Azadi Kay Is Safar Main : Komal Sadiq
’’بس سر! اب میں اس وطن کے لیے اور اماں ابا کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہوں۔خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہوں اب ۔‘‘
’’ برخودار!تمہاری داستان صرف تمہاری داستان نہیں ہے ۔ لاکھوں داستانیں بکھری پڑی ہیں ۔ چند خوش قسمت خاندان ہوں گے جو سالم ادھر آئے ۔ ورنہ سب کٹ کٹا کر ہی ادھر آئے ہیں ۔ بڑا قرض ہے ان کا ہم پر بڑے قابلِ احترام ہیں یہ مہاجر ہمارے لیے ۔‘‘
’’جی سر!اباجی بھی کافی عرصہ منٹگمری کیمپ اور والٹن روڈ کیمپ لاہور کے چکر لگاتے رہے مگر ان کے باقی خاندان کا کوئی پتا نہ چل سکا۔‘‘
’’ میں ماسٹر جی سے ضرور ملنا چاہوں گا جنہوں نے ایک بے آسرا بچے کو سینے سے لگا کر کار آمد شہری بنایا ورنہ مہاجر کیمپوں میں کئی لاوارث بچے جرائم پیشہ لوگوں کے ہتھے چڑھ گئے۔‘‘
’’ضرور سر!ابا جی آپ سے مل کر بہت خوش ہوں گے ۔ یہ میری خوش نصیبی ہے کہ آپ میرے گھر کو رونق بخشیں۔‘‘
’’ ضرور برخودار!میں ذرا کلاس لگا کر آتا ہوں ۔ ‘‘ جمالی صاحب چل دئیے اور وہ زندان نامہ کھول کر بیٹھ گیا۔
٭…٭…٭
موسم بیتے، لمحے گزرے اور گھڑیاں ڈھلتی گئیں ۔
میجر عامر شکور آج کل لاہور میں تعینات تھا ۔ صبیحہ کے ساتھ اس کی شادی ہو چکی تھی ۔ گھر میں خوب رونق رہتی ۔ ننھے بلال کی قلقاریاں ابّا جی اور امّاں کے ساتھ اس کے دل کو بھی شاد کرتیں ۔ ریحان کا بھی میڈیکل آخر میں تھا ۔
اس نے پروفیسر جمالی،ملک بشیر اور دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مل کر لاوارث بچوں اور خواتین کے لیے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی ۔ وہ اس تنظیم کا جنرل سیکرٹری تھا ۔ کالج کے بعد اس کا وقت ’’ آغوش ‘‘ تنظیم کے لیے وقف تھا ۔ ان کے کچھ شاگرد بھی ان کے ساتھ اس کارخیر میں شامل تھے ۔ راوی روڈ پر ایک بڑی عمارت حاصل کی گئی جس میں بچوں کی رہائش اور تعلیم کا انتظام کیا گیا ۔ اس کی اوپری منزل میں خواتین کا قیام اور سلائی کڑھائی کا یونٹ لگایا گیا ۔ کچھ عرصے بعد تعلیم بالغاں کا بھی آغاز کر دیا گیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ کالج کے رسالے ’’راوی‘‘کی ذمہ داری،پروفیسری اور والدین کی خدمت اس کے معمولات میں شامل رہی ۔
ننھے بلال کی شرارتیں اور اس سے لگائو اس کی تھکاوٹ ختم کر دیتا ۔ اب اس نے ایک نئے ڈھنگ سے جینا شروع کیا تھا ۔ گرمیاں لاہور پر اپنے پر پھیلا چکی تھیں ۔ یہ 1965ء کا سال تھا ۔ کالج بند تھا تو وہ ’’آغوش‘‘ کے علاوہ اپنا وقت گھر میں گزارتا ۔ ایک رات کھانے کے بعد وہ تینوں بھائی گول کمرے میں ابّا کے ساتھ نشست جمائے بیٹھے تھے۔
’’ ہاں!بھئی میجر ! آج کل کیسے حالات ہیں ؟سنا ہے بارڈر پر کشیدگی چل رہی ہے۔‘‘
’’جی ابا جی ! ایسا ہی ہے اسی لیے سب ہائی الرٹ ہے۔‘‘
’’اللہ !خیر کرے ۔ بڑے رذیل دشمن سے واسطہ پڑا ہے۔‘‘
’’بس ابا جی! حالات بہتر ہوں تو اس کے پاؤں میں بھی بیڑیاں ڈالتے ہیں۔‘‘
’’ بالکل ! تمہاری ماں تیار بیٹھی ہے ۔ بس یہ قابو نہیں آتا ۔‘‘ ابا نے اسلم کی طرف اشارہ کیا تو وہ مسکرا دیا ۔ گفتگو کا رخ بدل چکا تھا ۔ بارڈر کے ذکر پر عامر نے اس کے چہرے پر پھیلتے دکھ کے سائے دیکھ لیے تھے اس لیے دانستہ طور پر شادی کا ذکر چھیڑا تھا۔
٭…٭…٭
یہ 6 ستمبر کی ڈھلتی رات تھی ۔ پاکستانی شہری خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے تھے مگر سرحدوں کی نگہبان آنکھیں جاگ رہی تھیں ۔ مکار اور بزدل دشمن دبے پاؤں اس کی طرف بڑھ رہا تھا ۔ سرحدی آبادیوں کے نزدیک آکر انھوں نے فائرنگ شروع کر دی ۔ نہتے شہری ہڑبڑا کر اٹھے ۔ لاہور،قصور اور سیالکوٹ سے ایک ساتھ پنجاب پر ہلّہ بول دیا ۔ کشمیر اور سندھ کے بارڈر پر بھی نقل وحرکت تیز ہوگئی ۔
شکور منزل کاٹیلی فون بجنا شروع ہوا ۔ میجر عامر چھٹی پر تھے انہوں نے فوراً اٹھ کر فون اٹھایا ۔ رات کے اس وقت فون کی گھنٹی سے سب جاگ گئے ۔ انھوں نے سن کر ریسیور رکھ دیا۔
’’کیا بات ہے پتر ؟ ‘‘
’’ وہی ہوا جس کا ڈر تھا ۔ ابا جی!دشمن نے حملہ کر دیا ہے ۔ مجھے اپنی رجمنٹ کے ساتھ قصور رپورٹ کرنے کا حکم ملا ہے ۔ ‘‘ انھوں نے فوراً تیاری کی اور سب کو ہاتھ ہلاتے جیپ بھگا کر لے گئے ۔ کسی وعدے،تسلی،دعا،معافی اور وصیت کا وقت نہ تھا ۔ سب کی نیند اڑ چکی تھی ۔ آنے والے وقت کا خوف دل لرزا رہا تھا ۔ اسلم فوراً 47ء میں پہنچ گیا ۔ وہی کشت و خون کا معرکہ پھر درپیش تھا ۔ ریڈیو پاکستان اپنے سننے والوں کو پل پل کی خبر دے رہا تھا ۔ صبح ہوتے ہی وہ ریحان کو ساتھ لے کر نکل پڑا۔’’آغوش‘‘کے دفتر میں سب جمع تھے ۔ فوج کے شانہ بشانہ انہیں ملک کا دفاع کرنا تھا ۔ ریحان کچھ ڈاکٹرز لے آیاجو رضا کار طلبا کو ابتدائی طبی امداد کی تربیت دینے لگے ۔
’’آغوش‘‘ میں خون کے عطیات جمع کرنے کے لیے کیمپ لگا دیا گیا ۔ لاہور براہ راست جنگ کی لپیٹ میں تھا ۔ پروفیسر جمالی نے آرمی سنٹر بات کر لی تھی ۔ بارڈر سے پیچھے آنے والے لوگوں اور اگلے مورچوں پر ڈٹے جوانوں کے لیے کھانے کا انتظام ’’آغوش‘‘ کے احاطے میں ہونے لگا ۔ ماسٹر جی بھی آگئے۔
’’ ابا جی!آپ گھر رہتے، اماں اور بھابھی اکیلی ہوں گیں۔‘‘
’’میرے ملک پر کڑا وقت ہے اور میں گھر بیٹھ جائوں ۔ وہ بھی آنا چاہ رہی تھی بڑی مشکل سے صبیحہ کی حالت کی وجہ سے روکا انھیں ۔ چلو اب مجھے بھی کوئی ذمہ داری دو ۔ ‘‘
’’ آپ یوں کریں پروفیسر صاحب سے ہدایات لے لیں اور کھانا اپنی نگرانی میں تیار کروائیں۔‘‘
’’ اچھا! ابھی ملتا ہوں جمالی صاحب سے ۔ ‘‘ لاہور کی فضا توپوں ، ٹینکوں اور جنگی جہازوں کی گھن گرج سے لرزتی رہتی ۔ گورنمنٹ کالج ، اورئینٹل کالج ، اسلامیہ کالج اور کنیئرڈ کالج کے طلباو طالبات ان کے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے ۔ محکمہ شہری دفاع طلبا کو ہنگامی صورتحال سے نمنٹے کی تربیت دے رہا تھا ۔ پوری قوم سیسہ پلائی دیوار کی طرح دشمن کے سامنے کھڑی تھی ۔ اس کا دل چاہتا کاش وہ عامر کے ساتھ فوج میں بھرتی ہو جاتا اور آج مادرِوطن کا دفاع کر سکتا ۔ اس نے ابا جی سے اس خواہش کا اظہار کیا۔
’’ پتر!دل چھوٹا نہ کر تُو بھی تو لڑ رہا ہے ۔ کچھ لڑائیاں سامنے رہ کر لڑی جاتی ہیں اور کچھ پیچھے رہ کر اور تیرے ہاتھوں میں تو اس ملک کی تقدیر ہے ۔ تو سپاہی نہ بن سکا مگر تُو سپاہ گر ہے ۔ تیرے پڑھائے ہوئے جوان اس ملک کی ترقی اور استحکام کے لیے ہراول دستہ ثابت ہوں گے ۔ ملول نہ ہو میرے بچے ! ‘‘ یہ 21ستمبر کی ایک حبس بھری دوپہر تھی ۔ وہ اور ریحان تین دن کے بعد سستانے کے لیے گھر آئے تھے ۔ ابا جی سارا دن ریڈیو کے پاس بیٹھ کر تسبیح پڑھتے گزار دیتے اور اماں کے سجدے طویل ہو گئے ۔ گھر میں ہر وقت خاموشی رہتی ، بس ننھے بلال سے گھر میں زندگی کے آثار نظر آتے ۔ وہ ابھی لیٹا ہی تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی مانند صور اسرافیل گونجی اس نے جا کر فون اٹھایا اور پھر ریسیور اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا ۔ اس نے ریحان کو جگایا ۔
’’ چھوٹے! اٹھ عامر کو لینے جانا ہے ۔ ‘‘ وہ ضبط کی آخری حدوں پر تھا۔
’’ بڑے بھیا! کہاں سے لے کر آنا ہے انھیں، قصور ہیں وہ صبح بات ہوئی تھی۔‘‘
’’ چلو میرے ساتھ ۔ ‘‘ کسی انہونی کے خیال سے اس کا دل دھڑک اٹھا اور وہ دونوں عجلت میں گھر سے نکلے ۔ پھر جب دوپہر ، سہ پہر سے گلے مل رہی تھی دیگر فوجی جوانوں کے ساتھ وہ پاکستانی پرچم میں لپٹا تابوت لے کر شکور منزل آئے ۔ میجر عامر نے بے جگری سے لڑتے ہوئے اپنے خون سے لکیر کھینچ کر دشمن کو پار دھکیل دیا ۔ اس کی خون میں سنی وردی دیکھ کر ابا جی اور پا اکرم کی لاشیں اس کے سامنے آ گئیں ۔
ابا اور اماں کو بازوؤں کے گھیرے میں لے کر وہ اونچا لمبا مرد دھاڑیں مار مار کر رونے لگا ۔ راوی پار لاشوں پر تو وہ رو نہ سکا اب اپنے بھائی اور دوست کی میت پر آنکھوں میں جما دکھ لاوے کی طرح بہنے لگا ۔ تب اس کے پاس ماتم کرنے کا وقت نہیں تھا اور آج وطن پر منڈلاتے جنگ کے بادل اسے میجر عامر کا سوگ نہ منانے دے سکے اور پھر سوگ کیسا ؟ شہادت تو ہر مومن کی طلب اور مقصد ہے ۔ پاکستان کے کل کے لیے وہ اپنا آج قربان کر گیا تھا ۔ قربانی کے لیے ایک بار پھر اس کے پیارے کا انتخاب کیا گیا تھا ۔ قومی پرچم میں لپٹا تابوت اپنے ابدی سفر پر روانہ ہو چکا تھا ۔ابا جی اور اماں جی کے دل پہلے ہی اپنوں کے راوی پار رہ جانے پر چھلنی تھے ۔ اب عامر کا وچھوڑا ان کی جان لینے کے درپے تھا ۔ سترہ روز جاری رہنے والی لڑائی اپنے اختتام کو پہنچی ۔ پاکستان کے باسیوں نے دشمن کو پیچھے دھکیل کر اپنے زخم چاٹنے پر مجبور کر دیا ۔
ننھا بلال ہر وقت باپ کو ڈھونڈتا اور روتارہتا ۔ صبیحہ عدت میں تھی ۔ اس کی طبیعت پہلے ہی گری گری رہتی تھی ۔ اب میجر عامر کے جانے کے بعد اس کی طبیعت مزید خراب رہنے لگی ۔ وہ اور ریحان اپنے فرائض منصبی کے ساتھ ساتھ بلال کو بھی سنبھالتے ۔ اماں جی روئی روئی سی پوتے کو سنبھالتی اور کبھی صبیحہ کی دلجوئی کرتی اس کو کھلاتی پلاتی ۔ تین ماہ بعد صبیحہ بیٹی کو جنم دے کر زندگی کی بازی ہار گئی ۔ پہ در پہ صدمات نے ان کی کمر توڑ دی ۔ ایسے میں نوزائیدہ بچی کو سنبھالنا بہت مشکل تھا ۔ فی الوقت صبیحہ کی والدہ بچی کو سنبھال رہی تھی ۔ وہ ’’آغوش‘‘ میں رہائش پذیر صفیہ بی کو گھر لے آیا ۔ انہوں نے مامتا سے محروم بچوں کو اپنی شفیق گود میں چھپا لیا ۔ ریحان کا تبادلہ راولپنڈی ہو چکا تھا ۔ وہ بھاری دل کے ساتھ اسلم کے سمجھانے پر چلا گیا اور گھر میں سناٹے گہرے ہونے لگے ۔ ابا جی ایک رات کو سوئے اور پھر نہ اٹھ سکے ۔ دو سال بعد اماں بھی چلی گئی اور وہ اکیلا پڑ گیا ۔