیست و نابود کر دوں گا اسے۔ جانے دو مجھے ۔ ‘‘ وہ فوجی جوان کے بازوئوں میں مچل رہے تھے ۔
وہ ایک سنجیدہ اور بردبار پروفیسر سے ایک دیوانے کا روپ دھار چکے تھے جس کی متاع اس کے سامنے لٹ رہی ہو ۔ صوبیدار آگے بڑھا اور جوان کے ساتھ مل کر انہیں پیچھے گھسیٹ لایا۔
’’پروفیسر صاحب! ہم ہیں نا اس مٹی کے دفاع کیلئے ، جب ہم نہ رہے تب آپ آگے جانا ۔ ابھی آپ اپنے کیمپ پر توجہ دیں ۔ ہمیں بارڈر سے پیچھے آپ جیسوں کی ضرورت ہے ۔‘‘ صوبیدار نے انہیں بازوؤں سے پکڑ کر جھنجھوڑا اور وہ ہوش میں آگئے ۔ جب تک جنگ جاری رہی وہ مسلسل کیمپ میں مصروف رہے ۔ اسی شکرگڑھ کو بچاتے 17 ٹینک تباہ کرواتے ہوئے بالآخر سوار محمد حسین نے جامِ شہادت نوش کر لیا ۔20 دسمبر کے بعد وہ لاہور آگئے ۔ بنگال کے جانے کا دکھ ان کا کلیجہ چیر رہا تھا مگر وہ مطمئن تھے کہ دشمن ان سے شکرگڑھ نہ چھین سکا۔
٭…٭…٭
شاہدہ ضیا گورنمنٹ کالج لاہور میں شعبہ اردو میں ایم ۔ اے اردو سال دوم میں تھی ۔ اس کے والد سرکاری افسر تھے اور ڈھاکہ میں تعینات تھے ۔ ضیا احمد کا تعلق چٹاگانگ سے تھا ان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا جو ایک پاکستان کے حامی اور وفادار تھے ۔ اسی لیے جب 71ء کے وسط میں حالات مزید خراب ہوئے تو وہ کراچی آنے کے لیے کوشش کرنے لگے ۔ شاہدہ پہلے ہی اسٹوڈنٹس ایکسچینج پروگرام کے تحت لاہور میں تھی ۔ وہ جب بھی گھر فون کرتی ڈھاکا جانے کی ضد کرتی ۔ ڈیڈی اسے یہی سمجھاتے کہ آخری سال ہے مکمل کر لو تب تک ہم کراچی آنے کی کوشش کریں گے ۔ وہ اسے کیا بتاتے کہ بہتر ہے کہ وہ لاہور میں محفوظ رہے یہاں تو اب جان، مال اور عزت خطرے میں ہے ۔ جیسے جیسے ہنگامے بڑھتے گئے ، ٹیلی فون کی لائنوں میں تعطل آتا گیا اور پھر دسمبر میں رابطہ مکمل طور پر منقطع ہو گیا ۔ اس نے خط لکھے ، تار بھیجے مگر کوئی جواب نہ آیا ۔ ہوسٹل میں سب اس کو دلاسہ دیتے اس کی دلجوئی کرتے بلکہ پروفیسر جمالی اسے اپنے گھر لے گئے۔
٭…٭…٭
18دسمبر کا وہ دلخراش دن جب جنرل نیازی نے جنرل اڑوڑہ کے سامنے ہتھیار ڈالے پاکستانی پھوٹ پھوٹ کر رو دیے ۔ اس دن شاہدہ کی امید بھی ٹوٹ گئی ۔ اُدھر مکتی باہنی نے ضیا احمد کو خاندان سمیت زندہ جلا دیا ۔ وہ کھلنڈری سی لڑکی کہیں کھو سی گئی تھی ۔ گھنٹوں بیٹھی خلائوں میں گھورتی رہتی اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی ۔ مسز جمالی اپنی محبت اور توجہ سے اسے زندگی کی طرف واپس لانے لگی ۔ وہ خود سمجھدار تھی ان پیارے لوگوں کو تنگ نہیں کرنا چاہتی تھی اس لیے آنکھیں صحرا کر لی اور دل دریا ۔ 82ء کے وسط تک وہ ایم۔اے کر چکی تھی ۔
بچے بڑے ہو رہے تھے اور صفیہ بی کی ہمت جواب دے رہی تھی ۔ نبیہ کو اب ماں کی ضرورت تھی ۔ ایسے میں نوشابہ اور ریحان بھی ان پر شادی کے لیے دبائو ڈال رہے تھے اور گھر کو بھی جوان عورت کی ضرورت تھی ۔ رب کائنات نے جن کا جوڑ آسمانوں پر بنایا ہو وہ زمین پر وقت ِ مقررہ پر مل جاتے ہیں ۔ ایک سہانی شام جمالی صاحب نے ان کے سامنے شاہدہ کا پروپوزل رکھا۔
’’ دیکھو اسلم! شاہدہ کا اور تمہارا دکھ سانجھا ہے ۔ اسے کسی مخلص سہارے کی ضرورت ہے اور تمہارے گھر کو ایک عورت کی، تم دونوں ایک دوسرے کے بہترین شریک حیات ثابت ہو گے۔‘‘
’’ سر! شادی تو میں کرنا چاہتا ہوں لیکن شاہدہ میری اسٹوڈنٹ ہے اور کم عمر بھی وہ ایک بہترین جوان جیون ساتھی ڈیزرو کرتی ہے ۔ ‘‘
’’ تم بہترین نہیں ہو کیا؟ میں بات کروں گا شاہدہ سے اگر اسے اعتراض نہ ہوا تو جلد ہی نکاح کروا دوں گا ۔ ‘‘
’’جو آپ کی مرضی اگر شاہدہ کو اعتراض نہ ہوا تو مجھے بھی نہیں ہے ۔ آپ اسے بلال اور نبیہ کا بھی بتا دیں ۔ وہ میرے بچے ہیں اور میری ذمہ داری ہیں ۔ ‘‘ اور پھر آتی خزاں کی ایک شام بنگال کی بیٹی امیدِ بہار بن کر شکور منزل آگئی۔
٭…٭…٭
زندگی میں ٹھہراؤ اور سکون آگیا تھا ۔ شاہدہ بہترین ہم سفر ثابت ہوئی ۔ اس نے بچوں کو ماں بن کر سمیٹ لیا ۔ اس نے کنیئرڈ کالج میں لیکچرشپ شروع کر دی ۔ کبھی کبھی ماضی کے گھاؤ ان کو گھائل کر دیتے مگر وہ ایک دوسرے کی دلجوئی کے مرہم کے پھائے رکھتے جاتے ۔ پروفیسر صاحب 71ء سے پہلے ایم۔فل کر چکے تھے ۔ اب پی۔ایچ۔ڈی کرنے کے لیے پڑھائی شروع کر دی ۔ ریحان اور نوشابہ امریکہ میں ہی قیام پذیر ہو گئے ۔ چھٹیوں میں ہر سال پاکستان آتے۔
٭…٭…٭
شاہدہ نے ماضی کی تلخ یادوں سے چھٹکارا پانے کے لیے خود کو گھر گرہستی، لکھنے، لیکچرشپ اور بلال اور نبیہ کی ماں کے کردار میں غرق کر لیا ۔ پروفیسر صاحب پہلے ہی دکھی تھے ۔ وہ اتنے بہترین جیون ساتھی کو دکھی نہیں کرنا چاہتی تھی ۔ اس لیے اب آنسو باہر کے بجائے اندر گرتے ۔ بچوں کو اس نے اتنی محبت دی کہ صبیحہ زندہ ہوتی تو وہ بھی نہ دے پاتی ۔ بچے بھی ان دونوں کا دم بھرتے تھے ۔ پروفیسر صاحب رات گئے تک اپنی تحقیق اور مطالعے میں مصروف رہتے ۔ ایسے میں انھوں نے لکھنے کا آغاز کیا اور جلد ہی ان کے افسانے فنون، سیارہ، اردو ڈائجسٹ اور خواتین کے معتبر ڈائجسٹوں میں چھپنے لگے ۔ اپنے اندر مظبوطی سے جمے برف کے گلیشئر کو انہوں نے قطرہ قطرہ پگھلانا شروع کر دیا ۔ پروفیسر صاحب اور بچے خوب حوصلہ افزائی کرتے ۔
یہ ایک سلونی سی سہ پہر تھی ۔ میلی میلی سی دھوپ لاہور کے دروبام پر پھیلی ہوئی تھی ۔ شکور منزل میں کافی تبدیلیاں کی گئی تھی مگر اب بھی تپتی دوپہر سے ایک دم اندر آئیں تو ایک فرحت بخش ٹھنڈک رگ و پے میں اتر جاتی تھی ۔ پروفیسر صاحب اور بچے نہیں لوٹے تھے ۔ وہ آج جلدی لوٹ آئیں ۔ ان کی خواب گاہ کے ساتھ جو چھوٹا کمرہ مشرقی رخ پر تھا ۔اس کی گلاس وال کے سامنے خوب صورت لان تھا ۔ اس لیے یہ کمرہ لائبریری بنا دیا گیا ۔ انھوں نے الماری سے کتاب نکالی تو ایک بوسیدہ سا خاکی لفافہ گرا ۔ انہوں نے جھک کر اٹھایا اور کھولا تو اس میں ان کی فیملی فوٹو تھی ۔ انہوں نے کتاب واپس رکھ دی اور تصویر لے کر دیوان پر بیٹھ گئیں ۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5 6اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page